اللہ تعالیٰ کی توفیق ہے کہ میں جب بھی دعا کرواتا ہوں تو آخر پر عموماً تین جملے بولتا ہوں: اے مولا کریم! جب موت کا وقت آئے تو زبان پر ''لا الہ الا اللہ‘‘ ہو، ماتھے پر پسینہ ہو اور ہونٹوں پر مسکراہٹ ہو۔ چند دن قبل ایک مسجد میں درسِ قرآن دیا۔ مجلس کے اختتام پر دعا کرواتے ہوئے مندرجہ بالا جملے اپنے خالق و مالک کے دربار میں پیش کیے تو ایک بزرگ‘ جن کی عمر کوئی50سال ہو گی، نام عبدالودود تھا، مجھ سے سوال کیا کہ ماتھے پر پسینے کی جو بات کی ہے‘ اس کا پس منظر کیا ہے؟ میں نے کہا: اللہ کے رسولﷺ کی صحیح سند کے ساتھ مبارک حدیث ہے کہ ''مومن ماتھے کے پسینے سے فوت ہوتا ہے‘‘(ابن ماجہ: 1452، ترمذی، نسائی) اس پر وہ کہنے لگے۔ میرے والد صاحب کا نام رحمت علی تھا‘ ساری زندگی مسجد کے خادم رہے۔ بیگ پور میں آ گئے تو یہاں بھی مسجد میں امامت کرواتے تھے، ان کی عمر 80 سال تھی۔2020ء میں یعنی گزشتہ سال فوت ہوئے۔ انتہائی نیک، خوش اخلاق اور دیانتدار تھے۔ موت کے وقت وہ چارپائی پر بیٹھے باتیں کر رہے تھے‘ خاندان کے مرد اور خواتین جو ان کے پاس بیٹھے تھے‘ اٹھارہ لوگ تھے۔ میں بھی اپنے والد صاحب کے پاس موجود تھا۔ انہوں نے ''آیت الکرسی‘‘ پڑھنے کا آغاز کیا۔ جب ''لا تاخذہ سنۃ ولا نوم‘‘ پر پہنچے تو ہم سب کو مخاطب کیا اور کہا ''پیچھے ہٹ جائو، وہ آ گئے ہیں‘‘۔ ساتھ ہی و علیکم السلام کہا اور ان کی روح جسمانی پنجرے کو چھوڑ کر پرواز کر گئی۔ ان کے ماتھے اور چہرے پر پسینہ نمودار ہوا اور پھر سارا جسم پسینے میں نہا گیا۔ اب جب آپ سے پسینے کے بارے میں سنا تو میرا دل انتہائی خوش ہو گیا کہ یہ تو حضورﷺ کی حدیث مبارک ہے۔ میرے ابا جی کس قدر خوش قسمت تھے، الحمد للہ۔
قارئین کرام! مسجد کے خادم کی ہماری مادی دنیا میں کیا حیثیت ہے‘ اس کو بھی اپنے سامنے رکھ لیں جبکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کا اگلے جہان میں کیا مقام ہے‘ اس کا بھی نظارہ کر لیں کہ فرشتے آتے ہیں اور بابا جی کی خدمت میں سلام عرض کرتے ہیں۔ لوگ فرشتوں کا سلام نہیں سنتے لیکن بابا جی کے ''وعلیکم السلام‘‘ سے بات واضح ہو جاتی ہے کہ انہیں فرشتوں نے سلام کیا ہے۔ آیئے! اب اللہ کے رسول حضور کریمﷺ کی ایک حدیث مبارکہ ملاحظہ کرتے ہیں۔'' حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا: جنت اور دوزخ کے درمیان تکرار ہوئی تو جہنم کہنے لگی کہ میرا ترجیحی مقام ہے کہ میرے اندر بڑے بڑے متکبر لوگ ہوں گے، بڑے بڑے جابر قسم کے لوگ ہوں گے۔ جواب میں جنت کہنے لگی: میرا بھی کیا مرتبہ ہے کہ مجھ میں داخل ہوں گے تو (معاشرے کے) کمزور اور ضعیف لوگ داخل ہوں گے،(معاشرے کے) گرے پڑے لوگ داخل ہوں گے۔(دونوں نے اپنا مقدمہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے سامنے رکھا) تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے جنت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: تُو میری رحمت کی جگہ ہے، میں تیرے ذریعے اپنے بندوں پر رحم کروں گا‘ جس پر چاہوں گا۔ آگ (جہنم)سے مخاطب ہو کر فرمایا: کیا شک ہے کہ تو سرا سر عذاب (سزا کی جگہ) ہے، میں اپنے بندوں میں سے جس کو چاہوں گا تیرے ذریعے سے سزا دوں گا۔ یاد رکھو! ان دونوں کو بھرا جائے گا۔ جہاں تک جہنم کا تعلق ہے (وہ اتنی بڑی ہوگی) کہ بھر نہیں پائے گی تو اللہ تعالیٰ اس میں اپنا قدم رکھ دیں گے تو وہ بس ، بس اور بس پکار اٹھے گی۔ اس لمحے یہ بھر جائے گی۔ اس کے حصے آپس میں گتھم گتھا ہو جائیں گے۔ یاد رکھو! اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق میں سے کسی پر ظلم نہیں کریں گے۔(جہنم کی ضرورت اپنے قدم کو رکھ کر پوری کر دیں گے) جبکہ جنت کو بھرنے کیلئے مولا کریم ایک اور مخلوق(انسانوں) کو پیدا فرما دیں گے۔(صحیح بخاری: 4850)
صحیح مسلم میں جو حدیث شریف ہے‘ اس میں اہلِ جنت کی یہ صفت بھی آئی ہے کہ وہ عاجزی پسند لوگ یعنی خاکسار قسم کے ہوں گے‘‘ (7173)۔صحیح مسلم ہی کی حدیث ( 7175)میں ہے کہ وہ سیدھے سادے لوگ ہوں گے یعنی ان میں ہیرا پھیری، چالاکی اور دونمبری نہیں ہوگی۔ اسی طرح صحیح مسلم ہی کی ایک حدیث (7172) میں مسکین کا لفظ ہے کہ جنت کہے گی: میرے اندر مساکین ہوں گے۔
قارئین کرام! وہ لوگ جو اپنے آپ کو بڑا ماڈرن، دانشور اور جدید سائنسی علوم کا واقف کار خیال کرتے تھے اور اس بنیاد پر اگلے جہان کا انکار کرتے تھے‘ کہتے تھے: دیکھو جی! یہ جنت‘ جہنم کی بات چیت بھی کوئی سمجھ میں آنے والی ہے؟ جناب والا! آج کی سائنس نے ثابت کر دیا ہے کہ ایٹم اور اس کے ذیلی ذرات آپس میں گفتگو کرتے ہیں کہ ایک سائنسی ویب سائٹ نے ایک ریسرچ شائع کی تھی‘ جس کا عنوان تھا کہ خلا میں تیرنے والے(ہر) دو ذروں کے درمیان گفتگو ہوتی ہے۔ الفاظ ملاحظہ ہوں:
A conversation between two particles floating in space.
اسی طرح ''نیدر لینڈز‘‘ کے شہر ''نجمیگن‘‘ (Nijmegen) میں ''ریڈ بوڈ (Radboud) یونیورسٹی‘‘ ہے جس نے 6نومبر2020ء کو اس موضوع پر اپنی ریسرچ شائع کی تو اس کا عنوان رکھا:
How backchannels and particles may facilitate speech planning in conversation.
یعنی پس نظر میں کوئی ایسا نظام اور ایسے ماس لیس (Massless)ذرات ہیں جنہیں Wavesبھی کہا جا سکتا ہے۔ احساس یہی ہے کہ وہ گفتگو میں پلاننگ کو سہولت کاری فراہم کرتے ہیں۔ جی ہاں! یہ تو ثابت ہو چکا کہ وہ گفتگو کرتے ہیں مگر اب بات یہ ہے کہ گفتگو کے پیچھے کون ہے؟ مان لو کہ وہ صرف اور صرف ایک خالق ہے۔
اسی سال یعنی 27مئی 2021ء کی ریسرچ جو ڈیلفٹ یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی کی تحقیق پر مبنی ہے' کا ایک جملہ یوں بیان کیا گیا ہے:
Scientists overhear two atoms chatting.
لوگو! میں کہنا یہ چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے آخری رسولﷺ نے جو فرمایا‘ وہی حق ہے‘ اسی کا نام علم ہے۔ ماڈرن ازم کے نام پر جو جنت اور جہنم کی باہمی تکرار کی مخالفت کرتا ہے‘ وہ بے چارہ نادان اور جاہل ہے؛ چنانچہ آج کے بعد دل سے ایمان لایئے کہ حضور کریمﷺ نے جو فرمایا‘ ہماری سمجھ میں آئے یا نہ آئے‘ ایمان کا علمی تقاضا یہ ہے کہ بشاشت اور ایمانی مسرت کے ساتھ اسے مانا جائے؛ چنانچہ حق یہی ہے کہ جنت اور جہنم نے بات چیت کی ہے۔اگر ہم جنت میں جانا چاہتے ہیں تو اہلِ جنت کی صفات کو اپنانا ہوگا۔مال و دولت اور اقتدار کی نعمت ملی ہے تو اسے خاکساری، عاجزی اور عدل کے ساتھ استعمال کرنا ہوگا، اس سے عاجزوں اور مسکینوں میں اندراج ہو جائے گا۔
انسان متکبر بنے گا تو تباہ ہو جائے گا۔ حضور کریمﷺ نے تکبر کی خصلت یہ بتائی ہے کہ لوگوں کو حقیر جانا جائے‘ حق کا انکار کر دیا جائے۔ ایسا کرنے والا متکبر ہے۔ پھر تکبر میں آکر وہ کمزوروں کیلئے جابر بن جاتا ہے۔ جھوٹ، دوغلے پن، فراڈ، دھوکے اور قوت کے بل پر مسکینوں کو ناکردہ گناہوں کی سزا کا شکار بنا دیتا ہے۔ مالدار ظالموں سے پیسے کھا کر ایف آئی آر میں ہیرا پھیری کرتا ہے‘ ایسے سب لوگ جابر اور متکبر ہیں۔ ان کے بارے میں حضرت جابر بن عبداللہؓ کی ایک روایت ہے ۔امام بخاریؒ اپنی صحیح میں لائے ہیں کہ حضورﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ قیامت کے دن بندوں کو اکٹھا کریں گے پھر انہیں ایسی آواز کے ساتھ آواز دیں گے کہ دور والا اور قریب والا‘ ہر انسان ایک جیسی آواز کے ساتھ اللہ کی بات کو سنے گا۔ اللہ فرمائیں گے ''میں ہی بادشاہ ہوں‘ میں ہی جزا و سزا دینے والا ہوں‘‘۔(صحیح بخاری: 7481)اس حدیث شریف میں ''الدیان‘‘ کا لفظ آیا ہے جس میں انتہا درجے کا مبالغہ پایا جاتا ہے؛ یعنی آج بادشاہ بھی ایک ہے اور انتہائی جانچ پڑتال کے ساتھ ظالموں، جابروں اور متکبروں کو سزا دی جائے گی تو وہ اللہ واحد دے گا،جن کمزوروں پر یہ ظلم کرتے تھے‘ وہ معاشرے کے گرے پڑے لوگ آج جنت کے بادشاہ ہوں گے جبکہ یہ متکبر اور جابر جہنم کا ایندھن ہوں گے۔ مسجدوں کے خادموں اور کمزور نیک لوگوں کیلئے جو مزید مخلوق پیدا ہوگی‘ وہ ان شاء اللہ ان کمزوروں کی بادشاہت میں ہوگی۔ کیسے؟ یہ آئندہ کسی کالم میں اس دعا کے ساتھ کہ یا اللہ! موت کے وقت زباں پر کلمہ، ہونٹوں پر مسکراہٹ اور ماتھے پر پسینے کو موتی بنا کر چلا دینا،آمین!