"AHC" (space) message & send to 7575

ڈاکٹرعبدالقدیر خان کے بعد نیا سائنسی جہان

یا رب رحمن! اپنے بندے عبدالقدیر کو فردوس کے باغات میں محلات عطا فرما۔ ان کی اہلیہ، بیٹیوں اور نواسیوں کو صبر جمیل عطا فرما، آمین! ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ساتھ میرا تعلق صرف اس قدر تھا کہ مبین غزنوی نے میرا سلام ان تک پہنچایا اور ان کا سلام مجھ تک۔ میں اس تعلق کو اپنی زندگی کا اثاثہ اور اعزاز سمجھتا ہوں کہ جو 22 کروڑ اہلِ پاکستان کی سلامتی کا بندوبست کرکے اپنے اللہ رحمن کے پاس گیا‘ اس کا خصوصی پیغام سلام مجھ تک پہنچا۔ مبین غزنوی نے ڈاکٹر صاحب پر ایک کتاب ''اسلامی بم کا خالق کون؟‘‘ لکھی تھی۔ یہ کتاب مئی 2011ء میں شائع ہوئی۔ مبین غزنوی یہ کتاب میرے پاس لے کر آئے، بڑے خوش تھے کہ ان کی پہلی تصنیف مارکیٹ میں آئی ہے۔ وہ مجھے بیٹوں کی طرح عزیز تھے۔ میں نے اس کتاب کو کھولا تو ابتدائی تین عدد صفحات رنگین تھے۔ مبین غزنوی کی چار تصاویر ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ساتھ تھیں۔ جنرل (ر) حمید گل کے ساتھ بھی جبکہ ایک تصویر عبداللہ گل اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی تھی۔ اس کتاب کی تیاری میں محترم عبداللہ گل کا بھی بہت بڑا کردار تھا۔ مبین غزنوی چند سال قبل‘ نوجوانی میں ہی اپنے اللہ کے ہاں جا پہنچے۔ جنرل (ر) حمید گل بھی ہمیں چھوڑ گئے۔ مبین غزنوی ان پر ایک کتاب ''زندہ پہاڑ‘‘ لکھ رہے تھے۔ قارئین ! ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ساتھ ایک چھوٹی سی مجلس میں ایک ملاقات اس طرح ہوئی کہ جناب یاسین وٹو جو میڈیا سے تعلق رکھتے تھے‘ نے نئے دفتر کا افتتاح ڈاکٹر صاحب سے کرایا تھا۔ اس محدود سی تقریب میں مجھے بھی مدعو کیا گیا تھا۔ میری خواہش پر ڈاکٹر صاحب نے ملاقات کی ہامی بھری تھی مگر اس ملاقات کے لمحات دنیا میں ظہور پذیر نہ ہو سکے۔ دنیا میں ایمان کی بنیاد پر جو باہم متعارف ہیں‘ حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک فرمان کے مطابق‘ آخرت میں ان کی باہم ملاقاتیں ہوں گی۔ (صحیح بخاری:3336)
آج مجھے بابائے صحافت محترم مجید نظامی مرحوم بھی بہت یاد آئے کہ ان کی شفقتوں کے مجھ پر بہت احسانات ہیں۔ جن دنوں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حرمت کے تحفظ کی خاطر ''تحریکِ حرمتِ رسولﷺ‘‘ چلی‘ نظامی صاحب نے اپنے اخبار میں تقریباً ایک سال تک یہ طغرہ سجائے رکھا۔''نہ کٹ مروں جب تک خواجہ یثرب کی حرمت پر‘ خدا شاہد ہے ایمان میرا کامل ہو نہیں سکتا ‘‘۔ آج وزیر اعظم پاکستان جناب عمران خان نے ''رحمۃ للعالمین اتھارٹی‘‘ قائم کی ہے تو اس اتھارٹی کے متعدد شعبوں میں سرفہرست حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حرمت کا تحفظ ہے۔ ان کا دوسرا سلوگن ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ''محسنِ پاکستان‘‘ کا لقب دینے کا تھا۔ اس لقب کے تحت اس وقت کی حکومت سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ ''محسنِ پاکستان‘‘ کی نظر بندی کو ختم کیا جائے۔اس جدوجہد کے بعد ایک حد تک انہیں آزادی دی گئی تھی۔ دنیا کی زندگی کو قید ِ حیات کہا جاتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب اب اس قید سے آزاد ہوچکے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ''یہ دنیا (کی زندگی) مومن کے لیے قید خانہ ہے‘‘۔ (صحیح مسلم، کتاب الزہد:7283)، تیسرا سلوگن ''افغان باقی کہسار باقی، الحکم للہ، الملک للہ‘‘ تھا۔ مصور پاکستان علامہ اقبال رحمہ اللہ کا یہ شعر‘ جو ایک خواب تھا‘ مجید نظامی مرحوم نے اسے اپنا سلوگن بنایا۔ پندرہ اگست کو افغانستان کی آزادی کی صورت میں یہ خواب تعبیر بن کر سامنے آگیا۔ یا اللہ! ہماری ان تمام محبوب شخصیات کو فردوس کے باغوں میں سونے کے تختوں پر شرابِ طہور کے جام پلا، آمین!
محسن ِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خانؒ کے ایٹمی کارنامے کو سمجھنے کے لیے عرض ہے کہ ہماری اس زمین پر جو بھی عمارت بنتی ہے‘ وہ اینٹوں سے بنتی ہے، اینٹ پتھر کی بھی ہوتی ہے اور مٹی کی بھی۔ اینٹ پکی ہوتی ہے اور کچی بھی۔ پتھریلے کوئلے سے بھی پختہ ہوتی ہے اور لکڑی کے کوئلے سے بھی۔ سیمنٹ ، بجری اور ریت سے بھی اینٹ کا بلاک بنتا ہے اور دیگر چیزوں سے بھی۔ اسی طرح ہماری یہ مادی کائنات بھی اینٹوں سے بنی ہے۔ اس اینٹ کا نام ایٹم ہے۔ ایٹموں کی مختلف اقسام ہیں؛ لوہے کا ایٹم اور ہے‘سونے کا اور ہے۔ الغرض ہر دھات کا ایٹم الگ ہے۔''یورینیم‘‘ بھی ایک دھات ہے، ''پلوٹونیم‘‘ بھی ایک تابکار مادہ ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے ''یورینیم‘‘ کے ایٹم کو سینٹری فیوج مشینوں میں افزودہ کرکے ''ایٹم بم‘‘ بنا دیا۔ الحمد للہ! پاکستان محفوظ ہوگیا۔ مختصر لفظوں میں ڈاکٹر صاحب کا شکوہ یہ تھا کہ وطن عزیز کی چار دیو اری تو محفوظ ہوگئی مگر اس کے بیرونی استحکام کے لیے ان کی خدمات سے استفادہ کیوں نہ کیا گیا یعنی سائنسی میدانوں میں ایسی ترقی کی جاتی کہ پاکستان معاشی طو رپر خوشحال ہوجاتا۔ قرضوں سے نکل جاتا اور بیرونی دبائو سے آزاد ہوجاتا۔ میں سمجھتا ہوں کہ حب الوطنی پر مبنی ڈاکٹر صاحب کے اس سچے جذبے کو خراجِ تحسین پیش کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہم اپنے وطن عزیز پاکستان کی معاشی ترقی کی بنیاد سائنس کے علم پر استوار کریں۔ دو مثالیں اور ایک تجویز حاضرِ خدمت ہے۔
فرانس اور سوئٹزرلینڈ کی سرحد پر L.H.C (Large Hadron Collider) کے نام سے ایک لیبارٹری بنائی گئی جس پر دس ارب ڈالر لاگت آئی۔ مقصد یہ تھا کہ ایٹم کے اندر جو ذرات ہیں ان پر ریسرچ کی جائے۔ یہ ریسرچ تبھی ہوگی جب ایٹم کے ذیلی ذرات کو پھاڑا جائے گا۔ غور کیجئے! ایٹم کے ذیلی ذرات کو پھاڑنا کتنی بڑی سائنس ہے۔ پھاڑتے پھاڑتے یہاں تک پہنچنا کہ پتا چلے کہ یہ کائنات جب ''بگ بینگ‘‘ یعنی ایک بڑے دھماکے سے وجودمیں آئی تھی تو پہلا ذرہ اور فورس کون سی تھی جو وجود میں آئی۔ اس مقصد کے لیے لیبارٹری کا نام ہی جو رکھا گیا اس کا مطلب ہے ''ذرات کو پھاڑنے والی بڑی لیبارٹری‘‘۔ جی ہاں!
اس بڑی لیبارٹری سے بھی اب بڑی لیبارٹری بنائی جا رہی ہے۔ دس ارب کے خرچ سے بننے والی لیبارٹری کا ڈایا میٹر 27 کلومیٹر ہے جبکہ جولیبارٹری اب بنائی جا رہی ہے اس پر 23 ارب ڈالر خرچ آرہا ہے‘ اس کا ڈایا میٹر ایک سو کلومیٹر ہوگا، اس سے معلوم کیا جائے گا کہ ایٹم کے ذیلی ذرات کو Mass یعنی وزن کیسے ملتا ہے‘ بگ بینگ کے بعد ایٹم کیسے بنے‘ ڈارک میٹر اور ڈارک انرجی کیا چیز ہے؟یہ لیبارٹری یورپی ادارہ برائے جوہری تحقیق کے زیرِ اہتمام بنائی گئی ہے جسے سرن کے نام سے جانا جاتا ہے۔
آج کی دنیا جو ہمیں انتہائی ترقی یافتہ دکھائی دیتی ہے اس کو ایٹمی دنیا کہا جاتا ہے۔ یہ جو انفارمیشن ٹیکنالوجی ہے‘ یہ اسی ایٹمی دنیا کی پیداوار ہے۔ اس سے صحت، زراعت اور انڈسٹری میں ایک انقلاب آیا ہے۔ اے میرے اہلِ پاکستان! یاد رکھیے کہ اگلے دریافت ہونے والے ذرات پر جب سائنس کی بنیاد رکھی جائے گی تو موجود ٹیکنالوجی فرسودہ دکھائی دے گی۔ آج کی ترقی کے مظاہر ہمیں مستقبل میں عجائب گھروں میں نظر آئیں گے۔ یورپ جس طرح سرن میں مندرجہ بالا اضافہ کرکے اگلے ادوار کی سائنس پر لگا ہوا ہے‘ اسی طرح امریکا نے بھی 60 ایکڑ زمین پر ایک لیبارٹری قائم کی ہے جس کا نام ''Brookhaven نیشنل لیبارٹری‘‘ ہے، اس میں ایک مشین تیار کی گئی ہے جسے Electron Ion Collider کا نام دیاگیاہے۔ اس مشین میں پروٹونز اور نیوٹرونز کو پھاڑا جاتا ہے اور پھر اعلیٰ ترین کیمروں کی مدد سے دیکھا جاتا ہے کہ ان میں کیا کیا راز چھپے ہوئے ہیں۔ ان ذرات کو باہم باندھے رکھنے کا جو کام ''الیکٹرومیگنیٹک فورس‘‘ کرتی ہے‘ اسے سمجھ کر اعلیٰ ترین ٹیکنالوجی کا حصول ممکن بنایا جائے گا۔
دوسرے لفظوں میں ترقی یافتہ دنیا ، کائنات کی ابتدا کے سسٹم کو تلاش کرکے ایسی نئی ٹیکنالوجی کی تلاش میں ہے کہ جس سے موجود ٹیکنالوجی پرانی ہوجائے گی۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ''(میرے حبیبﷺ) کیا ان لوگوں نے دیکھا نہیں کہ اللہ تعالیٰ تخلیق کا آغاز کس طرح کرتے ہیں۔ پھر وہ اس کا اعادہ کریں گے ( واپس پہلی حالت پرلے جائیں گے)۔ اللہ کے لیے ایسا کرنا معمولی بات ہے‘‘۔ (العنکبوت: 6 ) جی ہاں! آج لیبارٹریاں اور مشینیں بنا کر ترقی یافتہ دنیا وہ کچھ کر رہی ہے اور دیکھ رہی ہے جسے کرنے اور دیکھنے کی ترغیب اللہ کا قرآن دے رہاہے۔
تجویز یہ ہے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو خراجِ تحسین یوں پیش کیا جائے کہ ان کے نام پر ایک لیبارٹری بنائی جائے جیسی یورپ اور امریکا نے بنائی ہے۔ ہم نے ایٹم بم بنا لیا ہے تو لیبارٹری بھی بن جائے گی۔ بس قوم کو کسی بھٹو، ضیاء الحق اور اسحاق خان کی ضرورت ہے۔ عبدالقدیر خان کے روحانی بیٹے بہت مل جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں صاحبِ علم شخصیات کی قدر کی توفیق عطا فرمائے، آمین!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں