لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ مْحَمَّد رَّسْولْ اللّٰہ اس جھالر پر تحریر کیا گیا تھا جو اس شامیانے کا سہرا تھی جسے سٹیج پر لگایا گیا تھا۔ اس کی چھاؤں میں حضرت قائداعظم محمد علی جناح خطاب کرنے کے لیے کھڑے ہوئے۔ انگریز کا دور تھا‘23 مارچ 1940ء کی تاریخ تھی۔ برصغیر کی آزادی قریب تھی۔ جمہوریت کے نظام کا راج تھا۔ برصغیر میں ہندومت کے ماننے والوں کی اکثریت تھی۔ تعداد میں دوسرے نمبر پر مسلمان تھے۔ مسلمان ڈرے ہوئے تھے کہ ہندوؤں کی اکثریت میں وہ اقلیت بن کر رہ جائیں گے۔ آر ایس ایس یعنی راشٹریہ سیوک سنگھ جو 1925ء میں قائم ہو چکی تھی۔ ہندوؤں کی یہ مذہبی تنظیم ''شُدّ ّھی‘‘ کے نام سے ایک تحریک چلا چکی تھی کہ انگریزوں کا اقتدار آ چکا ہے‘ مسلمانوں کی حکمرانی کا خاتمہ ہو چکا ہے‘ لہٰذا ہندوستان کو اسلام اور مسلمانوں سے ''شدھ‘‘ یعنی پاک کرنا لازم ہو چکا ہے۔ ہندوؤں کے لیے ایسا کرنا مذہبی فریضہ بن چکا ہے۔ مسلمانوں نے سوچنا شروع کر دیا تھا کہ انگریز کے راج میں یہ لوگ ''شدھی‘‘ کی تحریک چلا رہے ہیں۔ جب یہی لوگ اقتدار میں آ گئے اور ہم اقلیت میں ہو گئے تو ہمارا جینا دوبھر کر دیں گے۔ ہمارا دین خطرے سے دو چار ہو جائے گا‘ توحید کا عقیدہ اور اس کا پرچار مشکل ہوتا چلا جائے گا۔ حضورﷺکی رسالت کا پیغام ہم مسلمانوں کے لیے موت کا پیغام بنتا چلا جائے گا؛ چنانچہ نجات کی راہ صرف ایک ہے کہ اپنے لیے ایک علیحدہ ملک کا مطالبہ کیا جائے۔ جدوجہد شروع کر دی جائے۔ اگر ایسا نہ کیا تو نہ ہماری عزت بچے گئی‘ نہ مال محفوظ رہے گا۔ یوں ہندو اکثریت کے خوف نے ایک نئے ملک کا راستہ ہموار کرنا شروع کر دیا۔ ہندوستان بھر میں نعرے گونجنے لگے '' لے کے رہیں گے پاکستان‘ بٹ کے رہے گا ہندوستان‘‘، ''پاکستان کا مطلب کیا ،لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ مْحَمَّد رَّسْولْ اللّٰہ‘‘
اسی کلمے کی چھاؤں میں حضرت قائداعظم نے لاہور کے ایک پارک میں نئے ملک پاکستان کا مطالبہ کر دیا۔ہندوستان بھر سے مسلمان اس جلسے میں تشریف لائے تھے۔ ہندو اکثریتی علاقوں نے پاکستان نہیں بننا تھا مگر اس کے باوجود وہاں پاکستان کی تحریک چل رہی تھی ۔سوچ یہ تھی کہ اس سے ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمانوں کی مظلومیت پر کوئی آواز اٹھانے والا ہو گا۔ اقدام کرنے والا ہوگا؛ چنانچہ تمام اسلامیانِ برصغیر نے تحریک پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ وجہ واضح تھی۔ ہندوؤں کے ''ہندتوا‘‘ کا خوف تھا۔
قارئین کرام! مندرجہ بالا صورتحال ساڑھے چودہ سو سال پہلے بھی پیدا ہو چکی تھی مکہ میں بت پرست مشرکوں کا راج تھا۔ ان کی اکثریت تھی۔ مسلمان انتہائی تھوڑی تعداد میں تھے؛ چنانچہ ظلم کا شکار تھے۔ مکہ والے اصرار کرتے تھے کہ ہم تمہیں ''شدھ‘‘ کریں گے یعنی اسلام سے ہٹا کر دوبارہ بت پرست بنائیں گے۔ مسلمان ڈرے ہوئے تھے۔ ان کی اکثریت کے ظلم سے خوف میں مبتلا تھے۔ حضرت محمد کریمﷺ کی قیادت میں یثرب کا علاقہ منتخب کیا گیا۔ وہاںحضرت مصعب بن عمیرؓ کی نگرانی میں دعوت کا کام ہوا‘ یوں مسلمان اکثریت میں ہو گئے تو مکہ کے مسلمان ہجرت کر کے یثرب چلے گئے۔ حضور نبی کریمﷺ کو یہاں کی اکثریت نے اپنا حکمران بنا لیا۔ مکہ اور سارے عرب کے مقابلے میں یہ ایک انتہائی چھوٹی سی ریاست تھی۔ مکہ والے اسے ختم کرنے کے لیے ''بدر‘‘ میں آ گئے۔ یہ ایک ہزار تھے۔ جدید اسلحہ اور وسائل سے مالا مال تھے۔ مقابلے میں کمزور اسلامی ریاست کے مجاہدوں کی تعداد 313 تھی۔ وسائل بھی انتہائی کم تھے۔ مقابلہ ہوا تو جنگ کے میدان میں اکثریت شکست سے دو چار ہو ئی۔ ان کے 72 مارے گئے اور اتنے ہی قیدی بن گئے۔ یثرب جو ''مدینۃ الرسول‘‘ بن چکا تھا۔ وہ مدنی ریاست سارے عرب میں اپنی دھاک بٹھا چکی تھی۔
خوشی کے اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے اپنا احسان جتاتے ہوئے مسلمانوں کو آگاہ کیا۔ قرآن مجید کے انوار ملاحظہ ہوں‘ جو ریاست مدینہ کے حکمران کے پاک اور مبارک دل میں ضیاپاش ہوئے۔ ارشاد فرمایا : ''(مسلمانو!) وہ وقت بھی یاد کرو جب تم تعداد میں بہت ہی کم تھے۔ زمین میں انتہائی حد تک کمزور سمجھے گئے تھے۔ (مسلمانو!) تم ڈرے ہوئے تھے کہ (مشرک) لوگوں کی (طاقتور اکثریت) تم لوگوں کو جھپٹا مار کر (شدھ بنانے کی کوشش میں) نوچ ڈالے گی؛ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے تم کو (مدنی ریاست) کا ٹھکانہ دیا۔ پھر (جنگ بدر میں) اپنی مدد کے ساتھ تمہیں مضبوط کر دیا۔ اس کے بعد تم لوگوں کو پاکیزہ نعمتوں کے رزق سے نواز دیا تاکہ تم (اللہ تعالیٰ) کا شکر بجالاتے رہو۔ (الانفال : 26)
جی ہاں! ساڑھے چودہ سو سال قبل نازل ہونے والے قرآنی انوار کو دیکھیں تو اللہ تعالیٰ نے اس کا منظر ہم لوگوں کو پاکستان کی صورت میں عطا فرمایا۔ ہمارے خوف کو دور کیا۔ مسلم اکثریتی علاقوں کو پاکستان بنایا۔ طرح طرح کی نعمتوں اور رزق سے نوازا ‘مگر شکر کرنے کا جو حق تھا‘ ماننا پڑے گا کہ ہم نے وہ ادا نہ کیا۔ اللہ تعالیٰ نے اگلی ہی دو آیتوں میں انتباہ بھی فرما دیا ہے۔ ارشاد ہوا : ''اے ایمان والو! اللہ اور رسول سے خیانت نہ کرنا۔ اپنی امانتوں (ذمہ داریوں میں بھی خیانت نہ کرنا) جبکہ علم میں بھی ہو (کہ یہ خیانت ہے) اس حقیقت کو بھی اچھی طرح جان لو کہ تمہارے مال اور تمہاری اولادیں ایک آزمائش ہیں جبکہ لاریب اللہ کے پاس (مرنے کے بعد) جو اجر ہے وہ بہت ہی عظیم ہے۔‘‘ (الانفال : 28 )
اللہ اللہ! صحابہ جیسے قدسی نفوس نے تو دونوں آیتوں پر عمل کر کے مدینہ کی ریاست کو اس قدر عظیم بنا دیا کہ وہ دنیا کی دو سپر پاورز‘ روم اور ایران کو اپنے اندر شامل کر گئی۔ ہر سو اسلام ہی اسلام ہو گیا‘ مگر ہمارا حال یہ ہوا کہ اقتدار کی خیانتوں کا شکار ہو کر خائن ہو گئے۔ ذمہ داریوں کو بھول گئے۔مال و دولت کی ہوس میں اندھے ہو گئے۔ میرٹ کا گلا گھونٹ کر اسے موت کی نیند سلا دیا۔ امانتوں کو بیچنے لگ گئے اور اولاد کو بغیر میرٹ کے نوازنے لگ گئے۔ جن کے پاس صلاحیت تھی مگر رشوت کے لیے پیسہ اور سفارش نہ تھی ان کو مایوسیوں کے گڑھوں میں پھینکنے لگ گئے۔ آخرت کے اجر بھی بھول گئے اور دنیا ہی دنیا کو سب کچھ سمجھتے ہوئے حلال و حرام کی تمیز کو فراموش کر بیٹھے۔
اقتدار کی لڑائیوں اور رسہ کشیوں میں حالیہ اچھی خبر یہ ہے کہ اسلامی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کا اجلاس اسلام آباد میں ہوا ہے۔ کشمیر‘ فلسطین اور مظلوموں کی بات ہوئی ہے۔ اسلام کو دہشت گردی کے ساتھ جوڑنے کا جو چلن چل چکا تھا اس کے آگے بند باندھنے کی کوشش الحمداللہ بہت حد تک کامیاب ہوئی ہے۔ میرے وطنِ عزیز پاکستان کا اس میں بنیادی اور اہم ترین کردار ہے۔ ہندوستان کے مظلوم مسلمانوں پر آرایس ایس نے ہندتوا کی جو گھپ اندھیری رات مسلط کر رکھی ہے اس نے پاکستان کی عظیم نعمت کا احساس دلایا ہے۔ اس نعمت کی قدر کا تقاضا یہ ہے کہ محض باتوں سے نہیں بلکہ عملی طور پر وطنِ عزیز کو مدینے کی ریاست بنایا جائے۔ ایسی مضبوط ریاست کہ جس کے خوف سے آر ایس ایس کے سیاسی ونگ بھارتیہ جنتا پارٹی کے صاحبِ اقتدار لوگوں کے پسینے چھوٹ جائیں۔
آئیے! سب مل کر قرآن کے انوار کی روشنی میں سورہ الانفال کی تینوں آیات کو اپنے وطنِ عزیز کا عوامی سلوگن بنائیں۔ جنت کے انعامات پر نظر رکھتے ہوئے اہل وطن کی خدمت کریں۔
حضرت علامہ اقبال کا خواب، زندہ باد
حضرت قائداعظم کا پاکستان، پائندہ باد