اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب قرآنِ مجید آگاہ کرتی ہے کہ ''بلاشبہ اللہ ہی صبح اور گٹھلی کو پھاڑ نکالنے والا ہے‘‘۔ 2005ء کی ایک صبح رات کے اندھیرے کو پھاڑ کر نمودار ہونا شروع ہوئی‘ پھر سورج نے چہرہ دکھایا اور روشن ہوتا چلا گیا۔ سردیوں کے دن تھے۔ میں اپنے پانچ سالہ بچے کو گود میں لیے سورج کی حدت سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ایک چھوٹے سے مگر گھنے درخت پر چڑیوں نے یک دم شور مچانا شروع کردیا ہے۔ وہ ٹہنیوں پر پھدک رہی تھیں۔ چہچہاہٹ میں خوشی کی جگہ پریشانی نمایاں تھی۔ میں یہ منظر دیکھتا ہوں تو حیران ہوجاتا ہوں کہ یہ چڑیاں ایسا کیوں کر رہی ہیں۔ قرب و جوار میں بلی یا کسی خطرے کا بھی وجود نہیں کہ اسے دیکھ کر ان کو پریشانی ہو‘ انہی سوچوں میں گم تھا کہ اچانک زلزلہ شروع ہوگیا۔ زمین ہلنے لگ گئی۔ زلزلے کے جھٹکے بند ہوئے تو اب مجھے سمجھ آئی کہ یہ چڑیاں تو زلزلے کی آمد کے بارے میں آگاہ کر رہی تھیں۔ یہ منظر میرے لیے اللہ تعالیٰ کی قدرت کا شاہکار تھا۔
ایک مجلس میں یہ منظر میں نے بیان کیا تو غلام اللہ صاحب نے چند سال قبل بیتنے والا ایسا واقعہ سنایا جس نے مجلس کے شرکا کو اس جہاں سے اٹھا لیا اور کسی دوسرے جہان میں پہنچا دیا۔ کہنے لگے: ہمارے گھوڑے کو بند ہیضہ ہوگیا‘ علاج کیا مگر کچھ فائدہ نہ ہوا۔ ہمارے 80 سالہ بزرگ بولے: اس کو قبرستان کی دیوار کے ساتھ باندھ آئو اور خود واپس آجائو‘ یہ ٹھیک ہوجائے گا (ان شاء اللہ)۔ غلام صاحب کہتے ہیں کہ ہم اسے باندھ آئے۔ ڈیڑھ دو گھنٹے گزرے تو کیا دیکھتے ہیں کہ گھوڑا رسی تڑوا کر بھاگا اور اب ہمارے گھر میں ہمارے سامنے موجود تھا۔ وہ پسینے سے شرابور تھا مگر اب تندرست تھا۔ بابا جی نے کہا: جائو‘ جہاں گھوڑا باندھا تھا‘ وہاں کی صورتحال کیا ہے وہ دیکھو اور مجھے بتائو۔ ہم وہاں گئے تو دیکھا وہاں گھوڑے کی پتلی لید پچکاریوں کی صورت میں جگہ جگہ بکھری پڑی تھی۔ زمین گھوڑے کے قدموں سے روندی ہوئی تھی۔ باباجی کو یہ منظر بتایا تو انہوں نے کہا کہ ہمارے تجربے کی بات یہ ہے کہ قبرستان میں جن قبروں کے مردوں کو عذاب دیا جاتا ہے‘ ان کی سزا کی آوازیں یہ گھوڑا سنتا ہے لہٰذا یہ ان سے پریشانی میں آ جاتا ہے اور پھر اس کا معدہ اور انتڑیاں کھلتی ہیں تو یہ صحت یاب ہو جاتاہے۔ جی ہاں! گھوڑے سے متعلق اسی طرح کا ایک واقعہ امام حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ''کتاب الروح‘‘ میں بھی درج کیا ہے۔
برطانیہ کے ایک سائنسدان ہیں‘ ان کا نام Rupert Sheldrake ہے۔ بیالوجی میں پی ایچ ڈی ہیں‘ کیمبرج یونیورسٹی سے ''باٹنی پرائز‘‘ حاصل کر چکے ہیں۔ یہ ایک ایسے منصوبے کے ڈائریکٹر بھی رہ چکے ہیں جس کا خرچہ ''ٹرینٹی کالج آف کیمبرج‘‘ نے اٹھایا تھا۔ اس کامیاب سائنسی منصوبے کو Unexplained Human and Animal Abilities کا نام دیا گیا تھا‘ یعنی انسانوں اور جانوروں کی ایسی صلاحیتوں کا کھوج لگانا جس کی وضاحت کرنا مشکل ہو یا جنہیں سمجھنا ممکن نہ ہو۔ الغرض! ڈاکٹر روپر شیلڈریک جو سائنسی دنیا کے معروف ترین ناموں میں سے ایک ہیں‘ نے زندگی کے طویل سائنسی تجربات کے بعد 2019ء میں ایک کتاب Ways to Go Beyond and Why They Work: Seven Spiritualلکھی۔ عنوان واضح کر رہا ہے کہ سائنسی دنیا کی ریسرچ کے راستے اگلے جہان کی زندگی کی نوید دے رہے ہیں کہ Learning from Animalsیعنی جانوروں پر تحقیقات کے بعد جو حاصل کیا ہے وہ بھی اور Leaf-Veins یعنی پتوں کی باریک شریانیں اور Molecular Biology کی حیرتیں‘ یہ وہ حقائق ہیں کہ ہر چیز پر Nature Writing یعنی فطرتی تحریر ہمیں خالق تک بھی لے جاتی ہے اور اگلے جہان کی زندگی کو ماننے تک بھی پہنچا دیتی ہے۔
آج بہت سے سائنسدانوں کو ماننا پڑا ہے کہ ڈاکٹر روپر شیلڈریک نے جانوروں کے غیر واضح (Unexplained ) رویوں کے پہلوئوں پر جو ریسرچ کی‘ وہ یہاں تک لے آئی کہ ''سائنس خالق اور اگلی زندگی پر ایمان کی دشمن نہیں‘‘۔ ڈاکٹر مائیکل گوئیلن‘ جوفزکس، فلکیات اور میتھ میٹکس میں پی ایچ ڈی ہیں‘ نے مندرجہ بالا عنوان سے کتاب بھی لکھی ہے۔ قارئین کرام! آیئے ! اب ''صحیح مسلم‘‘ کی ورق گردانی کرتے ہیں جس کے ایک باب کے عنوان کا ترجمہ یوں ہے کہ ''جنت اور اس کی نعمتوں اور وہاں رہنے والوں کے اوصاف کیا ہیں؟‘‘۔
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول حضرت محمد کریمﷺ بنو نجار کے ڈیرے پر تشریف لائے۔ آپﷺ خچر پر سوار تھے اور ہم آپ کے ہمراہ تھے۔ خچر اچانک بدکنے لگ گیا‘ اس قدر کہ خدشہ محسوس ہوا کہ حضورﷺ کہیں گر نہ جائیں۔ بات یہ تھی کہ وہاں چند قبریں بھی تھیں۔ حضور کریمﷺ نے پوچھا کہ ان قبروں میں پڑے لوگوں کو کون جانتا ہے؟ ایک آدمی بولا: میں جانتا ہوں۔ آپﷺ نے پوچھا: یہ لوگ کب فوت ہوئے تھے؟ وہ کہنے لگا: یہ بتوں کی پوجا کرتے ہوئے فوت ہوئے تھے۔ اس پر آپﷺ نے فرمایا: یہ لوگ اپنی قبروں میں عذاب کا شکار ہیں‘ اگر یہ ڈر نہ ہوتا کہ تم لوگ اپنے فوت شدگان کو قبروں میں دفن نہیں کروگے تو میں اللہ تعالیٰ سے درخواست کرتا کہ جس سزا کومیں سن رہا ہوں‘ وہ تمہیں بھی سنوا دی جائے؛ چنانچہ اللہ تعالیٰ سے قبر کے عذاب سے پناہ طلب کرو۔ آپﷺ نے مذکورہ جملہ تین بار ارشاد فرمایا اور صحابہ کرامؓ نے تین بار پناہ مانگی۔(صحیح مسلم:2867)
قارئین کرام! محمد بن اسماعیل بخاری ''کتاب الجنائز‘‘ میں حدیث لائے ہیں کہ جب قبر میں فرشتے کافر یا منافق سے پوچھتے ہیں کہ تم حضرت محمدﷺ کے بارے میں کیا کہتے ہو؟ تو وہ کہتا ہے کہ مجھے معلوم نہیں! لوگ جو کہتے پھرتے تھے‘ میں بھی وہی کہتا پھرتا تھا۔ اسے کہا جاتا ہے کہ تو نے نہ تو عقل سے کام لیا اور نہ ہی تو نے اگلے جہان کی زندگی کو معلوم کرنے کی کوشش کی۔ پھر اس کے دونوں کانوں کے درمیان (گدی) پر لوہے کے ہتھوڑے کی ایک ضرب لگتی ہے۔ وہ چیختا ہے تو سوائے انسانوں اور جنوں کے‘ جو قریب ہوتا ہے وہ سنتا ہے۔ (بخاری: 1338) جی ہاں! معلوم ہوا کہ جاندار سنتے ہیں۔
قارئین کرام! سوال پیدا ہوتا ہے کہ انسان کا جسم قبر میں مٹی بن جاتا ہے‘ اسی طرح بعض لوگ جل کر کوئلہ بن جاتے ہیں‘ بعض لوگ پانی میں ڈوب جاتے ہیں‘ کچھ مچھلیوں اور جانوروںکی خوراک بن جاتے ہیں۔ ان کے لیے صحیح مسلم میں ہی ایک حدیث ہے۔ حضور کریمﷺ نے فرمایا ''آدم علیہ السلام کے بیٹے کے جسم کو مکمل طو رپر مٹی کھا جاتی ہے‘ صرف اس جسم سے ''عجب الذنب‘‘ محفوظ رہتا ہے۔ وہ (اسی سے) پیدا کیا گیا اور اسی میں قیامت کے دن اٹھے گا۔ (مسلم:5438) یاد رہے! مذکورہ حدیث مسند احمد، سنن ابودائود، سنن نسائی اور سنن ابن ماجہ میں بھی ہے۔ حضور کریمﷺ نے اسے رائی کے دانے کی مثل قرار دیا ہے یعنی یہ ایک انتہائی مضبوط خلیہ ہے جو ہر انسان کی ریڑھ کی ہڈی کے اختتامی حصے میں واقع ہے۔ جدید میڈیکل سائنس سے بھی بات واضح ہوچکی ہے کہ 42 دن بعد‘ جب جنین اگلے 43 یا 44ویں دن میں داخل ہوتا ہے تو یہاں ایک کرنٹ پیدا ہوتا ہے جو ریڑھ کی ہڈی سے سر تک جاتا ہے۔ یعنی جنین کی نشوو نما ہو رہی ہوتی ہے کہ روح پھونک دی جاتی ہے تو یہاں کرنٹ پیدا ہوجاتا ہے اور جب موت واقع ہوتی ہے تو روح کو فرشتے لے جاتے ہیں، لہٰذا یہ ذرہ نما خلیہ زمین پر جہاں بھی ہو‘ یہی انسان کی حقیقی قبر ہے۔
مومن کی روح علیین اور جنت میں ہوتی ہے‘ وہیں سے زمینی قبر کے ساتھ معمولی سا تعلق ہوتا ہے۔ قیامت کے دن روح اس میں داخل ہوگی اور مومن اپنے نئے جسم کے ساتھ جنت میں داخل ہوجائے گا جبکہ کافر اور ظالم کی روح سجین اور جہنم کے سامنے ہوتی ہے۔ ان میں سخت ترین مجرم اور ظالم ہوتے ہیں، ان کی روحوں کا گہرا تعلق زمینی قبر کے ساتھ ہوتا ہے؛ چنانچہ ان کی سزا کے ضمن میں جب خوفناک آوازیں اٹھتی ہیں تو اس قبر کے قریب جو جانور ہوتے ہیں‘ وہ اسے سنتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کے حضور دعا ہے کہ وہ ہماری اخروی زندگی کو اس طرح بنادے جس طرح حضور کریمﷺ نے فرمایا کہ ''جب مومن کی روح آسمان کی طرف جاتی ہے تو آسمان والے (فرشتے) کہتے ہیں کہ (اے مومن روح!) تجھ پر سلام ہو۔ پاکیزہ روح ہے جو زمین سے آئی ہے۔ اس جسم پر بھی سلام ہو کہ جسے تو نے آباد کیے رکھا۔ اس کے بعد اسے اللہ کے سامنے لے جایا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: اسے قیامت تک کے لیے (بہترین مقام) پر لے جائو‘‘۔ (صحیح مسلم: 2872)