اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب ''قرآنِ مجید‘‘ کا درس دینے ایک گائوں میں گیا۔ جس گھر میں کھانا تھا‘ وہاں جب کھانا کھایا جا چکا تو برآمدے میں عشا کی نماز ادا کرنے کا انتظام کردیا گیا۔ میں نے وہاں موجود چند احباب کو نماز پڑھا دی اور نمازیوں کی طرف چہرہ پھیر کر بیٹھ گیا۔ جب تھوڑی دیر بعد میں اُٹھ کر کمرے میں جانے لگا تو ایک بزرگ خاتون دوسرے کمرے سے باہر نکلیں اور مجھے سلام کرنے کے بعد زار و قطار رونے لگ گئیں۔ میں نے رونے کا سبب پوچھا تو کہنے لگیں: میرا بیٹا مجھ سے ناراض ہے‘ اس نے اپنی زرعی زمین میں اپنا گھر اور ڈیرہ بنا لیا ہے‘ گزشتہ ڈیڑھ سال سے وہ مجھے نہیں ملا۔ اب اس کو اللہ تعالیٰ نے بیٹا دیا ہے‘ وہ چھ ماہ کا ہوگیا ہے مگر میں نے اسے دیکھا تک نہیں۔ روتی ہوئی یہ ماں اپنے دوسرے بیٹے کے ہمراہ ہمارے ساتھ کمرے میں بیٹھ گئی اور اپنی داستان سنانے لگی۔ مرکزی بات یہ تھی کہ اس کا بیٹا سسرال کا بن کر رہ گیا تھا۔ ''اس نے مجھے چھوڑ کر ساس کو ماں بنا لیا ہے‘‘۔ میں نے کہا: ساس کو بھی ماں بنائے مگر جو اصل ماں ہے‘ وہ توآپ ہیں۔ میں نے سب سے پہلے اپنے اللہ سے تعلق کو جوڑا کہ اے مولا کریم! ماں بیٹے کی رنجشیں میرے ہاتھوں سے دور فرمادے۔ دلوں میں محبتوں کی مری ہوئی مٹی کو شاداب کر کے زندگی عطا فرما دے۔ پھر میں نے وہاں موجود دوستوں سے کہا: اسے فون کرو اور میرا نام لے کر کہو کہ حمزہ صاحب بلا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انعام فرمایا اور مذکورہ نوجوان کچھ دیر بعد میرے سامنے تھا۔ منظر دیدنی تھا۔ ماں بیٹا آمنے سامنے تھے۔ میں نے کہا: بیٹے ماں سے بغلگیر ہوجائو۔ ماں نے بیٹے کو گلے لگا لیا۔ بیٹے کے بازو اب بھی آگے نہیں بڑھے۔ میں نے گرجدار آواز سے کہا: ماں کو اپنے بازوؤں میں لو۔ اس طرح جس طرح قرآن فرماتا ہے کہ ''انتہائی رحمت کے جذبات کے ساتھ ماں باپ کے لیے انکساری کا بازو پھیلادو‘‘۔ (بنی اسرائیل: 24) نوجوان نے میرے الفاظ پر بحمد للہ عمل کرلیا۔ اب ماں اپنے بیٹے کو چوم رہی تھی۔ سب لوگوں کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ میری آنکھوں سے بھی آنسو چھلک پڑے۔ لوگوں نے کہا: شیخ صاحب! سارے گائوں کے لوگ کوشش کر بیٹھے تھے مگر یہ نہیں مانا۔ اللہ آپ کو جزائے خیر دے! آپ کے پیغام پر فوراً عمل کر لیا۔ میں نے کہا؛ میرے کہنے پر کہاں آنے والا تھا‘ اسے تو آسمانوں والا لایا ہے۔ میں نے اللہ کے ساتھ رابطہ کرکے اسے بلوایا۔ سب انسانوں کی پیشانیاں اس کے ہاتھ میں ہیں فرمایا ''ہر جاندار کی پیشانی کو وہی (اللہ) پکڑے ہوئے ہے‘‘۔ (ہود:56)
نوجوان کو اب میں نے پیار اور شفقت کے ساتھ سمجھانا شروع کردیاکہ دیکھو ساس کی عزت کرو‘ ضرور کرو‘ اس کو ماں سمجھو کہ اس کی بیٹی تمہاری عزت ہے‘ تمہاری اولاد کی ماں ہے لیکن وہ تمہاری بیوی کے رشتے سے تمہاری ماں ہے‘ وہ اعزازی ماں ہے اصل ماں نہیں! اصل ماں وہی ہے جس نے جنم دیا ہے۔ قرآن آگاہ فرماتا ہے ''ان کی مائیں صرف اور صرف وہی ہیں جنہوں نے ان کو جنم دیا ہے‘‘۔ (المجادلہ:2) لہٰذا یہ بات ذہن سے کبھی محو نہیں ہونی چاہئے کہ اصل اور حقیقی ماں وہی ہے جس نے بچے کو 9 ماہ پیٹ میں سنبھال کر رکھا اور پھر اسے جنم دیا۔ حضور نبی کریمﷺ پرنازل ہونے والا قرآنِ مجید کیا خوبصورت نقشہ کھینچتا ہے۔ فرمایا''ہم نے انسان کو اپنے ماں باپ کے ساتھ حسین و جمیل سلوک کرنے کی وصیت فرمائی۔ (اس ساڑھے پانچ‘ چھ فٹ کے انسان کو) اس کی ماں نے متواتر تکلیف دہ حالتوں کے اندر (پیٹ میں) اٹھائے رکھا۔ انتہائی تکلیف دہ حالت میں اسے جنم دیا‘‘۔ (الاحقاف :15) ماں کا مقام قرآنِ پاک سے یوں بھی سمجھو کہ اس زمین پر جب حضرت آدم علیہ السلام کو اتارا گیا تومکہ میں اتارا گیا‘ ان کے ساتھ حضرت حوا علیہا السلام کو بھی اتارا گیا تو یہیں اتارا گیا۔ یہ پہلی انسانی بستی تھی جہاں سے انسانی نسل کا آغاز ہوا۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اسے ''ام القریٰ‘‘ کہا ہے۔ فرمایا ''(اے میرے پیارے رسولﷺ ) ام القریٰ اور اس کے ارد گرد کی ساری بستیوں (روئے زمین) کے لوگوں کو (میری پکڑ سے) ڈرا دو‘‘۔ (الانعام :92) جی ہاں! بستیاں ، گائوں، شہر اور بھی بہت ہیں مگر بستیوں کی ماں صرف ایک ہے اور وہ مکہ مکرمہ ہے۔
انسان کی ساس بھی ماں ہے‘ خالہ بھی ماں ہے‘ چچی او رپھوپھی بھی ماں ہیں‘ بزرگ خواتین بھی مائیں ہیں مگر یاد رکھیں! اصل ماں وہی ہے جو جنم دینے والی ہے۔ اللہ نے مکہ مکرمہ کو ماں کہہ کر ماں کی عظمت کو چار چاند لگا دیے ہیں۔ مجھے بتائو تم اس وقت کہاں تھے جب تمہارا باپ تمہاری ماں کا ہاتھ تھامے، لیڈی ڈاکٹروں کو چیک کرواتا پھرتا تھا‘ اچھی خوراک کا بندوبست کرتا تھا۔ پھر وہ لیبر روم کے باہر بیٹھا انتظار کی گھڑیاں گن رہا تھا کہ مولا کریم! زچہ بھی سلامت رہے‘ بچہ بھی سلامت رہے۔ اور جب نرس نے روتا ہوا بچہ باپ کے ہاتھوں میں تھمایا تو لڈو اور گلاب جامن بانٹے جا رہے تھے۔ ارے کمبخت! اس ماں کے شکوے کرتا ہے۔باز آجا، اللہ تعالیٰ کی گرفت سے بچ جا۔
تیری بیوی اگر زیادتی کرتے ہوئے اپنی ماں کی جانب تجھے کھینچتی ہے تو توازن قائم رکھنا تیری ذمہ داری ہے۔ تیری بیوی اب اپنی ماں سے بڑھ کر تیری اطاعت میں ہے لہٰذا تم اپنی بیوی کو سمجھائو کہ تیرا نیا گھر میری ماں کا گھر ہے‘ اسے اپنا گھر سمجھو۔ اس لیے کہ اولیت خاوند کے گھر کو حاصل ہے۔ نسب یہیں سے چلتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں آگاہ فرما دیا ہے ''وہ اللہ جس نے پانی کے ساتھ انسان کو پیدا فرمایا پھر اس کو نسب والا اور سسرال والا بنا دیا‘‘۔ (الفرقان:54) یعنی مرد کو سسرال ملا‘ عورت کو بھی سسرال ملا مگر عورت اپنا گھر چھوڑے گی اور مرد کے گھر آئے گی‘ یہیں سے نسب چلے گا۔ اولاد کی نسبت مرد کی جانب ہوگی۔ عورت کو یہیں پرماں بننا ہے اور اپنے خاوند کی ماں کو اہمیت دینی ہے‘ تبھی نظام درست چلے گا۔ تمہیں اپنی بیوی کی ماں کو بھی عزت دینا ہوگی۔ اس سے تمہاری بیوی کے دل میں تمہاری عزت اور محبت پیدا ہوگی یوں دو پہیوں کے ساتھ گاڑی رواں دواں رہے گی۔
سنن ترمذی کی کتاب البر اور سنن ابن ماجہ کی کتاب الادب میں حضور نبی کریمﷺ نے نیکی اور ادب کی بات بتادی ہے کہ تین بار ماں کے ساتھ حسنِ سلوک کی تلقین فرمائی اور ایک بار باپ کے ساتھ اچھے سلوک کی تلقین فرمائی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ماں کا درجہ باپ سے تین گنا بڑھ کر ہے۔ حافظ محمد بن عیسیٰ ترمذی ایک اور حدیث شریف لائے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص اللہ کے رسول کی خدمت میں حاضرہوا۔ کہنے لگا: اے اللہ کے رسولﷺ! میں نے ایک بہت بڑے گناہ کا ارتکاب کرلیا ہے‘ کیا کوئی توبہ کی صورت ہے؟ آپﷺ نے استفسار فرمایا: کیا تیری ماں زندہ ہے ؟ کہنے لگا: جی نہیں۔ پھر پوچھا: کیا تیری کوئی خالہ ہے؟ کہا: جی ہاں! فرمایا: جا اور اس کے ساتھ حسن سلوک کر۔ (تیرا گناہ معاف ہوجائے گا)۔ یعنی اصل ماں نہ ہو تو پھر بھی دوسرا نمبر خالہ کا ہے۔ اس لیے کہ وہ ماں کی سگی بہن ہے۔
قارئین کرام! میرے وعظ کے بعد ماں کا نافرمان اپنے ہتھیار پھینک چکا تھا‘ وہ تائب ہوچکا تھا۔ اب میں نے اسے کہا کہ کل ہی تم نے اپنے نومولود بیٹے کو یہاں لاکر دادی کی گود میں رکھنا ہے۔ اس نے کہا: جی محترم شیخ صاحب! کل ہی تعمیل ہوگی۔ اب میں نے اللہ کا شکر ادا کیا۔ سب اہل خانہ کے ساتھ اور احباب کے ہمراہ مل کر دعا کی اور درسِ قرآن کے لیے مسجد کی جانب چل دیے۔
میری اہلیہ محترمہ بشریٰ امیر صا حبہ بھی عالمہ فاضلہ اور کالم نگار ہیں۔ چند روز قبل ان کی پھوپھی فوت ہوگئیں۔ اسّی سال کے قریب ان کی عمر تھی‘ چھ بیٹے اور چھ بیٹیاں تھیں۔ چھ بیٹوں کے گھر ایک ہی جگہ باہم ملے ہوئے ہیں۔ پچھلے سات ماہ سے ان کو کینسر تھا۔ چھوٹے بیٹے بابر نے اپنے گھر کی آرائش کے لیے پانچ لاکھ کے قریب پیسے جمع کر رکھے تھے۔ آرائش کے بعد شادی کا پروگرام تھا۔ اس بیٹے نے سارے پیسے ماں پر خرچ کردیے۔ وہ دن رات ماں کے سرہانے کھڑا رہا۔ ماں انتہائی نیک، تہجد گزار، ہزاروں بچوں بچیوں کو قرآن کی تعلیم دینے والی تھی۔ نام ان کا فاطمہ تھا اور وہ واقعی حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کے اسوہ پر چلنے والی تھیں۔ داڑھ کا کینسر تھا‘ منہ سے ریشہ نکلتا تھا۔ بابر ٹشو پیپر سے صاف کرتا رہتا تھا۔ علاج مکمل ہونے پر گھر آگئی تھیں۔ اب سارے بیٹے 24 گھنٹے باری باری ماں کی تیمارداری کرتے تھے‘ اس کی خدمت کرتے تھے۔ میں ان کی عیادت کے لیے گیا‘ فرمانے لگیں: کئی دنوں سے نیند نہیں آئی‘ دم کردیں۔ میں نے دم کردیا شبِ جمعہ کو سکون سے سو گئیں۔ بیٹے‘ بیٹیاں بڑے خوش ہوئے کہ ماں کو سکون ملا ہے۔ اگلے دن جمعہ تھا۔ میں نے دوبارہ دم کیا۔ مجھے اور میری اہلیہ کو دعائیں دینے لگ گئیں۔ بابر اور سب اولاد کو دعائیں دینے لگ گئیں کہ خدمت انہوں نے خوب کی۔ اچانک طبیعت میں تبدیلی واقع ہوئی‘ اس لیے کہ لینے والے آگئے تھے۔ جب جمعۃ المبارک کی پہلی اذان ہوئی تو اماں فاطمہ کے ہونٹ اللہ کے ذکر سے حرکت میں تھے۔ جونہی اللہ اکبر کی صدا بلند ہوئی‘ انہوں نے اذان کا جواب دیا اور روح پرواز کر گئی۔ میں نے بابر سے کہا: تم نے ماں کی خدمت کرکے جنت پالی، ان شاء اللہ! جی ہاں ہر اس شخص نے پالی جس نے بھی ماں کی عظمت کو پالیا‘ اپنے آپ کو ماں کا خادم بنا لیا۔