اللہ تعالیٰ نے انعام فرمایا اور 14 اگست کو پاکستان معرضِ وجود میں آیا۔افغانستان کا جو قومی دن چلا آ رہا ہے‘ وہ 19 اگست ہے۔ افغان طالبان نے 2021ء میں کابل فتح کیا تو 15 اگست کو کیا۔ امریکی فوج نے اپنا انخلا مکمل کرتے ہوئے کابل ایئر پورٹ کو چھوڑا تو اگست کی آخری تاریخ یعنی 31 اگست تھی۔ اس لحاظ سے طالبان اپنا جو بھی دن منائیں گے‘ اگست کے مہینے میں منائیں گے یعنی اگست کا مہینہ پاکستان اور افغانستان کے مابین یکجہتی اور باہمی تعاون کا علامتی مہینہ بھی ہے۔ امریکا کی آخری پرواز میں جو آخری شخص سوار ہوا وہ امریکی فوج کا میجر جنرل ''کرس ڈوناہو‘‘ تھا۔ امریکی میجر جنرل کے ہوائی جہاز نے جونہی افغان سر زمین کو چھوڑا تو طالبان سجدے میں گر گئے۔ ایک طالب نے اذان دی کہ نمازِ فجر کا وقت ہو چلا تھا۔ رن وے پر چادریں بچھ گئیں اور نمازِ فجر ادا کی گئی۔
غزوۂ بدر میں صحابہ کرامؓ کی تعداد ''313‘‘ تھی۔ طالبان نے ''313‘‘ کے نام سے کمانڈوز کے کئی دستے بنا رکھے ہیں جنہیں ''بدری فورس‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ بدری فورس اب اس ہوائی اڈے کا انتظام سنبھال چکی تھی۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ان کو ہدایات دیں۔ پہلی ہدایت اوررہنمائی یہ تھی کہ ہماری قوم گزشتہ 40 سالوں سے حالتِ جنگ میں تھی‘ حالیہ آزادی کی جنگ 20 سال لڑی گئی؛ چنانچہ ہماری قوم انتہائی زخم خوردہ ہے، ان پر سختی مت کرنا، محبت سے پیش آنا، اخلاق کی اعلیٰ قدروں کو سامنے رکھنا، درگزر کوہاتھ سے جانے نہ دینا۔
قارئین کرام! طالبانِ افغانستان کے حوصلے‘ ان کی معافی اور درگزر کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ انہوں نے گزشتہ 20 سالوں میں رونما ہونے والے ان ہزاروں واقعات میں سے کسی ایک واقعے کا تذکرہ بھی نہیں کیا کہ جن میں ہزارہا عورتوں اور بچوں کوشہید کر دیا گیا۔ ایسے واقعات بھی ہیں کہ جنازے پر اکٹھے ہونے والے افراد کو میزائلوں، ڈرون حملوں اور بمبار طیاروں سے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا گیا۔ شادیوں کے اجتماعات تک کو نہ بخشا گیا۔ ابھی کابل کی کامل فتح سے ایک دن قبل‘ امریکی ڈرون نے ایک ایسی گاڑی کو نشانہ بنایا جس میں سوار فیملی کا کسی جہادی اور سیاسی جماعت سے تعلق نہ تھا۔ اس خاندان کے 9 افراد یعنی پورا خاندان شہید ہو گیا۔ دو سال کی معصوم خوبصورت گڑیا‘ اس کے بڑے دو بہن بھائی‘ جن کی عمریں آٹھ اور دس سال کے قریب تھیں، باقی بہن بھائی اور ماں باپ سمیت کابل کا یہ متوسط درجے کا گھرانہ ملیا میٹ کر دیا گیا۔ دنیا بھر میں یہ واقعہ رپورٹ ہوا مگر طالبان نے اس پر بھی درگزر سے کام لیا۔
آسٹریلیا کی فوج کے سربراہ جنرل انگس کیمپبیل نے کچھ عرصہ قبل ٹی وی پر آ کر معافی مانگی تھی کہ ہماری فوج سے قتل کے 23 ایسے واقعات سرزد ہوئے جو سراسر غیر قانونی تھے۔ چند آسٹریلین فوجیوں نے ایک افغان بچے کو گولیوں سے چھلنی کر دیا تھا۔ ایک واقعے میں 25 آسٹریلین فوجیوں نے نہتے طالبان کو باندھ کر گولیوں کی باڑ پر رکھ لیا تھا۔ جی ہاں! اسی پر جنرل انگس نے معافی مانگی تھی۔ طالبان نے‘ جو عام معافی دے چکے ہیں‘ سابق صدر اشرف غنی تک کو یہ کہہ دیا ہے کہ وہ واپس آئیں اور ملک کی تعمیر میں حصہ لیں۔ اللہ کی قسم! آفرین ہے دلیر افغان قوم کے حوصلے اور درگزر کو کہ کمال ہے ایسا درگزر۔
یہاں پر طالبان حکمرانوں کی خدمت میں ایک گزارش کرنا چاہوں گا کہ وہ گزشتہ 40 سالوں کی تاریخ مرتب کریں۔ صحافی اور مورخین اپنے طور پر لکھ بھی چکے اور لکھیں گے، مگر ایک مستند تاریخ رقم ہو۔ اس کے تین ابواب ہوں۔ پہلا باب روسیوں کے دور سے متعلق ہو۔ دوسرا باب آپس کی لڑائیوں اور طالبان کے عروج سے متعلق ہو۔ تیسرا باب طالبان کی 20 سالہ جدوجہد سے متعلق ہو۔ اس میں ظلم کے واقعات ہوں جوروسیوں، امریکیوں، اور نیٹو فورسز نے کیے، نیز اپنے افغانوں کے کیے گئے وہ ظالمانہ اقدامات بھی درج ہوں جو غیروں کے اشارے پر روا رکھے تھے۔ افغان طالبان کا رحم اور درگزر بھی ہو۔ افغانستان کے ساتھ پاکستان نے جو حسنِ سلوک کیا وہ بھی ہو۔ یوں دنیا کے سامنے اسلام کا نقشہ نمایاں ہو گا جو یقینا رحم دل اور محبت کا حامل دین ہے۔ اسلام کی یہ بہت بڑی خدمت ہو گی اور اس کا تقاضا ہے کہ اس پر کام ہو۔ قارئین کرام! طالبان نے امریکہ، نیٹو اور بھارت کو شکست دی ہے تو اب ہم تاریخ میں اسلامی سپر پاورز کا ایک جائزہ پیش کرتے ہیں جو موجودہ حالات میں وقت کا تقاضا ہے۔
اللہ ذوالجلال کی قدرت کا نظارہ ہے کہ معلوم انسانی تاریخ میں چھوٹی علاقائی طاقتیں یا منی سپر پاوریں تو موجود رہی ہیں مگر پوری دنیا میں ایک ہی سپر پاور ہو‘ اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ انسانی تاریخ میں دو سپر پاوریں بڑی مشہور و معروف ہیں۔ ایک وہ رومی سپر پاور جس کا دارالحکومت ''قسطنطنیہ‘‘ تھا اور دوسری فارس یعنی ایران کی سپر پاور جس کا دارالحکومت ''مدائن‘‘ تھا۔ یہ دونوں سپر پاوریں آپس میں لڑتی رہتی تھیں۔ باقی سب علاقائی طاقتیں ان دونوں میں سے کسی ایک کا ساتھ دیا کرتی تھیں یا غیر جانبدار رہا کرتی تھیں۔
اللہ کے رسول حضرت محمد کریمﷺ 571ء کو مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے تھے۔ اعلانِ نبوت کے بعد 13 سال تک آپﷺ نے مکہ میں توحید کی دعوت دی۔ مکہ کی اکثریت نے آپﷺ کو رسول تسلیم نہیں کیا جبکہ آپﷺ کے بھیجے ہوئے داعی اور مبلغ حضرت مصعبؓ بن عمیر کی دعوتی جدوجہد سے مدینہ منورہ کے اکثر لوگوں نے حضورﷺ کی رسالت و نبوت کی گواہی دے دی تھی؛ چنانچہ آپﷺ مدینہ منورہ ہجرت کر کے تشریف لے گئے تو وہاں کی اکثریت نے آپﷺ کو اپنا حکمران بنا لیا۔ انسانی تاریخ کا یہ اولین معجزہ ہے کہ کسی قوم نے دلیل کی بنیاد پر اپنا مذہب تبدیل کیا ہو اور پھر دور بیٹھی ہوئی ایک ایسی شخصیت کو اپنا حکمران بنا لیا ہو جو مہاجر بھی ہو اور جس کا قبیلہ بھی دوسرا ہو۔ مذکورہ معجزے کا مزید اعجازی پہلو یہ ہے کہ مدینہ منورہ کے لوگ حضور کریمﷺ کو اپنے ہاں بلاتے ہیں اور پھر منت سماجت کر کے اپنا حکمران بناتے ہیں۔ اللہ کی قسم! معلوم انسانی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا ہے اور آج تک ایک ہی ہستی کے ساتھ ہوا ہے جن کا نامِ نامی اسم گرامی حضرت محمد کریمﷺ ہے۔
آپﷺ نے مدینہ منورہ میں صرف دس سال حکومت کی اور جب آپﷺ 632ء میں اپنے اللہ کے ہاں تشریف لے گئے تو تب پورا ''جزیرۃ العرب‘‘ آپﷺ کی حکمرانی میں آ چکا تھا۔ اس کا جنوبی حصہ یمن اور عمان فارسی سپرمیسی سے نکل کر اس طرح مدینے کی حکمرانی میں گیا کہ وہاں کے گورنر مسلمان اور دونوں علاقوں کے بیشتر لوگ بھی مسلمان ہو گئے تھے، جبکہ دوسری سپر پاور‘ جو رومی سپر پاور تھی‘ کے شمالی علاقے حضورﷺ کی حکمرانی میں شامل ہو گئے۔ ثابت ہوا کہ ان دونوں سپر پاورز کی پسپائی کا آغاز اللہ کے رسولﷺ کے زمانے میں ہو چکا تھا۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ کے اڑھائی سالہ دورِ خلافت میں مذکورہ سلسلہ مزید آگے بڑھا جبکہ حضرت عمر فاروقؓ کے دور میں موجودہ عراق اور ایران کے علاقے ایرانی سپر پاور کے ہاتھ سے مکمل طور پر نکل گئے اور اس طرح ایرانی سپر پاور کا خاتمہ ہو گیا۔
دوسری جانب رومی سپرمیسی سے موجودہ شام، لبنان، فلسطین، اسرائیل اور اردن کے علاقے فتح کر لئے گئے۔ ان سے مغربی افریقہ کے ممالک مصر، لیبیا، تیونس، الجزائر، مراکش، موریطانیہ بھی لے لیے گئے۔ جی ہاں! محض 23 سال کے عرصہ میں مسلمان اپنے دور کی واحد سپر پاور بن گئے۔ اس طرح کہ انہوں نے دو سپر پاوروں کو ختم کر کے انہیں ایسے جوڑ لیا کہ یہ سب اسلام کے رنگ میں رنگے گئے۔اب مسلمان دنیا کی اکیلی سپر پاور بنے تو یہ سلطنت بڑھتی گئی۔ حضرت عثمانؓ کے زمانے میں آذربائیجان، آرمینیا، افغانستان، ترکماستان، تاجکستان، ازبکستان، کرغزستان، قازقستان وغیرہ فتح ہو گئے۔ بلوچستان کے کچھ علاقے بھی فتح ہوئے۔ ترکی کے علاقے اور افریقہ کے مزید کئی علاقے فتح ہوئے۔ یوں مسلمانوں کی واحد سپر پاور اپنے دور کی انتہائی مضبوط، وسیع اور طاقتور سپر پاور بن گئی۔ تاریخ کا یہ معجزہ پہلی بار دنیا نے دیکھا، اور یہ اس اعتبار سے بھی منفرد تھا کہ بقول غیر مسلم مورخین کے‘ دین بھی نیا، قوم بھی نئی اور سپر پاور بھی نئی، یہ اس وقت کی واحد اور انتہائی مضبوط سپر پاور تھی۔ بنو امیہ کے دور میں سپین فتح ہوا۔ آٹھ سو سال تک وہاں مسلم حکمرانی رہی۔ ترکوں کا دور آیا تو رومی سپر پاور کا دارالحکومت قسطنطنیہ فتح ہوا۔ جس کا نام ''استنبول‘‘ رکھا گیا۔ مشرقی یورپ کے ممالک بلغاریہ، رومانیہ، آرمینیا، کوسووو، بوسنیا، مقدونیہ، البانیہ اور ہنگری سمیت آسٹریا کے بھی کچھ علاقے فتح ہوئے۔ الغرض! مسلمان ہزار سال تک سپر پاور رہے۔ قوت کمزور پڑی تو مسلمان دوبارہ اٹھے اور پھر ترکی جنگ عظیم اول تک دنیا کی ایک منی سپر پاور تھا۔ ہندوستان بھی مسلمانوں کی حکمرانی میں ہزار سال تک رہا۔ ایسی کوئی مثال دنیا میں اور کہیں نہیں ملتی۔
آخری حقیقت عرض کیے دیتا ہوں کہ یہ جو اس قدر لمبا ٹائم ملا یہ اس لیے ملا کہ مسلمانوں میں اپنوں اور غیروں کے لیے ہمدردی تھی۔ جوں جوں یہ ہمدردی اور نرمی ر خصت ہوتی گئی‘ حکمرانی بھی کمزور اور زوال کا شکار ہوتی گئی۔ استحکام‘عدم استحکام کا شکار ہو کر آخر پر مٹھی میں ریت تھامنے کی ناکام کوشش ثابت ہوا۔ قوی یقین ہے کہ افغان طالبان اپنے صبر اور درگزر کے بہتے ہوئے بہائو کو جاری رکھیں گے۔ افغان جو انتہائی دکھی قوم ہے‘ کو جہاں ایمان کی نعمت کے شربت پلائیں گے‘ خوشحالی کے مشروبات سے بھی تواضع کریں گے۔ پاک افغان دوستی زندہ باد کے سلوگن اور علامہ اقبالؒ کے شعر کے ساتھ اجازت۔
افغان باقی کہسار باقی، الحکم للہ، الملک للہ