اللہ کے آخری رسول ہمارے حضور کریمﷺ عالم موجود میں جلوہ افروز ہوئے تو ''ربیع‘‘ میں تشریف لائے۔ ربیع کا معنی بہار ہے۔ پیغام ربانی یہ ہے کہ جومسلمان حضور نبی کریمﷺ کے مبارک نقوشِ پا پر چلے گا‘ دنیا و آخرت کی بہاروں سے لطف اٹھائے گا۔ وزیر اعظم پاکستان نے حضور نبی اکرمﷺ کی سیرت کے پیغام کو عام کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ جدوجہد لائقِ تحسین ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ حکمرانی کا صفحہ‘ جو ایک تھا یعنی Same page کہلاتا تھا‘ وہ عوامی سطح پرشکوک کی زد میں ہے۔ یوں وطن عزیز کے حالات‘ جو قیام پاکستان سے لے کر آج تک نازک ہی چلے آ رہے ہیں؛ کبھی نازک تر ہوجاتے ہیں اور کبھی نازک ترین شکل اختیار کر لیتے ہیں‘ آج کی دنیا میں نازک ترین یعنی تیسرے درجے میں داخل ہوا چاہتے ہیں۔ جی ہاں!
ربیع الاول ایسا مہینہ ہے جس میں بہار کے جھونکے دیکھے جا سکتے ہیں۔ اہلِ منصب کے باہمی شکوک کے سائے بھگائے جا سکتے ہیں اگر سیرت کے شہ پارے حکمرانی کے سینوں میں حکمرانی کرنے لگ جائیں تو سب ممکن ہے۔ امام محمد بن اسماعیل بخاری رحمہ اللہ اپنی ''صحیح بخاری‘‘ میں ایک کتاب لائے ہیں جس کے عنوان میں ''الموادعۃ‘‘ کا لفظ ہے؛ اس کا مطلب مصالحت ہے۔ ''مصالحت‘‘ کے تحت ایک باب ہے جس کا عنوان کچھ یوں ہے کہ (جنگ کے دوران )بھی خواتین نے کسی کو پناہ دے دی ( تو قبول ہوگی)۔ حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہا جو حضرت علیؓ کی ہمشیرہ تھیں‘ بتاتی ہیں کہ فتح مکہ کے موقع پر میں اللہ کے رسولﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ آپﷺ غسل فرما رہے تھے۔ میں نے سلام (السلام علیک یا رسول اللہ) کہا۔ فرمایا: یہ عورت کون ہے؟ میں بولی: ابوطالب کی بیٹی ام ہانی ہوں۔ آپﷺ نے (پردے کے پیچھے سے) جواب دیا۔ ام ہانی کو خوش آمدید! جب آپ غسل سے فارغ ہوئے تو آٹھ رکعات اشراق کی ادا کیں۔ اب میں (حضورﷺکے سامنے بیٹھی اور) عرض کی: اے اللہ کے رسولﷺ! میری ماں کا بیٹا‘ کہتا ہے کہ میں اس (کافر) شخص کو قتل کروں گا جس کو میں پناہ دے چکی ہوں۔ وہ بندہ ہبیرہ کا بیٹا ہے۔ حضورﷺنے فرمایا۔ ''اے ام ہانی! ہم نے اس کو پناہ دے دی جس کو آپ نے پناہ دی۔ (بخاری : 1371) یاد رہے! فتح مکہ کے موقع پر بعض شدید مجرموں کو معاف نہیں کیا گیا۔ اسی بنیاد پر حضرت علیؓ اس شخص کو قتل کرنا چاہتے تھے مگر حضرت ام ہانیؓ نے پناہ دے دی تو حکمرانِ مدینہ شاہِ عرب حضور رحمتِ دو عالمﷺ نے اسے معاف کردیا۔ اس سے امت میں یہ مسئلہ متفقہ ہے کہ عورت کی پناہ کو حکمران تسلیم کرے گا۔
شریعت کی روشنی میں یہ بھی اصول ہے کہ مسائل کے حل کے لیے کسی مثال کا سو فیصد مکمل طور پر فٹ ہونا اچھی بات ہے مگر جزوی طور پر بھی فٹ ہو تو مسئلہ نکالا جا سکتا ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو جیساکہ جنرل (ر) امجد شعیب صاحب کہتے ہیں کہ آرمی چیف نے وزیر اعظم کو زبانی طور پر جنرل فیض حمید کی نئی تقرری کا بتادیا تھا۔ وہ اس کا اظہار یقین کے ساتھ کرتے ہیں ۔ اس بنیاد پر جب ''آئی ایس پی آر‘‘ نے اعلان کردیا تو جناب وزیر اعظم اپنے ماتحت '' آئی ایس پی آر‘‘ کے اعلان کی لاج رکھ لیں اور فیصلہ کردیں تو Same page پر تاخیر کی سلوٹوں پر استری پھر جائے گی۔ جی ہاں! حضور نبی کریمﷺ کی مبارک سیرت کے اس پہلو پر عمل کرلیا جائے تو ملک و قوم کو اس سے فائدہ ملے گا، ان شاء اللہ۔
امام مسلم بن حجاج نیشاپوری رحمہ اللہ ''کتاب الایمان‘‘ میں حدیث لائے ہیں۔ اس لمبی حدیث کا اجمال یوں ہے کہ حضرت ابوہریرہؓ کی روایت کے مطابق‘ ہم صحابہ اللہ کے رسولﷺ کی مجلس میں بیٹھے تھے۔ حضورکریمﷺ ہمارے درمیان سے اٹھے اور باہر تشریف لے گئے۔ ٹائم زیادہ بیت گیا تو ہم سکیورٹی کو مدنظر رکھتے ہوئے آپﷺ کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔ آگے آگے میں تھا۔ انصار کا ایک باغ تھا۔ کنویں کا پانی ایک نالے میں سے ہوکر اندر جا رہا تھا۔ باغ کی چار دیواری تھی۔ دروازہ نہ پا کر (کہ وہ دوسری سمت تھا) اسی نالے کے ساتھ رینگتا ہوا اندر چلا گیا تو حضو ر کریمﷺ وہاں اکیلے تشریف فرما تھے۔ آپﷺ نے مجھ سے یوں آنے کا سبب پوچھا تو میں نے تفصیل بتادی۔ آپﷺ نے مجھے اپنے دونوں نعلین مبارک دیے اور فرمایا کہ جائو اور باقی لوگوں کو خوشخبری دے دو کہ جو شخص بھی دلی یقین کے ساتھ ''لا الہ الا اللہ‘‘ کی شہادت دیتا ہے‘ اس کے لیے جنت ہے۔ باہر نکلا تو پہلی ملاقات حضرت عمرؓ سے ہوئی ۔ انہوں نے نعلین مبارک کے بارے میں سوال کیا تو میں نے کہا کہ حضورﷺ نے دیے ہیں اور سب لوگوں کو خوش خبری دینے کے لیے بھیجا ہے کہ جس نے دلی یقین کے ساتھ ''لا الہ الا اللہ‘‘ پڑھ لیا تو اس کے لیے جنت کی بشارت ہے۔ یہ سنتے ہی حضرت عمرؓ نے میرے سینے پر ہاتھ مارا تو میں گر گیا۔ کھڑا ہوا تو حضرت عمرؓ نے کہا: ابوہریرہؓ واپس حضورﷺ کے پاس چلو۔ اب میں تو رونے والا ہوگیا۔ بھاگا بھاگا حضور کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ نے پوچھا: ابوہریرہ! تمہیں کیا ہوا؟ میں نے واقعہ بتادیا تو اتنی دیر میں پیچھے سے حضرت عمرؓ بھی آگئے۔ حضور کریمﷺ نے ان سے پوچھا: اے عمرؓ! آپ نے ایسا کیوں کیا؟ جواب میں وہ عرض گزار ہوئے: اے اللہ کے رسولﷺ آپ پر میرے ماں باپ قربان! کیا آپ نے ہی ابوہریرہ کو خوشخبری دینے کے لیے بھیجا اور ساتھ اپنے نعلین مبارک دیے؟ آپﷺ نے فرمایا: ہاں۔ اس پر حضرت عمرؓ گزارش کرنے لگے اور مشورے کے انداز میں عرض کرنے لگے کہ اس اعلان سے لوگ صرف ''لا الہ الا اللہ‘‘ پر بھروسہ کر لیں گے اور عمل چھوڑ دیں گے، لہٰذا لوگوں کو چھوڑ دیں کہ وہ عمل کرتے رہیں۔ (مسلم: 52)
قارئین کرام! معاملہ وہی ہے جو حضورکریمﷺ نے فرمایا مگر حکمرانِ مدینہ نے اپنے صحابی حضرت عمرؓ کی بات کو اہمیت دی اور نافذ بھی اسے ہی کیا۔ زمینی حقیقت کا خیال کیا۔ جی ہاں! زمینی حقیقت کا خیال کرتے ہوئے محترم وزیر اعظم کو اپنے دوستوں کے مشورے کا خیال کرلینا چاہیے۔ لوگو! میں صدقے اور قربان جائوں حضور کریمﷺ کے وژن اور بصیرت پر کہ آپﷺ نے اپنے رب سے وحی کے ذریعے جو پیغام وصول کیا‘ اسے نشر کرنے کے لیے حضرت ابوہریرہ ؓ کو فرمادیا اور وژن اور بصیرت کے ساتھ نعلین مبارک دینے کا مطلب یہی تھا کہ میرے قدموں کے نقوش پر چلو گے تو کامل کامرانی پائو گے مگر حضور نبی کریمﷺ نے نعلین مبارک ہمراہ دینے کی وضاحت نہیں فرمائی کیونکہ اس کا مطلب اہلِ بصیرت ہی سمجھ پاتے۔ عام لوگ نہ سمجھ پاتے لہٰذا حضور نبی کریمﷺ نے حضرت عمرؓکی رائے کو ہی اپنا فیصلہ بنا لیا۔ وزیراعظم صاحب سیرت کے اس پیغام کو بہر حال اپنے سامنے رکھیں۔ درونِ خانہ بات کرلیں کہ آئندہ احتیاط کا پہلو ملحوظِ خاطر رکھ لیں۔
''لا الہ الا اللہ‘‘ کے سائنسی علمی پہلو پر آئندہ (ان شاء اللہ) لکھوں گا۔ لاہور میں ''تحریک لبیک‘‘ کے دھرنے کا دوبارہ آغاز ہوگیا ہے۔ وطن عزیز کی حکمرانی سے گزارش یہ کہ وہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے قرآنِ مجید کے ایک فرمان کو اپنا سلوگن بنائے۔ فرمایا! اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ سے ڈر جائو۔ بات کرو تو سیدھی اور پختہ بات کرو۔ (پختہ بات کی وجہ سے) اللہ تعالیٰ تمہارے مسائل کو درست ڈگر پر چلا دے گا۔ تمہاری غلطیاں (گفتگو اور عہد میں جھول او رغلطیوں) کو معاف بھی فرمادے گا۔ یا رکھو! جوبھی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا‘ بڑی کامیابی پالے گا۔ (احزاب:70 تا 71)۔ صاف اور انصاف کی بات یہ کی جائے کہ حضور کریمﷺ کی حرمت کے لیے آپ لوگوں کے جذبے کو سلام پیش کرتے ہیں‘ یہ جذبہ 22 کروڑ عوام ہی کا نہیں‘ ڈیڑھ اب مسلمانوں کا ہے۔ ہم حضور کریمﷺ کی حرمت کے دفاع کی بات دنیا کے ہر فورم پر کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم خود پیش پیش ہیں۔ مزید یہ کہ کیوں نہ ڈیڑھ ارب مسلمانوں کو ساتھ لے کر حرمت رسولﷺ کے تحفظ کا کردار ادا کیا جائے۔ اس مقصد کے لیے جناب وزیر اعظم مسلمان سربراہان کا آن لائن ایک اجلاس بلالیں۔ اس سے پہلے ایک ورکنگ کمیٹی سفارشات اور تجاویز تیار کرلے۔ یو این میں ان کو پیش کرکے حضور کریمﷺ کی حرمت کے تحفظ کا قانون بنوایا جائے اور گستاخوں کو عالمی عدالت انصاف کے کٹہرے میں لاکھڑا کیا جائے۔ وزیر اعظم پاکستان نے سیرت پر جو اتھارٹی قائم کی ہے‘ اس میں بھی سرفہرست حضور کریمﷺ کی حرمت کا مسئلہ ہے۔ اس فورم پر تحریک لبیک اور باقی سب جماعتوں کے نمائندگان کو بلا کر مشترکہ ایجنڈا بنا لیا جائے۔ اس طرح ہم حب رسولﷺ کے فریضے اور تقاضے کو بھی پورا کریں گے اور وطن عزیز کے استحکام کو بھی یقینی بنائیں گے، ان شاء اللہ!