"AHC" (space) message & send to 7575

سائنسی، سیاسی میزان اور عمران خان

اللہ تعالیٰ کے آخری رسول‘ حضور کریمﷺ پر آخری آسمانی کتاب نازل ہوئی جس کا نام ''قرآنِ مجید‘‘ ہے۔ اس کی ایک سورت کا نام ''الرحمن‘‘ ہے۔ اس سورہ کی آیت نمبر سات میں ''میزان‘‘ کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ ترجمہ اس طرح ہے ''آسمان کو اس (اللہ تعالیٰ) نے رفعت و بلندی عطا فرمائی اور اسی نے (وہاں) ترازو قائم فرمایا‘‘ ۔لوگو! اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے آسمان اور میزان کا تذکرہ فرمایا ہے۔ قرآنِ مجید میں یہ حقیقت بھی بتا دی گئی ہے کہ آسمانوں کی تعداد سات ہے۔ یعنی سورہ رحمن کی سات نمبر آیت یہ اشارہ بھی دے رہی ہے کہ مولا کریم نے ساتوں آسمانوں کو رفعت و بلندی سے نوازا ہے۔ ان ساتوں آسمانوں میں میزان یعنی ترازو ہیں۔ وہ کتنی اقسام کے ہیں‘ یہ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتے ہیں۔
ہم میزان کو دو پلڑوں کی صورت میں جانتے تھے۔ کپڑوں کی پیمائش کو آج ہم میٹروں کی صورت میں پہچانتے ہیں۔ بخار چیک کرنے کا تھرما میٹر بھی ایک میزان ہے۔ ہوا کے دباؤ اور فضا میں نمی کو چیک کرنے کے میزان بھی بن چکے۔ الغرض! انسان نے سینکڑوں اقسام کے ترازو یا میزان بنا لیے ہیں۔ یہ سارے ترازو زمینی ہیں۔ کیا آسمانوں کی وسعتوں میں بھی میزان اور ترازو ہیں؟ ایک سائنس دان نے اس پر غور و فکر کیا تو ریسرچ کے ذریعے پتا چلا کہ ہماری زمین، چاند اور سورج کے درمیان بھی میزان ہیں جن کی وجہ سے یہ ایک دوسرے سے مقررہ فاصلوں پر رہتے ہیں۔ اگر یہ میزان نہ ہوتا تو یہ ایک دوسرے کے مدار میں داخل ہو جاتے اور تباہ و برباد ہو جاتے۔ جس سائنس دان نے آسمانی میزان کے بارے میں بتایا اس کا نام جوزف لوئس لاگرینج (Joseph Louis Lagrange)تھا۔ خلا میں جب دوربینیں اور سیٹلائٹس بھیجنے کا دور شروع ہوا تو پتا چلا کہ آسمانی میزان کو سامنے رکھا جائے گا تو مصنوعی سیارے دوسرے مداروں میں جا سکیں گے۔
25دسمبر 2021ء کو جب ''جیمز ویب ٹیلی سکوپ‘‘ کو سورج کے مدار میں بھیجا گیا تو میزان کے جس پوائنٹ پر اسے بھیجا گیا‘ اس میزان کا نام L.2 ہے۔ یہ پوائنٹ ہم سے 16لاکھ کلو میٹر دور ہے۔ یہ پوائنٹ زمین کے اُس جانب ہے جو سورج کی جانب سے نظر آنے والے زمینی حصّے کی جانب ہے۔ یہ نظر نہیں آتا مگر موجود ہے اور جیسا کہ ہم نے بتایا یہ ہماری زمین سے 16لاکھ کلو میٹر دور خلا میں ہے۔ یہ میزان نہ ہوتے تو موجودہ دور کی زمینی ترقی‘ جو آئی ٹی کے شعبے سے متعلق ہے‘ کا وجود نہ ہوتا۔ صدقے قربان جاؤں ختم المرسلین حضرت محمد کریمﷺ پر اور آپﷺ پر نازل ہونے والی آخری کتاب قرآنِ مجید پر کہ جس نے اس میزان کے بارے میں ساڑھے چودہ سو سال قبل بتا دیا تھا۔ ثابت ہوا آج کی سائنسی حقیقت سے کہ اللہ تعالیٰ ہی اس کائنات کا خالق ہے جس کا تعارف حضرت محمد کریمﷺ نے اور آپﷺ سے قبل آنے والے انبیا کرام علیہم السلام نے کروایا۔ حضرت محمد کریمﷺ ہی اللہ رب العالمین کے آخری سچے رسول ہیں۔ قرآنِ مجید آخری اور سچی کتاب ہے جس میں اتنی بڑی سائنسی حقیقت کا انکشاف ہوا اور اس وقت عرب کے اَن پڑھ معاشرے میں ہوا جب موجودہ سائنس کا کہیں وجود بھی نہ تھا۔ یہ تو ہماری زمین‘ چاند اور سورج سے متعلق پانچ میزان ہیں۔ پورے نظام شمسی میں کتنے ہیں اور ان کی کتنی اقسام ہیں‘ یہ ہم نہیں جانتے۔ یہ میزان ہماری گلیکسی ''مِلکی وے‘‘ میں کتنے کروڑوں کی تعداد میں ہیں‘ ہم نہیں جانتے اور پھر آسمانِ دنیا میں کتنے ہیں‘ ساتوں آسمانوں میں کتنی تعداد میں ہیں اور کون کون سی اقسام کے میزان اور ترازو ہیں‘ہمیں کچھ خبر نہیں۔ انسانو! کہاں تک جا سکو گے اور کیا تلاش کر سکو گے؟ بہتر یہی ہے کہ اللہ‘ اس کے رسولﷺ اور قرآنِ مجید کو مان لو! زندگیاں سنور جائیں گی! دنیا کی زندگیاں بھی اور آخرت کی زندگیاں بھی درست ہو جائیں گی۔
آسمان اور آسمانوں کے میزان کا ذکر کرنے کے بعد اللہ رب العزت نے اگلی آیت میں کیا فرمایا۔ اہلِ زمین کو مخاطب فرمایا اور کہا کہ ''تم لوگ (زمین پر بنائے ہوئے اپنے) ترازو میں زیادتی نہ کرو۔ انصاف کے ساتھ تول کو سیدھا رکھو اور میزان میں کمی مت کرو‘‘ (الرحمان: 8 تا 9)
قارئین کرام! سیاستدانوں نے قومی اسمبلی کو چلانے کے لیے بھی ایک ''میزان‘‘ بنا رکھا ہے‘ اس کے قوانین بنا رکھے ہیں۔ ''عدم اعتماد‘‘ بھی ایک قانون ہے۔ ایک ضابطہ ہے۔ ایک میزان ہے۔ ممبران نے دو پلڑوں میں کھڑا ہونا ہے‘ ایک پلڑا وزیراعظم پاکستان عمران خان کا ہے اور دوسرا پلڑا قائدِ حزبِ اختلاف شہباز شریف کا ہے۔ دونوں پلڑے قومی اسمبلی کی عمارت کے اندر ہیں۔ اس سارے نظام پر قوم کے اربوں روپے صرف ہوتے ہیں مگر گزشتہ ایک ماہ سے زائد عرصے سے وزن پارلیمنٹ سے باہر بنایا جا رہا ہے۔ جلسوں میں وزن بنایا جا رہا ہے۔ میدانوں اور سڑکوں پر وزن بنایا جا رہا ہے۔ گالم گلوچ سے وزن بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کون سمجھائے کہ وزن اخلاق سے بنتا ہے۔ محبت و پیار سے بنتا ہے۔ ا علیٰ اخلاقی اقدار سے بنتا ہے۔ مہذب جمہوری انداز اور رکھ رکھاؤ سے بنتا ہے۔ یہ میل ملاقاتوں سے بنتا ہے۔ حوصلے اور برداشت سے بنتا ہے۔ یاد رہے! جو دنیا کے میزان میں عدل کا خیال رکھے گا‘ اُخروی میزان میں بھی وہی کامیاب و کامران ہوگا۔ آہ! ہم لوگ اتنی سی بات کو بھی سمجھنے سے عاری ہو رہے ہیں کہ کُشتی اکھاڑے میں ہوتی ہے۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ اکھاڑے سے باہر‘ اس کے چاروں جانب ہزاروں تماشائیوں میں سے 80فی صد تماشائی کسی موٹے پہلوان کا ساتھ دے رہے ہوں جبکہ 20فی صد تماشائی دبلے پتلے پہلوان کا ساتھ دے رہے ہوں۔ دنگل کا آغاز ہو تو دبلا پتلا پہلوان جیت سکتا ہے اور موٹا پہلوان ہار سکتا ہے۔ اسّی فی صد تماشائی اچھلنے کودنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں کر سکتے اس لیے کہ فیصلہ اکھاڑے میں ہونا ہے۔ وہاں کسی تماشائی کو جانے کی اجازت نہیں۔ افسوس کہ ہم اپنے ملک کے پون صدی کے جمہوری دور میں اتنی سی بات بھی نہ سمجھ سکے۔
جمہوری دور میں کسی حد تک اداروں کا عمل دخل ہو یا ڈکٹیٹر شپ میں کافی حد تک جمہوری اور سول حکمرانی کا کردار‘ سوال تو یہ ہے کہ بانیٔ پاکستان حضرت قائداعظم محمد علی جناح رحمہ اللہ نے 'ایمان، اتحاد اور تنظیم‘‘ کا جو سلوگن دیا تھا‘ اس میں سے صرف آخری نکتے تنظیم یعنی ڈسپلن ہی کو دیکھ لیا جائے اور صرف میرے وطن عزیز کی سڑکوں پر دیکھ لیا جائے تو کوئی بھی حکمرانی ہمیں سڑکوں پر چلنے کا ڈھنگ نہ سکھا سکی۔ اللہ اکبر! جو قوم سڑک پر چلنے کا ڈھنگ نہ سیکھ سکے‘ وہ زندگی کی سڑک پر کیا چلے گی؟
صرف لاہور میں گزشتہ ایک ماہ میں ساڑھے سات ہزار سے زائد حادثات ہوئے۔ 5ہزار صرف موٹر سائیکلوں کی وجہ سے ہوئے، باقی پاکستان بھر کا کیا حال ہوگا۔ موٹر سائیکل والا سائیڈ کا شیشہ نہیں لگاتا‘ گردن پھیر پھیر کر دائیں بائیں دیکھتا رہتا ہے اور حادثے کا شکار ہو جاتا ہے۔ شہروں میں بائی پاس بن گئے تاکہ ٹریفک رواں دواں رہے‘ ان کے دونوں جانب دکانیں، پلازے اور آبادیاں بن گئیں۔ بائی پاس کا تصور ختم ہو گیا۔ اب جناب والا! کراچی سے پشاور تک جی ٹی روڈ پر ایک ''شہر‘‘ بننے جا رہا ہے۔ آئندہ سالوں میں دو ہزار کلو میٹر کے قریب اس لمبے ترین شہر کو کون کنٹرول کرے گا؟ کسی حکمران میں یہ سوچ ہے کہ اس کا حل نکالے؟ سارے پاکستان کی سڑکوں کا یہی حال ہونے جا رہا ہے۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ پانچ سو یا چار سو میٹر؍ فٹ کا قانون کوئی حکمران نہ بنا سکا کہ اس کے اندر عمارت نہ بنے گی۔ چودھری پرویز الٰہی نے سڑکوں پر چلنے کا ایک نظام وضع کیا تھا۔ اگرچہ وہ بھی ناکافی تھا مگر میری دانست میں یہ پاکستان کے وزرائے اعلیٰ میں سے پہلے وزیراعلیٰ تھے جو چیونٹیوں کی لائن کے سائن بورڈوں کے ذریعے انسانوں کو سمجھاتے تھے کہ لائن توڑو گے تو گھنٹوں ٹریفک بلاک ہوگی۔ الغرض! ایسے بہت سارے موضوعات ہیں۔ دعا یہ ہے کہ مولا کریم! ہمیں سمجھ بوجھ والے‘ اعلیٰ سوچوں اور عوامی بصیرت رکھنے والے مخلص حکمران عطا فرمائے جو میزان کو عدل کے ساتھ اپنانے والے ہوں، آمین!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں