اللہ کے آخری رسول حضور کریمﷺ کی حدیث شریف سامنے آئی۔ مطالعہ کیا، غو رکیا، اپنا جائزہ لیا اور کانپتا چلا گیا۔ سجدے میں گرا۔ پچھلے گناہوں کے لیے معافی کا خواستگار ہوا۔ آئندہ کے لیے عزم کیا کہ کسی بھائی‘ بہن کا گوشت میرے منہ میں نہ جانے پائے۔ قارئین کرام! حدیث شریف کا تعلق حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہما کے ساتھ ہے۔ حضرت ابوبکرؓ حضور کریمﷺ کی امت کے صدیق ہیں۔ مقامِ نبوت کے بعد صدیقیت کا مقام ہے اور آپؓ صدیق اکبر ہیں۔ حضرت عمرؓ وہ ہستی ہیں کہ جس رائے کا اظہار فرماتے تھے تو اللہ تعالیٰ قرآنِ مجید کی صورت میں وہی احکام نازل فرما دیتا تھا کہ عمرؓ کی رائے اللہ کی چاہت ہے۔ اسی لیے حضور کریمﷺ نے فرمایا: میرے بعد اگر کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر ہوتا۔ الغرض یہ دونوں ہستیاں انتہائی عظیم ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے دونوں کو مدفن عطا فرمایا تو اپنے محبوب کے حجرے میں جگہ عطا فرمائی۔ حدیث شریف بیان کرنے سے پہلے یہ بھی عرض کردوں کہ عظیم لوگوں کی بات عظمت کے اعلیٰ ترین معیار سے ذرا نیچے ہوجائے تو اس پر بھی گرفت ہوجاتی ہے جبکہ عام لوگوں کے لیے وہ غلطی شمار نہیں ہوتی‘ جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام جو جلیل القدر رسول تھے‘ بنی اسرائیل کی مجلس میں ایک شخص نے ان سے پوچھا: کیا روئے زمین پر آپ سے بڑا عالم بھی کوئی ہے؟ انہوں نے نفی میں جواب دیا تو اللہ تعالیٰ کو یہ بات پسند نہ آئی اور حکم دیا کہ جائو ہمارے ایک بندے کے پاس (جس کا نام خضر ہے) اس سے جاکر علم حاصل کرو۔ قرآنِ مجید کی سورۂ کہف میں اس واقعے کی تفصیل موجود ہے۔ اسی طرح حضرت یونس علیہ السلام نے جب دیکھا کہ ان کی مشرک اور نافرمان قوم پر سیاہ بادلوں کی صورت میں عذاب کے آثار نمایاں ہوگئے ہیں تو وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے قبل ہی اپنی قوم کو چھوڑ کر چل پڑے اور مچھلی کے پیٹ میں جا پہنچے، وہاں اپنی غلطی کا عتراف کرکے معافی مانگی تو اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمائی۔
حضرت صدیق اکبرؓ اور حضرت فاروق اعظمؓ دنیا میں بھی حضور کریمﷺ کے دوست تھے۔ ''ریاض الجنۃ‘‘ یعنی حجرۂ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ میں بھی حضور کریمﷺ کے ساتھ ہیں۔ حشر میں بھی ساتھ ہوں گے اور فردوسِ اعلیٰ میں بھی ساتھ ہوں گے۔ وہ نبی نہیں ہیں مگر چونکہ نبیوں اور رسولوں کے سردار کے دوست ہیں‘ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے ان کی ایک ایسی بات اپنے رسول کو بتا کر ان کی اصلاح فرمائی جو عظمت و رفعت کے پیمانے سے قدرے کمتر تھی۔
قارئین کرام! جو واقعہ بیان کرنے چلا ہوں‘ یہ واقعہ حضرت انسؓ بن مالک کے سامنے پیش آیا۔ حضرت انسؓ حضور کریمﷺ کے خادم تھے۔ سفر و حضر میں حضور کریمﷺ کے ہمراہ ہوتے تھے۔ ان سے یہ واقعہ حضرت ثابتؒ بنانی نے روایت کیا جو حضرت انسؓ کے خاص الخاص شاگرد تھے۔ حدیث کے باقی راوی وہ ہیں جن سے امام مسلم رحمہ اللہ نے اپنی صحیح (صحیح مسلم)میں روایات لی ہیں۔ شیخ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ نے زیرِ نظر حدیث کی سند کو صحیح کہا ہے۔ حدیث شریف ملاحظہ ہو! ''حضرت انسؓ بن مالک کہتے ہیں کہ عربوں کی عادت تھی کہ سفرمیں (خادم بن کر) ایک دوسرے کی خدمت کیا کرتے تھے۔ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما(کی خدمت کے لیے) ایک شخص ساتھ ہولیا‘ جو ان کی خدمت کیا کرتا تھا۔ حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہما(دوپہر کے قیلولہ سے) سوکر بیدار ہوئے تو کیا دیکھا کہ خادم نے ان کے لیے کھانا تیار نہ کیا تھا۔ دونوں (یعنی) حضرت ابوبکر ؓ اور حضرت عمرؓ میں سے کسی ایک نے دوسرے سے کہا: یہ خادم تو ایسے سوتا ہے جیسے سفر کو گھر سمجھ کر سوتا ہے (یعنی بہت سوتا ہے)۔ اب دونوں نے خادم کو جگایا اور پیغام دے کر اللہ کے رسولﷺ کے پاس بھیجا کہ حضورﷺ کی خدمت میں ہمارا سلام عرض کرو اور ساتھ یہ کہوکہ وہ دونوں سالن مانگ رہے ہیں۔ اس پر حضور کریمﷺنے اس خادم سے فرمایا: جائو اور میری جانب سے بھی ان دونوں کو سلام کہو اور انہیں بتلائو کہ تم دونوں نے سالن چکھ لیا ہے۔ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ نے یہ فرمانِ نبوی سنا تو گھبرا اٹھے اور فوراً حضور کریمﷺ کی خدمت میںحاضر ہوئے اور عرض کی: اے اللہ کے رسولﷺ! ہم نے سالن کی خاطر آپ کی خدمت میں بندہ بھیجا تھا‘ آپﷺ نے فرمایا کہ ہم نے سالن چکھ لیا ہے۔ کون سا سالن اے اللہ کے رسولﷺ؟ آپﷺ نے فرمایا: اپنے بھائی کے گوشت کا۔ مجھے قسم ہے اس عظیم رب کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے‘ میں اس کا گوشت تمہاری داڑھوں کے درمیان دیکھ رہا ہوں۔ اس پر حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ عرض گزار ہوئے: اے اللہ کے رسولﷺ! ہمارے لیے (رب کریم سے) بخشش طلب فرما دیجئے۔ فرمایا: وہ خادم ہی تمہارے لیے بخشش مانگے گا‘‘۔ (سلسلۃ الاحادیث صحیحہ: 2608)
اللہ اللہ! دورانِ سفر ایک معمولی سا تبصرہ تھا کہ ''ہمارا خادم زیادہ سوتا ہے‘‘ اور اسے بھی غیبت میں شمار کیا گیا۔ اللہ تعالیٰ کو اپنے پیارے رسولﷺ کے دوستوں کا کس قدر خیال تھا کہ یہ بات مولا کریم نے اپنے رسول کو بتادی تاکہ دونوں دوستوں کی عظمت و رفعت میں فرق نہ آئے کہ انہی دونوں نے حضور کریمﷺ کے بعد حکمران بننا ہے۔ قبر ، حشر اور فردوسِ اعلیٰ میں ساتھ ساتھ رہنا ہے ؛چنانچہ حضور کریمﷺ نے ان کی اصلاح فرمائی اور یہ بات بھی کہ عزت مجروح ہوئی تو خادم کی ہوئی‘ لہٰذا اسی سے بخشش کا کہا جائے گا۔ اسی سے عرض کیا جائے گا تو اللہ تعالیٰ راضی ہوگا۔
میرے ملک پاکستان کے حکمرانو! ریاستِ مدینہ کے حکمران حضور کریمﷺکو دیکھو۔ اپنے دو وزیروں کا کس قدر کڑا احتساب فرما رہے ہیں۔ ہمارا حال کیا ہے؟ حکمران لوگ گندی وڈیوز کو لیک اور افشا کرنے کی دھمکیاں دیتے ہیں۔ افشا بھی کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کے کردار پر اس قدر ننگے جملے بولتے ہیں کہ اللہ کی پناہ۔ جلسوں میں‘ پریس کانفرنسوں میں مخالفین کی عزتیں اچھالتے ہیں۔ مولانا سید مودودی، مولانا شاہ احمد نورانی، مولانا مفتی محمود اور مولانا معین الدین لکھوی جیسے نیک نام سیاستدان بھی اس ملک میں ہوگزرے ہیں۔ محترم نوابزادہ نصر اللہ خان بھی کیا وضع دار سیاستدان تھے۔ میں نے ان سب کی مجالس سے فائدہ اٹھایا ہے۔ مولانا معین الدین لکھوی‘ جو ساری زندگی قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوتے رہے‘ کے بڑے بھائی حضرت مولانا محی الدین لکھوی تھے۔ مجھے متعد بار ان کی مجلس سے استفادے کا موقع ملا۔ متحدہ پاکستان کی اسمبلی میں جب وہ منتخب ہوکر پہنچے‘ اس وقت تو شرم و حیا اور وضع داری بھی بہت تھی۔ تب بھی انہیں قومی اسمبلی کا ماحول پسند نہ آیا اور وہ استعفیٰ دے کر گھر چلے گئے۔ اللہ تعالیٰ کے ایسے ولی اور نیک بزرگ تھے کہ ان کی کرامتیں اہلِ قصور میں معروف ہیں۔
چند دن قبل مجھے کھڈیاں کے قریب گائوں ''خرم‘‘ میں درسِ قرآنِ مجید کا موقع ملا تو عابد ربانی کے ماموں‘ جو 90 سالہ بزرگ ہیں اور بہت ہی نیک انسان ہیں‘ کہہ رہے تھے کہ میں مولانا محی الدین لکھویؒ کے ہمراہ تھا۔ تقریر کے بعد ایک ایسے حکومتی اہلکار کے گھر میں دعوت تھی جو رشوت کا مال کھاتا تھا۔ مولانا دستر خوان پر بیٹھے اور انہیں مذکورہ شخص کا پتا چلا تو انہوں نے انواع و اقسام کے کھانوں سے مزین اس دسترخوان سے کھانا تناول کرنے سے انکار کردیا۔ جب اصرار کیاگیا تو حضرت محی الدین لکھوی رحمہ اللہ نے روٹی کو ہاتھ میں لیا‘ اسے دونوں ہاتھوں کے درمیان رکھ کر نچوڑا تو اس سے خون نچڑنے لگ گیا۔ مولانا لکھوی رحمہ اللہ کے ہمراہ سارے لوگ اٹھ کھڑے ہوئے اور کھانا کھائے بغیر اٹھ کر چلے گئے۔
پنجاب میں پچھلے کچھ عرصہ سے ایک ایسا گینگ دندنا رہا ہے جو کاروں کا کاروبار کرتا ہے۔ بینک کا پے آرڈر حوالے کرتا ہے‘ کار لے جاتا ہے۔ پے آرڈر جعلی ہوتاہے۔ ایک کیس‘ جس کو میں ذاتی طور پر بھی جانتا ہوں‘ میں چالیس لاکھ روپے کی ایک کار لے جانے والے لے گئے۔ پھر کہیں کار کھڑی دیکھ لی گئی مگر دوبارہ غائب کردی گئی۔ بندے سامنے آگئے‘ پکڑے بھی گئے لیکن جلد چھوٹ جائیں گے۔ اس لیے کہ سب اوپر تلے بکے ہوئے ہیں۔ عمران خان کا وزیراعلیٰ تو خیر قابلِ ذکر ہی نہ تھا۔ حمزہ شہباز کی حکمرانی کیا ایسے لوگوں کو نچوڑ پائے گی؟ عوامی جواب نفی میں ہے۔ لوگو! یاد کرو موت کا وہ وقت‘ جب موت کا فرشتہ حرام خور جسم کو نچوڑ کرروح نکالے گا۔ گفتار اور کردار میں غیبت ہے تو آہوں اور سسکیوں کے علاوہ کمزوروں اور لاچاروں کا گوشت اور خون بھی ہے‘ جو ظالموں کے مونہوں اور ہاتھوں سے نچڑ رہاہے۔ اللہ تعالیٰ کمزوروں کا مددگار ہو۔صدیق و فاروق رضی اللہ عنہما کا پیروکار حکمران نصیب ہو، آمین!