اللہ تعالیٰ نے کائنات کو ''کُنْ‘‘ کہہ کر تخلیق فرمایا۔ آج کی سائنسی تھیوری یہ ہے کہ ایک بڑا دھماکا ہوا اور یہ کائنات وجود میں آئی۔ اس دھماکے کو انگریزی میں ''بِگ بینگ‘‘ اور عرب زبان میں ''انفجارِ عظیم‘‘ کہا جاتا ہے۔ اگلا مرحلہ یہ تھا کہ کائنات ٹھنڈی ہونا شروع ہوئی اور اندھیرے میں چلی گئی۔ آخری الہامی کتاب جو حضرت محمد کریمﷺ پر نازل ہوئی‘ اس کی ایک سورت کا آغاز یوں ہوتا ہے ''سب تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمایا، اندھیروں اور روشنی کو وجود بخشا‘‘ (الانعام:1) یعنی ہمارے حضور کریمﷺ پر نازل ہونے والی کتاب قرآنِ مجید نے آگاہ فرما دیا کہ کائنات کی پیدائش سے اگلے مرحلے میں اندھیرے تھے۔ روشنی اس کے بعد وجود میں آئی اور ان اندھیروں میں سے پیدا ہوئی۔ تب کائنات ایک غلاف میں لپٹی ہوئی تھی۔ اس کے اندر اندھیرا تھا۔ اس اندھیرے میں ذرّات وجود میں آئے۔ سائنسی تھیوری یہ ہے کہ سب سے پہلے کوارکس وجود میں آئے۔ ان کوارکس کی بھی اقسام ہیں۔ بنیادی اقسام میں دو کوارکس ''اَپْ‘‘ ہیں اور دو عدد ''ڈاؤن‘‘ ہیں۔ ہگز بوزون اور دیگر ذرّات بنے۔ نیوٹرن، پروٹان اور الیکٹران کے وجود سے ایٹم وجود میں آیا۔ الغرض! آج کی سائنس ایسے ذرّات کی اقسام کوئی پانچ ہزار بتاتی ہے۔ اصل تعداد کتنی ہے‘ کائنات کے خالق ہی کو معلوم ہے۔
ذرّات کے علم کی جو سائنس ہے اسے ''کوانٹم‘‘ کہا جاتا ہے۔ ہر ذرّے کا کیا کردار ہے۔ اس حوالے سے جو کچھ ہمیں معلوم ہے اسی علم کی وجہ سے آج کا دور سائنسی دور ہے۔ ترقیوں اور سہولتوں کا زمانہ ہے مگر یہ جدید ترین علم سمندر میں سے ایک قطرہ کی مانند ہے جو سائنسدانوں کے ہاتھ لگا ہے۔ سبحان اللہ! وہ اربوں کھربوں کلومیٹر پر محیط کیسی لیبارٹری تھی جس میں یہ سب کچھ بن رہا تھا۔ سپیس کی لہریں (Waves) بھی اسی کے اندر بن رہی تھیں۔ کششِ ثقل وغیرکی ویوز بھی اسی کے اندر وجود میں آ رہی تھیں۔ یہ سب کچھ باہم ملا ہوا تھا۔ اس وقت ویوز آسمان تھیں تو ذرّات زمین تھے۔ ابتدائی کائنات‘ ایک ایسے بچے کی طرح تھی جو اپنی ماں کے شکم میں ہوتا ہے۔ پانی کی اندھیر تھیلی میں ہوتا ہے۔ ایسے ہی پوری کائنات اربوں کھربوں کلو میٹر کی اندھیر تھیلی میں بند‘ نشوونما پا رہی تھی۔ اس کی پیدائش کا جب وقت آیا تو اللہ تعالیٰ نے اسے کس طرح پھاڑ کر ایک نیا وجود بخشا‘ ملاحظہ ہو اس آخری الہامی کتاب میں جو ہمارے حضور کریمﷺ پر نازل ہوئی۔ فرمایا: ''(وہ لوگ جو خالق اور اگلے جہان میں اس خالق سے ملاقات) کے منکر ہیں ان لوگوں نے دیکھا نہیں کہ تمام آسمان اور زمین باہم ملے ہوئے تھے تو ہم نے ان دونوں کو پھاڑ کر الگ الگ کر دیا‘‘(الانبیاء:30)
یاد رہے! جس کو ہم خلا (Space) کہتے ہیں یہ تو بے شمار طرح کی Waves سے بھری پڑی ہے۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نے واضح کیا ہے کہ ہم نے اسے بنایا ہے۔ قرآن مجید نے اسے آسمان کہا ہے۔ یاد رہے! تمام ٹھوس اشیا؛ مٹی، پتھر اور دھاتوں وغیرہ کے ذرّات میں خلا کے فاصلے اسی نسبت سے ہیں جس نسبت سے ہمارے نظامِ شمسی میں سورج، زمین، چاند اور مریخ وغیرہ کے مابین خلائی فاصلے ہیں۔ انسان کا ساڑھے پانچ یا چھ فٹ کا جو وجود ہے اگر اس کے مابین خلا کو ختم کر دیا جائے تو بائیولوجی کی سائنس کہتی ہے کہ انسان کا وجود صرف ایک نقطے کے برابر رہ جائے گا۔ جی ہاں! یہ جو سپیس کا ہر جانب وسیع سمندر ہے‘ اسے اللہ تعالیٰ نے ''سماوات‘‘ کہا ہے۔ اور اسی لیے جمع کا لفظ استعمال فرمایا کہ اس میں بھی بے شمار مخلوقات ہیں۔ بعض جگہ سات آسمان بھی کہا کہ ہر جانب یہ لامتناہی ہے۔ اس کے اندر بے شمار چاند‘ سورج‘ سیارے‘ گلیکسیاں اور ان کے کلسٹر وغیرہ ہیں۔ خلا یعنی آسمانوں کی وسعتوں میں بکھرے ہوئے موتی ہیں۔ یہ سب باہم ملے ہوئے تھے‘ اللہ تعالیٰ نے ان کو پھاڑ کر الگ الگ کردیا اور کائنات کا ایک جوڑا آسمان و زمین وجود میں آ گیا۔
قارئین کرام! مندرجہ بالا حقائق سامنے لانے کا مقصد یہ ہے کہ ایک خالق کے منکروں کو آگاہ کیا جائے کہ بگ بینگ محض ایک اتفاقی دھماکا نہیں بلکہ ایک طے شدہ اور آرگنائزڈ پروگرام تھا۔ یہ پروگرام نشوونما پا کر نمایاں ہوا تو پھٹ کر مزید نمایاں ہوا۔ آسمانوں اور زمین کا چہرہ نمودار ہوا اور سامنے آیا۔ تخلیق میں پھٹنے کا یہ جو عمل ہے‘ ہمارے خالق کا طریقہ کار یہی ہے۔ ارشاد فرمایا ''(وہ رات کے اندھیرے) میں سے صبح کو پھاڑ نکالنے والا ہے۔ اسی نے رات کو سکون کا باعث بنایا۔ سورج اور چاند کو ایک حساب سے چلنے والا بنایا۔ یہ سب انتہائی زبردست اور خوب جاننے والے کا مقرر کردہ اندازہ (طے شدہ پروگرام) ہے‘‘۔ (الانعام:96)
مذکورہ آیت میں اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کے لیے ''فالق‘‘ کا صفاتی نام استعمال ہوا ہے جس کا ایک معنی ہے؛ پھاڑنے والا۔ یعنی تخلیقی عمل پھٹنے سے وجود میں آتا ہے مگر یہ عمل تخلیق و تعمیر کا ایک شاہکار ہوتا ہے۔ اس خوبصورت اور جامع شاہکار کو وجود دینے والا جو خالق ہے وہی ''فالق‘‘ ہے۔ عربی زبان میں پھٹنے کے اس عمل کو ''فَلَقْ‘‘ کہا جاتا ہے۔ تخلیق میں ''فلق‘‘ کا یہ عمل ہم ہر روز دیکھتے ہیں۔ آسمان کی وسعتوں میں ہماری دوربینیں دیکھ رہی ہیں کہ ستارے پھٹتے ہیں تو ''سپرنووا‘‘ اور بلیک ہول بنتے ہیں۔ خود ہماری یہ جو زمین ہے‘ یہ سورج سے الگ ہونے والا ایک ٹکڑا ہے جو ٹھنڈا ہو کر موجودہ شکل اختیار گیا۔ چاند بھی اسی طرح وجود میں آیا۔ جس قدر پرندے ہیں‘ وہ سب انڈے دیتے ہیں۔ انڈا دینے کا جو عمل ہے اس میں بھی ''فلق‘‘ واضح ہے۔ انڈے میں سے چوزہ نکلتا ہے۔ اندر سے چوزہ اپنی چونچ سے انڈے کے چھلکے کو پھاڑتا ہے تو باہر سے اس کی ماں اپنی چونچ سے انڈے کے چھلکے کو پھاڑ ڈالتی ہے تاکہ اس کا محبوب بچہ اسے پھاڑتا ہوا باہر آ جائے۔
ممالیہ جانداروں اور انسانوں کے بچے اپنی اپنی ماداؤں کے شکم میں تین اندھیرے پردوں میں جنم لیتے ہیں۔ جہاں جنم لینے میں ''فلق‘‘ کا منظر واضح ہے‘ وہیں وہ پانی کی تھیلی بھی تو ہے جو پھٹتی ہے تواس سے بچہ عالمِ موجود کو اپنا چہرہ دکھانے کے قابل ہو جاتا ہے۔ یہ سارا کام اسی خالق اور فالق کا ہے جس نے اس کائنات کو ''فَتَقْ‘‘ کیا تھا۔ یعنی پھاڑ کر کھولا تھا، کشادہ کیا تھا، وہ اپنے بندوں کو آگاہ کر رہا ہے کہ دیکھنا۔ کہیں دنیا کی عارضی مسرتوں میں میری ملاقات کو نہ بھلا دینا۔ میں عنقریب تجھے دوبارہ پیدا کرنے والا ہوں۔
اللہ اللہ! وہ قرآنِ مجید جو ہمارے حضور ختم المرسلینﷺ پر نازل ہوا‘ اس نے کوئی گوشہ نہ چھوڑا۔ مزید ارشاد فرمایا ''بلاشبہ اللہ ہی دانے اور گٹھلی کو پھاڑنے والا ہے، وہ مُردہ کو زندہ سے نکالتا ہے اور وہی زندہ سے مردہ کو نکالنے والا ہے۔ یہی تو ہے تمہارا اللہ۔ تم کہاں بہکائے جا رہے ہو؟‘‘ (الانعام:95) لوگو! دانہ گندم کا ہو یا مکئی کا‘ وہ خشخاش کا ہو یا رائی کا۔ زمین کے اندھیرے میں پھٹتا ہے۔ خود دانے کے چھلکے کے اندر بھی اندھیرا ہے۔ وسط میں سے جس کونپل نے نکلنا ہے‘ اس نے اپنے اردگرد کے گودے کو پھاڑ کر نکلنا ہے۔ پھر چھلکے کو پھاڑنا ہے اس کے بعد زمین کو پھاڑ کر باہر آنا ہے۔ یعنی دانہ ہو یا گٹھلی ہو‘ وہ گٹھلی کھجور کی سخت ترین گٹھلی ہو یا آم کی نرم گٹھلی۔ اس نے تین اندھیر پردوں کو پھاڑ کر باہر آنا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: یہ سب پردے بنانے والا ''خالق‘‘ میں ہوں۔ اور پھر ان پردوں کو پھاڑنے والا بھی میں ہوں‘ لہٰذا مجھ سے بہک کر اور گمراہ ہو کر کہیں اور نہ چلے جانا۔ اے انسان! تجھے راہِ راست پر رکھنے ہی کے لیے تو میں نے اپنے محبوبﷺ کو قرآنِ حکیم جیسی کتابِ ہدایت دی ہے۔
قارئین کرام! قرآنِ مجید کی آخری دو سورتوں میں سے پہلی سورت کا نام ''اَلْفَلَقْ‘‘ ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے پیارے حبیبﷺ کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں! ''(میرے رسولؐ) کہہ دو۔ میں ''فَلَقْ‘‘ کے رب کی پناہ میں آتا ہوں۔ ہر اس مخلوق کے نقصان سے (اللہ کی پناہ مانگتا ہوں) جسے اس نے پیدا فرمایا ہے‘‘۔ (الفلق:1 تا 2)لوگو! کوئی شئے جاندار ہے یا بے جان‘ سب اسی اللہ خالق و فالق کی مخلوق ہیں۔ جب اس کی پناہ مل جائے گی تو حفاظت یقینی ہو جائے گی۔ یہ آخری دو سورتیں بڑی عظیم سورتیں ہیں۔ حضور کریمﷺ ان دونوں سورتوں کا دم اپنے ننھے نواسوں حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ کو کیا کرتے تھے اور فرمایا: حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی اپنے دونوں بیٹوں حضرت اسماعیل اور حضرت اسحاق علیہما السلام کو دم کیا کرتے تھے۔ جادو اور نظرِ بد کے خاتمے کے لیے آخری دو سورتیں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب حضور کریمﷺ پر نازل فرمائیں۔ حضورﷺ ان کو پڑھتے۔ اپنے ہاتھوں کی ہتھیلیوں پر پھونکتے اور ہتھیلیوں کو اپنے جسم مبارک کے سامنے پھیر لیتے۔ سر مبارک، چہرہ مبارک اور جسم مبارک کے اگلے حصّے پر پھیر لیتے۔ (بخاری: 5763، مسلم: 2189) ہمیں بھی ایسا ہی کرنا چاہئے۔