اللہ تعالیٰ کا انعام ہے پاکستان۔ ابھی ہم پر یہ انعام و اکرام نہیں ہوا تھا کہ شاہ عبدالعزیز رحمہ اللہ کی جانب سے حضرت قائد اعظم رحمہ اللہ کی مسلم لیگ کو ایک خطیر رقم کا ہدیہ مل گیا تھا تاکہ حصولِ پاکستان کی جدوجہد کامیاب ہو۔ یہ جدوجہد اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے کامران ہوئی تو سعودی عرب کی جانب سے ہر اہم اور مشکل وقت پر تعاون کے دروازے کھلتے رہے۔ موجودہ سعودی عرب میں تیسری نسل اپنے اقتدار کا آغاز کر چکی ہے۔ شہزادہ محمد بن سلمان ولی عہد ہیں تو ان کے زمانے میں بھی تعاون کا تسلسل جاری ہے۔ محترم عمران خان وزیر اعظم تھے تو تب بھی سالارِ پاکستان جنرل قمر جاوید باجوہ کی کوششوں سے تعاون کے دریچے ریاض سے اسلام آباد میں کھلے تھے۔
آج محترم شہباز شریف وزیر اعظم ہیں تو پھر وہی تاریخ بن رہی ہے کہ تعاون کی کھڑکیاں سالارِ پاکستان کی کوششوں سے ٹھنڈی ہوائیں دے رہی ہیں۔ اس بار اضافی کام یہ ہوا کہ ''کنگ عبدالعزیز ایوارڈ‘‘ جو سعودی عرب کا سب سے بڑا ایوارڈ ہے‘ وہ سالارِ پاکستان کو دیا گیا ہے۔ سعودی عرب کے ولی عہد نے یہ ایوارڈ سالارِ پاکستان کے گلے میں پہنایا۔ یہ میرے وطن عزیز پاکستان کی عزت ہے۔ ہم اہلِ پاکستان کا وقار ہے۔ یہ 22کروڑ پاکستانیوں کا اعزاز ہے۔
قارئین کرام! یہ کتنا بڑا اعزاز ہے‘ اس کے لیے ضروری ہے کہ سعودی عرب اور سعودیہ کے شاہی خاندان کا اختصار کے ساتھ پس منظر بیان کردیا جائے۔ جزیرۃ العرب کی تاریخ اور قدیم و جدید مورخین اس بات پر اتفاق رکھتے ہیں کہ مکہ مکرمہ میںحضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد بڑھتی رہی۔ حکمرانی انہی کی اولاد میں رہی۔ یہ اولاد جزیرۃ العرب میں پھیلتی رہی۔ ریاستیں بنتی رہیں اور ان کے حکمران بھی بنتے رہے۔ یہ سب حضرت اسماعیل کی اولاد میں سے تھے۔ بڑے اور نامی گرامی حکمران جناب عدنان ہوئے ہیں۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام کے بعد ہمارے حضور حضرت محمد کریمﷺ کے جد امجد حضرت عدنان ہیں۔ جناب عدنان سے حضرت محمد کریمﷺ تک کا شجرہ نسب تاریخی طور پر محفوظ ترین شجرہ نسب ہے۔ دیگر عرب قبائل کا شجرہ نسب بھی حضرت عدنان تک جاتا ہے۔ جناب عدنان سے ہمارے حضور حضرت محمد کریمﷺ کے دادا عبدالمطلب تک مکہ کی حکمرانی چلتی رہی۔ کعبے کی تولیت کے حوالے سے بنو ہاشم ہی سارے عرب میں ممتاز تھے۔ موجودہ سعودی خاندان کا شجرہ نسب بھی حضرت عدنان سے ملتا ہے۔ حضرت عدنان کا سلسلہ کئی پشتوں کے بعد حضرت اسماعیل علیہ السلام سے جا کر ملتا ہے۔ یہ ایک شرف اور اعزاز ہے۔ یہ حضورﷺ کے ساتھ نسبی تعلق کا اعزاز ہے۔
سعودی دارالحکومت کے مضافات میں ''نجد‘‘ ایک ایسا علاقہ اور منطقہ ہے جو رقبے کے اعتبار سے بہت بڑا ہے۔ اس میں وادی بنو حنیفہ بھی ہے اور یمامہ کا علاقہ بھی ہے۔ یمامہ کے علاقے کے حکمران ثمامہ بن اثال تھے۔ ان کا تعلق بھی بنو حنیفہ قبیلے سے ہی تھا۔ اللہ کے رسول نے اپنے معروف جرنیل حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کو مجاہدین کا ایک دستہ دے کر نجد کے علاقے میں بھیجا تھا۔ حضرت محمد بن مسلمہؓ جب کامیاب جنگی کارروائی کے بعد واپس آرہے تھے تو یمامہ کے علاقے میں ثمامہ بن اثال مل گیا‘ مسلمان مجاہدین نے اسے گرفتار کرلیا اور مدینہ منورہ لے آئے۔ تین دنوں تک انہیں مسجد نبوی میں پابند رکھا گیا۔ وہ حضور کریمﷺ کا اعلیٰ اخلاق دیکھ کر مسلمان ہوگئے۔ یوں نجد کا یہ سارا علاقہ مسلمان ہوگیا۔ حضرت ثمامہؓ نے نجد کے علاقے یمامہ میں حضور کریمﷺ کی اطاعت میں حکمرانی کی۔
اللہ کے رسول جب اس دنیا سے فردوس اعلیٰ کی جانب تشریف لے گئے تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خلیفہ اول کی حیثیت سے حکمران بن گئے۔ ان کے حکمران بنتے ہی عرب میں ارتداد کی ہوائیں چلنا شروع ہوگئیں۔ نجد کے ایک علاقے کا حکمران مسیلمہ کذاب تھا۔ اس نے نبوت کا دعویٰ کردیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس کا لشکر 40 ہزار کو پہنچ گیا۔ حضرت ثمامہؓ کا علاقہ یمامہ بھی اس کی زد میں آگیا۔ سعودی عرب کا موجودہ علاقہ ''الاحساء‘‘ جسے اس دور میں ''بحرین‘‘ کہا جاتا تھا‘ یہاں ایک اور جھوٹا مدعی نبوت کھڑا ہوگیا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے بحرین کی بغاوت اور ارتدادکو ختم کرنے کے لیے اپنے جرنیل حضرت علاء حضرمیؓ کو فوجی دستہ دے کر روانہ کیا۔ حضرت ثمامہؓ نے اپنے لوگوں کو بہت سمجھایا مگر وہ نہ سمجھے تو انہوں نے یمامہ کے علاقے اور حکمرانی کو چھوڑ دیا اور حضرت علاء حضرمیؓ کے ساتھ مل کر بحرین میں ختم نبوت کا پرچم بلند کرنے چلے گئے۔ وہاںحضرت ثمامہؓ اپنے دشمنوں کے خلاف خوب لڑے۔
امام ابن اسحق رحمہ اللہ جو اولین سیرت نگار ہیں‘ لکھتے ہیں کہ یہاں مرتد قبیلے بنو قیس کو شکست ہوگئی۔ اس قبیلے کا بڑا مرتد سردار مارا گیا۔ اس کا قیمتی حلہ (جبہ) مالِ غنیمت بن کر جس شخص کو ملا‘ اس سے حضرت ثمامہؓ نے خرید لیا۔ بنو قیس کے بچے کھچے لوگوں نے سمجھا کہ شاید ثمامہ بن اثال ہی نے ان کے سردار کو قتل کیا ہے کیونکہ حلہ ان کے پاس ہے؛ چنانچہ انہوں نے موقع پا کر حضرت ثمامہؓ کو شہید کردیا۔ یوں حضرت ثمامہؓ نے قید میں حضور کریمﷺ کا جو اخلاق دیکھا تھا‘ اس نے ایسا رنگ جمایا کہ حضرت ثمامہؓ نے یمامہ کی حکمرانی اور اپنے دیس کو چھوڑا تو حضور کریمﷺ کی ختم نبوت کی محبت میں چھوڑا۔
(2) جہاد کیا تو ختم نبوت کے تحفظ میں کیا۔
(3) حلہ خریدا تو اس مسرت میں کہ جو ختم نبوت کا دشمن تھا‘ وہ واصل جہنم ہوا جبکہ حضرت ثمامہؓ اس کا حلہ پہنے اسی کے علاقے میں فاتحانہ گھوم رہے تھے۔
(4) حضرت ثمامہؓ غازیٔ ختم نبوت بن کر فاتح بنے او رپھر اللہ تعالیٰ نے انہیں ختم نبوت کے سائے تلے شہادت کا عظیم رتبہ بھی عطا فرما دیا۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ نے مسیلمہ کذاب کی بغاوت‘ جو ختم نبوت کے خلاف تھی‘ کو کچلنے کے لیے حضرت خالدؓ بن ولید کو 25 ہزار کا لشکر دے کر بھیجا۔ حضرت خالدؓ بن ولید نے 40 ہزار کے لشکر کو شکست دی۔ اس علاقے کے وہ لوگ جنہوں نے ختم نبوت کا جھنڈا بلند کرکے حضرت خالدؓ بن ولید کا ساتھ دیا‘ وہی نسل در نسل اس علاقے کے سردار اور حکمران چلے آرہے ہیں۔ ریاض میں جو ''یمامہ محل‘‘ (Yamama Palace) ہے‘ وہ حضرت ثمامہؓ کے علاقے یمامہ ہی کی یادگار ہے۔ سعودی شاہ اسی محل میں اپنے سرکاری اور شاہی امور انجام دیتے ہیں۔ اہم مہمانوں کا استقبال بھی یہیں کیا جاتا ہے۔ ایوارڈز بھی یہیں دیے جاتے ہیں۔ یہ محل حضرت ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ کی یادگار اور ایک علامت ہے کہ ختم نبوت کے دشمن مٹ گئے مگر ختم نبوت کے حوالے سے ''یمامہ‘‘ نامی محل میں حضور کریمﷺ کے دین کی حکمرانی جاری ہے۔
سعودی عرب میں سعودی لفظ کی جو نسبت ہے وہ سعود بن محمد کے نام سے ہے جو زید بن مرحان کے بعد نجد کے 14ویں حاکم تھے۔ وہ 1725ء میں فوت ہوئے تو ان کے چار بیٹوں میں میں سے جو بڑے بیٹے تھے‘ وہ امام محمد بن سعود تھے۔ یہ درعیہ کے حکمران بنے اور وہاں اسلامی شریعت کا نفاذ ہوا۔ یہ 1692ء میں پیدا ہوئے تھے اور 1765ء میں فوت ہوئے۔ ان کا سلسلہ نسب بنو حنیفہ قبیلے سے ہوتا ہوا بکر بن وائل سے ملتا ہوا نزار بن معد بن عدنان سے جا ملتا ہے۔ یعنی آج کا سعودی خاندان جسے ''آلِ سعود‘‘ کہا جاتا ہے‘ یہ حضور کریمﷺ کی ختم نبوت کا علمبردار خاندان ہے۔ امام محمد بن سعود کی اولاد اور حکمرانی میں متعدد اتار چڑھائو آتے رہے آخر کار شہزادہ عبدالرحمن کے ہونہار ، قابل اور عالم بیٹے امام عبدالعزیز رحمہ اللہ موجودہ سعودی حکومت کے حکمران بنے۔ انہی کے نام سے ''کنگ عبدالعزیز‘‘ سعودی عرب کا سب سے بڑا ایوارڈ ہے۔ سلطان عبدالعزیز رحمہ اللہ کے پوتے ولی عہد‘ نائب خادم الحرمین الشریفین شہزادہ محمد بن سلمان بن عبدالعزیز نے یہ ایوارڈ پاکستان کے سالار جناب قمر جاوید باجوہ صاحب کو دیاہے۔'' یمامہ محل‘‘ کی جانب سے یہ ایوارڈ یقینا ہم سب اہلِ پاکستان کا ایوارڈ ہے۔
29 جولائی 2022ء کے روزنامہ الریاض نے کیا خوبصورت بات لکھی کہ سعودی حکمرانوں کا شجرہ نسب بھی شائع کیا مگر ساتھ یہ بھی لکھا کہ سب خاندان محض تعارف کے لیے ہیں‘ سعودی خاندان کا اصل اعزاز یہ ہے کہ سعودی عرب کا نظام ''کتاب و سنت‘‘ پر مبنی ہے۔ جنرل (ر) راحیل شریف بھی وہیں تشریف رکھتے ہیں۔ اس ایوارڈ میں یقینا ان کی کاوش بھی شامل ہے۔ حرمت رسول اور ختم نبوت : زندہ باد۔ پاک سعودیہ محبت : زندہ باد!