اللہ تعالیٰ کی راہ میں جان کا نذرانہ پیش کرنے والے پاک فوج کے شہداء جو لسبیلہ میں شہید ہوئے‘ اعزاز و اکرام کے ساتھ ان کے تابوت رکھ دیے گئے۔ نمازِ جنازہ کے لیے امام صاحب کھڑے ہوئے۔ اب سالارِ پاکستان محترم جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب نے صف بندی کی ذمہ داری سنبھال لی۔ انہوں نے اگلی صف کو درست کرنا شروع کردیا۔ شہداء کے ورثاء کو دائیں جانب صف میں کھڑا کرنا شروع کیا۔ لیفٹیننٹ جنرل سرفراز علی شہید کے بیٹے کیپٹن احمد سرفراز کے ساتھ لاڈ‘ پیار کیا۔ انہیں پہلی صف میں دائیں جانب کھڑا کیا۔ مطیع اللہ جان‘ جو ایک معروف صحافی ہیں‘ مندرجہ بالا منظر کے چشم دید گواہ ہیں۔ وہ لیفٹیننٹ جنرل سرفراز علی کے کورس میٹ بھی تھے۔ کہتے ہیں: ہماری ٹریننگ بڑی سخت ہوتی تھی‘ جب بجری پر کرالنگ کرتے (رینگتے) ہوئے آگے بڑھتے تھے تو ہم سخت ترین ٹریننگ کا آپس میں شکوہ بھی کیا کرتے تھے مگر سرفراز ایسے حوصلہ مند کیڈٹ تھے کہ وہ ایسے شکوے سے بہت بلند تھے۔ جی ہاں! وہ نظم، ڈسپلن اور فوجی صف بندی کے انتہائی پابند تھے۔ قارئین! مجھے تو یوں لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے سرفراز علی کی نمازِ جنازہ کو ایسا ڈسپلن عطا فرمایا کہ صف بندی کی توفیق ان کے چیف جنرل باجوہ صاحب کو عطا فرمائی۔ میں نے صحیح بخاری کو کھولا تو وہاں ''صف اول‘‘ کا ایک باب دیکھا۔ اس باب میں امام بخاری رحمہ اللہ حضور کریمﷺ کا یہ فرمان لائے کہ ''اگر لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ پہلی صف میں (کھڑے ہونے کی) کیا فضیلت ہے تو وہ اسے حاصل کرنے کے لیے قرعہ اندازی کریں‘‘۔ (صحیح بخاری :721) حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسولﷺ نے ایک بار لوگوں کی طرف رخ کرکے تین بار فرمایا: ''صفوں کو سیدھا کرو‘‘۔ (سنن ابودائود : 662) صحیح بخاری میں لفظ ہے ''تَوَاصَوْا‘‘ صفوں کو مضبوط کرلو۔ (صحیح بخاری:719) حضور کریمﷺ نے مزید فرمایا: ''صفوں میں جو لوگ دائیں جانب کھڑے ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ ان پر رحمتیں نازل فرماتے ہیں جبکہ فرشتے ان کے لیے رحمت کی دعائیں کرتے ہیں‘‘۔ (سنن ابودائود :676)
قارئین کرام! محترم جنرل باجوہ صاحب کے بارے میں میرا اچھا گمان یہ ہے کہ انہیں مندرجہ بالا مسائل کا علم یا ادراک ہے تبھی تو وہ صف بندی میں ان تمام امور کا خیال رکھ رہے تھے جو اللہ کے رسولﷺ سے ثابت ہیں۔ افسوس تو اس بات پر ہے کہ آج ہمارا معاشرہ بدگمان لوگوں کی بدگمانیوں کو بڑی توجہ سے سنتا ہے جبکہ اچھا گمان کرنے والوں کو تنقید اور شک کی نظر سے دیکھتا ہے۔ ایسا رویہ اسلامی تعلیمات کے خلاف تو ہے ہی‘ بسا اوقات فساد کا باعث بھی بن جاتا ہے۔
قرآنِ مجید میں ایک سورت مبارکہ ہے جس کا نام ''الصف‘‘ ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ''بلاشبہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں سے محبت کرتے ہیں جو اس کی راہ میں صف باندھ کر لڑتے ہیں۔ اس طرح کہ جیسے وہ سیسہ پلائی دیوار ہیں‘‘۔ (الصف :4) قارئین کرام! آج سے چند سال قبل جب میں ہیڈ سلیمانکی میں رینجرز کی چیک پوسٹ پر گیا تو وہاں میں نے قرآنِ مجید کی دیگر آیات کے ساتھ مذکورہ آیت کوبھی لکھا ہوا ملاحظہ کیا‘ اس ٹاور نما عمارت کی دیواروں پر جہاں سے میجر شبیر شریف شہید لڑنے کے لیے روانہ ہوئے تھے۔ فاتح اور شہید بن کر انہوں نے نشانِ حیدر حاصل کیا تھا۔ اے اہلِ پاکستان! اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب میں اور ''سورۃ الصف‘‘ میں سیسے کا تذکرہ فرمایا! سیسہ ایک دھات ہے۔ میں نے اس کی خصوصیت کو دیکھنا چاہا تو پروفیسر ڈاکٹر فضل کریم مرحوم کی کتاب کو کھولا‘ جو دھاتوں پر لکھی گئی ہے۔ وہ پنجاب یونیورسٹی میں ''فیکلٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی‘‘ کے ڈین تھے۔ میرے دوستوں میں سے ایک تھے۔ اپنی کتابوں میں سائنس اور اسلام پر بات کیا کرتے تھے۔ یہی چیز ان کے اور میرے مابین تعلق‘ ملاقات اور محبت کا باعث تھی۔
سیسے کو انگریزی میں Lead کہا جاتا ہے۔ ڈاکٹر فضل کریم لکھتے ہیں: ''قدیم رومی حمام جو انگلستان کے مقام باتھ (Bath) میں موجود ہیں‘ میں پانی کے لیے سیسے کے نل (pipe) استعمال کیے گئے تھے۔ یہ 1900 سال پہلے فٹ کیے گئے تھے۔ وہ قدیم اور عظیم الشان عمارات‘ جو اب تک قائم ہیں‘ ان کی چھتیں بھی سیسے کی بنائی گئی تھیں۔ جی ہاں! جس بلڈنگ میں پائپنگ کا نظام سیسے سے متعلق ہوگا‘ پانی لیک نہیں ہوگا تو سیم اور تھور بلڈنگ کو خراب نہیں کرے گا یوں عمارت کی عمر ہزاروں سال ہو جائے گی۔ اللہ تعالیٰ کا قرآن اسلامی فوج کو ''بنیان مرصوص‘‘ دیکھنا چاہتا ہے۔ اس کی بنیادوں اور چھتوں کو پائیدار دیکھنا چاہتا ہے۔ مضبوطی کے لیے عقیدے اور نظریے کی مضبوطی ضروری ہے۔ اسی لیے جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم ''ایمان، تقویٰ، جہاد فی سبیل اللہ‘‘ کا سلوگن اور ماٹو دے گئے تھے۔ اس بنیاد پر پاک فوج کی صف بندی مثالی اور لاجواب ہے۔
وہ ملک تباہ ہوگئے‘ ان کے عوام بدحال ہوگئے‘ در در کی ٹھوکروں کا شکار ہوگئے جن کی افواج انتشار کا شکار ہوگئیں۔ عراق، لیبیا اور یمن وغیرہ کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ بحمد للہ! پاک افواج ایسے رخنوں سے پاک ہیں، اسی لیے پاکستان مضبوط ہے۔ اس کے عوام ایک ایسی چھت تلے زندگی گزار رہے ہیں جو سیسہ پلائی ہے۔ سیم و تھور سے محفوظ ہے۔ فوج کے سربراہ کو علامتی طور پر چھت کہا جا سکتا ہے۔ وہ لوگ جو چھت اور باقی بلڈنگ یعنی دیواروں وغیرہ کو الگ نظروں سے دیکھنے کے تجزیے پیش کرتے ہیں‘ وہ غلط فہمی میں ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسی غلط فہمیوں کا کافور ہونا استحکامِ پاکستان کے لیے ناگزیر ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ محترم جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب نے شہداء کے جنازے پر صف بندی کا اہتمام کرکے ایک زبردست پیغام دیاہے۔ یہ پیغام ایک مذہبی اور دینی فریضے کی ادائیگی کے موقع پر دیا گیا۔ میں نے اسے کتاب و سنت کی روشنی میں دیکھا ہے۔ اس روشنی اور ضیا کو میں نے قلم کے ذریعے سے اپنے کالم کی زینت بنایا ہے۔ ہمیں اپنے دلوں کو اس زینت کے ساتھ مزین کرنے سے استحکام کی خوشبو آئے گی۔ اسی میں ہماری بقا کا راز اور ہماری نسلوں کی خوشحالی کا سندیسہ ہے۔
میرے دیس کے 23 کروڑ عوام کا ہر فرد قابلِ تکریم ہے۔ ہر ایک کی رائے کے ساتھ اختلاف کیا جا سکتا ہے۔ تکریم کے دائرے میں ا س کا اظہار کیا جا سکتا ہے۔ بدگمانی کے خچر دوڑا کر توہین نہیں کی جا سکتی۔ فوت شدگان کے لیے تو بالکل نہیں کی جا سکتی۔ حضور کریمﷺ کی تعلیمات یہی ہیں کہ ان کی اچھی باتوں کا تذکرہ کیا جائے۔ اس لیے کہ ان کا معاملہ اب اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہے۔ شہداء کے بارے میں تو ایسا بالکل نہیں کیا جا سکتا۔ ان شہداء کے بارے میں منفی پروپیگنڈے کی بالکل اجازت نہیں دی جا سکتی جو ریاست کی نمائندگی کرتے ہوئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرتے ہیں۔ وردی پہنے ہوئے اللہ تعالیٰ کے فضل اور کرم سے شہادت کے رتبے سے سرفراز ہوتے ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے‘ ہر دل قلق اور اضطراب میں اس لیے مبتلا ہے کہ پاکستان کی پون صدی کی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہو رہا ہے۔ ایسے لوگوں کے بارے میں ہو رہا ہے کہ جن شہداء کے جرنیل جناب لیفٹیننٹ جنرل سرفراز علی شہید کی نیک نامی اور ستھرے کردار کی گواہیاں ہر جانب سے آرہی ہیں۔ ریٹائرڈ فوجی افسر محترم نعیم گھمن کے بیٹے‘ عزیزم سعد نعیم گھمن اپنے والد کے حوالے سے مجھے بتا رہے تھے کہ چند سال قبل لیفٹیننٹ جنرل سرفراز علی صاحب کے آبائی گھر میں چوری ہوگئی۔ تب وہ ایم آئی کے ڈی جی تھے۔ پولیس کی دوڑیں لگ گئیں۔ انہوں نے مشکوک افراد کو درجنوں کی تعداد میں پکڑ کر حوالات میں بند کردیا۔ محترم جنرل سرفراز علی کو جب پتا چلا تو انہوں نے سب کو حوالات سے چھڑایا اور پولیس سے کہا: اصل مجرم کو تلاش کرو‘ یہ طریقہ ٹھیک نہیں ہے‘ مجھے مت خوش کرو‘ قانونی طریقے کو اپناکر اپنے رب کریم کو راضی کرو۔ لوگو! ایسے عظیم اور منصف مزاج جرنیل، قانون، ضابطے اور ڈسپلن کے پابند اور نرم دل کے مالک کو بھی اشرار نے معاف نہ کیا جو عوامی ہمدردی یعنی سیلابی مہم میں شہید ہوئے۔ یاد رکھو! ان کی شہادت کو زبانوں کے نشتر سے زخمی کروگے تو دنیا و آخرت میں اپنے آپ ہی کو رسوا کرو گے۔ ایک حدیث شریف سے اپنے کالم کا اختتام کرتا ہوں۔ شیخ البانی رحمہ اللہ ''سلسلہ احادیث صحیحہ‘‘ میں ایک حدیث شریف لائے ہیں کہ جس نے کسی مصیبت میں مصیبت زدہ کے ساتھ تعزیت کی یعنی منفی چیزوں اور الزامات کو دور کیا‘ حوصلے اور صبر کی بات کی‘ عزت کا تحفظ کیا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے عزت کا لباس پہنائے گا۔ اے مولا کریم! میں اس کالم کے ذریعے جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب، لیفٹیننٹ جنرل سرفراز علی کے صاحبزادے جناب کیپٹن احمد سرفراز صاحب، شہداء کے ورثا، پاک افواج، حکومتِ پاکستان اور تمام محبِ وطن اہلِ پاکستان سے تعزیت کرتا ہوں۔ اے مولا کریم! ہمارے شہداء کو جنت الفردوس اور ہم سب کو قیامت کے دن ہمارے تکریمی رویے کے باعث عزت کا لباس عطا فرما دینا، آمین!