اللہ کے رسولﷺ کے صحابی حضرت عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن رواحہؓ (خیبر کی فتح کے بعد) ہر سال خیبر جاتے۔ یہود کے پاس پہنچتے اور (ریاستِ مدینہ کے مندوب کی حیثیت سے) پھلوں اور فصلوں کا حساب لگاتے اور (ان کے مالکوں سے) حصہ وصول کرتے۔ یہودیوں نے اللہ کے رسولﷺ کے پاس حاضر ہوکر شکوہ کیا کہ حضرت عبداللہؓ بن رواحہ جب (ریاست مدینہ کے) حصے کا حساب لگاتے ہیں تو سختی کرتے ہیں۔ دوسری جانب یہود نے حضرت عبداللہؓ بن رواحہ کو رشوت دینے کی پیشکش بھی کی (کہ ریاست کا حصہ کم کردو اور اس کے بدلے میں اپنا ذاتی فائدہ ہم سے لے لو) اس پر حضرت عبداللہ بن رواحہؓ نے ان کو جواب دیا ''اللہ کے دشمنو! تم مجھے حرام کھلانا چاہتے ہو؟ سنو اور یاد رکھو! اللہ تعالیٰ کی قسم اٹھا کر کہتا ہوں میں اس ہستی (رسولﷺ ) کا نمائندہ بن کر آیا ہوں جو سارے جہان کے انسانوں سے کہیں بڑھ کر مجھے محبوب ہے‘ جہاں تک تمہارا تعلق ہے تو مجھے ساری انسانیت سے بڑھ کر تم پر غصہ اس وجہ سے ہے کہ (ایسے کردار ہی کی وجہ سے ) تمہارے لوگوں کو بندر اور خنزیر بنایا گیاتھا‘ اس کے باوجود‘ کان کھول کر سن لو! اپنے پیارے رسولﷺ کے ساتھ محبت اپنی جگہ پر‘ تم پر (تمہارے کردار کی وجہ سے) غصہ اپنی جگہ پر‘ یہ نہیں ہوسکتا کہ میں تمہارے ساتھ کوئی ناانصافی کروں۔ یہ سن کر یہودی کہنے لگے: بھذا قامت السمٰوات والارض، اسی عدل کی وجہ سے زمین و آسمان قائم ہیں۔ (ابودائود: 3006۔ حسن)
قارئین کرام! ثابت ہوا کہ یہودی‘ جو اہل کتاب تھے وہ تورات اور اپنے انبیاء کرام کے صحائف میں موجود اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھتے تھے کہ زمین پر عدل و انصاف قائم رہے گا تو آسمان و زمین موجود رہیں گے‘ یہ عدل جب ظلم میں بدلے گا تو قیامت کا آغاز ہوجائے گا۔ مزید یہ کہ آسمانوں اور زمین میں بھی اللہ تعالیٰ نے ترازو قائم رکھا ہوا ہے۔ جی ہاں! یہود یہ سب سمجھنے کے باوجود کردار میں ظالم اور رشوت خور تھے۔ معاف کرنا، آج ہم مسلمانوں کا حال بھی ایسا ہی ہو چکاہے۔ مسلم حکمرانوں کے کردار بھی ظلم اور جھوٹ پر مبنی دُہرے او ردوغلے ہیں اور ہم عوام بھی انہی کے نقش قدم پر ایسے ہی ہیں‘ لہٰذا عزت کیسے ملے؟ ہاں! عزت اس روز ملنا شروع ہوگی جب ریاست مدینہ کی بات کرنے والوں کا کردار حضرت عبداللہ بن رواحہؓ جیسا بنے گا۔ ان کی گواہی تو یہود نے دی تھی۔ میرے وطن عزیز کے مندوبوں کی گواہی کون دے گا؟ اے پیارے حکمرانو! آپ اپنے لیے دشمن ملکوں اور دشمن لوگوں کی گواہی تلاش کرو مگر یاد رکھنا یہ نعمت تلاش کرنے سے نہیں ملتی۔
تب تک ہم آسمان کا رخ کرتے ہیں۔ امریکا کے خلائی ادارے 'ناسا‘ یورپین سپیس ایجنسی (E.S.A) اور کینیڈین سپیس ایجنسی (C.S.A) نے مل کر ایک 'ٹائم مشین‘ بنائی۔ اسے ایک سائنسدان کے نام پر ''جیمز ویب ٹیلی سکوپ‘‘ کا نام دیا۔ اس کی فیزیبلٹی بنانے میں پانچ سال لگے‘ ہزاروں انجینئرز کا بندوبست کیا گیا‘ سینکڑوں سائنسدان منتخب کیے گئے۔ 300 یونیورسٹیاں اس کام میں حصہ دار بن گئیں۔ ادارے اور کمپنیاں‘ سامنے آئے۔ امریکا کی 29 ریاستیں اور 14 دیگر ممالک اس منصوبے میں شامل ہوئے۔ اس کے بعد اس کو تیار کرنے میں 25سال لگے۔ تمام تر تفصیلی اخراجات کا تخمینہ لگایا جائے تو اس پر 25 ارب ڈالر لاگت آئی۔ پھر ا س کو 25 دسمبر 2021ء کو فرانس کے ایک جزیرے سے لانچ کیاگیا۔ اس کا نام''گویانا‘‘ ہے۔ یہاں ایک سپیس سنٹر ہے۔ یہ جزیرہ جنوبی امریکا کے سب سے بڑے ملک برازیل میں گھرا ہوا‘ بحر الکاہل کے کنارے پر واقع ہے۔ اس جزیرے کی آبادی تین لاکھ ہے۔ جیمز ٹیلی سکوپ یا ٹائم مشین اس قدر صلاحیت کی حامل ہے کہ یہ چاند جتنی مسافت پر زمین سے دور ہو تو شہد کی مکھی‘ جو گرمیوں میں شہد کے چھتے کی حرارت کو نارمل کرنے کیلئے اپنے دو پروں سے اسے ٹھنڈا کرتی ہے تو ان پروں سے جو حرارت پیدا ہوتی ہے‘ یہ مشین اس حرارت کے درجے کو درست ٹمپریچر کے ساتھ Detect کر لیتی ہے۔
اسے ٹائم مشین اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ تیرہ ارب سال پیچھے جاکر دیکھے گی کہ کائنات کے آغاز کے بعد ابتدائی سورج اور گلیکسیاں کب اور کیسے وجود میں آئے؟ چنانچہ اسے سورج کے مدار میں بھیجا گیا ہے۔ اب تک جتنے بھی خلائی مشن گئے ہیں‘ وہ زمین کے مدار میں گئے ہیں۔ خلا میں صرف ایک خلائی سٹیشن ہے جو امریکا کا ہے‘ اسے ISS کہا جاتا ہے۔ خلانورد یہیں ٹھہرتے ہیں۔ یہ بھی زمین کے مدار میں ہے۔ ٹائم مشین پہلا خلائی مشن ہے جسے سورج کے مدار میں بھیجا گیا ہے۔ اب نہ یہاں کوئی جائے گا اور نہ ہی کبھی یہ مشین واپس آئے گی۔ اس کی منزل ''لاگرینج (Lagrange) پوائنٹ 2‘‘ ہے۔ اس جگہ پر مشین ٹھیک ایک ماہ بعد یعنی 25 جنوری 2022ء یامعمولی فرق سے آگے‘ پیچھے پہنچے گی۔ زمین سے L2 پوائنٹ تک کا فاصلہ 15 لاکھ کلو میٹر ہے۔ یاد رہے! سورج ، چاند اور زمین وغیرہ کے درمیان ایک میزان اور ترازو ہے جس کی وجہ سے سب اپنے اپنے طے شدہ راستوں پر چلتے ہیں۔ اس ترازو کے ایک پلڑے کا نام L2 ہے۔ چار دیگر پوائنٹس ہیں؛ ان پوائنٹس میں ذرا سا فرق آجائے تو سارا کائناتی نظام درہم برہم ہو جائے گا۔ سورج چونکہ سردار اور طاقتور ہے‘ اس کی بھی مجال نہیں کہ اس ترازو کے ساتھ معمولی سی چھیڑ چھاڑ کرے۔ اگر کرے گا تو سارا شمسی نظام تباہ ہوجائے گا۔ زمین پر موجود تمام مخلوق ایک جھٹکے کے ساتھ ختم ہوجائے گی۔ مولا کریم فرماتے ہیں! (ترجمہ) ''سورج کی ہمت نہیں کہ چاند کو جا پکڑے اور نہ ہی رات میں جرأت ہے کہ وہ دن پر سبقت لے جائے۔ (یعنی پہلے آجائے) سب اپنے اپنے مدار میں گردش کر رہے ہیں۔ (سورہ یٰسین:14) اللہ اللہ ! وہ عظیم کتاب‘ جو قرآنِ مجید کے نام سے حضرت محمد کریمﷺ پر نازل ہوئی‘ اس نے بتادیا کہ نظام شمسی عدل کے ساتھ چل رہا ہے‘ کوئی کسی دوسرے کے دائرۂ کار میں نہیں گھستا۔ ایسی جرأت کسی میں نہیں ہے‘ اس لیے کہ یہ نظام براہِ راست کائنات کے خالق کے حکم سے چل رہاہے۔ یہ نظام اور سسٹم رحمت کا باعث ہے۔ یہ نہ ہوتا تو سب ختم ہوجاتے۔ ترازو کا سسٹم عدل پر مبنی نہ ہوتا‘ مستحکم نہ ہوتا تو ''جیمز ویپ ٹیلی سکوپ‘‘ ایل 2 پر نہ جا سکتی۔ انسانی تاریخ میںپہلی بار جو کائنات کے کئی راز فاش ہونے والے ہیں‘ ہم ان کی امید نہیں کر سکتے تھے۔
لوگو! یہ بھی تو دیکھو کہ آسمانوں میں ترازو کی خبر کس نے دی۔ جی ہاں! ہمارے حضور کریمﷺ پر نازل ہونے والے قرآنِ مجید نے دی۔ حضور اکرمﷺ اللہ کے آخری رسول ہیں‘ قرآنِ حکیم آخری آسمانی کتاب ہے‘ تبھی تو آخری زمانے میں تمام تر جدتوں سے کہیں زیادہ جدید اور بالکل ٹھیک کتاب ہے۔ جس سورت میں ترازو کی بات ہوئی ہے‘ اس کانام ''الرحمن‘‘ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: رحمن نے قرآن کی تعلیم دی ہے‘ اسی نے انسان کی تخلیق فرمائی ہے۔ اسی نے ما فی الضمیر کے اظہار کی تعلیم دی ہے۔ سورج اور چاند ایک حساب میں بندھے ہوئے ہیں۔ ستارے اور درخت سجدہ ریز ہیں۔ اسی نے آسمان کو رفعت عطا فرمائی ہے اور اسی نے میزان (ترازو) قائم فرمایا ہے۔ یہ اس لیے ہے کہ تم اے انسانو! میزان میں سرکشی نہ کرو‘‘۔ (سورۃ الرحمن :1 تا 8 ) جی ہاں ! اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب آگاہ کرتی ہے کہ انسان سائنس میں ترقی یافتہ ہوتے جا رہے ہیں تو اس لیے ہو رہے ہیں کہ زمین کے ایٹم سے لے کر آسمانوں کی وسعتوں تک ایک میزان قائم ہے۔ اے انسانو! تمہارا معاشرہ بھی درست تبھی رہے گا جب تم میزان میں سرکشی نہیں کروگے۔ فرق یہ ہے کہ اے انسانو! تمہیں میزان کو قائم رکھنے یا اس میں سرکشی کرنے کااختیار دیا گیاہے۔ تم اپنی مرضی چلا کر سرکشی کر سکتے ہو اور کرتے ہو۔ اگر کہیں تمہارے انسانی معاشرے میں حضورﷺ کا نظام قائم ہو جائے تو معاشرہ عادلانہ بن جائے۔ مسلم ریاستوں کے مندوبین حضرت عبداللہ بن رواحہؓ جیسے بن جائیں‘ قرآن و سنت کے حاملین نمبرون بن جائیں۔
سورج کے گرد زمین کی گردش کے میزان پوائنٹس کو دیکھیں تو زمین کا وہ حصہ‘ جو سورج کی طرف ہے وہاں L1 ہے۔ L2 زمین دائیں طرف ہے۔ شمال مشرق کی جانب L4 ہے جبکہ جنوب مشرق کی جانب L5 ہے۔ بالکل مغرب کی جانب L3 ہے۔ ٹائم مشین سورج کی مدار میں تمام پوائنٹس کے ساتھ گردش کرے گی اور کائنات کی گہرائی میں جھانک کر ہمارے لیے نئی سے نئی خبریں لائے گی۔ سائنس دانوں نے ابھی سے اگلے ماڈل کی جدید ترین دوربین کے بارے سوچنا شروع کردیا ہے۔ قرآنِ مجید میں ایک سورت ہے جس کا نام ''الملک‘‘ ہے یعنی ہر جگہ اللہ تعالیٰ کی بادشاہی نظر آئے گی۔ اس سورت کی ابتدائی آیات کا ترجمہ ہرایک کو ضرور پڑھنا چاہیے۔ ارشاد واضح ہے کہ تم دور بینیں بناتے جائو‘ ہرایک پر اپنی آنکھ رکھ کر دیکھتے جائو‘ تمہاری آنکھیں تھک جائیں گی‘ ہار کر ہتھیار پھینک دیں گی مگر مولا کریم کی تخلیق کے عجائبات ختم نہ ہوں گے۔ آخر کار! ماننا پڑے گا ساری کائنات کا خالق ایک ہی ہے۔ اسی کے ہاتھ میں اصل حکمرانی ہے اور وہ مکمل طور پر قادرِ مطلق ہے۔