اللہ کے رسول حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جو پیروکار ہیں‘ ان کو مسیحی کہا جاتا ہے‘ نصرانی کے نام سے بھی وہ پکارے جاتے ہیں جبکہ عیسائی کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں۔ صلیب کے حوالے سے صلیبی اور کراس کے حوالے سے کرسچن کے الفاظ بھی ان کے لیے بولے جاتے ہیں۔ ان کے بہت سارے فرقے ہیں؛ تاہم بنیادی طور پر ان کے تین بڑے فرقے ہیں۔ سب سے بڑا فرقہ ''کیتھولک‘‘ ہے جس کا مرکز اٹلی کے شہر روم میں ہے۔ تعداد کے لحاظ سے دوسرا بڑا فرقہ ''آرتھوڈوکس‘‘ ہے۔ اس کا مرکز روس کا شہر ماسکو ہے۔ تیسرا بڑا فرقہ ''پروٹسٹنٹ‘‘ ہے۔ اس کا مرکز برطانیہ کا شہر لندن ہے۔ اس کے سربراہ کو ''لارڈ آف کنٹربری‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ آج کل پاکستان کے دورے پر ہیں۔ روم میں ویٹی کن سٹی ہے وہاں کے پوپ کو سارا جہان جانتاہے۔ ماسکو کے مسیحی سربراہ کو ''پیٹریارچ ‘‘ کہا جاتا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ہم دنیا میں سب سے پرانے مسیحی ہیں جن کا تعلق حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے ہے۔
قارئین کرام! پروٹسٹنٹ فرقہ 17 ویں صدی عیسوی میں سامنے آیا۔ مارٹن لوتھر کو اس جدید فرقے کا بانی کہا جاتا ہے۔ یہ چرچ اور پادریوں کے مقدس سلسلے کو نہیں مانتے۔ یہ صرف بائبل سے اپنا دین اخذ کرتے ہیں جبکہ باقی دونوں فرقے چرچ کے نظام کی تقدیس کے قائل ہیں کہ بائبل کے بعد یہ ضروری ہے۔ روس اور مشرقی یورپ کے بیشتر ممالک آرتھوڈوکس ہیں۔ روس ان سب کا روحانی اور سیاسی لیڈر ہے۔ تمام عیسائیوں کا قبلہ یروشلم (القدس) ہے جبکہ سیاسی لحاظ سے ان کے دو مراکز ہیں جنہیں مذہبی تقدس بھی حاصل ہے۔ یہ روم اور بازنطین (Byzantine ) ہیں۔ روم شہر حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے 753 سال قبل وجود میں آیا یعنی وہ آج سے 2773 سال پرانا ہے۔ بازنطین حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے کوئی ساڑھے چھ سو سال قبل وجود میں آیا۔ دوسرے لفظوں میں یہ روم سے کوئی ایک سو سال چھوٹا ہے۔ شروع میں رومی ایمپائر ایک ہی تھی لیکن پھر دو حصوں میں بٹ گئی۔ مشرقی ایمپائر کا دارالحکومت بازنطین بن گیا۔ کونسٹنٹائن اول نے 330ء میں نیا دارالحکومت بنانے کا فیصلہ کیا اس کا نام اپنے نام پر کونسٹنٹائن پول (Constantinpole) رکھا۔ اسے ''Nova Roma‘‘ یعنی نیو روم کا نام دیا۔ عربی میں اسے'' قسطنطنیہ‘‘ کہتے ہیں۔ یہ آرتھوڈوکس عیسائیوں کا مرکز بن گیا۔ یہ اتنی بڑی سلطنت بن گئی اور مشرق، مغرب اور افریقہ تک اس قدر پھیلی کہ اپنے وقت کی دنیا کی سپر پاور بن گئی۔
قارئین کرام! اب ہم ذکر کریں گے مشرقی سلطنت کے ایک بڑے عالم کا جن کا نام آریوس (Arius)ہے۔ جناب آریوس ''شحات ‘‘ میں 256ء میں پیدا ہوئے۔ ' شحات‘‘ لیبیا کا شہر ہے اور قبلِ مسیح سے آباد ہے۔ تاریخی طور پر یونیسکو نے اس کو آثارِ قدیمہ کا اہم ترین شہر قرار دیا ہے۔ یہاں جو مسیحی مدارس تھے‘ جناب آریوس نے وہاں تعلیم حاصل کی۔ انہوں نے انطاکیہ میں بھی تعلیم حاصل کی۔ میں نے انطاکیہ شہر دیکھ رکھا ہے۔ مسیحی دنیا کا یہ مقدس شہر کہلاتا ہے۔ بعد ازاں جناب آریوس نے اسکندریہ کو اپنا ٹھکانا بنایا اور وہاں دعوت و تبلیغ کا کام شروع کردیا۔ جب مسیحی دنیا میں تثلیث کا ڈنکا بج رہا تھا تو جناب آریوس نے تثلیث کی مخالفت شروع کردی اور کہا کہ اللہ ایک ہے‘ وہ نہ کسی سے پیدا ہوا ہے اور نہ کوئی اس کی ذات کا حصہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کے علاوہ جو شئے بھی موجود ہے وہ مخلوق ہے لہٰذا مخلوق کو اس کا حصہ بناناشرک ہے۔اسکندریہ کا جو سب سے بڑا عالم تھا وہ ''الکسندروس‘‘ تھا۔ وہ بھی تثلیث کا علمبردار تھا اور ''اسقف‘‘ کے مرتبے کا حامل تھا۔ اب اس نے آریوس کو ان کے علمی مرتبے سے معزول کردیا۔ ہر جانب توحید اور تثلیث کے مابین مناظرے، مباحثے اور تقریریں شروع ہو گئیں۔ بادشاہ قسطنطین (کونسٹنٹائن)تک رپورٹیں پہنچیں تو اس نے بنیقیہ میں تمام مملکت کے بڑے علما اور راہبوں کو طلب کرلیا۔ وہاں کئی دن تک توحید اور تثلیث کے مابین گفتگو ہوتی رہی۔ آخر کار جب اہلِ توحید کو فتح ملنا شروع ہوئی تو ایک تثلیثی عالم ''رسیانسوس‘‘ نے بھری مجلس میں جناب آریوس کو مارنا پٹنا شروع کردیا یعنی جب دلیل کی بازی ہارنے لگے تو مارنے پیٹنے پر آگئے۔ بات یہ تھی کہ جناب آریوس نے رسیانسوس کو دلیل کے میدان میں خاموش کروادیا تھا۔
قسطنطین بادشاہ‘ جو دراصل خود بھی تثلیث کے عقیدے کا حامل تھا‘ اس نے حق کا گلا گھونٹتے ہوئے اعلان کردیا کہ سرکاری مذہب تثلیث ہو گا۔ فیصلہ لکھا گیا‘ اس پر دستخط کرنے کا حکم دیا گیا۔ جو تثلیث کے عقیدے کونہ مانے اس کی سزا قتل ٹھہری۔ جناب آریوس نے دستخط نہیں کیے اور واپس آگئے۔ قسطنطین کی والدہ محترمہ ''ہیلانہ‘‘ بھی چند روزہ مناظراتی مجلس میں موجود تھی۔ اس نے بیٹے کو صاف کہہ دیا کہ وہ توحید کی علمبردار ہے اور جناب آریوس کو حق پر سمجھتی ہے۔ اب بادشاہ کے گھر کے اندر توحید کا ڈنکا بجنے لگا تھا۔ ادھر جناب آریوس بھی مایوس نہیں ہوئے، انہوں نے توحید کو پھیلانے کی کوششیں شروع کردیں۔ آخرکار! ان کی کوششوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ بادشاہ قسطنطین نے 337ء میں توحید کے نصرانی عقیدے کو ماننے کا اعلان کردیا مگر بادشاہ سلامت اسی سال اپنے اللہ کے پاس پہنچ گئے۔ ان کے بعد ان کا درمیانہ بیٹا ''فنسطانطیوس‘‘ بادشاہ بن گیا۔ یہ بھی توحید کا علمبردار تھا۔ اس نے بھی تثلیث کی حوصلہ شکنی شروع کردی حتیٰ کہ 22 سالوں کی محنت کے بعد 359ء تک روما کی مشرقی سپر پاور میں توحید کے چرچے ہونے اور ڈنکے بجنے لگے۔ بدقسمتی یہ ہوئی کہ جناب فنسطانطیوس کی وفات کے بعد ان کا چچا زاد بیٹا ''جولیان‘‘ بادشاہ بن گیا۔ یہ تثلیثی تھا۔ فرق یہ تھا کہ توحید کے علمبردار بادشاہ نے دعوت کے ساتھ لوگوں کے عقائد درست کیے مگر جولیان نے ظلم کے ساتھ اہلِ توحید کو دبایا اور ان کو قتل تک کیا۔ حکومتی مناصب سے ایسے افراد کو برطرف کردیا گیا۔ بہت بڑے عالم مارکیس کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھروا دیں۔ اہلِ توحید کے رتبے ختم کر دیے گئے؛ چنانچہ وہ فقیر اور محتاج بن گئے۔ کچھ کاشتکار بن گئے۔ بہت سارے لوگ ان میں سے وقت کے ساتھ ساتھ گمراہ ہوتے چلے گئے۔ اسلام کی آمد تک بہت تھوڑے لوگ رہ گئے تھے جو جناب آریوس کے پیروکار تھے؛ تاہم یہ مصر میں کافی تعداد میں تھے۔ سپین میں بھی کافی تھے‘ شام کے نواحی علاقوں میں بھی موجود تھے۔
اللہ کے رسول حضور کریمﷺ نے صلح حدیبیہ کے بعد بادشاہوں کو دعوتی خطوط لکھے تو قسطنطنیہ کی رومی ایمپائر کے حکمران ہرکولیس (ہرقل) کو بھی خط لکھا۔ اس کا ایک جملہ یوں تھا ''اگر آپ نے اسلام قبول نہ کیا تو ''أریسیّین‘‘ کا گناہ تم پر ہو گا‘‘۔ (صحیح بخاری: 7) مصر کے مسیحی حکمران مقوقس کوخط لکھا تو وہاں بھی یہی لکھا کہ ''قبطی (آریسیین) کا گناہ تمہارے ذمے ہو گا‘‘۔ (طبقات ابن سعد: 200/1) جی ہاں! ہمارے حضور کریمﷺ نے ایک دن خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے (مجھے نبی بنانے سے قبل) زمین پر آباد لوگوں کو دیکھا تو ان پر سخت ناراض ہوا‘ عربوں پر بھی ناراض ہوا اورعجمیوں پر بھی ناراض ہوا۔ صرف اہلِ کتاب کے بچے کھچے بعض لوگوں پر ناراض نہیں ہوا‘‘۔ (صحیح مسلم:7207) قارئین کرام! یہ خوش قسمت لوگ جناب آریوس کے پیروکار ''اریسیین‘‘ ہیں۔ ابن منظور نے ''لسان العرب‘‘ میں یہی لکھا ہے۔ امام ابو جعفر طحاوی کی تحقیق بھی یہی ہے۔ جی ہاں! جب حضرت خالدؓ بن ولید نے شام فتح کیا‘ دمشق پر توحید کا پرچم لہرایا۔ حضرت ابوعبیدہؓ بن جراح نے یروشلم فتح کیا‘ حضرت عمروؓ بن عاص نے مصر فتح کیا۔ عظیم سپہ سالار موسیٰ بن نصیر نے طارق بن زیاد کو سپین بھیجا تو ان کو دعوت دینے والے‘ ان کی مدد کرنے والے یہی جناب آریوس کے آریسی پیروکار تھے۔ جنہوں نے بائبل میں حضور کریمﷺ کی آمد مبارک کی پیشگوئی پڑھ رکھی تھی؛ چنانچہ انہوں نے مسلمانوں کو خوش آمدید کہا اور مسلمان ہوگئے۔
اس کے بعد عثمانی خلافت کا زمانہ آیا تو 1453ء میں سلطان محمد الفاتح نے قسطنطنیہ کا شہر فتح کیا۔ آرتھوڈوکس مسیحی اب یہاں سے بھاگے اور ماسکو شہر کو اپنا مرکز بنایا۔ یوں مسیحی دنیا کے دوسرے بڑے فرقے کا مرکز ماسکو میں کریملن بن گیا۔ ہمیں یہ حقیقت نہیں بھولنی چاہیے کو خدا کے انکاری کمیونسٹ روس نے افغانستان میں شکست کھائی۔ آج کا روس آرتھوڈوکس عیسائیت کا علمبردار ہے۔ صدر پوتن بھی انتہائی پختہ آرتھوڈوکس ہیں۔ قسطنطنیہ‘ جس کا نام ترکوں نے استنبول رکھا‘ ان کے دل میں بستا ہے مگر حق بہرحال یہی ہے کہ قسطنطنیہ کے بانی کونسٹنٹائن فوت ہوئے تو ایک اللہ پر ایمان رکھتے ہوئے‘ توحید پر فوت ہوئے۔ وہ جنابِ آریوس کے پیروکار بن کر فوت ہوئے۔ حضور کریمﷺ کی تشریف آوری پر آریوسی مسیحی مسلمان ہوئے تو ان کی اولادیں قسطنطنیہ کو استنبول بنانے میں شامل ہوئیں۔ آخر پر ہماری دعا ہے کہ روس اور یوکرین کی جنگ ختم ہو‘ دنیا پر امن ہو‘ انسانیت سدا آباد رہے۔