"AHC" (space) message & send to 7575

امام قرطبیؒ و ابن کثیرؒ اور حبل سپیس دوربین

ایڈون حبل شکاگو یونیورسٹی‘ امریکہ کا تعلیم یافتہ تھا۔ یہ فلکیاتی سائنسدان 1889ء میں پیدا ہوا۔ اس نے اپنی دوربین کے ذریعے دیکھا کہ ہماری گلیکسی ''ملکی وے‘‘ کے علاوہ بھی بہت ساری گلیکسیاں ہیں جو دور بھاگ رہی ہیں۔ اس سے یہ حقیقت آشکار ہوئی کہ کائنات پھیل رہی ہے۔ ایڈون حبل 1953ء میں فوت ہوگئے۔ امریکہ کے خلائی ادارے ناسا نے ان کے نام سے ''حبل دوربین‘‘ 1990ء میں زمین کے مدار میں بھیجی۔ 30 دسمبر 2021ء کی صبح تک‘ اس دوربین نے سائنس میں انقلاب بپا کردیا۔ 32 سال تک سائنس اس سے مستفید ہوتی رہی۔ اس میں نقص پیدا ہواتو خلانوردوں نے خلا میں ہی جاکر اسے ٹھیک کیا۔ وہ اسے ''اَپ ڈیٹ‘‘ بھی کرتے رہے۔ اس دوربین نے بھی واضح کردیا کہ کائنات روشنی کی رفتار سے پھیلتی چلی جا رہی ہے۔ ناسا نے حبل کے علاوہ اس دوران تین مزید دوربینیں خلا میں روانہ کیں۔ چندرا (Chandra) سپائزر (Spitzer) اور کومپٹن (Compton) نے بھی یہی رزلٹ دیا کہ کائنات روشنی کی رفتار سے پھیل رہی ہے۔
آئن سٹائن نے پیش گوئی کی تھی کہ خلا میں جو ستارے‘ سیارے اور ان کے چاند وغیرہ ہیں‘ وہ سب ایک کپڑے (Fabric) میں بُنے ہوئے ہیں۔ دوربینوں کے رزلٹ سے اس کی بھی تصدیق ہوگئی؛ چنانچہ معروف نظریاتی سائنسدان سٹیفن ہاکنگ نے اپنی کتاب (Universe in nutshell) میں سورج اور چاند‘ ستاروں کو اسی فیبرک میں پرویا ہوا دکھایا۔ آج کی سائنس میں ایسی تصاویر ایک حقیقت ہیں۔ سٹیفن ہاکنگ جیسے کئی نظریاتی فزکس کے سائنسدانوں میں ایک نمایاں نام پروفیسر سین کا رول کا ہے۔ وہ ہارورڈ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی ہیں۔ لکھتے ہیں:
Space- time can be thought of as a fabric in which the objects of the universe are embedded. Those objects- Stars, Planets.
سپیس ٹائم کو ایسے سمجھا جا سکتا ہے کہ جیسے ایک ایسا کپڑا ہے جس میں کائنات کے اجرام مضبوطی سے جمے ہوئے اور اس کے اندر سرایت کیے ہوئے ہیں۔ وہ اجرام ستارے اور سیارے ہیں۔
ہسپانیہ یا سپین‘ جو اندلس کے نام سے مسلمانوں کے دور میں معروف تھا اور وہاں انہوں نے 8 سو سال حکمرانی کی، جدید سائنس کی بنیادوں کو استوار کیا‘ کے شہر قرطبہ کے حوالے سے امام محمدبن احمد قرطبیؒ معروف ہیں۔ وہ 1214ء میں پیدا ہوئے اور 1273ء میں فوت ہوئے۔ آپ خزرجی اور انصاری تھے یعنی ان کے آبائو اجداد مدینہ منورہ کے رہنے والے تھے‘ حضور نبی کریمﷺ کے صحابی و دست و بازو تھے۔ امام قرطبی محدث اور مفسر تھے۔ اپنی تفسیر میں‘ جو تفسیر قرطبی کے نام سے مشہور ہے‘ ''والسمائِ ذاتِ الحبک‘‘ (قسم ہے آسمان کی جو کپڑے کی طرح بُنا ہوا ہے، الذاریات :7) کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ، حضرت قتادہؓ، حضرت مجاہدؒ، جناب ربیعؒ اور جناب عکرمہؒ کہتے ہیں کہ جب کپڑے کو بن دیا جائے اور خوب اچھی طرح بنتی کردی جائے تو اسے ''حبک الثوب حبکا‘‘ کہا جاتا ہے۔ 1۔یہ ایسی تخلیق ہے جو خوبصورت اور متوازن ہے۔ انتہائی مضبوط ہے۔ 2۔ جناب حسن کہتے ہیں کہ اس میں زینت ہے۔ 3۔جناب حسن کہتے ہیں کہ اس سے مراد ستارے ہیں یعنی ستاروں کی زینت ہے۔ 4۔ جناب ضحاکؒ کہتے ہیں کہ اس سے مراد راستے ہیں۔ جیسے پانی پر ہوا چلتی ہے تو لہریں بنتی ہیں۔ ریت پر ہوا چلتی ہے تو اس کی سلوٹیں بنتی ہیں۔ لوہے کی قمیص جالی دار ہو یا گھنگریالے بال ہوں۔ ان سب کو ''حبک‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ ستارے بھی بُنے ہوئے ہیں۔ وہ بندوں سے دور ہیں لہٰذا وہ اسے یعنی بنتی کو دیکھ نہیں سکتے۔ 5۔ یہ بنتی انتہائی مضبوطی سے تخلیق کی گئی ہے۔ 6۔ یہ آسمان ''ذات الصفاقۃ‘‘ ہے یعنی جس طرح ظاہری جلد کے نیچے باطنی جلد ہوتی ہے۔ اسی طرح آسمان ایک باطنی کھال ہے۔ 7۔ اس سے مراد گلیکسی کے راستے ہیں وہ راستے جو آسمان میں ہیں، ان راستوں پر چلنے کی تاثیر رکھتے ہیں۔
قارئین کرام! امام قرطبیؒ کے یہ سات پوائنٹ تھے جوہم نے قدرے اختصار کے ساتھ بیان کر دیے۔ انگریزی میں امام قرطبیؒ کے ایک پوائنٹ کا ترجمہ یوں ہے: And the sky that is interwoven۔ یہ آسمان پیچیدگی کے ساتھ باہم بُنا ہوا ہے۔
لوگو! غور کرو۔ سائنس کی دنیا تو آج بھی آسمان کو Space کہہ رہی ہے۔ سب خلائی ادارے ''سپیس ایجنسیاں‘‘ ہیں؛ یعنی آسمان خالی ہے ‘ خلا ہے۔ اس میں کچھ نہیں۔ قرآن میں اسے خالی جگہ یا سپیس نہیں کہا گیا۔ ہمارے حضور نبی کریمﷺ نے اپنے فرمودات میں اسے سپیس نہیں قرار دیا‘ اسے جالی دار کپڑا قرار دیا۔ جی ہاں! امام قرطبیؒ کے ساتوں پوائنٹ آج کی سائنس تسلیم کر چکی ہے مگر اصطلاحات کو بدلنے پر تیار نہیں۔ امام قرطبیؒ کی شرح نو سو سال پرانی ہے۔ وہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ جیسے اولین مفسر صحابی سے آغاز کرتے ہیں اور تابعین، تبع تابعین اور ان کے بعد مفسرین کا ذکر کرکے اپنے تک بات لاکر ثابت کرتے ہیں کہ تمام علماء کرام آسمان کو Fabric مانتے تھے۔
قارئین کرام! میں مندرجہ بالا حقائق اس لیے لایا ہوں کہ ان لوگوں کا منہ بند کردوں جو طعن کرتے ہوئے یہ کہتے ہیںکہ آج کے مسلم سکالر ہر نئی ریسرچ کو قرآن اور حدیث سے ثابت کرنا شروع کردیتے ہیں۔ دلائل کے ساتھ ایسے لوگوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ آج کی سائنس کے ثابت شدہ حقائق کو بھی سائنسدان ماننے کے لیے تیار نظر نہیں آتے۔ کسی حد تک مانتے بھی ہیں تو اصطلاحات کو بدلتے نہیں۔ اپنی غلطیاں مانتے نہیں۔
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ جو امام المفسرین ہیں‘ لگ بھگ ساڑھے چھ سو سال قبل مندر جہ بالا آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
And the sky is woven.
یعنی آسمان بنا گیا ہے۔ آج کی سائنس بھی اس حوالے سے Weave اور Woven کے الفاظ لائی ہے۔ یہ اپنے موقف کی تبدیلی نہیں تو اور کیا ہے؟ قرآنِ مجید کا فرمان اور اس کی تشریح‘ جو مفسرین نے فرمائی اس میں کوئی تبدیلی نہیں۔ قرآنِ پاک کا یہ اعجاز ہے اور ہمارے حضور عالیشان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت و رسالت کا قطعی اور حتمی ثبوت اور برہان ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: والسماء بنیناہا باید وانا لموسعون (الذاریات :47) ''آسمان کو ہم نے ہاتھ سے بنایا اور بلاشبہ ہم اسے متواتر وسعت دینے (پھیلانے) والے ہیں‘‘۔ جی ہاں! دونوں چیزوں کا اعلان حضور کریمﷺ پر نازل ہونے والے قرآنِ مجید نے فرمایا کہ آسمان کو بنایا گیا ہے‘ لہٰذا Creation کو تسلیم کرو۔ بناوٹ بھی ایسے ہے جیسے کپڑے کی بناوٹ ہو۔ پھر یہ بات کہ اللہ تعالیٰ نے ہاتھ کا ذکر فرمایا تو آسمان کی چادر کی عظمت کا بتانے کے لیے ذکر کیا کہ یہ خالی جگہ نہیں ہے بلکہ ایک بناوٹ ہے۔ آج بعض سائنسدانوں نے آسمان کی اس بنتی کو شرماتے اور جھجکتے ہوئے Cosmic Building کہنا شروع کیا ہے مگر ابھی کھل کر کہنا نہیں شروع کیا ہے۔ پروفیسر سین کا رول (Sean Carrroll) مزید لکھتے ہیں:
In recent years, many of us have been trying to figure out what might be the threads from which the fabric of reality is woven.
ترجمہ: حالیہ دور میں ہم میں سے بہت سارے سائنسدان کوشش کرتے رہے ہیں کہ وہ اس چیز کو سامنے لائیں کہ وہ کیا دھاگے ہو سکتے ہیں کہ جن سے حقیقت کی چادر کی بنتی کی گئی ہے؟
نیوسائنٹسٹ کے حوالے سے 11 ستمبر 2019ء کو موصوف مزید رقمطراز ہوتے ہیں:
Space- time is simply the physical universe in side which we and everything else exists.
ترجمہ: سادہ لفظوں میں سپیس ٹائم کا مطلب ایک مادی کائنات ہے جس کے اندر ہم اور ہر دوسری چیز موجود ہے۔
جی ہاں! سٹیفن ہاکنگ نے یہی کہا تھا کہ کائنات ایک اخروٹ میں بند ہے۔ قرآنِ مجید نے ساڑھے چودہ سو سال قبل سورہ رحمن میں اعلان کیا تھا: ''اے جنوں اور انسانوں کے گروہو! اگر تم ہمت رکھتے ہو کہ کائنات کے کناروں سے بھاگ اٹھو تو ایسا کر کے دکھائو۔ غلبے کے بغیر تو ایسا تم نہیں کر سکتے۔ (اور وہ کہاں؟)‘‘ قارئین کرام! یہ تھے حقائق حبل سپیس دوربین تک، جیمز ویب ٹیلی سکوپ کے حوالے سے باتیں آئندہ جمعۃ المبارک کو۔ ان شاء اللہ تعالیٰ!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں