اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے آسمان کی وسعتوں اور گہرائیوں میں انسان نے گھسنے کا پروگرام بنایا تو ہوائی جہاز بنا لیے مگر یہ صرف فضا میں پرواز کرتے ہیں‘ جہاں ہوا موجود ہوتی ہے۔ اس سے اوپر خلا کا آغاز ہوتا ہے جہاں ہوا نہیں ہوتی۔ انسان نے اس خلا میں جا کر بھی زمین کے گرد چکر لگا لیے ۔ زمین کا سب سے قریبی سیارہ چاند ہے‘ اس نے وہاں بھی اپنے قدموں کے نشانات چھوڑ دیے۔ اس نے پروگرام بنایا کہ آسمان کی وسعتوں میں وہ جا نہیں سکتا مگر انہیں دیکھ تو سکتا ہے؛ چنانچہ اس نے دوربینیں بنا کر زمین پر فٹ کرنا شروع کر دیں۔ وہ جدید سے جدید دوربین بناتا گیا اور زمین پر نصب کرتا چلا گیا۔ آسمان کی وسعتوں میں دیکھتا رہا اور دیکھ دیکھ کر تھک گیا، مگر انسان کی فطرت میں یہ حقیقت پنہاں کر دی گئی ہے کہ وہ علم کے کھوج میں بڑھتا رہتا ہے۔ اس نے خلا کے مختلف مداروں میں دوربینوں کو بھیجنا شروع کر دیا۔سب سے اہم ترین دوربین ''حبل‘‘ ہے اس کے ذریعے سے انکشاف ہو چکا ہے کہ کائنات آج سے 14ارب نوری سال قبل ایک نقطے سے وجود میں آئی تھی، ایک بہت بڑا دھماکا ہوا اور یہ پھیلنا شروع ہوئی اور آج تک یہ متواتر پھیلتی چلی جا رہی ہے۔'' ایڈوِن حبل‘‘ (Edwin Hubble)نے یہ انکشاف کیا تھا‘ لہٰذا اس کے نام سے جو دوربین بنائی گئی‘ اسے آج جدید ترین بنایا جا چکا ہے۔ خلا میں خلا نوورد جاتے ہیں‘ اس کی مرمت بھی کرتے ہیں‘ اسے بہتر بھی بناتے ہیں۔ وہ متواتر یہی بتا رہی ہے کہ کائنات روشنی کی رفتار‘ یعنی تین لاکھ کلو میٹر فی سیکنڈ کے حساب سے متواتر اور مسلسل پھیلتی جا رہی ہے۔ اس میں نئی نئی گلیکسیاں اور ان کے جھرمٹ بن رہے ہیں‘ مر رہے ہیں اور نئے وجود میں آتے جا رہے ہیں۔ یاد رہے! زمینی اور خلائی دوربینوں کی کئی اقسام ہیں اور یہ اس لیے مختلف ہیں کہ آسمان میں مختلف علاقے ہیں‘ ستاروں، سیاروں، چاندوںکی مختلف اقسام ہیں‘ سپرنوواز ہیں، گلیکسیوں کی لاکھوں اقسام ہیں، بلیک ہولز کئی طرح کے ہیں وغیرہ وغیرہ؛ چنانچہ ریسرچ کیلئے دوربینیں بھی مختلف طرح کی بنانا پڑتی ہیں۔
بنیادی طور پر دوربینوں کی دو اقسام ہیں؛ پہلی قسم کو آبزرویٹری کہا جاتا ہے۔ یہ ایسی دوربین ہے جس کے ذریعے ستاروں، سیاروں اور دیگر اجرامِ فلکی کو دیکھا جاتا ہے۔ دوربین کی دوسری قسم کو ٹیلی سکوپ کہا جاتا ہے۔ یہ ایسی دوربین ہے جس سے گلیکسیوں وغیرہ کے درمیانی فاصلوں کو ماپا جاتا ہے۔ '' حبل سپیس‘‘ ایسی دوربین ہے جو ٹیلی سکوپ ہے۔ یاد رہے! دونوں اقسام کی دوربینوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ ساڑھے تین سو آبزرویٹریز صرف امریکا کے ادارے ناسا کی ہیں۔ ٹیلی سکوپک دوربینیں الگ ہیں۔ الگ الگ ریسرچ کیلئے ہیں۔ یورپ اور باقی ملکوں کی علاوہ ہیں‘ یوں ان کی تعداد ہزاروں تک پہنچ جاتی ہے، جن پر کھربوں ڈالرز کا خرچہ ہوا ہے۔ ان کی تحقیقات سے سائنسی دنیا میں بڑے انقلاب آئے ہیں مگر دوربینوں کی آنکھیں یعنی کیمرے بھی تھک گئے ہیں‘ ان کیمروں کے پیچھے دیکھنے والی انسانی آنکھیں بھی تھک گئی ہیں۔ آسمان کی وسعتیں مگر بڑھتی جا رہی ہیں اور دکھائی دینے والے عجائبات بھی بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔
اس وقت جو دوربینیں بن رہی ہیں ان میں سے ایک 2024ء میں لانچ ہو گی۔ ایک 2025ء میں اور ایک 2026ء میں۔ ناسااور یورپین سپیس ایجنسی (E.S.A)کے باہمی تعاون سے ایک دوربین 2037ء میں خلا میں جائے گی۔ ہم اس وقت جس دوربین کی بات کرنا چاہ رہے ہیں اس کا نام ''نینسی گریس رومن سپیس ٹیلی سکوپ‘‘ ہے۔ یہ 2027ء میں خلاء کے اس حصے میں بھیجی جائے گی جو High Latitudeہے۔ یہ آسمان کے بہت بڑے علاقے کو دیکھ سکے گی۔ آسمانی سائنس کے بارے میں اہم ترین سوالوں کا جواب تلاش کرے گی۔ اس کے ذریعے گلیکسیوں وغیرہ کی پوزیشنیں ، شکلیں اور سائز وغیرہ کو دیکھا جائے گا۔ ان کی باہمی دوری‘ یعنی فاصلوں کو دیکھا جائے گا۔ یہ دوربین حبل دوربین سے ہزار گنا وسیع ترین نظر رکھنے والی دوربین ہے۔ یہ کائنات کی مزید گہرائیوں کا جائزہ لے گی۔ سینکڑوں دوربینیں جو اب تک جائزہ لے چکی ہیں‘ یہ ان سے کہیں آگے کا جائزہ لے گی۔ امریکہ کے خلائی ادارے ناسا کے ''گوڈاڈ سپیس فلائٹ سنٹر‘‘ نے آگاہ کیا ہے کہ یہ جائزہ لے گی کہ:
Why The Expansion of The Universe is Speeding Up!
کائنات کا پھیلائو تیز تر کیوں ہوتا جا رہا ہے؟
ناسا والو! حیرانی کی بات ہے‘ آپ کو ابھی تک یہ خبر نہیں پہنچی کہ حضرت محمد کریمﷺ پر ساڑھے چودہ سو سال قبل جو کتاب نازل ہوئی اس میں کائنات کو بنانے والے خالق نے آگاہ کر دیا تھا کہ ''آسمان کو ہم نے ہاتھ (خصوصی اور عظیم قوت) سے بنایا ہے اور ہم ہی اسے مسلسل وسیع کرنے والے ہیں‘‘۔ (الذاریات: 47) اس آیت میں تخلیق کا ذکر نہیں بلکہ آسمان کو ہاتھ سے بنانے کا ذکر ہے؛ یعنی اسے اہتمام کے ساتھ مسلسل بنایا جا رہا اور وسعت دی جا رہی ہے تو متواتر دی جا رہی ہے۔''موسعون‘‘ کا لفظ ''اسم فاعل‘‘ ہے جس میں تسلسل‘ تواتر کا مفہوم اپنی تیز رفتاری کے ساتھ شامل ہے۔ جی ہاں! کھربوں ڈالر خرچ کرکے آج کی سائنسی دنیا جہاں پہنچی ہے وہ صرف آدھی حقیقت تک رسائی حاصل کر سکی ہے مگر قرآنِ مجید نے ساڑھے چودہ سو سال قبل مکمل حقیقت بتا دی ہے۔سبحان اللہ!
''گوڈاڈ سنٹر‘‘ نے مذکورہ ٹیلی سکوپ کا یہ مقصد بھی بتایا ہے کہ اس سے فلکیاتی سائنسدانوں کو موقع ملے گا کہ وہ کائنات کے سٹرکچر یعنی اس کی بناوٹ پر غور کریں اور اس بات پر بھی غور کریں کہ یہ کائنات (پیدائش کے بعد) آگے چل کر کس طرح اپنے ڈیزائن کے ساتھ بڑھتی رہی اور موجودہ حالات تک پہنچی تو کس طرح پہنچی؟ کھوج اور سراغ (Clues)کس طرف جاتے ہیں؟ سائنس دانو! تم ڈھونڈتے رہو۔ کاش! ہمارے حضور کریمﷺ پر نازل ہونے والا قرآنِ حکیم پڑھ لو‘ تم پر بات واضح ہو جائے گی کہ ایک اللہ ہی نے آسمان بنایا ہے‘ زمین بھی اسی نے بنائی ہے اور ان میں ہر ڈیزائن اسی کا بنایا ہوا ہے۔
مذکورہ دوربین کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ بلیک ہولز‘ جو بڑی گلیکسیوں کے بیج (Seeds) بناتے ہیں‘ ان کے بارے میں یہ گہرائی میں نظر گاڑ کر دیکھے گی کہ ان بیجوں سے گلیکسیاں کیسے بنتی ہیں۔ اس دوربین پر2.4میٹر یعنی 7.9فٹ کے آئینے لگیں گے۔ یہ آج تک کی دوربینوں سے کہیں زیادہ شفاف کائناتی مناظر دکھائے گی۔ یاد رکھئے! بیج درخت کا ہو یا کسی پودے کا‘ اس بیج کا ایک ہی خالق ہے اور وہی بیج کو پھاڑ کر اس میں سے نسل چلاتا ہے۔ بلیک ہولز آسمانی درخت ہیں‘ ہر درخت دوسرے سے مختلف ہے۔ وہ بیج بناتا ہے تو اس سے گلیکسیاں جنم لیتی ہیں۔اللہ تعالیٰ اپنے آخری رسول حضرت محمد کریمﷺ کو آگاہ فرماتے ہیں ''بلاشبہ اللہ ہی دانے اور گٹھلی کو پھاڑنے والا ہے‘‘(الانعام:95) جی ہاں! جو زمین پر پھاڑتا ہے‘ وہی آسمان میں بلیک ہول کے بیج کو پھاڑ کر گلیکسی کو نکال لیتا ہے۔
حقیقت بہرحال یہی ہے کہ سائنسدانوں نے ہزاروں دوربینیں بنا لیں۔ بنانے والے بناتے رہے اور دنیا سے رخصت ہوتے رہے۔ موجودہ سائنسدان بھی موجودہ دوربینوں کو استعمال کرتے کرتے حیرتوں کے آسمانی سمندر میں گم انگلیاں منہ میں دابے چلے جائیں گے۔ علم کے وارث اور آتے جائیں گے وہ بھی آنکھوں کو تھکا تھکا کر چلتے بنیں گے۔ کیا خوب فرمایا میرے حضور کریمﷺ پر نازل ہونے والے قرآن نے: ''برکتوں والا ہے وہ (خالق) کہ جس کے ہاتھ میں اصل بادشاہت ہے۔ وہ ہر شے پر قدرت رکھنے والا ہے۔ وہی ہے جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا۔ مقصد یہ ہے کہ تمہاری (اے انسانو!) آزمائش کرے کہ کون اچھے عمل کرتا ہے۔ وہ زبردست بھی ہے، بخشنے والا بھی ہے۔ وہی ہے جس نے اوپر تلے سات آسمان بنا دیے۔ (اے دیکھنے والے!) تم رحمن کی تخلیق میں کوئی رخنہ نہیں پائو گے۔ تم بار بار (ہزاروں دوربینیں بنا کر) نظر دوڑائو۔ کیا تم کوئی شگاف دیکھتے ہو؟ پھر بار بار مزید (دوربینیں بنا کر) دیکھتے جائو۔ یہ نظر تمہاری جانب اسی طرح واپس آئے گی کہ نامراد ہو گی اور تھکی ہاری ہو گی‘‘ (الملک: 1تا 4)۔ جی ہاں! ایک خالق کو نہیں مانو گے تو تھکے ماندے دنیا سے نامراد چلے جائو گے۔ ایک اللہ، اس کے محبوب رسولﷺ کو مان لوگے تو دنیا کی تھکاوٹ سے بچ جائو گے اور اگلے جہان میں بدقسمتی سے بھی بچ جائو گے۔