"AHC" (space) message & send to 7575

قرآنِ مجید کا سائنسی اعجاز مگر توہین کیوں؟

ایک بار پھر قرآنِ مجید کی توہین کی جسارت کی گئی ہے (معاذ اللہ)سویڈن اور نیدر لینڈ میں یہ مذموم فعل کیا گیا تو پولیس محض تماشائی بنی رہی۔ اس پر سعودی عرب، پاکستان اور عالم اسلام نے مذکورہ ملکوں سے احتجاج کیا ہے۔
حضرت مریم علیہا السلام کے والد محترم کا اسم گرامی عمران اور ان کے بیٹے کا نام حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہے۔ دونوں ماں بیٹے کے خاندان کو قرآنِ مجید نے ''آل عمران‘‘ کہاہے۔ اس نسبت سے قرآنِ مجید کی ایک سورت کا نام بھی ''آل عمران‘‘ ہے۔ اس سورت کے آخری رکوع کی جو آیات ہیں ان کا آغاز کائنات کی تخلیق پر غوروفکر کی ترغیب سے ہوتا ہے۔ حضرت عبداللہؓ ،جو حضور کریمﷺ کے چچا حضرت عباسؓ کے بیٹے اور حضور کریمﷺ کی اہلیہ ام المومنین حضرت میمونہؓ کے بھانجے تھے‘ اپنے لڑکپن کی بات سناتے ہیں کہ میں حضور کریمﷺ کی رات کی نماز (تہجد) دیکھنے کے لیے اپنی خالہ حضرت میمونہؓ کے گھر میں رات گزارنے چلا گیا۔ حضور کریمﷺ اور خالہ جان بستر پر لمبائی کی جانب جبکہ میں اسی بستر میں چوڑئی (پائنتی) پر سو گیا۔ حضور کریمﷺ رات (پچھلے پہر ) کو بیدار ہوئے۔ نیند کو اپنے چہرے سے دور فرمایا۔ سورہ آل عمران کی آخری دس آیات تلاوت فرمائیں اور پھر (وتر سمیت) تیرہ رکعتیں پڑھیں۔ (صحیح بخاری: 1370) یاد رہے! صحیح مسلم میں مذکورہ واقعہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے اللہ کے رسولﷺ کے گھر رات گزاری۔ آپﷺ رات کے آخری حصے میں اٹھے پھر باہر (صحن میں) نکلے آسمان کی جانب دیکھا اور سورہ آل عمران کی آیات (190 تا 191) تلاوت کیں۔ (صحیح مسلم: 256)
مذکورہ آیات کا شانِ نزول‘ جسے امام ابن حبان اپنی صحیح میں ‘ امام عبد بن حمید اپنی تفسیر میں ‘ امام ابن ابی حاتم، ابن مردویہ اور امام طبرانی اپنی معجم میں لائے ہیں‘ اس طرح ہے کہ قریش کے کفار یہودیوں کے پاس گئے اور ان سے پوچھا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کیا معجزات عطا فرمائے گئے تھے؟ انہوں نے کہا: عصا اور ید بیضاء، پھر وہ مسیحی لوگوں کے پاس گئے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات کے بارے پوچھا تو انہوں نے کہا: وہ پیدائشی اندھے اور کوڑھ کے مریضوں کو درست کردیتے تھے‘ مردے کو زندہ کردیتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ کہتے ہیں کہ اب وہ حضور کریمﷺ کے پاس آئے اور (مذکورہ باتیں کیں اور) مطالبہ کیا کہ آپ ہمارے لیے صفا پہاڑی کو سونے کا بنادیں۔ اس پر یہ آیات نازل ہوئیں۔ ترجمہ ''بلاشبہ آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں‘ رات دن کے ادل بدل میں صاحب دانش کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں۔ وہ لوگ کھڑے بیٹھے اور اپنے پہلوؤں پر اللہ کا ذکر کرتے رہتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں غوروفکر کرتے رہے۔ (وہ اپنے رب کو مخاطب کرکے عرض کرتے ہوئے عرض کرتے ہیں) اے ہمارے رب! آ پ نے یہ سارا کچھ بے مقصد پیدا نہیں فرمایا‘ آپ (ایسی باتوں سے) پاک اور بلند ہیں‘ لہٰذا ہم لوگوں کو آگ کے عذاب سے محفوظ فرمالیں‘‘۔ (آل عمران:190 تا 191)
امام طبرانی معجم میں‘ ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ جناب عطاء رحمہ اللہ کے حوالے سے ایک حدیث لائے ہیں۔ کہتے ہیں کہ میں حضرت عبداللہ بن عمر اور عبید بن عمیر رضی اللہ عنہما کے ساتھ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کی خدمت میںحاضر ہوا۔ ہم اجازت لے کر بیٹھے اور التجا کی کہ حضورﷺ کی زندگی کا کوئی ایمان افروز واقعہ سنایئے۔ سیدہ عائشہ صدیقہؓ رو دیں‘ پھر فرمانے لگیں: میری باری پر آپﷺ میرے ہاں تشریف لائے۔ (پچھلی رات) ہوئی تو فرمانے لگے: ذَرْیِنِی،مجھے چھوڑ دیجئے‘ میں اپنے رب کی عبادت کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا: مجھے آپﷺ کا قرب عزیز ہے اور یہ بات بھی عزیز ہے کہ آپ اپنے رب کی عبادت کریں۔ آپﷺ پانی کی مشک کی طرف گئے۔ وضو کیا اور رونے لگ گئے یہاں تک کہ آپ کی داڑھی مبارک آنسوؤں سے تر ہوگئی۔ پھر سجدہ ریز ہوگئے تو روتے رہے حتیٰ کی زمین بھیگ گئی۔ پھر اپنے پہلو پر لیٹ گئے اور روتے رہے اتنے میں فجر کی نماز کی امامت کا وقت ہوگیا۔ حضرت بلالؓ نے اجازت مانگی اور اندر آگئے اور عرض کی: اے اللہ کے رسولﷺ! آپ کو کس چیز نے رلایا؟ فرمایا: آج کی رات مجھ پر یہ آیت نازل ہوئی ہے۔ پھر آپﷺ نے سورہ آل عمران کی مذکورہ آیات پڑھیں‘ پھر فرمایا۔ ویل لمن قراء ھا ولم یتفکر فیھا۔ بربادی ہے اس کے لیے جس نے ان آیات کو پڑھا اور ان میں غوروفکر نہیں کیا۔
مذکورہ احادیث اور مفسرین کی تفاسیر نے آگاہ کردیا کہ سورہ آل عمران مدنی سورت ہے مگر اس کی آخری آیات ایسی آیات ہیں جو مکہ میں بھی نازل ہوئیں اور مدینہ میں بھی نازل ہوئیں۔ اس سے ان آیات کی عظمت کا پتا چلتا ہے۔ ان آیات پر اندلس و بغداد کے حکمرانوں نے عمل کیا تو سائنسی دنیا میں امامت کا مرتبہ پایا۔ باہمی دنگے فساد میں سائنسی علم کو الوداع کہا تو اپنے شاگرد اہالیانِ یورپ کے ہاتھوں بربادیوں کو دیکھا۔ میرے وطن عزیز پاکستان میں ایک عرصے سے کچھ اسی طرح کی مشقیں حکمران کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہدایت عطا فرمائے۔
امریکہ کے خلائی ادارے ''ناسا‘‘ نے 690 ملین ڈالر خرچ کیے اور 11 جون 2008ء کو ''فرمی رے سپیس دوربین‘‘ لانچ کی۔ ''میکس پلانک انسٹیٹیوٹ فار ریڈیو آسٹرونومی‘‘ نے 17 اپریل 2022ء کو ایک اہم ترین انکشاف دنیا کے سامنے رکھا ہے۔ سائنٹیک ڈیلی ڈاٹ کام نے جو سرخی جمائی ہے‘ ملاحظہ ہو!'' A Sea Gravitational Waves‘‘ کشش کی لہروں کا ایک سمندر! جی ہاں !خلا کے انتہائی وسیع و عریض سمندرمیں انتہائی وسیع و عریض بلیک ہولز واقع ہیں۔ یہ آپس میں ملتے ہیں‘ ایک دوسرے میں مدغم ہوجاتے ہیں۔ بلیک ہولز کے ایک جوڑے کی باہم مدغم ہوتے ہوئے ایک فلم بھی دکھائی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ سپیس ٹائم کی لہروں (Ripples) میں بلیک ہولز اور باقی اجرام فلکی اپنا اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ قارئین کرام! پانی پر جو چھوٹی چھوٹی شکن دار لہریں پیدا ہوتی ہیں انہیں Ripples کہا جاتا ہے۔ یعنی سائنسدانوں نے خلا کو پانی کے سمندر کے ساتھ تشبیہ دی ہے جبکہ اس کی Gravitational Waves کو پانی کی شکن دار لہروں سے مشابہ بتایا ہے۔ یاد رہے! جس طرح غوطہ خورپانی کے اندر تیرتے ہیں‘ آکسیجن کا سلنڈر کمر پر باندھتے ہیں‘ ناک پر ماسک چڑھاتے ہیں جو سلنڈر سے آکسیجن لیتا ہے اور ناک کے ذریعے پھیپھڑوں تک پہنچاتا ہے۔خلانورد بھی یہی کچھ کرتاہے۔ اسے خلا میں بھیجنے سے پہلے تیراکی کی تربیت دی جاتی ہے پھر سلنڈر کمر کے ساتھ باندھا جاتا ہے اور ناک پر ماسک چڑھایا جاتا ہے۔ جس طرح پانی میں تیراک تیراکی کرتا ہے اسی طرح خلانورد خلا میں تیرتا ہے۔
امام جمال الدین ابن منظور‘ جنہوں نے ہزار سال قبل ''لسان العرب‘‘ لکھی‘ فرماتے ہیں'' سبح بالنھر‘‘ اس نے دریا میں تیراکی کی۔ ایسے ہی آسمان میں ستارے بھی تیرتے ہیں۔ ''تسبح فی الفلک سبحا‘‘وہ فلک میں تیرتے ہیں۔ السبح کا معنی الفراغ بھی ہے یعنی ''Space میں تیرنا‘‘۔ اللہ اللہ! تیراکی کے لیے جو لفظ سمندر کے لیے استعمال ہوا ہے ہوا‘ فراغ یعنی Space کے لیے بھی استعمال ہوا ہے۔ عربی زبان کی اسی وسعت کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے اپنا آخری کلام عربی مبین میں نازل فرمایا۔ ارشاد گرامی ہے: کل فی فلک یسبحون۔ (الانبیاء :33) سب کے سب (ستارے ، سیارے، گلیکسیاں، بلیک ہولز وغیرہ) اپنے اپنے مدار میں تیر رہے ہیں۔
قارئین کرام! یہ ہے وہ سائنسی اعجاز جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے سورہ آل عمران کی آیات نازل فرمائیں اور آگاہ کردیا کہ سونے کے پہاڑوں سے بڑھ کر ہے وہ علم جو قرآنِ مجید میں بیان کردیا گیاہے۔ اس سے خالق کی پہچان ہوتی اور آخرت سنورتی ہے۔ سائنسی میدان میں آگے بڑھیں تو علم کی بنیاد پر دنیا میں بھی خوشحالی اور عزت دامن چومتی ہے۔ سمندر اور خلا کی تیراکی کے لیے قرآن نے ''سبح‘‘ کا لفظ استعمال کیا۔ سائنس کو آج پتا چلا‘ قرآن مجید تو ساڑھے چودہ صدیاں آگے ہے۔ قرآنِ مجید میں حضرت مریم اور حضرت عیسی علیہما السلام کا احترام دیکھو تو قرآنِ پاک کی توہین نہ کرو۔ سائنسی انکشاف کو دیکھو‘ تب بھی قرآن کا احترام کرو۔ ارے ! کس منہ سے توہین کا ارتکاب کرتے ہو؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں