اللہ تعالیٰ ہی راہِ ہدایت کے اسباب پیدا فرماتے ہیں۔ کینیڈا اور امریکا کے ایک سائنسدان کی ہدایت کے لیے بھی ایسا ہی ایک سبب پیدا فرمایا۔ یہ شخص آخری آسمانی کتاب یعنی قرآنِ مجید کا دشمن تھا۔ اس کا نام ڈاکٹر ملر تھا۔ وہ ریاضی دان (Mathematician) اور Theologian تھا۔وہ ایک پی ایچ ڈی سکالر اور پروفیسر تھا۔ کینیڈا کی یونیورسٹی آف ٹورنٹو میں پڑھاتا تھا۔ وہ عیسائیت کا انتہائی سرگرم مبلغ بھی تھا۔ سائنسی انداز میں منطق کے ساتھ گفتگو کرتا تھا۔ بائبل کے حوالے دیتا تھا۔ اپنے بڑوں سے سنی سنائی یہ بات بھی کرتا تھا کہ حضرت محمد کریمﷺ جو ساڑھے چودہ سو سال قبل مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے تھے‘ خشک پہاڑوں اور صحرائی علاقے میں رہنے والے تھے‘ انہوں نے قرآن کو خود لکھا‘ خود اسے تصنیف کیا تھا۔ پندرہ سال تک ڈاکٹر ملر نے مسیحیت کی تبلیغ کی۔ ایک وقت ایسا آیا کہ اسے بائبل کی بہت ساری باتیں بناوٹی اور غیر سائنسی لگنے لگیں۔ یہی بات تو وہ قرآنِ مجید کے بارے میں اپنے سامعین کوبتایا کرتا تھا مگر درحقیقت وہ قرآن پاک کو پڑھے بغیر یہ باتیں کیا کرتا تھا۔ اب اسے بائبل بھی ایسی ہی دکھائی دے رہی تھی۔ پندرہ سالہ مطالعے کے بعد وہ بناوٹی اور غیر سائنسی نظر آرہی تھی۔ اس نے سوچا کیوں نہ ایسا ہی تنقیدی مطالعہ قرآنِ مجید کا بھی کیا جائے۔ اس کا خیال تھا کہ جس طرح بائبل میں تصوراتی اور غیر سائنسی باتیں ہیں‘ مسلمانوں کی مقدس کتاب بھی حقیقت او رافسانوں کا ایسا ہی ملغوبہ ہوگی۔ وہ سوچنے لگا کہ میں اسے پڑھ کر اس کی غلطیاں نکالوں گا اور پھر دنیا کے سامنے لائوں گا کہ یہ کتاب غیر سائنسی اور غیر منطقی باتیں کرتی ہے مگر جب وہ اسے پڑھنے بیٹھا تو حیران ہونے لگ گیا۔ وہ آگے سے آگے بڑھتا گیا اور اس کی حیرتوں میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔
ڈاکٹر ملر اسی دوران اپنے علم کو مزید بڑھاوا دے چکا تھا۔ وہ نیو برنسوک یونیورسٹی سے نیچرل سائنس اور انجینئرنگ میں بھی پی ایچ ڈی کر چکا تھا۔ یعنی وہ سائنسدان بھی تھا‘ ریاضی دان بھی تھا۔ لاجک کیا ہوتی ہے‘ اس کا پروفیسر بھی تھا۔ اب انجینئر بھی بن چکا تھا۔ عیسائیت کا بہت بڑا عالم اور مبلغ بھی وہ تھا۔ اس قدر بڑی ڈگریوں‘ اعلیٰ تعلیم و تجربے کے بعد وہ اللہ تعالیٰ کے کلام میں غلطیاں نکالنے بیٹھا تھا۔ ڈاکٹر گیری ملر حیران تھا کہ موجودہ زمانے کا عظیم سائنسدان آئن سٹائن بھی جب اپنی سائنسی تھیوری پیش کرتا تھا تو کہتا ہے کہ ابھی یہ تھیوری ہے‘ جب تک کہ یہ سائنسی سانچے میں ثابت نہ ہو جائے‘ یہ تھیوری رہے گی، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ میں غلط ہوجائوں۔ بقول ڈاکٹر ملر‘ میں مگر قرآن پڑھ رہا تھا‘ اس کی بات ہی کوئی اور تھی۔ سورۃ الفاتحہ کو دعا کہہ لیں تو اس دعا کا جواب جب شروع ہوتا ہے تو وہ یہیں سے شروع ہوتا ہے کہ اس کتاب میں شک و شبہے کی کوئی گنجائش ہی نہیں۔ میں حیران تھا کہ یہ کتاب‘ جس کو پڑھے بغیر میں تنقید کا نشانہ بناتا رہا ہوں‘ یہ تو بہت بڑا چیلنج دے رہی ہے۔ حضرت محمد کریمﷺ کسی انسان کے شاگرد نہیں تھے‘ اگر کسی آسمانی وحی کے بغیر یہ دعویٰ کیا جاتا تو کب کا غلط ثابت ہو گیا ہوتا۔ اس دعوے کو ساڑھے چودہ سو سال ہوگئے تھے۔ یہ سوچتا ہوا میں آگے بڑھا تو چیلنج شروع ہوگیا کہ لائو کوئی آیت اس کے مقابلے کی۔
انہی دنوں کینیڈا کے ایک ایسے شخص سے میری ملاقات ہوئی جو نیوی کا افسر رہ چکا تھا اور مسلمان تھا۔ اس نے مجھے اپنے اسلام کی طرف سفر کی داستان یوں سنائی:
مجھے میرے ایک مسلم دوست نے قرآنِ مجید دیا اور پوچھا کہ کیا کبھی آپ نے قرآنِ پاک پڑھا ہے؟ میںنے نفی میں جواب دیا تو اس نے تاکید کے ساتھ درخواست کی کہ اسے ضرور پڑھنا۔ میںایک سمندری سفر پر تھا، گہرے سمندر میں تھا اور کئی دنوں سے اس سفر پر تھا۔ اسی دوران فارغ اوقات میں مَیں نے قرآن پاک کو پڑھنا شروع کر دیا۔ قرآنِ مجید کی ایک سورت کا نام ''النور‘‘ ہے۔ اس میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا: ''وہ لوگ جنہوں نے کفر اختیار کرلیا‘ ان کے اعمال (زندگی گزارنے کی کوششیں) چٹیل میدان میں ریت کی طرح ہیں‘ پیاسا اس کو پانی سمجھتا رہا‘ یہاں تک کہ جب وہ اس کے پاس پہنچا تو اس نے وہاں کچھ بھی نہ پایا۔ اس نے اللہ کو اپنے پاس پایا۔ پھر اللہ نے اس کا حساب پورا پورا چکا دیا اور اللہ جلد حساب لینے والا ہے‘‘ (النور :39)۔ میں سمجھا کہ چونکہ پیغمبرِ اسلامﷺریگستان کے رہنے والے تھے لہٰذا یہ مثال اس علاقے کی مناسبت سے ایک اچھی اور مشاہداتی مثال ہے مگر میں نے جونہی اگلی آیت پڑھی تو حیران رہ گیا۔
''یا پھر وہ انتہائی گہرے سمندر میں اندھیروں کی طرح ہے۔ جسے ایک موج نے ڈھانپ رکھا ہوتا ہے۔ اس کے اوپر ایک اور موج ہوتی ہے۔ اس کے اوپر بادل ہوتا ہے۔ اوپر تلے اندھیرے ہی اندھیرے ہوتے ہیں۔ جب وہ اپنا ہاتھ نکالتا ہے تو ممکن نہیں کہ اسے دیکھ سکے۔ جس کے لیے اللہ نے (ہدایت کا) نور نہیں بنایا تو اس کے لیے کہیں بھی کوئی نور (کا سبب) نہیں‘‘۔ (النور :40)
میں نے سوچا کہ یہ منظر تو وہ ہے جسے سمندر کی گہرائیوں میں ہم نے دیکھا۔ 1400 سال قبل سمندر کی گہرائی میں جانا تو ممکن نہ تھا۔ اس منظر کا حضرت محمدﷺکو کیسے پتا چلا؟ پھر سوچا کہ شاید کھلے سمندروں میں سفر سے بھی اندازہ ہوجاتا ہے جب سمندری طوفان اٹھتے ہیں اور ملاح بچ نکلتا ہے۔ بہر حال! میں واپس آیا۔ اپنے مسلمان دوست سے پوچھا: The Muhammad, was He a Sailor?۔ کیا محمد(ﷺ) جہازران بھی تھے؟ جواب ملا: انہوں نے تو زندگی میں کبھی سمندر کا سفر کیا ہی نہیں۔ میں نے یہ سنتے ہی وہیں حضرت محمدﷺ کو رب العالمین کا سچا رسول ماننے کا اعلان کر دیا اور مسلمان ہو گیا۔
قارئین کرام! ڈاکٹر گیری ملر کہتے ہیں کہ میں نے مذکورہ واقعہ سنا۔ قرآنِ مجید میں پڑھا تو اور زیادہ متاثر ہوا۔ میں نے دیکھا کہ قرآن میں ایک ''سورۃ النحل‘‘ ہے۔ اس کا مطلب شہد کی مکھی ہے۔ ایک بات واضح کردوں کہ قرآنِ مجید میں غلطیاں نکالنے کا ارادہ کیا تو عربی زبان کی کچھ سوجھ بوجھ بھی حاصل کر لی تھی۔ انگریزی ترجمہ پڑھتا تھا مگر عربی زبان کے الفاظ پر بھی نظر رکھتا تھا۔ یہ بات میرے علم میں تھی کہ شیکسپیئر جیسے دانشور نے بھی شہد کی مکھی کو مذکر کہا ہے۔ یونانی بھی اسے مذکر سمجھتے تھے۔ یہ تو جب موجودہ زمانے میں خوردبینی سائنس سامنے آئی تو پتا چلا کہ یہ تو مونث یعنی مادہ ہے جو شہد بناتی ہے۔ میں نے سوچا کہ اب دیکھتا ہوں کہ قرآن اس حوالے سے کیا کہتا ہے۔ اب میں اپنی دانست میں ایک غلطی نکالنے اور اپنی اس کامیابی پر قبل ازوقت خوش ہو رہا تھا مگر جونہی سورہ نحل کی آیات 68 اور 69 پڑھیں تو میری خوش فہمی جو تھی‘ وہ غلطی فہمی ثابت ہوئی۔ حضرت محمدﷺ پر نازل ہونے والا قرآن سچا تھا‘ میں غلط تھا۔ ان دو آیات میں شہد کی مکھی کے لیے واضح کیا گیا کہ وہ مونث ہے۔ اتخذی، کلی، فاسلکی، یعنی تین بار مکھی کو اس کے رب نے حکم دیا کہ شہد بنانے کا کام کر۔ پھل اور پھولوں کا رس پی۔ اپنے رب کے طے کردہ راستوں پر چلتی جا... یعنی خالقِ دو جہاں نے مکھی کو جب مخاطب فرمایا تو مونث کے صیغے کے ساتھ۔ آج سے چودہ سو سال قبل خالق کے علاوہ کوئی نہیں جان سکتا تھا کہ شہد بنانے والی مکھی مونث ہے نہ کہ مذکر۔ یقینا یہ خالق ہی کا کلام تھا۔ میں نے اسی وقت حضرت محمد کریمﷺ کا کلمہ پڑھا اور مسلمان ہوگیا۔
قارئین کرام! اس کے بعد ڈاکٹر گیری ملر نے اپنا نام ''عبدالاحد عمر‘‘ رکھ لیا اور تثلیث کے عقیدے کو چھوڑ کر توحید کو اختیار کر لیا۔ وہ کہتے ہیں کہ خدا کی شان دیکھیے کہ جیسے حضرت عمر فاروقؓ قرآن کی دشمنی میں نکلے تھے مگر قرآن سن کر مسلمان ہو گئے تھے‘ میں بھی قرآن کی دشمنی میں نکلا تھا مگر قرآن والا بن گیا۔ قارئین کرام! اس کے بعد ڈاکٹر صاحب سعودی عرب چلے گئے۔ 1978ء میں اسلام قبول کیا تھا۔ سعودی عرب میں انہوں نے آئل اینڈ منرل یونیورسٹی میں پڑھانا شروع کیا۔ ساتھ ساتھ عربی زبان اور اسلام کی تعلیمات حاصل کرتے رہے۔ ٹی وی پر لیکچرز بھی دیتے رہے‘ یعنی وہ مبلغ اسلام بن گئے تھے۔ آج کل وہ امریکا میں مقیم ہیں۔ کیلیفورنیا یونیورسٹی میں کمپیوٹر سائنس کے پروفیسر ہیں۔ اسلام کے سرگرم مبلغ ہیں۔ اسلام کی حقانیت پر ان کی متعدد کتابیں ہیں مگر ان کی کتاب ''The amazing Quran‘‘ یعنی حیرت انگیز قرآن پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔
آئندہ کسی کالم میں اس کتاب کے اقتباسات شیئر کروں گا۔ (ان شاء اللہ) میرے پیارے رسولﷺ کی شان اور قرآن کی آن بان‘ زندہ باد! تاقیامت اور بعد از قیامت پائندہ باد!