اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب قرآنِ مجید آگاہ فرماتی ہے ''بلاشبہ اللہ ہی دانے اور گٹھلی کو پھاڑتا (سبز کونپل نکال کر پودا اور درخت بنا دیتا) ہے‘‘۔ (سورۃ الانعام: 95)۔ میرے ایک پڑوسی کچھ زرعی زمین کے مالک ہیں۔ ڈیڑھ سال پہلے انہوں نے ہمیں گندم کی بالیوں کا ایک گچھا تحفے میں دیا تھا جو ہم نے شیشے کے گلدان میں سجا دیا تھا۔ ڈیڑھ سال بعد‘ میں نے گندم کے ایک خوشے میں سے بھوسے دار دانہ لیا۔ جس بھوسے سے وہ دانہ لپٹا ہوا تھا‘ اس سے اسے نکالا تو وہ تروتازہ اور صحیح سلامت تھا۔ اللہ تعالیٰ کا کلام فرقانِ حمید ہمیں خبر دیتا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام جب مصر کی جیل میں قیدی بن گئے تو وہاں دو ایسے آدمی بھی جیل میں قیدی بن کر آئے جو شاہِ مصر کے خدام تھے۔ ایک دن دونوں نے خواب دیکھا۔ تعبیر معلوم کرنے کے لیے ساری جیل میں انہیں ایک ہی شخصیت نظر آئی۔ یہ حضرت یوسف علیہ السلام تھے۔ دونوں قیدی حضرت یوسف علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض گزار ہوئے کہ ہم نے آپ کو دیکھا تو آپ کو احسان کرنے والا اور صالح کردار انسان پایا۔ از راہِ کرم ہمیں ہمارے خوابوں کی تعبیر بتا دیجئے۔ ان میں سے ایک کہنے لگا: میں اپنے آپ کو دیکھ رہا ہوں کہ (انگوروں اور کھجوروں وغیرہ سے) شراب نچوڑ رہا ہوں۔ دوسرے نے اپنا خواب یوں سنایا کہ اپنے آپ کو دیکھ رہا ہوں سر پر روٹیاں اٹھائے ہوئے ہوں اور پرندے اس میں سے کھا رہے ہیں۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے سب سے پہلے دونوں کو عقیدئہ توحید کی دعوت دی۔ اس کے بعد پہلے کے خواب کی تعبیر بتاتے ہوئے فرمایا: تم (رہائی پا جاؤ گے اور) اپنے مالک (بادشاہ) کے ساقی بنو گے۔ دوسرے سے کہا: تمہیں سولی چڑھا (کر موت سے دوچار کر) دیا جائے گا اور پرندے تمہارے سر کو نوچیں گے۔ جی ہاں! دونوں کے ساتھ وہی کچھ ہوا جیسا ان کو حضرت یوسف علیہ السلام نے بتایا تھا۔ وہ جو شاہِ مصر کا ساقی تھا ‘اس سے سیدنا یوسف علیہ السلام نے کہا کہ بادشاہ سے میرا بھی ذکر کرنا کہ زندان خانے میں ایک بے گناہ شخص کو بھی رکھا گیا ہے مگر وہ شخص بھول گیا اور اس بات کو کئی برس بیت گئے۔
ان برسوں کے دوران وہ شخص بادشاہ کی خدمت میں مصروف رہا اور بادشاہ کا چہیتا خادم بن گیا۔ ایک روز شاہِ مصر نے خواب دیکھا کہ سات عدد موٹی موٹی گائیں ہیں جو سات عدد پتلی گائیوں کو کھا رہی ہیں۔ بادشاہ نے ایک خواب یہ دیکھا کہ گندم کے سات سبز خوشے ہیں اور ساتھ ہی سات خوشے خشک بھی دیکھے۔ بادشاہ نے اپنا خواب اپنے مشیروں اور معبروں کو سنایا اور کہا کہ اگر تم بتا سکتے ہو تو مجھے میرے خواب کی تعبیر بتاؤ ‘انہوں نے کہا: بادشاہ سلامت یہ پریشانیاں ہیں جو خواب کی صورت اختیار کر گئی ہیں‘ ایسے خوابوں کی تعبیر بھلا ہم کیا جانیں؟بادشاہ اور اس کی کابینہ کے لوگوں کی خدمت پر جولوگ مامور تھے‘ ان میں سے وہ قیدی بھی تھا جو اپنے خواب کی تعبیر کو روپذیر ہوتا دیکھ چکا تھا کہ وہ کس قدر صحیح ثابت ہوئی۔ خواب کا ذکر سن کر اسے فوراً حضرت یوسف علیہ السلام یاد آئے اور اس نے بادشاہ سے کہا کہ خواب کی تعبیر میں بتاؤں گا‘ بس مجھے زندان خانے میں جانے کی اجازت دی جائے۔ وہ جیل میں حضرت یوسف علیہ السلام کے پاس پہنچا اور بادشاہ کا خواب سنایا۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے خواب کی تعبیر بتائی کہ تم لوگ سات سال متواتر کاشت کاری کرو گے لہٰذا ان سات سالوں میں جو (گندم) کاٹو اسے خوشوں میں ہی رہنے دو۔ سات سالوں میں خوشوں سے اسی قدر گندم نکالو جو تم نے خوراک کے طور پر استعمال کرنی ہے۔ اس کے بعد سات سال قحط کے آئیں گے۔ خوشوں میں محفوظ گندم قحط کے سالوں میں استعمال کر لینا۔ یعنی چودہ متواتر سال منصوبہ بندی کے ساتھ گزارو گے تو بھوک اور قحط کے ہاتھوں مرنے سے بچ جاؤ گے۔ اس کے بعد جو پندرہواں سال آئے گا اس میں خوب بارش برسے گی‘ باغات سرسبز اور فصلیں لہلہائیں گی۔ پھلوں کے رس نچوڑے جائیں گے۔ اس شخص نے جا کر بادشاہ کو بتایا تو بادشاہ بہت خوش ہوا۔ اس نے فوراً حضرت یوسف علیہ السلام کو جیل سے نکالااور عزیزِ مصر مقرر کرتے ہوئے وزارتِ زراعت اور خزانہ کے امور خصوصی طور پر ان کے کنٹرول میں دے دیے۔ بادشاہ نے جس ہستی کو اہل پایا‘ اسے اپنے سب سرداروں‘ مشیروں اور وزیروں کے اوپر لابٹھایا‘ ان لوگوں کے بھی اوپر جو کہتے تھے کہ یہ خواب تو پریشان خیالی ہے۔
قارئین کرام! حضرت یوسف علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے ایک جلیل القدر پیغمبر تھے۔ ان کے والد گرامی حضرت یعقوب علیہ السلام بھی پیغمبر تھے۔ دادا محترم حضرت اسحاق علیہ السلام بھی پیغمبر تھے۔ پڑدادا محترم حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی جلیل القدر پیغمبر تھے۔ تقدیر یہ تھی کہ قحط بہرحال واقع ہو کر رہے گا۔ بہت ساری حکمتوں میں سے ایک حکمت الٰہی یہ تھی کہ ایک پردیسی‘ بھائیوں نے جس سے حسد کر کے اسے مرنے کے لیے اندھے کنویں میں پھینک دیا تھا اور جو غلاموں کی صورت میں فروخت ہوتا ہوا مصر میں آیا تھا اور پھر جیل میں جا پہنچا تھا‘ اسے مصر کی وزارتِ عظمیٰ کے تخت پر بٹھانا ہے۔ مگر نئے وزیراعظم کایہ کردار بھی دنیا کو دکھانا تھا کہ وہ کس قدر بڑے دل کا مالک تھا کہ حاسدوں کو نہ صرف معاف کر دیا بلکہ ان سب کو مصر میں آباد کردیا۔ دینِ حق کی دعوت کے راستے اس سے کھل گئے تھے۔ اس زمانے میں سارے مشرقِ وسطیٰ یعنی موجودہ شام، لبنان، فلسطین، اسرائیل، اردن اور سعودی عرب کے تبوک وغیرہ تک کے علاقے میں قحط پڑ ا تھا۔ یہ سب لوگ غلّے کے لیے مصر جاتے تھے۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے قائم کیے گئے نظم کے تحت سب کو قحط کے ہاتھوں موت کے منہ میں جانے سے بچایا جا رہا تھا۔ حضرت یعقوب علیہ السلام مصر میں حضرت یوسف سے مل کر کس قدر خوش ہوئے ہوں گے کہ ان کا بیٹا اللہ کا مبعوث کردہ پیغمبر تھا اور مصر کا وزیراعظم بھی۔ اس کے ہاتھوں دنیا کو ایک طرف اناج کی بوریاں مل رہی تھیں اور دوسری طرف ایمان کی مٹھاس اور حلاوت مل رہی تھی۔ پیٹ میں غذا جا رہی تھی تو خوش قسمت لوگوں کے سینوں میں ایمان جا رہا تھا۔ اس قحط میں میرے رب کی حکمت یہ بھی تھی کہ انسانوں کو آگاہ کر دیا جائے وہ اسباب کی دنیا میں تدبیر کو بروئے کار لائیں۔ پونے پانچ ہزار سال قبل کی دنیا میں آج کی سائنس نہ تھی مگر اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو قحط اور موت کے منہ میں جانے سے محفوظ رکھا۔ یقینا اللہ تعالیٰ کو اپنی مخلوق کے ساتھ پیار ہے اور وہ اسے ہلاک نہیں کرنا چاہتا مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اس نے دنیا کو آزمائش اور امتحان کی جگہ بنایا ہے۔ اس امتحان میں انسان ہی کا بھلا ہے کہ چند روزہ امتحان سے گزر کر وہ جنت میں ہمیشہ کی زندگی بسر کرے گا یعنی یہ دنیاوی امتحان سراسر رحمت ہے۔
زندگی کے تحفظ کی تدبیر کرنا انسانی فطرت میں شامل ہے۔ تدبیر کا طریقہ اللہ تعالیٰ نے یوں واضح کیا کہ بادشاہ کو خواب دکھایا اور تعبیر کا کام ایک پردیسی یوسف علیہ السلام سے لیا۔ تدبیر کا کام بھی بادشاہ سے لیا کہ اس نے حضرت یوسف علیہ السلام کا بطور وزیراعظم درست ترین انتخاب کیا۔
اے میرے دیس کے اربابِ اختیار! آج تو سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ انجینئرنگ کا زمانہ ہے۔ انجینئرنگ کے مزید ذیلی شعبوں کا دور دورہ ہے۔ کالام کے اوپر والے علاقے میں ڈیم بن جاتے تو کالام محفوظ ہو جاتا۔ گلیشیرز پگھلنے کی باتیں گزشتہ 20سالوں سے چل رہی ہیں۔ چکدرہ تک مناسب جگہیں دیکھ کر ڈیم بنا دیے جاتے تو سوات اور چکدرہ محفوظ ہو جاتے۔ کابل سے جلال آباد کی طرف چلیں تو راستے میں متعدد ڈیم بن سکتے ہیں۔ ہم کابل کو پیشکش کرتے کہ ڈیم بنائیں‘ اپنے ملک کو خوشحال بنائیں۔ اس کا ہمیں فائدہ یہ ہے کہ کابل کا پانی دریائے سوات میں آتا تو وقفے وقفے سے آتا۔ نوشہرہ پر زد نہ پڑتی۔ یہی پانی سکردو سے آنے والے دریائے سندھ کو ساتھ لے کر آگے بڑھتا تو کالا باغ ڈیم میں ذخیرہ ہوتا۔ میرپور شہر منگلا ڈیم کے کنارے پر امیر ترین شہر ہے تو ڈیم کی وجہ سے ہے۔ نوشہرہ جو آئے روز ڈوبتا ہے‘ یہ اگر کالا باغ ڈیم کے کنارے کا شہر بن جاتا تو دوسرا میر پور بن جاتا۔ دریائے سندھ‘ جو آج سندھ کے اضلاع کو جھیلوں میں تبدیل کر گیا ہے‘ ایسا نہ کرتا۔ نقصان اگر ہوتا بھی تو معمولی ہوتا۔ ایسی تدبیروں سے ہمیں بجلی بھی چار‘ پانچ روپے فی یونٹ کے حساب سے ملتی۔ صنعتیں خوب چلتیں۔ مال سستا تیار ہوتا۔ ایکسپورٹ خوب ہوتی۔ میرا دیس خوشحال ہوتا۔ ڈیموں کا پانی سارا سال آبپاشی کے لیے استعمال ہوتا تو زراعت اس قدر ہوتی کہ کپاس سے کپڑے اور سوتر کی ملیں چلتیں اور بنولے سے گھی اور کوکنگ آئل وافرملتا۔ الغرض! پانی کے ڈیم‘ ان سے بننے والی بجلی، زراعت اور صنعتیں سب ایک دوسرے سے اسی طرح جڑی ہوئی ہیں جس طرح انسانی جسم میں ہڈیاں اور ان کے جوڑ، گوشت اور کھال، خون اور جسمانی اعضا باہم جڑے ہوئے ہیں۔ ان سب چیزوں کے مجموعے کا نام انسان ہے۔ یہ انسان اپنے سارے اعضا کے ساتھ ہی سائیکل چلا سکے گا۔ میرے وطن کی معیشت کا سائیکل میرے دیس کے حکمرانوں نے اپنے گھٹیا اور وقتی سیاسی مفاد کی خاطر تباہ کر دیا ہے۔
موجودہ دکھ کی گھڑیوں میں چاہیے تو یہ تھا کہ سیاست کے مفاداتی کھیل کا سائیکل رک جاتا۔ بیان بازیوں، الزامات اور زبان کے تیر و نشتر کی جنگ فوراً سیز فائر کی شکل اختیار کر لیتی۔ سب سیاستدان سیلاب زدگان کی خدمت میں جت جاتے۔ ہم سب سیلاب کے شکار اپنے ہم وطنوں کی خدمت کے لیے دن رات ایک کر دیتے۔ اپنے ملک کو نئے سرے سے تعمیر کرنے کا خواب دیکھتے۔ بلوچستان میں مضبوط ڈیم بناتے۔ آبی گزرگاہوں سے راستے کی رکاوٹوں کو ہٹاتے۔ قدرتی آفات سے نمٹنے کا جو حکومتی محکمہ ہے‘ ناکارہ پڑا ہے۔ اسے اہل ہاتھوں میں تھماتے۔ جس طرح ایمبولینسوں کے بوتھ ہیں‘ اسی طرح دریائوں اور بڑی نہروں کے کناروں پر کشتیوں کے بوتھ بناتے مگر خدمت کے ان خوابوں کی تعبیر کون بتائے؟ تدبیر کون کرے؟ سوچتا ہوں چہرے اور کردار کا انتہائی خوبصورت اور حسین یوسف ہم اہلِ پاکستان کہاں سے ڈھونڈیں؟