اللہ ذوالجلال کے آخری رسول ہمارے حضورﷺ مکہ مکرمہ سے ہجرت فرما کر مدینہ منورہ کی جانب روانہ ہوئے۔ اس سفر میں پیش آنے والے چند واقعات میں سے صرف ایک ایمان افروز واقعہ بیان کرنے جا رہا ہوں کہ جس کا تذکرہ آج کے حالات کا تقاضا ہے۔ امام بخاریؒ اپنی صحیح میں اور امام مسلمؒ اپنی صحیح میں یہ واقعہ لائے ہیں۔ کتبِ سیرت کو بھی سامنے رکھتے ہوئے قدرے اختصار اور سلاست کے ساتھ واقعہ کچھ یوں ہے کہ قریش مکہ نے اعلانات کروا دیے کہ جو شخص حضرت محمد کریمﷺ کو ہمارے پاس لائے گا اسے سو اونٹوں کا انعام دیا جائے گا۔ سراقہ بن مالک اپنے دیہاتی قبیلے ''بنو مُدلِج‘‘ کا سردار تھا۔ اس نے اونٹوں کے لالچ میں ''ثَور پہاڑ‘‘ اور اس کے مضافاتی علاقے کو چھان مارا مگر ناکام رہا۔ وہ غمزدہ اور افسردہ تھا۔ اس افسردگی کی حالت میں وہ اپنے قبیلے کے لوگوں کے درمیان بیٹھا تھا کہ اچانک اس کے قبیلے کا ایک آدمی آیا اور کہنے لگا: اے سراقہ سردار! میں ابھی ابھی ساحلِ سمندر کی طرف سے آ رہا ہوں۔ میں نے دور سے کچھ لوگوں کو جاتے ہوئے دیکھا ہے۔ میرا خیال ہے کہ وہ لوگ وہی ہیں جن کی تلاش میں قریش مکہ لگے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ ''قُدید‘‘ کے علاقے سے اِدھر ہی تلاش میں لگے ہوئے ہیں جبکہ وہ لوگ ''قُدید‘‘ کے علاقے سے آگے جا چکے ہیں۔ سراقہ تھوڑی دیر بعد کوئی بہانہ کر کے مجلس سے اٹھا اور سیدھا گھر پہنچا۔ لونڈی کو حکم دیا کہ گھوڑا تیار کرو اور فلاں ٹیلے کے اوٹ میں جا کر میرا انتظار کرو۔ کچھ دیر بعد سراقہ نے نیزہ پکڑا‘ گھر کی چھت پر چڑھا۔ وہاں سے نیچے چھلانگ لگائی۔ نیزے کو اونچا نہیں کیا بلکہ اس کی اَنّی کو زمین کے انتہائی قریب رکھ کر وہ ٹیلے کی جانب بڑھتا گیا۔ کوشش یہ تھی کہ کوئی اسے دیکھ نہ لے۔ راز برقرار رہے اور وہ اکیلا ہی 100 اونٹ حاصل کر لے۔ وہ ٹیلے کے قریب گیاجہاں اس کی لونڈی گھوڑا لیے اس کے انتظار میں کھڑی تھی، وہ قریب گیا، لونڈی کے ہاتھ سے لگام پکڑی‘ اچھل کر گھوڑے پر سوار ہوا اور ایڑ لگاتے ہی گھوڑے کو جیسے اس نے ہوا بنا دیا۔ وہ دل ہی دل میں خوش ہو رہا تھا کہ انعام تو ملے گا ہی‘ وہ ہیرو بھی بن جائے گا۔
سراقہ کہتا ہے۔ میں نے دور سے تین آدمیوں کا قافلہ دیکھ لیا۔ خوشی کی انتہا نہ رہی مگر اچانک گھوڑا پھسلا اور زمین پر گر گیا۔ میں فوراً اٹھا‘ اپنی قسمت معلوم کرنے کے لیے کہ مقصد حاصل ہو گا یا نہیں؟ فال کا تیر نکالا۔ وہ میری مرضی اور چاہت کے خلاف نکلا۔ میں نے فال کو نظر انداز کر دیا اور دوبارہ گھوڑا دوڑایا۔ ابھی گھوڑا سنبھلا ہی تھا کہ اس کے اگلے دونوں پائوں زمین میں گھٹنوں تک دھنس گئے۔ وہ خود بھی زمین پر پٹاخ کر کے گر گیا۔ سراقہ پھر اٹھا، سنبھلا، گھوڑے کو ڈانٹا۔ اس کے قدموں کو مشکل سے ساتھ زمین سے نکالا۔ جناب ابو بکر صدیقؓ یہ منظر دیکھ رہے تھے۔ ان کا حال یہ تھا کہ وہ بار بار بے قرار ہو کر پیچھے مڑ مڑ کر دیکھتے تھے۔ سراقہ نے دوبارہ فال نکالی تو پھر اس کے خلاف گئی۔ اس نے اسے نظر انداز کیا اور پھر گھوڑے پر سوار ہو کر دوڑ پڑا۔ اب وہ قافلے کے بالکل قریب پہنچ گیا۔ اللہ کے رسولﷺ نے ایک بار بھی مڑ کر نہیں دیکھا۔ نہ اِدھر اُدھر دیکھا۔ وہ قرآن کی تلاوت فرماتے جا رہے تھے۔ سراقہ کہتا ہے کہ میں ان کی تلاوت سن رہا تھا‘ جنابِ ابو بکرؓ کی یہ بات بھی میں نے سن لی کہ اے اللہ کے رسولﷺ!دشمن سر پر آ گیا، آپﷺ نے اِدھر اُدھر توجہ کیے بغیر اطمینان سے جواب دیا ''لا تحزن ان اللہ معنا‘‘غمگین ہونے کی ضرورت نہیں، اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے۔ میں اور قریب ہوا تو جنابِ ابو بکرؓ نے روہانسے انداز میں کہا: یہ سراقہ ہے‘ اے اللہ کے رسولﷺ! اور یہ کافی قریب آ گیا ہے۔ تب آپﷺ نے اپنا ہاتھ مبارک بلند کیا اور فرمایا: ''اللھم اکفناہ بما شئت‘‘ اے اللہ! تُو جیسے چاہے‘ ہماری کفایت( تحفظ) کرتے ہوئے اس سے نبٹ لے۔ آپﷺ کا اللہ کے حضور یہ دعا کرنا تھا کہ سراقہ کے گھوڑے کے اگلے دونوں پائوں گھٹنے تک دوبارہ زمین میں دھنس گئے۔ زمین سے دھویں جیسا گرد و غبار بلندہوا۔ اب سراقہ نے بلند آواز سے اہلِ قافلہ کو آواز دی اور ان سے امان طلب کی۔ اہلِ قافلہ ٹھہر گئے۔ سراقہ نے گھوڑے کے قدموں کو زمین سے نکالا اور آپﷺ کی جانب چل دیا‘ اس یقین کے ساتھ کہ آپﷺ اور آپﷺ کی دعوت حق اور سچ ہے۔ آپﷺ کامیاب ہو کر رہیں گے۔ وہ قریب گیا اور یہی جملے آپﷺ کی خدمت میں عرض کیے۔ اپنا سا مانِ سفر آپﷺ کی خدمت میں پیش کر دیا۔ سارے حالات سنائے۔ آپﷺ نے اس سے کوئی سامان نہیں لیا‘ صرف اتنا فرمایا کہ ہمارے حالات کو دل میں رکھو۔ سراقہ نے پروانۂ امن کی درخواست کی کہ آپﷺ غالب آئیں گے تو یہ مجھے کام دے گا۔ آپﷺ نے حکم دیا اور عامر بن فہیرہ نے چمڑے کے کاغذ پر امان لکھ دی۔ وہ جانے لگا تو آپﷺ نے فرمایا: سراقہ! تیری خوشیوں کا حال کیا ہو گا جب تجھے (سپر پاورفارس کے) کسریٰ بادشاہ کے کنگن پہنائے جائیں گے؟ وہ واپس آ گیا اور خاموش رہا۔ جب یقین ہو گیا کہ آپﷺ یثرب (مدینہ منورہ) پہنچ گئے ہوں گے تو تب یہ واقعہ اہلِ مکہ کو سنانا شروع کر دیا۔ سب اس واقعے پر حیران ہوئے، اس پر ابو جہل نے سراقہ کو یہ واقعہ بیان کرنے سے روک دیا۔
پھر وہ دن آ گئے کہ مکہ فتح ہو گیا۔ حضورﷺ کے گرد محافظوں کا رش تھا۔ ہر طرف لوگ ہی لوگ تھے۔ سراقہ امان نامہ بلند کرتے ہوئے، اپنا نام پکارتے ہوئے حضورﷺ تک پہنچنے میں کامیاب ہو گیا۔ اس نے کلمہ پڑھا اور مسلمان ہو گیا۔ حضرت عمرؓ کا زمانۂ حکومت آ گیا۔ حضورﷺ کا مبارک، پاکیزہ اور معطر وجود روضۂ پاک میں تھا۔ حضرت عمر فاروقؓ مدینۃ النبی میں تشریف فرما رہے تھے۔ اہلِ مدینہ سامنے تھے۔ سپر پاور فارس پر فتح حاصل کر لی گئی تھی‘ اس کے خزانوں کے ڈھیر لگے ہوئے تھے۔ جونہی سپر پاور فارس کے بادشاہ کے کنگن، شاہی پٹکا اور تاج حضرت عمرؓ کے سامنے لائے گئے تو حضرت عمرؓ نے بلند آواز سے پکارا: سراقہ کہاں ہے؟ وہ لبیک کہتے ہوئے اٹھا۔ امیر المومنینؓ نے جواہرات سے مرصع سونے کے کنگن اس کے ہاتھوں میں پہنا دیے۔ سب کو حضورﷺ کی پیشگوئی یاد آ گئی اور آنکھوں سے چھم چھم آنسو گرنے لگے۔ یہ حضورﷺ کی جدائی کا غم تھا اور فرمانِ رسولﷺ کے پورا ہونے کی مسرت تھی۔ فضا میں ٹھہرائو آیا تو حضرت عمرؓ نے حکم دیا کہ سراقہ کو اونٹ پر بٹھایا جائے اور مدینہ کے گلی کوچوں میں لے جایا جائے تا کہ حضورﷺ کی پیش گوئی کا چلتا پھرتا نظارہ لوگوں کو نظر آئے۔
افغانستان کی امارتِ اسلامی کے حکمران ملا محمد عمر مجاہدؒ چند سال قبل افغانستان میں فوت ہو گئے تھے۔ اس وقت امریکا اور نیٹو ممالک کی افواج کا راج تھا۔ ملا محمد عمر کو افغانستان کی زمین پر دفن کر دیا گیا اور قبر کو خفیہ رکھا گیا۔ 15 اگست 2021ء کو غیر ملکی افواج چلی گئیں تو طالبان کی فاتح قیادت قبر کی زیارت کرنے پہنچ گئی۔ وہاں انہوں نے اللہ کے حضور دعا کی۔ 6 ستمبر کو پنج شیر کا علاقہ بھی طالبان نے اپنے قبضے میں لے لیا۔ 6 ستمبر کو انڈیا نے کسی اور انداز سے دیکھا۔ ان کو احساس ہوا کہ یہ دن تو کشمیر کے مسئلے پر پاکستان اور انڈیا کے ٹکرانے کا دن ہے۔ چونکہ سید علی گیلانی رحمۃ اللہ علیہ یکم ستمبر کو انڈیا کی حراست میں‘ اپنے گھر ہی میں فوت ہو گئے تھے۔ انڈین فوج نے ان کا جسدِ خاکی اپنے کنٹرول میں لے لیا تھا۔ چند لوگوں سے چھائونی میں جنازہ پڑھوایا اور خود ہی تدفین کر کے قبر پر فوج کا پہرہ لگا دیا۔ اس پر مقبوضہ وادی کے لوگوں نے احتجاج کیا تو ان پر ظلم کیا گیا۔ اس ظلم کے خلاف صدرِ پاکستان جناب ڈاکٹر علوی اور وزیراعظم عمران خان اور پوری پاکستانی قوم کا احتجاج سامنے آیا۔ دبنگ انداز جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنایا۔ انہوں نے 6 ستمبر کو اپنے خطاب میں انڈیا کو پہلی بار متنبہ کرتے ہوئے للکارا کہ اگر وہ جنگ کا شوق پورا کرنا چاہتا ہے تو ہماری افواج اور قوم تیار ہیں۔ اس سے پہلے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید بھی 4تا 5ستمبر کودو روزہ کابل کا دورہ کیا۔ مزید خوبصورت اتفاق یوں بن گیا کہ طالبان کے ترجمان ملا ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ ہماری زمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوگی، ترجمان سہیل شاہین نے بھارتی ٹی وی چینل پر برملا کہا کہ ہم اہلِ کشمیر کے حقِ خود ارادیت کی حمایت کرتے ہیں‘ ان پر ظلم و زیادتی ختم ہونی چاہیے۔ الغرض! خوبصورت اور حسین و جمیل اتفاقات جو ستمبر کے ابتدائی دنوں میں جمع ہو گئے۔ اس پر انڈیا کے حکمران اور اینکر پرسنز خواہ مخواہ شور مچا رہے ہیں۔ ایک اور خوبصورت اتفاق جو سامنے آیا‘ وہ یہ ہے کہ طالبان نے افغانستان میں اپنی حکومت کا اعلان کر دیا ہے۔ وزیر اطلاعات ملا خیر اللہ خیر خواہ کو بنایا گیا ہے۔ وزیر اطلاعات کے نام کا ترجمہ کچھ یوں ہے کہ وزیر موصوف میں اللہ کا خیر یعنی بھلائی موجود ہے اور وہ انسانیت کے خیر خواہ ہیں؛ چنانچہ کشمیر پر ان کے یعنی طالبان کے بیان کو خیر خواہی سمجھنا چاہیے‘ خواہ مخواہ شور نہیں مچانا چاہیے۔ ایک اور بھی خوبصورت اتفاق یہ ہے کہ جنرل (ر) حمید گل مرحوم سوویت یونین کو سمجھا رہے تھے کہ عزت کے ساتھ افغانستان سے چلے جائو مگر وہ نہ گئے۔ اسی طرح جنرل فیض حمید امریکیوں کو خیر خواہی سے سمجھاتے رہے کہ عزت سے جائو مگر وہ نہ گئے۔ مرحوم ڈی جی کے نام کے شروع میں حمید تھا تو موجود ڈی جی کے نام کے آخر میں حمید آتا ہے۔ دونوں سپر پاورز سوویت یونین اور امریکا‘ وقت پر جاتے تو دونوں کی تعریف ہوتی مگر ان کی قسمت ہی ایسی تھی۔ انڈیا کے لیے اب بہرحال خیرخواہی کا پیغام یہی ہے کہ سید علی گیلانیؒ کے جسد کے ساتھ پاکستانی پرچم لپٹا ہوا ہے‘ ان کو ان کی وصیت کے مطابق تدفین کا حق دے دو تو تمہاری تعریف ہو گی اور امن و راحت کا فیض عام بھی ہو گا۔ ہم تو خیر خواہی کر سکتے ہیں۔ فیضِ عام سے استفادہ کرنا‘ نہ کرنا آپ کی مرضی ہے خیر خواہی کا یہ مشورہ محترم سینیٹر اعجاز احمد چودھری کے پروگرام میں بھی دیا جو سید علی گیلانیؒ کی جدوجہد کے موضوع پر سجایا گیا تھا۔