کائنات کی پیدائش کو مان لیا جائے تو پیدا کرنے والے کو بھی ماننا پڑے گا۔ بعض سائنس دان کائنات کی پیدائش کے منکر تھے‘ وہ کہتے تھے: کائنات ہمیشہ سے ہے‘ ہمیشہ رہے گی یعنی انہوں نے کائنات کو ہی خالق سمجھ لیا تھا۔ جب سائنس نے ہی ثابت کردیا کہ ''بِگ بینگ‘‘ یعنی ایک بڑا دھماکہ ہوا اور پھر کائنات وجود میں آئی تو درحقیقت سائنس نے کائنات کی تخلیق کو تسلیم کر لیا مگر بعض سائنس دانوں نے خالق کو پھر بھی تسلیم نہ کیا۔ یہ رویہ صراحت کے ساتھ غیر سائنسی اور غیر علمی تھا کہ تخلیق کو تو تسلیم کر لیا جائے مگر خالق کو تسلیم نہ کیا جائے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ جب کبھی خالق کے وجود کا سائنسی ثبوت سامنے آیا تو ملحد سائنس دانوں نے اس ثبوت کو چھپانے کی کوشش کی۔ ایسے بہت سے ثبوتوں میں سے ایک ثبوت اب سامنے آیا ہے۔
تاریخی پس منظر یہ ہے کہ امریکا کے خلائی ادارے ''ناسا‘‘ نے خلا میں ایک دوربین کو لانچ کیا۔ 3 جولائی 1999ء کو اسے خلا کی جانب چھوڑا گیا تھا۔ اس پر اُس وقت ایک ارب پینسٹھ کروڑ ڈالر کی خطیر رقم خرچ کی گئی تھی۔ اس کا نام ''چندرا آبزر ویٹری‘‘ رکھا گیا تھا۔ یہ نام انڈیاکے ایک ہندو سائنس دان کے نام پر رکھا گیا تھا، جسے 1983ء میں مسٹر ولیم کے ساتھ نوبیل انعام دیا گیا تھا۔ مسٹر سبرامنین چندرا شیکھر 1910ء میں لاہور میں پیدا ہوئے تھے۔ بعد ازاں وہ امریکا کے شہری بن گئے تھے۔ وہ فزکس کے نامی گرامی سائنس دان اور فلکیات کے ماہر تھے۔ ان کو عزت دینے کے نقطۂ نظر سے ان کے نام پر خلائی دور بین کا نام ''چندرا‘‘ رکھا گیا۔ چندرا آبزرویٹری کی خصوصیت یہ ہے کہ آسمان کی وسعتوں میں جب کوئی ستارہ پھٹتا ہے تو اس کے بکھرے ہوئے ملبے میں جو عناصر ہوتے ہیں‘ یہ ان کی تصاویر اور فلم بناتی ہے اور زمین پر ناسا کے مرکز کو ارسال کرتی ہے۔ اس نے ایک (سٹار) سپر نووا کے ملبے کو دکھایا‘ اس میں خوبصورت رنگوں میں سلیکان، سلفر، کیلشیم اور آئرن وغیرہ کو دکھایا۔ اربوں سینٹی گریڈ درجے کی حرارت میں یعنی ایک آسمانی جہنم میں مذکورہ عناصر کا دکھانا بہت بڑی کامیابی ہے۔ اس نے دیگر عناصر کو بھی دکھایا۔ چندرا کی یہ بھی خصوصیت ہے کہ وہ X-Rays کرکے عناصر کی حقیقت کو کھول کر دکھا دیتی ہے۔ ان مناظر کو اپنے وقت کے معروف سائنسدانوں رابرٹ لاٹیمر، ڈاکٹر ٹورب جان اور المون لارش نے دیکھا تو وہ پکار اٹھے کہ یہ عناصر پیدا کیے گئے ہیں۔ مسٹر ''Ethan Siegle‘‘ نے BigThing.com میں 8 نومبر 2021ء کو جو تحریر لکھی‘ اس میں انہوں نے حوالہ دیا ہے Public Domain US Government کا‘ یعنی ایسے پرانے حقائق‘ جن کو شائع کرنے سے قبل حکومت سے اجازت لینا پڑتی ہے۔ وقت زیادہ گزر جائے تو کئی سالوں کے بعد پرانے حقائق منظر عام پر آ جاتے ہیں۔ جی ہاں! مندرجہ بالا حقیقت کا مطلب یہ ہے کہ ستاروں میں وہ عناصر بنے جن سے بعد میں زندگی وجود میں آئی‘ یعنی یہ عناصر خود نہیں بنے۔ یہ بنائے گئے ہیں۔ جس نے زمین پر زندگی بنائی‘ وہی خالقِ کائنات ہے۔ مضمون نگار اس حوالے سے سائنسدانوں کے الفاظ واضح طور پر لکھتا ہے: Both natural and human are made۔ یعنی دونوں ہی بنائے گئے ہیں۔ قدرتی عناصر بھی اور (پھر ان عناصر سے) انسان بھی پیدا کیے گئے ہیں۔ مضمون نگار مزید لکھتا ہے:
Each of these elements produces X- Rays within narrow energy ranges allowing maps of their location to be created.
یعنی یہ جو عناصر ہیں‘ ان میں سے ہر عنصر توانائی کے حلقوں میں پتلی سی ایکس شعائیں پیدا کرتا ہے۔ ان کے نقشوں کی لوکیشن اس طرح واضح ہوتی ہے کہ وہ پیدا کیے گئے ہیں۔ یہی وہ عناصر ہیں کہ جب ہماری زمین ستارے سے ٹوٹ کر الگ ہوئی تو ٹھنڈا ہونے پر جن سے اس وقت خلیات وجود میں آئے جب ان کو پانی میسر ہوا اور یوں مردہ سے زندگی وجود میں آئی۔ اللہ اللہ! قارئین کرام! مندرجہ بالا تحریر ناسا کے اپنے سائنسدانوں کی طرف سے شائع کی گئی ہے۔ اس حقیقت سے اللہ کا قرآنِ مجید یوں پردہ اٹھاتا ہے، فرمایا: تم کیسے اللہ کا انکار کرو گے حالانکہ تم (عناصر کی صورت میں) مردہ تھے‘ اس نے تمہیں زندگی عطا فرمائی۔ (یاد رکھنا) وہ تمہیں پھر مارے گا اور پھر تمہیں (قبروں) سے زندہ کرے گا۔ تب تم اسی (اللہ) کی طرف واپس لوٹائے جائو گے۔ (البقرہ: 28)۔
قارئین کرام! ناسا کا وائیجر 1 ہو یا وائیجر 2‘ حبل سپیس دوربین ہو یا یورپی یونین کی خلائی دوربین، چندرا ہو یا دیگر سینکڑوں زمینی اور خلائی دوربینیں‘ سب کی تحقیقات کا حاصل یہ ہے کہ جو عناصر پھٹتے ستاروں میں نمایاں ہوتے ہیں‘ وہی زمین پر ہیں۔ یعنی اللہ ہی کائنات کا خالق ہے اور خالق ایک ہی ہے کیونکہ ہر جگہ تخلیق کی اساس ایک ہی ہے۔ وہ لاشریک ہے کہ اس تخلیق میں دوسرا کوئی نہیں اور یہی پیغام حضرت محمد کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہے۔
ایک عرصہ سے سائنس دان ''ڈارک میٹر اور ڈارک انرجی‘‘ کی پیش گوئیاں کر رہے تھے۔ اب یہ پیشگوئیاں سائنسی حقیقت میں ڈھل چکی ہیں؛ چنانچہ یکم اکتوبر سے 4 نومبر 2021ء تک کے پانچ دنوں کو سائنسدانوں نے باہم مل کر منایا اور اسے Global Celebration of dark matter (dark energy) day کے طور پر منایا گیا۔ سرن لیبارٹری میں زیر زمین 27 کلومیٹر کے دائرے پر مشتمل مخصوص دھاتوں سے بنی ہوئی سرنگ میںیہ تجربہ کیا گیا۔ ایٹم کے اندر جو ذرات ہوتے ہیں‘ ان کوزبردست بیم یعنی تیز رفتار باریک ترین لیزر نما شعاع سے توڑا گیا۔ اعلیٰ ترین کیمروں نے‘ جو بڑے تاروں کے اندر ہی فٹ تھے‘ فلم اور تصاویر بنائیں۔ ایک ذیلی ذرے (Subparticle) سے بے شمار دیگر ذرات سامنے آئے۔ ان سے پتا چلا کہ نظر آنے والی کائنات کے پیچھے ''ڈارک میٹر اور ڈارک انرجی‘‘ ہے جو اسے کنٹرول کر رہی ہے۔ آسمان میں بھی پھٹتی گلیکسی کا منظر سامنے آتا ہے تو پھٹنے سے ڈارک میٹر اور عام مادہ الگ ہو جاتے ہیں۔ مزید حقائق یہ سامنے آئے کہ ہمیں جو کائنات دکھائی دے رہی ہے‘ وہ 14 ارب سالوں سے روشنی کی رفتار سے پھیل رہی ہے۔ غور کریں یہ کتنی بڑی ہوگی اور مزید پھیلتی چلی جا رہی ہے مگر ہم اس کا صرف پانچ فیصد حصہ دیکھ پائے ہیں اور اتنا ہی دیکھیں گے۔ اب یہ جو 100 فیصد کائنات ہے‘ وہ کتنی بڑی ہو گی‘ یہ ہمارے تصور سے باہر ہے مگر وہ بھی ڈارک میٹر یعنی سیاہ مادے اور سیاہ انرجی کے مقابلے میں اتنی چھوٹی ہے کہ صرف 5 فیصد ہے باقی تقریباً 70 فیصد ڈارک انرجی ہے اور 25 فیصد ڈارک میٹر، اور موجودہ کائنات صرف 5 فیصد ہے۔ لوگو! بات بڑی ہی عظیم ہے کہ ایٹم کے ذرات کے علاوہ مزید ذرات 60 عدد تک معلوم ہوئے ہیں۔ ان میں ''نیوٹرینو‘‘ ایسا ذرہ ہے جو آسمانوں سے آتا ہے اور ہم آٹھ ارب انسانوں میں سے ہر انسان کے جسم سے ہر لمحہ نیوٹرینو اربوں کی تعداد میں گزرتے ہیں۔ کون کون سا ذرہ کیا کر رہا ہے‘ ہمیں کچھ پتا نہیں۔ وہ اپنے خالق کا نمائندہ ہے‘ کچھ نہ کچھ توکر رہا ہو گا۔ ہماری حرکتیں نوٹ کر رہا ہو گا۔ نجانے میرے رب کی یہ انٹیلی جنس کیا کیا کر رہی ہے اور اس کی فرشتوں کے علاوہ کیا کیا اقسام ہیں۔ ان ذرات کی سواریاں وہ چار کائناتی قوتیں ہیں جو مقناطیسی وغیرہ ہیں۔ ان کے پیچھے ڈارک میٹر اور ڈارک انرجی ہے۔ اس کی حقیقت کو پانے اور مستفید ہونے میں آئندہ کتنی صدیاں درکار ہوں گی‘ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتے ہیں۔ اب ایسی نئی ٹیکنالوجی مستقبل میں سامنے آئے گی کہ موجودہ دور فرسودہ نظر آئے گا۔ جی ہاں! یہ سارے نظام تہہ در تہہ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ نتھی ہیں‘ جوڑا جوڑا ہیں۔ ڈارک میٹر اور ڈارک انرجی ایک جوڑا ہے‘ ایک دوسرے کا محتاج ہے۔ ان سب کا خالق ''اَللّٰہُ الصَّمَد‘‘ ہے۔ وہ سب مخلوقات سے بے نیاز اور بے پروا ہے۔ آسمانوں اور زمین میں ہر جگہ کی سائنسی حقیقت یہی ہے۔ حضور کریمﷺ پر نازل ہونے والے قرآنِ حکیم نے کیا خوب فرمایا ''وہ (اللہ) ایسی ذات ہے جو آسمان میں بھی معبود ہے اور زمین میں بھی (وہی) معبود ہے۔ اور وہ حکمت والا، سب کچھ جاننے والا ہے‘‘۔ (الزخرف :84) لہٰذا اس سے بے خوف ہوکر چند روزہ زندگی گزارنے والا کس قدر نادان ہے؟