وزیراعظم عمران خان نے ملک عدنان کو اعزاز سے نوازا‘ اس لیے کہ اس نے پریانتھا کمارا کو بچانے کے لیے آخری حد تک اپنی جان کو خطرے میں ڈالا۔ جناب وزیراعظم نے کہا ''حیوانوں کے سامنے ایک انسان تھا‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ ذی شان میں ایک سورت کا نام ''الانسان‘‘ رکھا ہے۔ اس لفظ کی اصل ''انس‘‘ ہے۔ یعنی انسان وہ ہے جس میں ہر ذی روح کے ساتھ دلی لگائو کا معنی اور مفہوم پایا جائے۔ ''معجم المعانی‘‘ کے مطابق: اس میں ''لطف و کرم‘‘ کے جذبات پائے جائیں۔ یشعر بالانس والالفۃ‘‘ کے الفاط بھی آئے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ انسان وہ ہے جس میں انسیت و الفت کا شعور پا جائے۔ جس میں یہ خوبیاں نہ ہوں‘ وہ انسان نہیں بلکہ حیوان ہے لہٰذا وزیر اعظم نے درست فرمایا کہ حیوانوں کے سامنے ایک انسان تھا۔ حضرت الشیخ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ حسن سند کے ساتھ ایک حدیث لائے ہیں کہ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا: خاب عبد و خسر لم یجعل اللہ تعالیٰ فی قلبِ رحمۃً للبشر۔ ''وہ شخص برباد اور خسارے کا شکار ہوگیا کہ جس کے دل میں اللہ تعالیٰ نے بشریت کے لیے رحمت نہیں رکھی‘‘۔ (سلسلہ احادیث صحیحہ: 456)
یاد رہے کہ عربی زبان میں بشر ایسا لفظ ہے جو واحد بھی ہے اور جمع بھی۔ مذکر بھی ہے اور مونث بھی یعنی اس سے مراد بشریت ہے۔ اس میں بشارت کا معنی بھی پایا جاتا ہے۔ اس لیے جو شخص بشریت میں داخل ہے اس کے دل میں رحمت کا ہونا لازم ہے ،یہ نہ ہو تو سارے جہانوں کے لیے سراسر رحمت بن کر تشریف لانے والی ہستیﷺ کا فرمان واضح ہے کہ ایسا شخص برباد ہوگیا ہے۔ وہ خسارے میں ہے۔ نقصان سے دوچار ہے۔ بلندی سے ڈھلوان میں لڑھک گیا ہے۔ اس لیے کہ اس کا دل رحمت کی حامل بشریت سے خالی ہوگیا ہے۔ قدرتی اصول ہے کہ خلا باقی نہیں رہتا۔ ایسے شخص کے دل کا خلا شقاوت سے بھرے گا۔ حیوانیت اس میں گھر کر لے گی لہٰذا وزیراعظم صاحب نے درست کہا کہ ''حیوانوں کے سامنے ایک انسان تھا‘‘۔ یہاں یاد رکھنے کی بات یہ بھی ہے کہ حضور نبی کریمﷺ نے مومن نہیں‘ بشر کہاہے۔
حضرت انسؓ بن مالک کہتے ہیں کہ ایک دیہاتی شخص مسجد نبوی میں آیا‘ اس نے وہاں پیشاب کردیا۔ لوگ تو اسے دیکھ کر چیخ اٹھے‘ وہ اسے پکڑنے کو لپکے تو اللہ کے رسولﷺ نے ان سے کہا: چھوڑ دو اسے‘ اس کے پیشاب پر پانی کا ڈول بہا دینا، تمہاری ذمہ داری آسانی پیدا کرنے کی ہے۔ مصیبتیں کھڑی کرنے کی نہیں۔ (صحیح بخاری : 221، 6128)
لوگو! میرے حضور کریمﷺ کے صحابہ اب چپ چاپ کھڑے ہیں۔ حضور کریمﷺ کی وہ مسجد جس کی تعمیرآپ نے اپنے مبارک ہاتھوں سے کی‘ جہاں حضرت جبرئیل علیہ السلام تشریف لایا کرتے تھے‘ جہاں قرآن مجید کا نزول ہوتا تھا‘ اس مسجد میں ایک دیہاتی پیشاب کر رہا ہے۔ جب وہ پیشاب کرنے سے فارغ ہوگیا تو حضور کریمﷺ نے فرمایا: اب جائو اور اسے بلا کر میرے پاس لائو۔ وہ آیا تو حضور کریمﷺ نے اسے بڑے پیار سے سمجھاتے ہوئے فرمایا: یہ جو مساجد ہوتی ہیں نہ یہاں پیشاب کرنا مناسب ہے اور نہ ہی کوئی گندگی یہاں مناسب ہے۔ یہ تو صرف اللہ کے ذکر کے لیے ہیں۔ یہاں نماز پڑھی جاتی ہے۔ قرآن کی تلاوت کی جاتی ہے۔ (صحیح بخاری:219، صحیح مسلم: 661) بعض محدثین نے مذکورہ شخص کا نام ذوالخویصرہ بتایا ہے۔ یہ یمن کے ایک دیہی علاقے کا رہنے والا تھا۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دیہاتی جو حضور کریمﷺ کے پیچھے نماز ادا کر رہا تھا‘ وہ نماز ہی میں کہنے لگ گیا: اے اللہ! مجھ پر بھی رحم فرما اور حضرت محمدﷺ پر بھی رحم فرما‘ ہمارے ساتھ کسی اور پر بالکل رحم نہ کرنا۔ جب حضور کریمﷺ نے سلام پھیرا تو اس دیہاتی سے کہا: تم نے اللہ تعالیٰ کی وسیع رحمت کو محدود کردیا۔ (صحیح بخاری:6010)
قارئین کرام! غور فرمائیں اس سادہ دیہاتی کی سوچ پر کہ حضور کریمﷺ کی شفقت و رحمت اور کریمانہ اخلاق کا اثر یہ ہوا کہ جنہوں نے اس کی طرف گھور کر دیکھا اس نے انہیں اللہ کی رحمت کے دائرے سے باہر کر دیا اور کہا کہ رحمت صرف مجھ پر اور لوگوں کے غضب سے بچانے والے حضرت محمد کریمﷺ پر ہو... جی ہاں! لوگوں کا پیار تو انسانی محبت کے رویوں سے ہی ملتا ہے۔ کاش ہمارے رویے ایسے ہوجائیں۔
آہ! بے چارا پریانتھا کمارا‘ وہ تو غیر مسلم تھا‘ دیانتدار افسر تھا‘ پاکستان سے محبت کرتا تھا‘ وہ اردو لکھنا پڑھنا نہ جانتا تھا۔ وہ تو میرے آپ کے ملک کو زرمبادلہ دلا رہا تھا، ڈالر‘ پائونڈ اور یورو یہاں لا رہا تھا۔ وہ تودیواروں سے سٹیکر ہٹا رہا تھا اور ہٹوا رہا تھا۔ اسے بتایا گیا کہ آپ نے جو سٹیکر اتارا ہے، وہ مذہبی نوعیت کا ہے تو اس نے معذرت بھی کرلی... مگر اس کے باوجود محض حسد اور بغض میں اس کے ایک پائوں کے علاوہ‘ سب ہڈیاں توڑ دی گئیں، چہرہ مسخ کردیا گیا۔ مسخ کرنے سے تو اللہ کے رسولﷺ نے منع فرمایا ہے۔ مزید ظلم یہ کیا گیا کہ لاش کو جلا کر کوئلہ بنادیا گیا۔ حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا: نبیوں میں سے ایک نبی نے سفر کے دوران ایک درخت کے نیچے آرام کیا تو انہیں ایک چیونٹی نے کاٹ لیا‘ انہوں نے چیونٹیوں کی بستی کو جلا دینے کا حکم دیا تو وہ جلادی گئی۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی کی گئی کہ آپ کو ایک چیونٹی نے کاٹا مگر آپ نے امتوں میں سے چیونٹیوں کی ایک ایسی امت جلا ڈالی جو اللہ کی تسبیح بیان کرتی تھی۔ مارنا تھا تو کاٹنے والی چیونٹی تک ہی کیوں نہ رہے؟ (صحیح بخاری: 3019، 3319) حضرت عبداللہؓ بن مسعود کہتے ہیں کہ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا:آگ کے رب کے علاوہ کسی کو آگ سے جلانے کی سزا دینے کا کوئی حق نہیں۔ (سنن ابودائود: 2673)
قابلِ غور مقام یہ ہے کہ اَن پڑھ اور جاہل ہجوم نے اللہ تعالیٰ کے محبوب حضرت محمد کریمﷺ کے تمام فرمودات کی خلاف ورزی کی۔ پریانتھا کمارا کی لاش کو جلا کر اس کے دونوں بچوں‘ بیوی اور باقی رشتہ داروں پر بھی ظلم کیا کہ وہ اپنے پیارے کی لاش کا چہرہ بھی نہ دیکھ سکے۔ بات وہی ہے جو وزیراعظم پاکستان نے کی کہ ''حیوانوں کے سامنے ایک انسان تھا‘‘ ایک وہ تھا جو ظلم کا شکار ہوا اور دوسرا انسان وہ تھا جس نے بچانے کی مقدور بھر کوشش تو کی‘ گو کہ وہ ناکام ٹھہرا مگر ناکام ہو کر بھی کامیاب ہو گیا کہ چلو! ہزاروں کے مجمع میں ایک تو انسان تھا۔
2004ء میں جو سونامی آیا تھا‘ سری لنکا کے اس میں لگ بھگ 27 ہزار لوگ مارے گئے تھے۔ تب اہلِ لاہور سے اپیل کی تو ایک کروڑ کا سامان ملا۔ میں نے وہ سامان ہائی کمشنر جنرل (ر) ویرا سوریا کے حوالے کیا۔ سری لنکا پہنچانے کا خرچہ بھی دیا۔ سری لنکا گیا بھی۔ بلاامتیاز وہاں نقدی بھی تقسیم کی تب وہاں کے انگریزی اخبارات نے اہلِ پاکستان کی محبتوں کو خوب سر اہا۔ سری لنکا کی صدر تب ''چند ریکا بندرانائیکے کمارا ٹنگا‘‘ تھیں۔ وہ حکومت پاکستان او راہلِ پاکستان کا شکریہ ادا کرنے آئیں تو تقریب میں ہمیں بھی مدعو کیا گیا۔ سری لنکا میں علیحدگی پسندوں کے ایک حملے میں صدر چندریکا کی ایک آنکھ ضائع ہوگئی تھی۔ وہ ایک آنکھ کے ساتھ پاکستان میں آئیں۔ تامل علیحدگی پسندوں کے پیچھے بھارت تھا۔ حکومت پاکستان نے سونامی کے سانحہ میں مدد کی تو علیحدگی کی تحریک کے خاتمے میں بھی سری لنکا کی اخلاقی اور سفارتی مدد کی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ سری لنکا دو ٹکڑے ہونے سے بچ گیا وگرنہ بھارت کا پروگرام وہی تھا جو اس نے دسمبر 1971ء میں پاکستان کے ساتھ کیا تھا۔ صدر چندریکا واپس گئیں تو سری لنکا میں چند ماہ بعد امن و سکون ہوگیا۔
سری لنکا دنیا کا وہ ملک ہے جہاں سب سے زیادہ آنکھیں عطیہ کی جاتی ہیں جو ساری دنیا میں نابینائوں کو روشنی دیتی ہیں۔ 35 ہزار آنکھیں پاکستان آچکی ہیں۔ چندریکا بھی اپنی ایک آنکھ کی بینائی بحال کرواچکی ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہماری حکمرانی کو وہ آنکھیں کب ملیں گی کہ جو خود بھی دیکھیں اور سارے جہاں کو بھی دکھائیں کہ مجرموں کو سر عام سزا دے دی گئی ہے۔ میں نے جنرل (ر) ویرا سوریا کا خط‘ جو انہوں نے میرے نام بھیجا تھا‘ نکالا اور اسے دیکھ دیکھ کر روتا رہا کہ قیامت کے دن ہم اپنے رب کے محبوب شافعِ روزِ محشرﷺ کو کیا منہ دکھائیں گے کہ ہم نے آپﷺ کا مبارک نام لے کر اسلام کو بدنام کیا‘ آپ کے کلمے پر بننے والے وطن اور اہلِ اسلام کو بھی بدنام کیا۔ جی ہاں!دھبہ تو صرف انصاف اور عدل ہی مٹا سکتا ہے۔ حیوانوں کے ساتھ کیا ہوتا ہے؟ ایک بار پھر دیکھ لیتے ہیں۔