''اللہ تعالیٰ ہی کائنات کا خالق و مالک ہے‘‘۔ اپنے اس ایمان کا امریکہ کے جس سائنسدان نے اعلان کیا ہے وہ بوسٹن یونیورسٹی کے اس شعبے کے ڈائریکٹر ہیں جس کا نامRemote Sensing ہے۔ یہ سائنسدان آرکیالوجی، الیکٹریکل اور کمپیوٹر انجینئرنگ کے سائنسدان ہیں۔ یہ جیالوجسٹ بھی ہیں اور زمین اور اس کی موسمی تبدیلیوں کے ماہر سائنسدان بھی ہیں۔ جیالوجی کے حوالے سے یہ صحرائوں کے ماہر مانے جاتے ہیں۔ یہ چاند کی جیالوجی کے بھی بہت بڑے ریسرچر ہیں۔ چاند پر جانے کا جو مشن تھا‘ اس کی چابی ان کے ہاتھ میں تھی۔ ان کو بہت سارے عالمی ایوارڈز مل چکے ہیں۔ امریکہ کے خلائی ادارے ''ناسا‘‘ نے ان کو ''اپالواچیومنٹ ایوارڈ‘‘ سے نوازا ہے۔ اس ایوارڈ کا مطلب واضح ہے کہ چاند پر جانے اور وہاں انسان کے اترنے کے مشن میں ان کا مرکزی کردار تھا۔ یہ 1991ء میں ''گولڈن ڈور ایوارڈ‘‘ بھی حاصل کر چکے ہیں۔ اس ایوارڈ کا مطلب بھی واضح ہے کہ یہ سائنسدان سائنس کے میدان میں ترقی کے سنہری دروازے کھولنے والا ہے۔ یہ عظیم سائنسدان 1938ء میں مصر میں پیدا ہوئے۔ اب یہ 85 سال کی عمر کو پہنچ چکے ہیں۔ وہ صحت مند اور چاق و چوبند ہیں۔ وہ آج بھی امریکہ کے سائنسی میدان میں متحرک ہیں۔ اس عظیم سائنسدان کا نام پروفیسر ڈاکٹر فاروق الباز (Dr Farouk Albaz) ہے۔ زمین کا میدان ہو یا خلائی وسعتوں کا میدان‘ وہ دونوں میدانوں کے سائنسی اور علمی شاہسوار ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ ہمارا ایمان ہے کہ زمین اور آسمانوں کا خالق ایک اللہ ہے۔ میرے بہت سارے سائنسی احباب بھی تسلیم کرتے ہیں کہ کائنات کا ایک خالق ہے‘ جسے مانے بغیر چارہ نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ سائنسی شعبوں کی تمام تحقیقات بالآخر اس نکتے پر لے جا کر کھڑا کردیتی ہیں کہ آج ہمارے سمیت جو کچھ موجود ہے یہ ایک خالق کی تخلیق ہی سے ہم تک پہنچا ہے۔
وائس آف امریکہ نے 27 جولائی 2022ء کو مندرجہ بالا حقائق پروفیسر ڈاکٹر فاروق الباز کے حوالے سے دنیا کے سامنے رکھے۔ وائس آف امریکہ نے مزید بتایا کہ معروف سائنسدان جارج لیمارے کیتھولک پادری تھے۔ بگ بینگ تھیوری پر اپنا سائنسی اور علمی مقالہ سب سے پہلے انہوں نے 1931ء میں پیش کیا‘ وہ کائنات کے خالق پر ایمان رکھتے تھے۔ Frances Collins‘ جو امریکہ کے ''نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ ‘‘ کے سربراہ رہے‘ ملحد تھے‘ وہ کسی خالق کو نہیں مانتے تھے۔ جب انہوں نے لیبارٹری میں انسانی جین کا اندرونی نقشہ تیار کیا تو کائنات کے خالق کو ماننے کا اعلان کر دیا۔ یہ عیسائیوں کے ایوینجلیکل (Evangelical) فرقے سے وابستہ ہوگئے۔ ڈاکٹر فاروق الباز‘ جن کے والد گرامی بہت بڑے اسلامی سکالر تھے‘ کہتے ہیں کہ ایک خالق کو مانے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ جیمز ویب ٹیلی سکوپ کی تازہ تحقیقات سامنے آئیں تو امریکی کانگریس کے سینیٹر مارکو روبیو نے اپنے ٹویٹر اکائونٹ سے اعلان کیا کہ:
The Heavens Declare the Glory of God۔ یعنی آسمانوں (کے سائنسی حقائق نے) خدا کی عظمت کو واضح کردیا ہے۔
انہوں نے اپنے مندرجہ بالا ٹویٹ کے لیے جو حوالہ دیا‘ وہ بائبل کی ایک آیت ہے۔قارئین کرام! ہمارا ماننا ہے کہ بائبل میں تحریف و تبدیلی ہو چکی ہے۔ تبدیلیوں سے پاک آخری الہامی سچائی صرف اور صرف قرآنِ مجیدہے؛ تاہم بائبل میں موجود وہ بات‘ جس کی تصدیق قرآنِ مجید اور حدیث پاک سے ہو‘ وہ ٹھیک ہے۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے: بلاشبہ آسمانوں اور زمین کی پیدائش انسانوں کی تخلیق سے کہیں بڑی حقیقت ہے مگر اکثر لوگ جانتے ہی نہیں‘‘۔ (المومن:57)۔
آج خلائی دوربینوں اور جیمز ویب ٹیلی سکوپ کے ذریعے حقائق سامنے آئے ہیں تو سائنسدان اور اہلِ علم سیاستدان پکار اٹھے ہیں کہ خالق کیلئے آسمانوں کی نسبت انسانوں کی پیدائش ایک کم تر اور معمولی حقیقت ہے۔ آسمانوں میں خالق کی عظمت اور اس کی کبریائی کا اظہار ہوتا ہے۔ جی ہاں! جلد ہی وہ وقت آنے والا ہے جب الحاد اور دہریت اپنا چہرہ اپنے خالق کے سامنے سجدہ ریز کرے گی یا پھر ندامت کے مارے منہ چھپاتی پھرے گی۔ وہ منہ اور چہرہ کہ جس کو ایک خالق نے پیدا فرمایا ہے۔ بنانے والا کیسے بناتا ہے‘ اس کا منظر کسی جدید ترین لیبارٹری میں دیکھا جا سکتا ہے۔ اس میں MAP کو ملاحظہ کیا جا سکتاہے کہ جس سے ڈاکٹر فرانسس کولنز نے آگاہ کیا ہے۔
جیمبر ویب ٹیلی سکوپ‘ جسے ''ٹائم مشین‘‘ بھی کہا جاتا ہے‘ کائنات کے ماضی کی بناوٹ کو سامنے لانے کے لیے تیار کی گئی ہے۔ اس کے شواہد کی بنیاد پر کہا گیا ہے کہ 13.8 ارب نوری سال پہلے بگ بینگ ہوا تھا۔ اس دھماکے کے پہلے سیکنڈ کے ایک انتہائی چھوٹے سے حصے میں ایٹم کے ابتدائی ذرات بن گئے تھے۔ ان ذرات کوکنٹرول کرنے والی طاقتیں اورٹائم وغیرہ ان ابتدائی ذرات سے بھی پہلے بن گئے تھے۔ اسی کا نام آسمان اور زمین ہے۔ یہ سارا کچھ اندھیرے میں چلا گیا۔ ایک ارب نوری سال تک اندھیروں اور تاریکی کے سمندر باقی رہے۔ اندھیروں کے ان سمندروں میں تخلیق کا عمل جاری رہا۔ سائنس ابھی اندھیروں کو دیکھنے کے قابل نہیں۔ ہم گزشتہ کالم میں (1)تخلیق۔ (2) اندھیرے اور (3) روشنی کے تین مرحلوں کا حوالہ قرآنِ مجید کی ''سورۃ الانعام‘‘ کی پہلی آیت سے دے چکے ہیں۔ سائنسدان کہتے ہیں کہ اس کے بعد ابتدائی ستارے اور گلیکسیاں وجود میں آئیں‘ ان کے زمانے کا ابھی پتا نہیں چل سکا؛ تاہم شواہد کی بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ 13 ارب نوری سال پہلے گلیکسیوں کی نشوو نما کا آغاز ہوا تھا۔ یہ اندازہ یونیورسٹی آف ایڈنبرگ کے ایک سائنسدان کا ہے جسے بی بی سی نے جوناتھن کے حوالے سے نشر کیا۔
پاکستان کے ایک معروف سائنسدان ڈاکٹر پرویز ہود بھائی نے امریکہ میں ایک پاکستانی صحافی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ جب بھی کوئی سائنسی انکشاف ہوتا ہے تو مذہبی لوگ کہنا شروع کر دیتے ہیں کہ یہ انکشاف تو مذہب پہلے ہی کر چکا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ کوئی طعن کرنے کی بات نہیں۔ اگر واقعی ایسا ہے تو پھر سوچنا پڑے گا کہ اس کائنات کا ایک خالق ہے‘ جس نے اپنے الہام کا اظہار کیا مگر اس طرح اس کا اظہار کیا کہ سینکڑوں‘ ہزاروں سال پہلے کے لوگ بھی سمجھیں اور موجودہ سائنسی اور علمی انکشافات کے زمانے میں اسے زیادہ بہتر طریقے سے سمجھیں اور ایک خالق پر ایمان لائیں۔ قرآنِ مجید کے آخری پارے کی ایک سورت ہے جس کا نام ''التکویر‘‘ ہے اس کا معنی لپیٹ دینا ہے۔ لپیٹ دینے کے دوران کیسے مناظر ہوں گے اور اس کے بعد کس طرح کے مناظر سامنے آئیں گے‘ اس سورت مبارکہ کی ابتدائی 14 آیات میں یہ ساری منظر کشی کردی گئی ہے۔ آیت نمبر15 سے پھر ابتدائے کائنات کے اُس زمانے سے آغاز کیا گیاہے جب کائنات اندھیروں میں تھی۔ مولا کریم فرماتے ہیں: (جو تم کہتے ہوئے کہ یہ کائنات بغیر خالق کے بنی ہے‘ ایسا) بالکل نہیں! میں خنس کی قسم کھاتا ہوں۔ (تکویر:15) ''خنس‘‘ اس وحشی گائے کو بھی کہتے ہیں جو سَنگل یا رسّہ تڑوا کر بھاگ اٹھے۔ ستاروں کو بھی خنس کہتے ہیں جو چھپے ہوئے ہوں۔ اگلی آیت کا ترجمہ یوں بھی کیا جا سکتا ہے۔ ''ان (ستاروں، گلیسکیوں، بلیک ہولز وغیرہ کی قسم) کہ جو چلنے والے چھپ جانے والے ہیں‘‘۔ (التکویر: 16) یہاں خنس کاجو لفظ استعمال ہوا ہے عربی میں اس سے ستارے بھی مراد ہیں اور اس کا ایک معنی ہرن بھی ہے جو درختوں اور جھاڑیوں کے اندھیرے جھنڈ میں چھپا ہوا ہوتا ہے اور وہاں سے نکل کر اچانک ظاہر ہوجاتا ہے۔ اگلی آیت میں فرمایا: ''رات (اندھیرے) کی قسم جب وہ اپنے اندھیرے سے پیچھے ہٹ جائے‘‘۔ (التکویر:17) اس کے بعد فرمایا: ''صبح کی قسم جب وہ سانس لے‘‘۔ (التکویر:18)
قارئین کرام! اب ناسا نے جیمز ویب ٹیلی سکوپ کو روانہ کرنے کا جو مقصد بیان کیا‘ وہ ملاحظہ کریں:
To see the first stars and glaxies forming out of the darkness of the early universe. وہ ابتدائی ستاروں اور گلیکسیوں کو دیکھے کہ جو ابتدائی کائنات کے اندھیروں میں وجود میں آئیں۔
اس کے بعد ناسا کے سائنسدان رقمطراز ہیں کہ اس اندھیرے میں کائنات کے عناصر گرم سُوپ کی طرح تھے۔ یہ کائنات ٹھنڈی ہو رہی تھی اس میں پروٹان ، نیوٹران اور الیکٹران وغیرہ کے کردار متعین ہو رہے تھے۔ ہائیڈروجن کے ایٹم زیادہ تھے اور ہیلیم کے تھوڑے تھے۔ ان دونوں گیسوں کے ایٹموں نے الیکٹرانز کو اپنی جانب متوجہ کرنا شروع کیا۔ یہ نیوٹرل ایٹموں کی جانب پلٹے تو روشنی‘ جو جکڑی ہوئی تھی‘ اس کو اس پراسیس نے ہمت دی کہ وہ بھاگ اٹھے۔ روشنی بھاگ نکلی، یوں کائنات کے اندھیروں بھرے زمانے کا اختتام ہوگیا۔ اب پہلی لائٹ کو دیکھنے کی کوشش ہو رہی ہے۔
سوچئے اگر قرآنِ کریم یہی بات چودہ سو سال پہلے کرے کہ تمام اجرام فلکی اندھیرے میں تشکیل پا رہے تھے‘ وہاں کی رات سے صبح نمودار ہوئی توکچھ لوگ بے شک ہم مذہبی لوگوں پر طعن کرتے رہیں‘ مگر حقیقت تو حقیقت ہی رہے گی۔ اللہ تعالیٰ اگلی آیت میں فرماتے ہیں: ''بے شک یہ پیغام ایک ایسے پہنچانے والے (جبرائیل فرشتے) نے پہنچایاہے جو معزز ہے‘‘۔ (التکویرـ: 19) جی ہاں! جس ہستی کو پہنچایا ہے وہ حضرت محمد کریمﷺ ہیں۔ امریکہ کے مایہ ناز سائنسدان پروفیسر ڈاکٹر فاروق الباز حضور کریمﷺ کا کلمہ پڑھنے پر فخر کا اظہار کرتے ہیں۔ ملحد سائنسدان کائنات کی چھپی حقیقتوں کے آشکار ہونے پر کائنات کے خالق پر ایمان لے آتے ہیں۔ کاش ہمارے پاکستانی سائنسدان جب کبھی امریکہ جائیں تو ایک بار ڈاکٹر فاروق الباز سے ضرور مل لیں‘ شاید تشکیک کے اندھیروں سے نکل کر روشنی میں آجائیں۔