اللہ تعالیٰ ہم انسانوں پر رحم فرمائے۔ پچھلی یعنی 20 ویں صدی میں دو عالمی جنگیں ہوچکی ہیں‘ ان جنگوں میں کروڑوں لوگ مارے گئے۔ تیس کروڑ کے قریب زخمی ہوئے۔ لاتعداد عورتیں بیوہ ہوئیں‘ بے شمار بچے یتیم ہوگئے۔ گھر تباہ ہو گئے‘ چہار سو بھوک نے ڈیرے ڈال لیے۔ آج‘ 21 ویں صدی میں ایک بار پھر دنیا عالمی جنگ کی بھٹی کو تپش دے چکی ہے مگر ایک بات طے ہے کہ اب کے جو جنگ ہوگی وہ انسانیت کی بربادیوں کا پیغام ہوگی‘ لہٰذا انسانیت کو اس تباہ کن بربادی سے بچانے کے لیے ہم سب انسانوں کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔
روس‘ جو کبھی خالقِ کائنات کو نہ ماننے والا ملک تھا‘ گزشتہ 25 سالوں سے اپنے خالق کو ماننے والا ملک ہے۔ موجودہ صدر ولادیمیر پوتن پکے مسیحی ہیں۔ وہ آرتھوڈکس فرقے کے حامل ہیں۔ گلے میں صلیب ڈالتے ہیں۔ اللہ کے آخری رسول حضرت محمد کریمﷺ کا احترام کرتے ہیں۔ آپﷺ کے احترام سے متعلق بیان بھی دے چکے ہیں۔ اسی طرح امریکا کے صدر جو بائیڈن‘ جو پروٹسٹنٹ فرقے سے تعلق رکھتے ہیں‘ وائٹ ہائوس میں صدارتی حلف اٹھانے آئے تو بائبل پر ہاتھ رکھ کر انہوں نے حلف اٹھایا۔ ان کے ملک میں کروڑوں لوگ ملحد ہیں مگر مسیحی لوگ بھی کروڑوں میں ہیں۔ امریکا کے خلائی ادارے ''ناسا‘‘ نے انسانی تاریخ کی جدید ترین خلائی دوربین سورج کے مدار میں بھیجی تو ''جیمز ویب ٹیلی سکوپ‘‘ کو 25 دسمبر 2021 ء کو لانچ کیا۔ یہ دن دنیا بھر میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کے طور پر منایا جاتا ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ دنیا کی دونوں بڑی عالمی قوتیں مسیحی ہیں۔ دونوں فرقوں کی اپنی اپنی بائبل ہے، یعنی 90 فیصد اتفاق ہے تو کوئی دس فیصد اختلاف بھی ہے مگر آغاز جہاں سے ہوتا ہے‘ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تورات کے پانچ ابواب ہیں۔ یہ چیپٹر دونوں میں مشترک ہیں۔ لہٰذا آج میں اپنے کالم میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے کردار کوپیش کرکے دونوں مسیحی سپر پاوروں کو باہم امن کی دعوت دینے جا رہا ہوں۔ ایسا اس لیے بھی کر رہا ہوں کہ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے روس کا دورہ کیا ہے۔ مشورہ یہ ہے کہ میرے وطن عزیز کے حکمران امریکا اور یورپ کا بھی دورہ کریں اور عالمی امن کی خاطر کردار ادا کریں۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام جس قوم میں پیدا ہوئے‘ وہ بنو اسرائیل ہے۔ مصر میں ان کی تعداد لگ بھگ 30 لاکھ تھی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو نبوت ملی تو آپ علیہ السلام نے 30 لاکھ بنو اسرائیل کو فرعون کے مقابلے میں کھڑا نہیں کیا‘ لڑائی نہیں کی‘ جنگ و جدل نہیں کیا بلکہ فرعون کو اسلام کی دعوت دی‘ بنو اسرائیل پر ظلم کرنے سے روکا۔ وہ باز نہیں آیا تو فرعون سے مطالبہ کیا کہ وہ بنو اسرائیل کو مصر سے نکلنے کی اجازت دے دے؛ یعنی ہم تم سے لڑتے نہیں‘ ہمارے گھر بار سب یہیں تمہارے پاس رہ جائے گا‘ ہمیں مصر چھوڑنے کی اجازت دے دو۔ فرعون جو بنو اسرائیل کے نومولود بچے قتل کرتا تھا‘ وہ گویا 30 لاکھ کو قیدی بنا کر بیٹھا تھا۔ اب اس کے مسلسل انکار پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے رات کو چپکے سے اپنی قوم کو نکالا اور سینا کے صحرا کی جانب چل دیے۔ ظالم فرعون نے اپنے لشکروں کے ساتھ پیچھا کیا اور پھر سمندر میں غرق ہوگیا۔ جی ہاں! دونوں مسیحی فرقوں کی بائبل کے آغاز کا خلاصہ ہم نے بیان کردیا۔ مقصد یہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام پیغمبرِ امن تھے لہٰذا امن کی خاطر زمین چھوڑنے والے بنو۔ یوکرائن کی سرزمین پر جنگ روک کر انسانیت پر ترس کھائو۔
حضرت محمد کریمﷺآخری رسول ہیں۔آپﷺ نے اپنی قوم کو توحیدکی دعوت دی‘ وہ نہیں مانے بلکہ آپﷺ پر اور آپ کے پیروکاروں پر ظلم کی انتہا کردی۔ حضور کریمﷺ نے مکہ مکرمہ میں کسی جنگ کا آغاز نہیں کیا‘ ان کے خلاف ہتھیار نہیں اٹھائے بلکہ خاموشی کے ساتھ حضرت مصعب بن عمیرؓ کو مدینہ منورہ میں بھیجا۔ انہوں نے وہاں دعوت دینا شروع کی تو اوس اور خزرج نام کے جو دو بڑے قبیلے تھے‘ ان کے بیشتر لوگوں نے اسلام کی دعوت کو قبول کرلیا۔ اس کے بعد انہوں نے حضور کریمﷺ کو مکہ چھوڑ کر مدینہ آنے کی دعوت دی۔ حضور اکرمﷺ نے سب سے پہلے اپنے ساتھیوں کو ہجرت کرنے کا حکم دیا؛ چنانچہ انہوں نے اپنے گھر بار چھوڑے، مال و متاع کو الوداع کہا‘ رشتہ دار، بیویاں بچے اور خاوند چھوڑے‘ بہن بھائی چھوڑے‘ ماں باپ اور بیٹے چھوڑے۔ سب سے آخر پر حضور کریمﷺ نے اپنے رب کریم کے حکم سے ہجرت کا پروگرام بنایا۔ جی ہاں! رہبر ہو تو ایسا! قائد ہو تو ایسا! رہنما اور لیڈر ہو تو ایسا! صدقے‘ قربان جائوں اپنے حضور کریمﷺ کی قیادت پر کہ سب کو روانہ کردیا او رآخر پر خود نکلنے کا پروگرام بنایا۔ ساتھ کوئی محافظ نہ تھا۔ حضور کریمﷺنے اپنی حفاظت کے لیے کوئی دستہ نہ بنایا۔ پروگرام یہی تھا کہ سب بحفاظت نکل جائیں‘ میں اپنی جان جوکھوں میں ڈالوں گا اور سب سے آخر میں مکہ چھوڑوں گا مگر فرعون کی طرح ‘ابوجہل اور اس کے ساتھی حکمرانوں نے حضور کریمﷺ کو روکنے کا پروگرام بنایا۔ مکہ کے مشرکین کی باہمی مشاورت اور فیصلوں کا مقام ''دارالندوہ‘‘ کہلاتا تھا یعنی یہ ان کی اسمبلی تھی‘ وہ یہاں اکٹھے ہوئے اور فیصلہ کیا کہ محمد (ﷺ) کا یہاں سے نکلنا انتہائی خطرناک ہے کیونکہ وہ اپنے پیروکاروں کو مضبوط کرکے حملہ کریں گے اور ہمیں تباہ و برباد کردیں گے؛ چنانچہ ابوجہل کی تجویز پر طے یہ ہوا کہ حضرت محمد کریمﷺکو شہید کردیا جائے۔ معاذ اللہ!
اللہ تعالیٰ نے دشمنوں کے اس منصوبے کی خبر حضرت محمد کریمﷺ کو دے دی؛ چنانچہ حضرت جبرئیل علیہ السلام اللہ تعالیٰ کا یہ پیغام لے کر آئے۔ ''(میرے حبیب!) ذرا وہ وقت بھی یاد کرو کہ جب آپ کے بارے میں کافر لوگ منصوبہ سازی کر رہے تھے کہ آپ کو (شدید ترین) قید تنہائی میں ڈال دیں یا پھر قتل کردیں‘ یا جلاوطن ہی کردیں۔ یہ ابھی منصوبہ سازی کر ہی رہے تھے اور اللہ منصوبہ بنا بھی چکا تھا۔ سب منصوبہ سازوں میں سے اللہ ہی بہترین منصوبہ ساز ہے‘‘۔ (الانفال :30) لوگو! رحمۃ للعالمین پیغمبرِ امن حضرت محمد کریمﷺ کے لیے اللہ کا منصوبہ یہ تھا کہ مکہ میں لڑائی نہ ہو‘ امن رہے؛ چنانچہ حضور کریمﷺ نے اپنے بستر پر حضرت علیؓ کو سلایا اور خود اس وقت اپنے گھر سے باہر نکلے جب ابوجہل اپنے گیارہ تلوار بردار جوانوں کے ہمراہ حضور کا انتظار کر رہا تھا کہ آپ جونہی گھر سے باہر نکلیں‘ سب اپنی تلواروں کے ساتھ حملہ آور ہوجائیں۔
ابوجہل مذاق اڑاتے ہوئے اس قاتل پارٹی میں فخریہ کہہ رہا تھا: محمد(ﷺ) کہتے ہیں کہ میری جو اطاعت کریں گے‘ وہ دنیا میں دو سپر پاوروں فارس اور روم کے بادشاہوں کے خزانوں کے مالک بنیں گے‘ اگلے جہان میں جنت میں جائیں گے۔ ابھی لگ پتا جائے گا جب وہ باہرنکلیں گے۔ حضور کریمﷺ نے اپنے گھر مبارک کے صحن سے مٹی کو مٹھی میں لیا‘ باہر نکلے اور اللہ کا نام لے کر ان کی طرف پھینک دی۔ سب وقتی طور پر اندھے ہوگئے۔ حضور کریمﷺ یہاں سے نکلے۔ صدیق اکبرؓ کو لے کر غارِ ثور کی طرف چل پڑے۔
ہجرت کے آٹھ سال بعد آپﷺ مدینہ منورہ سے دس ہزار کا لشکر لے کر آئے‘ مگر خاموشی کے ساتھ آئے۔ مکہ والوں کو خبر نہ ہونے دی تاکہ جنگ نہ ہو‘ امن رہے۔ جی ہاں! اور پھر جب مکہ کو اپنے حصار میں لیا تو امن کے ساتھ فتح کیا اور فتح کرنے کے بعد سب کے لیے عام معافی کا اعلان فرما دیا۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی پیغمبرِ امن تھے۔ حضرت محمد کریمﷺ بھی پیغمبرِ امن تھے۔ جناب جوبائیڈن او رپوتن صاحب! آیئے! تورات کی بات مانیے۔ بائبل کی پُر امن بات مانیے۔ حضرت محمد کریمﷺ کے مبارک اسوہ کا مطالعہ کیجئے۔ امن کا سبق حضور کریمﷺ سے حاصل کیجئے۔ حضور اکرمﷺ نے فرمایا: سب انسان ایک ماں باپ (آدم اور حوا)کی اولاد ہیں۔ قرآنِ مجید، تورات اور انجیل مقدس کا یہی پیغام ہے۔ اب کے جو جنگ ہوگی‘ اس میں سب کچھ تہس نہس ہو جائے گا۔ انسانیت کی بقا اسی میں ہے کہ جنگ نہ ہو‘ امن رہے۔ آیئے! امن کی خاطر پیغمبرانِ امن کی پُر امن راہوں کو اپناتے ہوئے انسانیت کو امن کی خوشخبری دیں۔