اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب‘ قرآنِ مجید آگاہ کرتی ہے کہ خالق نے ''کن‘‘ کہا اور یہ پوری کائنات وجود میں آ گئی۔ سائنسدان کہتے ہیں ایک بڑا دھماکہ (Big Bang) ہوا اور کائنات وجود میں آگئی۔ اگلی بات سائنسدان یہ کہتے ہیں کہ بے پناہ انرجی کے بعد اندھیرا چھا گیا۔ اسی اندھیرے میں سے ایک روشنی نمودار ہوئی اور ابتدائی ستارے اور کہکشائیں وغیرہ وجود میں آئیں۔ کائنات کی تخلیق کے بعد ابتدا میں اندھیرا تھا، اس پر تمام سائنسدانوں کی سائنس اتفاق کا اظہار کرتی ہے۔ اس ضمن میں جب ہم الہامی کتابوں کو دیکھتے ہیں تو قرآنِ مجید دو پچھلی الہامی کتابوں‘ تورات اور انجیل کا بار بار تذکرہ فرماتا ہے۔ تو رات کا پہلا باب یا سورت ہی ''پیدائش‘‘ کے عنوان سے ہے۔ پہلی آیت یوں ہے۔ ''خدا نے ابتدا میں زمین و آسمان کو پیدا کیا‘‘۔ دوسری آیت کا ایک حصہ یوں ہے کہ ''گہرائو کے اوپر اندھیرا تھا‘‘۔ تیسری آیت اس طرح ہے ''اور خدا نے کہا کہ روشنی ہوجا اور روشنی ہو گئی‘‘۔ قارئین کرام! تورات کا آغاز ان تین آیات سے ہو رہا ہے۔ 1۔اللہ تعالیٰ نے کائنات کو پیدا فرمایا۔ 2۔ ہر جانب اندھیرا تھا۔ 3۔ اس اندھیرے میں سے روشنی کو پیدا فرمایا۔ آئیے! اب اللہ تعالیٰ کی آخری الہامی کتاب یعنی قرآنِ مجید کو دیکھتے ہیں کہ وہ کیا راہ نمائی فرماتی ہے۔ اس کے بعد حضور کریمﷺ کا ایک فرمان ملاحظہ کرتے ہیں اور آخر پر جدید سائنسی ریسرچ کو دیکھتے ہیں کہ وہ کیا کہتی ہے۔
قرآنِ حکیم کی ایک سورت مبارکہ ہے جس کا نام ''الانعام‘‘ ہے۔ اس سورت مبارکہ کی پہلی ہی آیت کا آغاز یوں ہوتا ہے کہ ''سب تعریف اس اللہ کے لیے ہے جس نے آسمانوں اور زمین (کائنات) کو پیدا فرمایا اور اندھیروں اور نور کو پیدا فرمایا‘‘۔ جی ہاں! یہاں اللہ تعالیٰ نے کائنات کی پیدائش کے بعد اپنی جس پہلی مخلوق کا ذکر فرمایا ہے وہ اندھیرے ہیں۔ اندھیروں کے بعد نور کا ذکر فرمایا یعنی دوسری مخلوق نور ہے جسے اندھیروں کے اندر تخلیق فرمایا۔ اس آیت کی روشنی میں ترتیب کچھ اس طرح بن گئی کہ 1۔ کائنات کی تخلیق۔ 2۔اندھیروں کی موجودگی۔ 3۔ روشنی کا وجود۔ قارئین کرام! تورات کی سورت 'پیدائش‘ کا آغاز جن تین باتوں سے ہو رہا ہے‘ انہی تین باتوں کا آغاز قرآنِ پاک کی سورت ''الانعام‘‘ کی ابتدائی باتوں سے ہو رہا ہے۔ یہاں سے یہ بھی ثابت ہوا کہ جس ربِ کریم نے تورات نازل فرمائی‘ اسی رب کریم نے قرآنِ مجید کو نازل فرمایا۔ اگرچہ دیگر آسمانی کتب میں تحریف ہو چکی ہے مگر قرآنِ مجید اس تحریف سے پاک ہے کیونکہ اس کی حفاظت کا ذمہ خود اللہ پاک نے لیا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے آخری رسول کا ارشادِ گرامی ہے۔ فرمایا ''بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو اندھیرے میں پیدا فرمایا اور ان (مخلوقات) پر اپنا نور ڈالا‘‘۔ (سلسلہ صحیحہ للالبانی: 1076۔ ابن حبان: 1812، قال الحاکم صحیح)
آسٹریلیا نے اپنی خلائی اور زمینی دور بینوں کے ذریعے کائنات کی پیدائش کے بارے میں جو تحقیق کی وہ ''آسٹرو فیزیکل جرنل‘‘ کے شمارہ برائے دسمبر 2019ء میں شائع ہوئی۔ کہا گیا ''بگ بینگ کو چار لاکھ سال گزر گئے‘ اس کے بعد مزید کروڑوں سال لگ گئے تو تب کائنات کا ''ڈارک دور‘‘ (اندھیروں والا زمانہ) اس وقت ختم ہوا جب کہکشائوں کی پہلی روشنی ظاہر ہوئی۔ اس سے پہلے کائنات اندھیرے کا ایک سمندر تھی‘‘۔ اس کے بعد 12 جنوری 2021ء کو ''آسٹرونومی ڈاٹ کام‘‘ نے کائنات کے آغاز اور اختتام کو تسلیم کرتے ہوئے واضح کیا کہ یہ کائنات آغاز میں انتہائی گرم تھی پھر ٹھنڈی ہونا شروع ہوئی۔ یہ ڈارک دور (اندھیروں کا زمانہ) تھا۔ اس زمانے میں بنیادی ذرّات بننا شروع ہوئے یہ Infant Universe تھی۔ جس طرح دودھ پیتا بچہ Infant یعنی نوزائیدہ کہلاتا ہے‘ شیرخوارگی کے دوران نشوونما پا رہا ہوتا ہے۔ کائنات بھی اپنے ڈارک دور میں ایسی ہی نوزائیدہ اور شیر خوار تھی۔ سائنس دان اس کے بعد کہتے ہیں:
After the big bang once again split apart because light could not escape its surroundings during the dark ages.
بگ بینگ کے بعد ایک بار پھر کائنات پھٹ کر الگ الگ ہوگئی کیونکہ تاریکی کے ادوار کے دوران روشنی اپنے ارد گرد کے حصاروں سے نکل نہیں سکتی تھی۔
سائنسدان مزید واضح کرتے ہیں کہ کائنات تمام انرجی اور میٹر کے ساتھ (with all the energy and matter) باہم ملی ہوئی تھی اس لیے روشنی کے باہر نکلنے اور نمایاں ہونے کا کوئی راستہ نہ تھا۔ قارئین کرام! یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اندھیروں میں‘ تاریکی میں کائنات کو پھاڑنے والا کون ہے تو اللہ کے آخری نبی حضرت محمد کریمﷺ پر نازل ہونے والا قرآنِ مجید آگاہ فرماتا ہے کہ اس کا نام ''فاطر‘‘ ہے۔ اس کا معنی ہی یہ ہے کہ بہت ساری مختلف اقسام کی چیزوں کو پھاڑ کر الگ کرنے والا۔ درحقیقت اللہ تعالیٰ ہی فاطر ہے۔ قرآنِ مجید میں ایک سورہ فاطر بھی ہے جس کا آغاز یوں ہوتا ہے۔ ''سب تعریف اس اللہ کے لیے ہے جو آسمانوں اور زمین کا فاطر ہے‘‘۔ جہاں تک کائنات کے پھٹنے کا تعلق ہے تو یہ منظر جس سورت میں بیان کیا گیا ہے اس کا نام ''الانبیاء‘‘ ہے۔ یعنی سارے نبیوں کی دعوت ایک ہے۔ تورات حضرت موسی علیہ السلام پر نازل ہوئی تو ان کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک آنے والے سارے انبیاء کرام علیہم السلام اسی تورات کے پیروکار اور داعی تھے۔ حضرت دائود، حضرت سلیمان، حضرت ایوب، حضرت یونس، حضرت زکر یا اور حضرت یحییٰ علیہم السلام سب تورات ہی کے پابند تھے۔ سب کا عقیدہ یہی تھا کہ کائنات کو اللہ تعالیٰ نے بنایا ہے۔ وہی تمام جہان کا خالق ہے، وہ واحد و یکتا ہے۔ یہ کائنات اندھیروں میں تھی تو وہاں سے روشنی کو اسی خالق اللہ نے نکالا تھا۔ یہی تعلیم قرآنِ مجید میں بیان ہوئی ہے۔ چنانچہ ارشاد فرمایا ''یہ لوگ‘ جو خالق کے انکاری ہیں‘ انہوں نے نہیں دیکھا کہ سارے آسمان اور زمین آپس میں ملے ہوئے تھے۔ ہم نے ان کو پھاڑ کر الگ الگ کر دیا‘‘۔ (الانبیاء :30)
لوگو! آج اکثر سائنسدان ایک اللہ یعنی کائنات کے خالق و مالک کے منکر اور انکاری ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو علم تھا کہ ایسے سائنسی انکشافات مولا کریم کے انکاری لوگ ہی کیا کریں گے؛ چنانچہ مندرجہ بالا آیت کا اختتام یوں کیا۔ ''کیا یہ لوگ اب بھی ایمان نہیں لائیں گے؟‘‘ یعنی یہ لوگ اتنے بڑے حقائق کو دیکھ کر بھی ہمارے آخری رسول اور اپنے رب پر ایمان نہیں لائیں گے؟ یہ تحقیقات کے ذریعے آج جس نتیجے پر پہنچ رہے ہیں‘ خالق و مالک نے وہ سارے حقائق اپنے قرآن میں اور اپنے آخری رسولﷺ کی زبان پر جاری فرما دیے ہیں۔
لوگو! موجودہ ترقی یافتہ سائنس کے پیروکار و ریسرچر یہ کہتے ہیں کہ موجودہ کائنات جس طرح وجود میں آئی تھی‘ اسی طرح اس کا اختتام بھی ہوگا۔ مولا کریم فرما تے ہیں ''جس طرح کتابوں کا کاتب کاغذ کو گولائی میں لپیٹتا ہے اسی طرح ہم آسمان کو لپیٹ دیں گے۔ جس طرح ہم نے (کائنات) کی اولین پیدائش کا آغاز کیا اسی طرح ہم اسے واپس پہلی حالت میں لے آئیں گے۔ یہ وعدہ ہمارے ذمے ہے۔ کوئی شک نہیں ہم ہمیشہ سے وعدہ کو مکمل کرنے والے ہیں‘‘۔ (الانبیاء:104) قارئین کرام! قرآن کے آخری یعنی 30 ویں پارے میں ایک سورت کا نام ''الانفطار‘‘ ہے۔ یعنی اللہ ہی فاطر تھا جب کائنات اپنے آغاز کے مرحلے میں تھی۔ اب قرآن کے آخری حصے میں آخرت سے متعلق یہ پیغام دیا گیا ہے کہ یہ کائنات دوبارہ پھٹے گی اور ابتدائی مرحلے پر ہی واپس آجائے گی۔ وہی بنی ہوئی کائنات کو اس کے آخری مرحلے پر لائے گا۔ فرمایا ''تب آسمان پھٹ جائے گا۔ ستارے بکھر جائیں گے۔ سمندر پھاڑ دیے جائیں گے۔ قبریں الٹ دی جائیں گی‘‘۔ (الانفطار: 1 تا 4) یعنی آسمان بھی پھٹ جائے گا تو اس میں موجود ستارے اور سیارے وغیرہ بھی پھٹ جائیں گے۔ زمین پر موجود سمندر وغیرہ بھی پھٹ جائیں گے جس طرح باہم ملے ہوئے آسمان و زمین (انرجی اور میٹر وغیرہ) کو پھاڑ کر الگ الگ کیا تھا۔ اسی طرح ان سب کا وقت آنے پر ان کو دوبارہ پھاڑ کر الگ الگ کردیا جائے گا۔ جس طرح یہ آغاز میں اندھیروں میں تھے‘ اس طرح انتہا پر ان سب کو پھر سے اندھیروں کی نذر کردیا جائے گا۔ جس طرح یہ عدم سے وجود میں آئے تھے اسی طرح واپس ان کو عدم کا شکار کردیا جائے گا۔ پھر کیا ہو گا؟ فرمایا ''اس دن موجودہ زمین کو ایک دوسری زمین کے ساتھ بدل دیا جائے گا۔ تمام آسمانوں کو بھی بدل دیا جائے گا۔ سب لوگ ایک واحد قہار اللہ کے سامنے اچانک ظاہر ہوجائیں گے‘‘۔ (ابراہیم :48) آیئے! اس دن کی فکر کریں۔