ایک خالق‘ اللہ تعالیٰ کو نہ ماننے والے سائنسدان تخلیق کے لفظ کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے رہے۔ وہ کائنات کے بارے میں یہی کہتے رہے کہ وہ ہمیشہ سے ہے‘ ہمیشہ رہے گی۔ یہ خود بخود ہی بنی ہے۔ دوسرے لفظوں میں وہ یہ کہتے رہے کہ گویا یہ کائنات ہی ان کی معبود ہے۔ الحاد اورشرک کا ایک مکسچر تھا جو سائنسی اداروں کا عقیدہ بن چکا تھا۔ یہ عقیدہ آج بھی موجود ہے؛ تاہم اس کی عمارت میں دراڑیں تو پڑ ہی چکی تھیں‘ اب اس کی بنیادیں بھی کھسکنا شروع ہوچکی ہیں۔ ہم سائنسی تحقیقات ہی کی روشنی میں ان صفحات پر ان دراڑوں کو واضح کرتے چلے آ رہے ہیں۔ ہلنے والی بنیادوں کے بارے میں بھی بتاتے چلے آرہے ہیں۔ آج ان بنیادوں کے کھسکنے اور سرکنے کا منظر ایک بار پھر دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ منظر امریکا کے خلائی ادارے ''ناسا‘‘ نے دکھایا ہے۔ جیمز ویب ٹیلی سکوپ (دوربین) جسے 25 دسمبر 2021ء کو سورج کے مدار میں لانچ کیا گیا تھا۔ تمام متعلقہ اخراجات شامل کیے جائیں تو اس پر تقریباً 25 ارب ڈالر کی لاگت آئی تھی۔ اسے سورج اور زمین کے درمیان ایسے ترازو او رپلڑے پر بھیجا گیا تھا جہاں کا میزان اور ترازو اس کے لیے ضروری تھا۔ اس پوائنٹ کا نام ''L-2‘‘ ہے۔ اپنی گردش کے چھ ماہ بعد اس نے جو چند تصاویر ارسال کی ہیں۔ انہوں نے واضح کردیا ہے کہ کائنات نہ صرف یہ کہ پیدا ہوئی ہے بلکہ اس کے اندر پیدائش کا عمل ہر آن جاری و ساری ہے۔ 13 جولائی 2022ء کو ایک سائنسی ویب سائٹ Bigthing.com نے ناسا کے ترجمان جناب بل نیلسن کے حوالے سے لکھا کہ :
Cosmic cliffs and glittering landscapes of a stars birth were captured in infrared.
کائنات کی ڈھلوانی گیسی چٹانوں اور چمکنے والے ستاروں کی پیدائش کے مناظر انفراریڈ شعائوں میں حاصل کرلیے گئے۔ جی ہاں! ناسا کے سائنسدانوں نے واشگاف الفاظ میں ا علان کیا کہ فلکیات کی سائنس ایک نئے دور میں داخل ہوگئی ہے، یہ نیازمانہ‘ جس اہم ترین معمے کو حل کرے گا وہ زندگی کی موجودگی (Existence of life) ہے۔ ہماری اس زمین پر تو زندگی موجود ہے ہی‘ کیاکائنات کی دیگر جگہوں پر بھی یہ زندگی موجود ہے؟ دوسرا یہ کہ کائنات اور اس میں موجود چیزوں کی پیدائش کا عمل۔
اللہ اللہ! آخر کار دونوں چیزوں کو دبے لفظوں میں مان لیا کہ یہ کائنات پیدا بھی ہوئی ہے اور اس میں زندگی بھی موجود ہے۔ صرف ہماری زمین پر ہی نہیں‘ کائنات کے دیگر حصوں میں بھی زندگی موجود ہے۔ ساتھ ہی سائنسدان یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ ہماری کائنات کا سب سے بڑا معمہ (Universe's Greatest Enigma) ہے۔ جیمز ویب ٹیلی سکوپ نے ایسی جگہ کی تصویر لی ہے جہاں ستاروں کی ''پنیری‘‘ تیار ہوتی ہے اور پھر وہ ستارے بنتے ہیں۔ یوں بھی کہاجا سکتاہے کہ ستاروں کی پیدائش کا کارخانہ یا فیکٹری دریافت ہوئی ہے۔ یہ فیکٹری کروڑوں نوری سالوں کی مسافت جتنی لمبی چوڑی ہے۔ مزید یہ کہ ایسی فیکٹریاں اس تعداد میں ہیں جیسے سمندروں کے ساحلوں اور ریگستانوں میں ریت کے ذرات۔ جب فیکٹریاں ہی اتنی تعداد میں ہیں تو یہاں تیار ہونے والی پروڈکشن کس قدر بڑی اور زیادہ ہوگی‘ اس کا تو تصور کرنا بھی محال ہے کیونکہ فیکٹریوں میں سے ایک فیکٹری کی جو تصویر لی گی ہے وہ 13 ارب نوری سال پرانی ہے۔ اب 13 ارب نوری سالوں میں مزید کتنی فیکٹریاں بنائی گئی ہیں‘ یہ پتہ چلانا انسان کے بس میں نہیں۔ یہاں سے کہکشائوں اور ان کے جھرمٹوں کے جو مال تیار ہوئے ہیں وہ کس قدر ہیں‘ ہم شاید کبھی بھی یہ معلوم نہیں کر سکتے۔
یہ فیکٹریاں کیا ہیں‘ کائناتی گیس کے بادلوں کا ایک مقام ہیں جن میں اچانک ستارے بننا شروع ہوجاتے ہیں اور وہ اس طرح بنتے ہیں کہ!
Started to churn up all the chemicals that make up planets and, at least here living creatures.
بادل منڈلانا شروع ہوجاتے ہیں‘ (ان میں وہ) تمام کیمیکلز ہوتے ہیں جو (زمین جیسے) سیاروں کو بناتے ہیں۔ کم از کم ( جو حقیقت ہے) وہ یہی ہے کہ یہاں زندہ مخلوقات موجود ہیں۔
قارئین کرام! آخری سائنسی حقیقت بہرحال 25 ارب ڈالروں کے خرچے سے اس طرح سامنے آئی کہ جس طرح زمین پر ہم دیکھتے ہیں کہ پانی بھاپ بن کر سمندروں سے اٹھتا ہے‘ آسمان میںبادل بنتے ہیں اور وہ بادل زمین پر برستے ہیں تو زندگی ہر جانب دکھائی دیتی ہے۔ مینڈک ٹرٹراتے ہیں‘ مچھلیاں اچھلتی کودتی دکھائی دیتی ہیں‘ کچھوے رینگتے ہیں‘ اسی طرح دیگر بے شمار مخلوقات وجود میں آجاتی ہیں۔ موجودہ موسم برسات کا ہے۔ اس موسم میں نظارہ کیا جا سکتا ہے۔ یہی نظارہ 13 ارب نوری سال پہلے بھی موجود تھا۔ ستارے وجود میں آئے۔ انہی ستاروں میں سے چار ارب سال پہلے ایک ستارے کا ٹکڑا الگ ہوا۔ یہ ہماری زمین تھی۔ آگ کا دہکتا گولہ تھا۔ آسمانوں میں سے اس گولے پر پانی برستا رہا۔ یہ ٹکڑا ٹھنڈا ہوا تو مٹی وجود میںآئی۔ اسی مٹی میں زندگی کے آثار رکھ دیے گئے تھے۔ اور یہ تو اس وقت بھی تھے جب یہ دہکتا ہوا گولہ تھا۔
صدقے قربان جائوں مخلوقات کے خالق مولا کریم پر کہ وہ عظیم رب رحمن اسی زمین پر آخری رسول حضرت محمد کریمﷺ کو پیدا فرماتے ہیں۔ ختم نبوت کا نشان ان کے مبارک کندھے پر سجاتے ہیں۔ عمر چالیس سال ہوتی ہے تو‘ ساڑھے چودہ سو سال قبل‘ آپﷺ کو قرآن کی صورت میں آخری معجزاتی کتاب عطا فرماتے ہیں۔ سائنسدانوں کے مطابق کائنات لگ بھگ ساڑھے چودہ ارب نوری سال قبل وجود میں آئی تھی۔ میرے حضورﷺ کو قرآن ملے بھی ساڑھے چودہ سو سال بیت گئے ہیں۔ اس قرآنِ مجید کا آخری پارہ‘ اس میں ایک سورت ہے جس کا نام ''الطارق‘‘ ہے۔ یہ ایک ستارہ ہے۔ فرمایا: یہ چمکدار ہے۔ قارئین کرام! موجودہ سائنسی انکشاف جو 25 ارب ڈالر کے خرچے سے سامنے آیا ہے۔ جیمز ویب دوربین کے لانچ ہونے کے چھ ماہ بعد سامنے آیا ہے۔ اس کے حقائق کو بھی سامنے رکھیں اور اب ''الطارق‘‘ نام کی اس سورت مبارکہ کا ترجمہ بھی ملاحظہ کریں۔ فرمایا: قسم ہے آسمان کی اور قسم ہے طارق کی۔ تم لوگوں کو کیا پتا کہ وہ طارق کیا چیز ہے۔ (یہ ستاروں کی فیکٹری اور نرسری میں سے جنم لینے والا) ایک ایسا ستارہ ہے جو انتہائی چمکدار ہے (زندگی کے تمام عناصر اس کی چمک میں سمائے ہوئے ہیں۔ سب انسانوں کا وجود اسی چمک میں موجود ہے) لہٰذا کوئی جان ایسی نہیں ہے جس پر کوئی نگہبان نہ ہو۔ انسان کو (سائنسی ریسرچ کے ذریعے) دیکھنا چاہیے کہ وہ کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے (یہی چمک یعنی انرجی جب مادے یعنی مٹی میں بدلی تو پانی کے ملنے سے زندگی وجود میں آئی تو) اچھلنے والے پانی سے (انسان کو) پیدا کیاگیا۔ (یہ پانی) پشت اور سینے کی ہڈیوں کے درمیان سے خارج ہوتا ہے۔ کیا شک ہے کہ وہ (خالق) اس انسان کو (مرنے کے بعد) دوبارہ پیدا کرنے کی قدرت رکھنے والا ہے۔ اس روز تمام چھپے ہوئے اسرار سامنے آجائیں گے۔ تب اس (گھمنڈی) انسان کے پاس نہ کوئی طاقت ہوگی اور نہ ہی اس کی کوئی مدد کرنے والا ہوگا‘‘۔
قارئین کرام! محسوس ہوتا ہے کہ کائنات میں ''الطارق‘‘ ستاروں جیسے ستارے اور بھی ہیں۔ کتنے ہیں اللہ خالقِ کائنات ہی کو معلوم ہے۔ عربی زبان کا اصول ہے کہ واحد بول کر جمع بھی مراد لیاجاتا ہے۔ لہٰذا طارق جیسے ستارے جو زندگی کے عناصر کو اپنی انرجی میں لیے ہوئے پیدا ہوتے ہیں‘ ان سے ہماری زمین جیسے سیارے پیدا ہوتے ہیں۔ یاد رہے! جیمز ویب نے کائناتی کارخانوں میں ہائیڈروجن کے سمندر کی تصویر بھی بھیجی ہے۔ یہاں پانی بنتا ہے۔ یہی پانی ''الطارق‘‘ سے ٹوٹے ہوئے گولائی کے حامل ٹکڑے کو ملتا ہے تو زمین جیسے سیارے پر زندگی کا آغاز ہوجاتا ہے۔ جی ہاں! الطارق کی صفت بیان کرنے کے بعد فورا ً انسان کی پیدائش کا ذکر قابلِ غور ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی خالقِ کائنات ہے۔ وہی واحد خالق ہے۔ معمے کا حل یہی ہے۔ یہ ساڑھے چودہ سو سالوں سے حل ہوا پڑا ہے۔ یہ معمہ (Enigma) حضرت محمد کریمﷺ پر نازل ہونے والے قرآنِ حکیم میں حل ہوا ہے۔ سورۃ الطارق میں حل ہوا ہے۔ اللہ کی قسم! میں نے جیمز ویب ٹیلی سکوپ کی ڈسکوری کو دیکھا اور ''سورۃ الطارق‘‘ کو دیکھا تو زبان سے بے اختیار یہ جملہ نکلا کہ لاکھوں کروڑوں، اربوں کھربوں اور لاتعداد درود و سلام اس ہستی پر کہ جس نے قرآن مجید اور اپنی پاک سیرت کے ذریعہ کوئی معمہ‘ معمہ رہنے ہی نہ دیا۔