اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب ''قرآن مجید‘‘ کی تلاوت سے فٹ بال کے عالمی مقابلے کا افتتاح ہوا۔ قطر میں عالمی مقابلوں کے لیے آٹھ سٹیڈیم بنائے گئے۔ ان میں سے ایک کا نام ''البیت‘‘ ہے۔ عرب کلچر کو سامنے رکھتے ہوئے اسے خیمے کی شکل میں بنایا گیا ہے۔ پیغام یہ ہے کہ ہم صحرائی لوگوں کو عزت ملی ہے تو قرآنِ پاک سے ملی ہے۔ فرمایا ''اے انسانو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور عورت سے پیدا فرمایا۔ ہم نے تمہارے خاندان اور قبیلے بنا دیے تاکہ تم لوگ آپس میں جان پہچان کے ساتھ زندگی گزارو۔ یہ حقیقت بھی بھولنے نہ پائے کہ اللہ کے ہاں تم لوگوں میں سے سب سے بڑھ کر عزت دار وہ ہے جو تم میں سے سب سے زیادہ پرہیزگاری والا ہے۔ کیا شک ہے کہ اللہ تعالیٰ بخوبی جاننے والااور خبر رکھنے والا ہے‘‘۔ (الحجرات:13) قطر میں آئے ہوئے دنیا بھر کے لاکھوں لوگوں نے قرآنِ پاک کے مذکورہ پیغام کو اپنی اپنی زبانوں میں ترجمے کے ساتھ سنا تو انہیں احساس ہوا کہ ہم سارے انسان ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہیں۔ قطر کے حکمران محترم تمیم بن حمد آل ثانی نے قرآنِ مجید کی تلاوت کے لیے جس قاری کا انتخاب کیا‘ اس قاری کی داستانِ حیات بھی انتہائی ایمان افروز ہے۔ اس قاری کا نام غانم مفتاح ہے اس کے جڑواں بھائی کا نام احمد مفتاح ہے۔ یہ دونوں بھائی شکمِ مادر میں تھے کہ الٹرا ساؤنڈ کے ذریعے ڈاکٹروں کو معلوم ہوا کہ ایک بچے کو ایسی بیماری ہے جو شکمِ مادر میں پیدا ہوتی ہے اور خال خال ہی کسی کو ہوتی ہے۔ اس بیماری میں ریڑھ کی ہڈی کا آخری حصّہ پیدا نہیں ہوتا لہٰذا نیچے کا دھڑ غائب ہو جاتا ہے۔ ایسا بچہ اپنی پیدائش کے بعد چند سال ہی بمشکل گزار پاتا ہے اور فوت ہو جاتا ہے۔ ڈاکٹروں نے ماں باپ کو مشورہ دیا کہ اس بچے کو ہم ختم کر دیتے ہیں جبکہ دوسرا بچہ بالکل ٹھیک ہے۔ ماں باپ نے ایسا کرنے کو تسلیم نہیں کیا لہٰذا دونوں بچے پیدا ہوئے تو نصف دھڑ کے بچے کو بول و براز کے لیے متواتر کئی آپریشنز کے مشکل ترین مراحل سے گزرنا پڑا۔
یہ بچہ جو 2002ء میں پیدا ہوا‘ 2022ء کے فیفا ورلڈ کپ کے افتتاح کے لیے منتخب کیا گیا۔ اس افتتاح میں خانم مفتاح کے ساتھ معروف امریکی ہالی وڈ کے اداکار مورگن فری مین کو بھی شامل کیا گیا۔ غانم مفتاح نے ہی افتتاحی خطاب کیا۔ خطاب کے بعد امیر قطر جناب تمیم بن حمد آل ثانی نے اپنے والد محترم حمد بن خلیفہ آل ثانی کی اس شرٹ پر دستخط کر کے فٹ بال کے میچ کا آغاز کیا جسے انہوں نے آج سے پچاس سال قبل پہن کر اس وقت فٹ بال کھیلا تھا جب قطر میں غربت تھی۔ کھیل کا کوئی میدان نہ تھا۔ کھلے ریتلے میدان میں یہ میچ کھیلا گیا تھا۔ دستخط کے وقت امیر قطر کے ساتھ ان کے والد گرامی خوشی و مسرت سے مسکرا رہے تھے۔
غانم مفتاح اب 20سال کے نوجوان ہیں۔ وہ جب اپنے دونوں ہاتھ زمین پر رکھتے ہیں‘ ان سے پاؤں کا کام لے کرچلتے ہیں تو ان کا جسم تین چارانچ تک زمین سے اوپر ہوتا ہے۔ غانم مفتاح اپنے ہاتھوں سے ہاتھوں کا کام تو لیتے ہی ہیں‘ ان سے پاؤں کا کام بھی لیتے ہیں۔ وہ ایک ہاتھ پر تھوڑی دیر کے لیے کھڑے رہتے ہیں اور دوسرے ہاتھ سے اپنا کام کرتے ہیں۔ وہ اپنے ہاتھوں میں دستانے پہن کر فٹ بال کھیلتے ہیں یوں وہ فٹ بال کی دنیا کے سٹار ہیں۔ وہ بہترین تیراک بھی ہیں۔ کامیاب بزنس مین ہیں۔ انہوں نے اپنی آئس کریم فیکٹری بنائی ہے۔ آئس کریم کا نام ''غادسیہ آئس کریم‘‘ ہے۔ اس کی چھ برانچیں ہیں جبکہ ان برانچوں میں ساٹھ سے زائد ملازم کام کرتے ہیں۔ اس آمدن سے اور حکومتی تعاون سے وہ معذوروں کی فلاح کا کام بھی کرتے ہیں۔
خلیجی ممالک کے پہاڑی علاقوں میں جو سب سے بلند چوٹی ہے اسے ''جبلِ شمس‘‘ کہا جاتا ہے۔ موصوف اسے سر کر چکے ہیں اور اب ماؤنٹ ایورسٹ کو سر کرنے کا پروگرام بنائے بیٹھے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ان کے 36لاکھ فالورز ہیں۔ مزید سنئے‘ وہ لف برا یونیورسٹی سے سیاسیات میں ماسٹر کی ڈگری لے چکے ہیں۔ قطر کے امیر جناب تمیم بن حمد آل ثانی نے انہیں قطر کا ایسا سفیر بنا دیا ہے جو دنیا بھر میں ہر اچھے اور فلاحی کام کا علمبردار اور اسے اپنے ملک میں سرانجام دینے کا ذمہ دار ہے۔ وہ معذوروں میں زندگی کی ا منگ پیدا کرنے والا بہترین مقرر (موٹیویشنل سپیکر) بھی ہے۔ کئی کتابوں کا مصنف ہے۔ مستقبل میں یہ سیاسی رہنما قطر کا وزیراعظم بھی بننا چاہتا ہے۔ کیا خبر کہ کسی وقت امیر قطر محترم تمیم بن حمد اسے اپنے ملک کا وزیراعظم بھی بنا دیں اور جب وہ میرے دیس پاکستان میں تشریف لائے تو ہمارے حکمرانوں کو بھی حکمرانی کا کوئی ایسا طریقہ بتا دے کہ یہ بھی اپنے رب کو راضی کرنے کے لیے سیاست کریں۔ ایسی سیاست کہ جس سے اہلِ پاکستان سُکھی ہو جائیں۔
غانم مفتاح قرآنِ مجید کا قاری تو ہے ہی مگر ایسا قاری ہے جس نے اپنے رب کریم کی نعمتوں کا شکر چھ جملوں میں ادا کرنے کا معمول بنایا ہوا ہے۔ جملے ملاحظہ ہوں۔ 1: الحمد للہ حبا (اللہ کا شکر اللہ سے محبت کرتے ہوئے) 2: الحمد للہ شکراً (اللہ کا شکر اللہ کی نعمتوں کی قدر کرتے ہوئے )3: الحمد للہ رجائً (اللہ تعالیٰ کا شکر اس سے امید باندھتے ہوئے) 4: الحمد للہ طاعاً۔ (اللہ کا شکر اللہ کی اطاعت کرتے ہوئے) 5: الحمد للہ دائماً (اللہ کا شکر لگاتار اور تسلسل کے ساتھ) 6: الحمد للہ ابداً (اللہ کریم کا شکر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے) قارئین کرام! آئیے۔ ہم بھی سوچیں کہ آدھے جسم والا کیسے متواتر آپریشنوں کی زد میں ہے۔ پھر بھی اپنے رب کی دی ہوئی نعمتوں پر اس قدر شکر ادا کرتا ہے کہ سبحان اللہ شکر کے ایسے انداز پر! اور ایک ہم ہیں کہ جسم بھی مکمل ہے‘ نعمتیں بے شمار ہیں مگر شکر و صبر کی توفیق نہیں۔ خراجِ تحسین اور سلام محترم امیر قطر تمیم بن حمد آل ثانی کو کہ انہوں نے غانم مفتاح سے فٹ بال کے عالمی مقابلوں کے ایونٹ کا افتتاح کروا کے ثابت کیا کہ معذوری انسان کی راہ میں حائل نہیں ہو سکتی اور یہ کہ خدا نے کسی جاندار کو بے مقصد پیدا نہیں کیا۔ ان کا یہ کردار یقینا لاثانی ہے اور دنیا کے فنا ہونے تک تاریخِ انسانی میں یاد رکھا جائے گا۔
دنیا میں سب سے زیادہ کھیلا اور دیکھا جانے والا کھیل فٹ بال ہے۔ برازیل اور ارجنٹائن کی ٹیمیں اس کھیل میں ٹاپ کی ٹیمیں سمجھی جاتی ہیں۔ اس کے عالمی ادارے کا نام ''فیفا‘‘ ہے۔ جرمنی میں اس کا ہیڈ کوارٹر ہے۔ روس میں جب یہ فٹ بال کا عالمی میلہ لگا تھا تو روس نے گیارہ ارب ڈالر خرچ کیے تھا۔ اس کے بعد برازیل میں مقابلہ ہوا تو اس نے 15 ارب ڈالر خرچ کیے تھے۔ 2010ء میں اس کی میزبانی قطر کو ملی تو قطر کے حکمران تمیم بن حمد نے گزشتہ بارہ سالوں میں دو سو پچیس ارب ڈالر خرچ کیے ہیں۔ آٹھ فٹ بال سٹیڈیم بنائے گئے ہیں۔ ان میں درجہ حرارت 27 ڈگری تک رہے گا۔ سب سے بڑا سٹیڈیم ''کوسیل‘‘ ہے جس میں 80 ہزار کرسیاں لگی ہیں۔ اس کا ڈیزائن اسلام کے عروج کی عکاسی کرتا ہے۔ ایجوکیشن سٹیڈیم اس طرح ڈیزائن کیا گیا ہے کہ سورج کی روشنی کے ساتھ مختلف رنگ بنتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم جدید علمی اور سائنسی میدانوں میں آگے بڑھیں گے۔ یاد رہے! قطر کے دارالحکومت دوحہ میں جو آٹھ سٹیڈیم بنائے گئے ہیں‘ ان سب کے اردگرد یونیورسٹیاں ہیں۔ دوحہ کا ایئر پورٹ دنیا کے چند بڑے ہوائی اڈوں میں سے ایک ہے۔ آٹھوں سٹیڈیمز تک آنے جانے کے لیے الیکٹرک بسیں اور ریل گاڑیوں کی شٹلز چلائی گئی ہیں۔ سعودی عرب کے ولی عہد جناب محمد بن سلمان افتتاحی تقریب میں شامل ہوئے تو گلے میں قطر کا جھنڈا پہن کر شامل ہوئے۔ انہوں نے اپنی تمام وزارتوں کو حکم دیا کہ وزارتِ کھیل کے ذریعے قطر جو تعاون مانگے‘ مجھ سے پوچھے بغیر ہر تعاون کیا جائے۔ سعودی عرب کے ارجنٹائن کے ساتھ ہوئے میچ میں امیر قطر سعودی پرچم کو گلے میں ڈال کر سٹیڈیم میں بیٹھے تھے اور سعودی فٹ بال ٹیم نے جب ارجنٹائن کو اپ سیٹ شکست دی تو انہوں نے سعودی ٹیم کے ہمراہ خوشی و مسرت کا اظہارکیا۔ اس عمل نے تمام خلیجی ممالک کو یکجان و دو قالب کر دیا ہے۔ میرے وطن عزیز پاکستان کی قابلِ فخر فوج نے قطر میں اور خلیجی ممالک میں سکیورٹی امور میں اہم کردار ادا کیا ہے اور کر رہی ہے۔ سابق آرمی چیف جنرل (ر) راحیل شریف پہلے ہی سعودی عرب میں ہیں۔ اللہ کرے ہم عرب ملکوں کے ساتھ مزید ہم آہنگ ہو جائیں۔
پانچ وقت کی اذان ہوتی ہے تو سارے دوحہ میں سنائی دیتی ہے۔ امیر قطر نے تمام مسجد میں خوبصورت آواز کے حامل قاری تعینات کیے ہیں قطر کے علماء کو اسلام کی دعوت کے لیے تیار کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک، عمر عبدالکافی جیسے ممتاز سکالرز دنیا بھرسے بلائے گئے ہیں۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک کی دعوت سے پہلے ہی دن ساڑھے پانچ سو لوگ مسلمان ہوئے۔ برازیل کی ایک پوری فیملی مسلمان ہو گئی۔ دنیا بھر سے آئے لوگ جب اذان کا پوچھتے ہیں تو انہیں اس کا ترجمہ سنایا جاتا ہے۔ راستوں پر ایسا کمپیوٹرائزڈ سسٹم نصب کیا گیا ہے کہ کوئی بھی شخص اس کے ذریعے دینِ اسلام کی معلومات مختلف زبانوں میں حاصل کر سکتا ہے۔ بڑے بڑے بورڈز اور فلیکس لگائے گئے ہیں جن پر قرآنی آیات اور احادیث لکھی ہوئی ہیں۔ مختلف سٹالز قائم کیے گئے ہیں جن پر قرآنِ مجید، احادیث، سیرت اور اسلامی تاریخ پر لٹریچر میسر ہے۔ ایک گفٹ بیگ ہے جس میں قرآنِ مجید، سیرت اور دیگر اشیا موجود ہیں۔ یہ گفٹ ہر ایک کو فری دیا جا رہا ہے۔ ضیافتیں کی جا رہی ہیں۔ آئرلینڈ کا مارٹن یہ مناظر دیکھ کر مسلمان ہوتا ہے اور ''طلع البدر علینا‘‘ کے گیت گاتا پھرتا ہے۔ بازاروں میں عربی قہوے کے دور چل رہے ہیں۔ ہر جانب خوشبوئیں اور لوبان کی دھونیاں ہیں۔ میکسیکو کے ایک سٹار سمیت دیگر لوگ اسلام قبول کر رہے ہیں۔ یہ منفرد پروگرام ہے کہ پہلے جو ایسے مقابلے تھے ان میں شراب و شباب کا رنگ نمایاں ہوتا تھا مگر اب یہاں اسلامی رنگ میں انٹرٹینمنٹ باکمال اور لاجواب ہے۔ دنیا نے اعتراض کیا تو امیر قطر نے فرمایا!
لَنْ نُبَدِّل دِیْنَا لِاَجَلِ کَاْسُ الْعَالَم
ہم عالمی کپ کی خاطر اپنے دین کو نہیں بدلیں گے (لہٰذا شراب و شباب نہیں ہو سکتا)۔ اے مولا کریم! تمیم بن حمد تیرا ایسا بندہ ہے جو قائد ملتِ اسلامیہ بن کر نمایاں ہوا ہے۔ میرے وطن کو بھی ایسا ہی قائدِ ملت اسلامیہ عطا فرما،آمین!