"AHC" (space) message & send to 7575

نوبت یہاں تک کیوں پہنچی؟

اللہ تعالیٰ ہمارے حال پر رحم فرمائے‘ ہم تو ایسے ظالم اور بے رحم ثابت ہوئے ہیں کہ اپنے معاشرے میں اخلاقی خودکشیاں کرنے سے باز نہیں آ رہے بلکہ آگے سے آگے ہی بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ لاہور کا جامعہ نعیمیہ کس قدر نیک نام مدرسہ تھا لیکن اس کے نیک نام مہتمم نے خودکش حملوں کے خلاف فتویٰ دیا تو انہیں جامعہ نعیمیہ ہی میں خودکش حملے کا شکار بنا کر شہید کر دیا گیا۔ اس نیک نام جری اور بہادر بزرگ عالم دین کا نام ڈاکٹر سرفراز نعیمی تھا۔ اللہ تعالیٰ انہیں جنت سے سرفراز فرمائے! وہاں کی نعمتوں سے لطف اندوزی عطا فرمائے۔
دن آگے بڑھے تو اسی مدرسے میں سابق وزیراعظم جناب میاں محمد نواز شریف تشریف لائے۔ دیکھتے ہی دیکھتے دو شدت پسندوں نے ان کی طرف جوتے اچھال دیے۔ اللہ کی قسم! یہ جو دن تھا‘ یہ میرے دین، اہلِ دین اور میرے وطنِ عزیز کی عزت پر حملہ تھا۔ ڈاکٹر راغب نعیمی سے ملاقات ہوئی‘ وہ بے حد دکھی اور رنجیدہ تھے۔ اپنے والد کی شہادت کے بعد ان کے لیے یہ سب سے بڑا صدمہ تھا۔ میں نے اس پر انہی صفحات پر کالم لکھا تھا۔ اس کے بعد ''آپا نثار فاطمہ‘‘ کے بیٹے پر حملہ ہوا۔ وہ پاک فوج کے عظیم جرنیل جناب ضیاء الحق شہید کی مجلس شوریٰ کی ممبر تھیں۔ انتہائی دیندار اور نیک نام خاتون تھیں۔ ان کے فرزند ارجمند جناب احسن اقبال صاحب پر ایک جنونی شخص نے حملہ کیا۔ وہ زخمی تو ہوئے مگر اللہ تعالیٰ نے انہیں محفوظ رکھا۔ صحافت کی دنیا میں دیکھوں تو دو معروف نام ہیں۔ دونوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور طمانچے مارے گئے۔ یہ کام ایک وزیر نے کیا! اس کابینہ کے وزیر نے جو قریباً ایک ماہ پہلے ختم ہوئی۔ جی ہاں! ہم اپنے اداروں میں بھی خودکش بمبار بن چکے۔ ہم سیاست کے ایوانوں اور رویوں کے میدانوں میں بھی اخلاقی خودکش بن چکے۔ ہم صحافت کے کوچہ و بازار میں بھی غیر اخلاقی دھماکے کر چکے۔ اور اب نوبت یہاں تک آ پہنچ چکی کہ توہین آمیزی کا سفر جاری رکھتے ہوئے مسجد نبوی شریف تک پہنچ چکے ہیں۔ مبینہ طور پر طمانچے مارنے والے وزیر صاحب اور ان کے کئی ساتھی یعنی سابق وزرا اسے اپنا کارنامہ قرار دے رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ سفررکتا اور تھمتا نظر نہیں آتا۔
میاں محمد نواز شریف کی حکومت میں اس جنونیت کا آغاز ایک مدرسے سے ہوا تھا۔ اب ان کے بھائی میاں محمد شہباز شریف وزیراعظم ہیں تو سیاسی اور جمہوری جنونیت نے مسجد نبوی شریف میں توہین آمیز شور و غوغا برپا کر دیا۔ حضور کریمﷺ کی ختم نبوت کے حوالے سے یہ آخری مقدس مقام ہے لہٰذا توہین آمیزی کا وہ سفر جو پاکستان سے شروع ہوا اور سرزمین حرمین تک جا پہنچا‘ اسے اب ختم کرنا ضروری ہے۔
''حضرت ابوہریرہؓ بتاتے ہیں کہ اللہ کے رسولﷺ کی مسجد میں ایک نماز کی ادائیگی باقی تمام مساجد میں ہزار نمازوں سے بھی افضل ہے۔ یہ فضیلت مسجد حرام (مکہ) کے علاوہ ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اللہ کے رسولﷺ تمام نبیوں میں آخری نبی ہیں اور آپﷺ کی مسجد (انبیاء کرام کی) تمام مساجد میں آخری مسجد ہے۔ آپﷺ نے خود ارشاد فرمایا کہ میں سارے نبیوں میں سے آخری نبی ہوں اور میری مسجد تمام مسجدوں میں سے آخری مسجد ہے‘‘ (بخاری:1190، 1394) آخری مسجد ان معنوں میں ہے کہ ہر نبی اپنی مسجد بناتا تھا‘ اب نہ کوئی نبی اور رسول آئے گا اور نہ ہی مسجد بنے گی۔ جی ہاں! حضور کریمﷺ کی مسجد یعنی مسجد نبوی ختم نبوت کی دلیل ہے۔ یہ ختم نبوت کا آخری مقدس ترین حرم اور مقام ہے۔ یہ سرخ لکیر ہے۔ اسے عبور کرنا تباہی اوربربادی ہے۔ اللہ کے غضب کو دعوت ہے۔ ملک کی بدنامی ہے۔ ملک کے سب سے بڑے منصب‘ وزارتِ عظمیٰ کی توہین ہے۔
توہین آمیزی کے اس سفر کو کہ جو سرخ لکیر عبور کر چکا ہے‘ روکنا حکومت پاکستان اور سب اہلِ پاکستان کی ذمہ داری ہے۔ غلطی اور گناہ کا ارتکاب کرنے والے اللہ سے بھی بخشش مانگیں کہ اس کے محبوبؐ کے حرم کی حرمت پامال ہوئی۔ حکومتِ پاکستان سے بھی معافی مانگیں کہ پاکستان اور پاکستان کے سب سے بڑے عہدے ''وزارتِ عظمیٰ‘‘ کی توہین ہوئی۔ میاں شہباز شریف، مریم اورنگزیب، نواب شاہ زین بگٹی اور دیگر ان سب اشخاص سے معافی مانگی جائے جن کی توہین ہوئی ہے۔ احساسِ گناہ ہو جائے‘ اس کا مداوا ہو جائے تو سب کو معافی ملنی چاہیے کہ ہم سب کی خیر اور بھلائی درگزر میں ہے۔ اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائیں۔ اللہ کرے توفیق مزید ملے تو اُن لوگوں کو سلمان اور قاسم کی والدہ محترمہ جمائما صاحبہ سے بھی معافی مانگنی چاہیے جنہوں نے ان کے گھر کے سامنے احتجاج کیا۔ اس سے اہلِ خانہ میں خوف پیدا ہوتا ہے۔ یہ حرکت غیر انسانی اور غیر اخلاقی ہے۔ اسی طرح جو لوگ میاں نواز شریف صاحب کے گھر کے باہر احتجاج کرتے ہیں‘ انہیں بھی میاں صاحب سے معافی مانگنی چاہیے۔ لوگوں کے گھروں تک پہنچنے کی باتیں اسی طرح چلتی رہیں تو ہم خانہ جنگی کا شکار ہو جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ کا واسطہ دے کر سب سے عرض گزار ہوں کہ ہم واپس اپنے اخلاقی اور اسلامی رویوں کی طرف پلٹیں‘ وطن عزیز کے استحکام اور امن میں ہی ہم سب کی خیر ہے۔
یاد رہے! جس طرح مکہ مکرمہ حرم ہے اسی طرح مدینہ منورہ بھی حرم ہے۔ حضور کریمﷺ کا ارشاد گرامی ہے ''حضرت ابراہیم علیہ السلام نے (اللہ کے حکم سے) مکہ کو حرم قرار دیا تھا‘ پھر مکہ کے لیے برکت کی دعا بھی کی تھی۔ اب میں نے بھی (اللہ کے حکم سے) مدینہ کو اسی طرح حرم قرار دے دیا ہے جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرم قرار دیا تھا‘‘۔ (صحیح بخاری: 2129، صحیح مسلم: 1360) مزید فرمایا ''مدینہ حرم ہے‘ جو امن دینے والا ہے‘‘۔ (صحیح بخاری:1349 صحیح مسلم: 1367) حضور کریمﷺ نے حرم کی حدود مقرر کرتے ہوئے فرمایا ''میں مدینہ کو اس کے دو سیاہ پتھریلے علاقوں کے درمیان حرم قرار دیتا ہوں‘‘۔ (صحیح مسلم: 1361) مزید فرمایا! ''عیر (پہاڑ) سے ثور (پہاڑ) کے مابین مدینہ حرم ہے‘‘ (صحیح بخاری: 1870، صحیح مسلم: 1370) جی ہاں! یہ 25‘ 30 مربع کلو میٹر کا رقبہ بنتا ہے جس کو حضور اکرمﷺ نے حرم قرار دیا۔ لہٰذا یہاں لڑائی جھگڑا یا دنگا فساد منع ہے۔
انسان تو رہے ایک طرف‘ پرندوں اور جانوروں کا شکار بھی منع ہے۔ ان کو ڈرانا منع ہے۔ درخت کاٹنا منع ہے۔ جو حضور کریمﷺ کی مسجد ہے‘ وہ خصوصی حرم ہے۔ مکہ کی ''مسجد حرام‘‘ بھی حرم ہے اور ہمارے حضورﷺ کی مسجد نبوی شریف بھی ''حرم‘‘ ہے۔ یعنی یہاں کی حرمتوں کی عظمت بہت زیادہ ہے۔ پامالی پر اللہ تعالیٰ کا انتباہ بھی بہت بڑا ہے۔ فرمایا! ''جس کسی نے یہاں (حرمِ مکی میں) ظلم کے ساتھ برائی کا ارادہ بھی کیا‘ ہم اسے دردناک عذاب کا مزہ چکھائیں گے‘‘۔ (الحج:25) جی ہاں! ہمارے حضور کریمﷺ نے چونکہ مکہ کی طرح مدینہ کو بھی حرم قرار دے دیا‘ لہٰذا حرمِ مدنی میں بھی جو شخص ظلم کے ساتھ برائی کا ارادہ کرے گا‘ وہ بھی اللہ کے دردناک عذاب کی دھمکی اور انتباہ میں شامل ہے۔ لہٰذا معاملہ بڑا نازک ہے۔
جناب حضرت مجاہدبن جبیر رحمہ اللہ تعالیٰ جو حضرت عبداللہ بن عباسؓ کے شاگرد تھے‘ امام المفسرین کہلائے۔ وہ مندرجہ بالا آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیںکہ ظلم سے مراد برائی ہے، جبکہ ان کے استاذ گرامی کے ہاں ظلم سے مراد پختہ ارادے کے ساتھ پروگرام بنا کر برائی کا ارتکاب ہے۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ استاد اور شاگرد‘ دونوں کا قول اپنی تفسیر میں لائے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ دونوں قول درست ہیں۔ ان کی روشنی میں مسجد نبوی جو ہمارے حضورﷺ کا خصوصی حرم ہے‘ وہاں کسی بری حرکت کا ارتکاب انتہائی خطرناک ہے۔ دنیا میں کس قدر خطرناک ہوتا ہے یہ اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے۔ آخرت میں اس کی سزا کس نوعیت کی ہوگی وہ بھی انتہائی درد ناک ہے‘ لہٰذا میری گزارش سیاسی لیڈروں اور اپنے اہلِ وطن سے یہ ہے کہ سیاست بھی کریں‘ اپنا اپنا مؤقف بھی رکھیں مگر خودداری اور وقار کا خیال رکھیں۔
حضرت اشج رضی اللہ عنہ ایک سردار تھے‘ حضور کریمﷺ نے ان کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا تھاکہ ان کے اندر دو خوبیاں ایسی ہیں جو اللہ ا ور اس کے رسول کو بڑی پسند ہیں؛ وہ خودداری اور وقار ہیں۔ بخاری شریف میں مذکور اس فرمان کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں اپنی اور دوسروں کی خودداری اور وقار کا خیال رکھنا چاہیے۔ پاکستان- زندہ باد کے سلوگن کو فراموش نہیںکرنا چاہئے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں