قرآن کریم اور حدیث شریف کے ممتاز علماء کہتے ہیں کہ اگر کوئی مسلمان اور مؤمن محض تین آیات اور ایک حدیث شریف پر پختہ یقین کر لے تو اللہ تعالیٰ اسے بڑے بڑے طاقتوروں سے بے پروا کر دے گا‘ اسے اس کا حق اور مراد ایسے طریقے اور ایسے دروازے کو کھول کر دے گا کہ جس جانب نہ کسی کا دھیان گیا ہو گا اور نہ ہی کسی نے سوچا ہوگا۔ قارئین کرام! آئیے ترجمہ ملاحظہ کیجئے۔ قرآنِ کریم آگاہ فرماتا ہے: ''اللہ انسانوں کے لیے اپنی رحمت کا جو دروازہ بھی کھول دے‘ اسے کوئی بند کرنے والا نہیں اور جس دروازے کواللہ بند کر دے تو اس کے بند کرنے کے بعد اسے کوئی کھولنے والا نہیں۔ وہی سب فیصلوں پر غالب ہے اور (اپنے ہر فیصلے کی) حکمت و دانائی کو جاننے والا ہے‘‘ (فاطر:2)۔ قارئین کرام! دوسری آیت جو ہم پیش کرنے جا رہے ہیں‘ اس میں اللہ تعالیٰ اپنے ہر بندے کو مخاطب کر کے کچھ یقین دلاتے ہیں۔ فرمایا: ''اگر اللہ (آزمائش کی خاطر) تجھے کوئی دکھ پہنچائے تو اس دکھ کو سوائے اس کے کوئی دور کرنے والا نہیں اور اگر تیری جھولی میں کسی بھلائی کو ڈالنے کا ارادہ کر لے تو اللہ تعالیٰ کے (ارادے) فضل کو پلٹانے والا کوئی نہیں۔ وہ اپنے بندوں میں سے جس کوچاہے وہ فضل اور خیر پہنچا دیتا ہے۔ وہی ہے جو بخشنے والا اور انتہائی مہربان ہے‘‘ (یونس:107) تیسری آیت کا ترجمہ اس طرح ہے۔ فرمایا: ''زمین پر چلنے والا کوئی جاندار ایسا نہیں کہ اس کا رزق اللہ کے ذمے نہ ہو۔ ہر ایک کا ٹھکانا (کہ وہ کہاں کہاں وقت گزارے گا۔ زمین پر کون کون سی ذمہ داری پر تعینات ہوگا) وہی جانتا ہے اور (مرنے کے بعد اگلے جہاں میں اس کا ٹھکانہ اور مرتبہ) جو اسے سونپا جائے گا‘ اسے بھی وہی جانتا ہے‘‘ (ہود:6)
قارئین کرام! مشہور محدث امام ابوبکر بیہقی رحمہ اللہ اپنی حدیث کی کتاب ''شعب الایمان‘‘ میں معروف تابعی حضرت عامر بن عبداللہ رحمۃ اللہ علیہ کاایک قول نقل کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے یہ بہت بڑے ولی جنہوں نے حضور کریمﷺ کے صحابی حضرت کعب احبارؓ کو دیکھا تھا‘ فرماتے ہیں کہ مندرجہ بالا تین آیات نے مجھے سارے جہان سے بے پروا کر دیا ہے۔ معروف صحابی اور مفسرِ قرآن حضرت عبداللہ بن عباسؓ بتاتے ہیں کہ میں حضور کریمﷺ کے پیچھے سواری پر بیٹھا تھا‘ آپﷺ نے مجھے تعلیم دیتے ہوئے نصیحت فرمائی: ''اللہ (کی عظمت و قدرت) کا دھیان رکھو وہ تمہارا دھیان رکھے گا۔ تم اللہ (کی قوت و رحمت) کا خیال رکھو گے تو (ہر آڑے وقت) میں اپنے سامنے (اس کی مدد کے نظارے) پاؤ گے۔ جب کچھ مانگو تو اللہ ہی سے مراد مانگو۔ (مشکلات میں) مدد مانگو تو اسی سے مانگو۔ اس حقیقت کو ذہن نشین کر لو کہ اگر سارے انسان تجھے کوئی فائدہ پہنچانے کے لیے اکٹھے ہو جائیں تو اسی چیز ہی کا فائدہ پہنچا سکیں گے جو اللہ تعالیٰ نے تیرے لیے پہلے سے ہی لکھ رکھی ہے اور اگر وہ تجھے کسی معاملے میں نقصان پہنچانے کے لیے اکٹھے ہو جائیں تو کچھ بھی نقصان نہیں کر سکتے۔ ہاں! مگر وہی جو اللہ تعالیٰ نے پہلے سے لکھ دیا ہے۔ قلم اٹھا لیے گئے ہیں۔ (لکھی ہوئی تقدیر) کے دفتر (رجسٹر) خشک ہو گئے ہیں‘‘۔ (سنن ترمذی، مسند احمد، سندہٗ صحیح)
''دنیا نیوز‘‘ کے دبنگ اور سینئر اینکر محترم کامران شاہد صاحب نے آرمی چیف جناب حافظ سید عاصم منیر صاحب کے حوالے سے ایک پروگرام میں بتایا سنیارٹی میں پہلے نمبر پر ہونے کے باوجود ان کا راستہ روکنے کے لیے طرح طرح کی کوششیں کی گئیں۔ کامران شاہد صاحب کہتے ہیں کہ ان سبھی کوششوں میں کامرانی روٹھ گئی۔ کامرانی اور کامیابی کے دروازے کھلے تو میں کہتا ہوں سنیارٹی میں نمبر ون کے لیے کھلے۔ دوسری حقیقت یہ ہے کہ جس افسر نے نہ کوئی لابنگ کی‘ نہ کسی سے رابطہ کیا ‘وہ سید عاصم منیر ہیں۔ یہ پہلے آرمی چیف ہیں جو اعزازی شمشیر یافتہ ہیں۔ یہ پہلے آرمی چیف ہیں جو قرآنِ کریم کے حافظ ہیں۔ انہوں نے بچپن میں قرآنِ کریم حفظ کیا پھر والدین نے سکول میں داخل کرا دیا‘ بعدازاں لیفٹیننٹ کرنل کی حیثیت میں جب ان کے لیے حرمین شریفین کی سرزمین کادروازہ کھلا تو وہاں انہوں نے قرآن کے حفظ کی دہرائی کر کے اسے پختہ کیا۔ محسوس ایسے ہوتا ہے کہ لوگ ان کی راہ روکنے کے لیے منصوبے بناتے بناتے رہ گئے مگر کوئی بھی ان کے لیے کھلنے والا دروازہ بند نہ کر سکا۔ بند کیسے کرتا‘ رب کریم نے اس بار اسے پاک فوج کا 17واں آرمی چیف بنانے کا فیصلہ کر لیا تھا جس کا کوئی لابسٹ نہ تھا۔ اگر یہ وزیراعظم شہباز شریف صاحب کا فیصلہ تھا تو کہا جاتا ہے کہ ان کے فیصلے کے پیچھے ایک مضبوط مشورہ میاں نواز شریف صاحب کا تھا۔ وہ اس سے پہلے پانچ مرتبہ آرمی چیف لگا چکے ہیں‘ سب کے سب بغیر سنیارٹی کے۔ چرکے بھی سہہ چکے۔ اس بار انہوں نے عدل و انصاف کے حدیدی اور فولادی مشورے کو شہباز شریف کا فیصلہ بنایا۔ خیال کیا جا رہا تھا کہ شاید وزیراعظم کے فیصلے کو متنازع بنانے کی کوشش کی جائے گی‘ سمری روک دی جائے گی‘ حیلے بہانے اختیار کیے جائیں گے‘ مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔ اس تعیناتی کو سب نے دل و جان سے خیرمقدم کہا۔ حضور کریمﷺ نے فرمایا ''تمام (مخلوق کے) دل اللہ تعالیٰ کی دو انگلیوں کے درمیان ہیں‘ جسے اور جس طرف چاہتا ہے‘ پھیر دیتا ہے۔ (صحیح مسلم)
قارئین کرام! میرا اچھا گمان یہ ہے کہ ہمارے نئے آرمی چیف محترم حافظ سید جنرل عاصم منیر خاموشی کے ساتھ اپنے رب کریم سے لَو لگائے‘ اسی سے امیدیں باندھے بیٹھے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے دروازہ کھولنے کا فیصلہ کر رکھا تھا۔ اب بھلا اسے کون بند کر سکتا تھا۔ جنرل صاحب سمیت ہم سب قرآن کریم کی مندرجہ بالا تین آیات کو صبح و شام کے اذکار کا حصہ بنائیں‘ انہیں اپنا پختہ عقیدہ اور نظریہ بنائیں۔ اپنے ضمیر کو عدل کے ترازو میں تول کر اپنے رب سے جڑ جائیں پھر مولا کریم کی قدرتوں کے عجائب کا نظارہ کریں اور اگر بے انصافی ہو جائے تو صبر سے کام لیں۔ اگلے جہان میں تمام ناانصافیوں کا بہت بڑا اجر ملنے والا ہے مگر بے صبری کے ساتھ نہیں‘ صبر کے ساتھ ملنے والا ہے۔ اہلِ اقتدار کی بے صبری اور اقتدار کی ہوس میں مدہوشی کیا نقصان پہنچا سکتی ہے‘ اس کا اندازہ حضور کریمﷺ کے ایک فرمان سے کرتے ہیں۔
''حضرت کعب بن مالکؓ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا: دو بھوکے بھیڑیے جنہیں بکریوں کے ریوڑ میں چھوڑ دیا جائے‘ جبکہ بھیڑوں‘ بکریوں کاچرواہا موجود نہ ہو‘ وہ بھیڑیے اس قدر تباہی نہیں مچائیں گے جس قدر کہ اقتدار اور مال و دولت کا لالچی (انسانی معاشرے میں) تباہی پھیلاتا ہے۔ اقتدار اور مال کی تلاش اور ہوس مومن کے دین کو برباد کر دیتی ہے‘‘۔ (سنن ترمذی، شعب الایمان بیہقی، سندہٗ صحیح)
قارئین کرام! حضور کریمﷺ کی اس مبارک حدیث میں چار کرداروں کا ذکر ہے؛ 1: بھیڑیا‘ یہ ایسا درندہ ہے جو انسان کے ساتھ اس لحاظ سے مشابہت رکھتا ہے کہ یہ محض ایک مادہ کے ساتھ زندگی گزارتا ہے، اپنی اولادکو پہچانتا ہے‘ ان کا خیال رکھتا ہے‘ بوڑھے ماں باپ کی خدمت کرتے ہوئے انہیں تازہ گوشت کھلاتا ہے‘ تعلقات میں محرمات کا خیال کرتا ہے‘ نظر کا انتہائی تیز ہوتا ہے‘ دشمن کو سیاسی اورجنگی تدبیر سے مارتا ہے۔ 2: بھیڑ‘ یہ انتہائی معصوم جانور ہے۔ اس کی نظر کمزور ہوتی ہے۔ خطرہ ہو تو جان کے ڈر سے سہم کر بھاگ اٹھتی ہے مگر رفتار معمولی ہوتی ہے۔ آسانی سے قابو آ جاتی ہے۔ کھائی میں ایک بھیڑ گر جائے تو باقی سب اسی میں گرتی چلی جاتی ہیں۔ بکری ذرا پھرتیلا جانور ہے مگر بھیڑیے کے سامنے بے بس ہے۔ 3: چرواہا‘ یہی اپنے گلے کو محفوظ رکھتا ہے‘ جانوروں کو بھیڑیے سے بچاتا ہے‘ انہیں کھائیوں میں گرنے سے بھی محفوظ رکھتا ہے۔ ان کے ذریعے اپنے معاش کا بندوبست کرتا ہوا نئی سے نئی چراگاہیں تلاش کرتا ہے۔ قرآنِ مجید اور تورات مقدس بتاتی ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دس سال تک بھیڑ بکریاں چرائیں۔ زبور مقدس بتاتی ہے کہ حضرت دائود علیہ السلام نے بکریاں چرائیں۔ انجیل مقدس بتاتی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بھی بکریاں اور بھیڑیں چرائیں۔ خود نبی کریمﷺ نے بھی بکریاں چرائیں۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ اللہ کے آخری نبیﷺ نے فرمایا: ''اللہ تعالیٰ نے کوئی ایسا نبی نہیں بھیجا جس نے بکریاں نہ چَرائی ہوں‘‘۔ اس پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نے پوچھا: کیا آپﷺ نے بھی بکریاں چرائی ہیں؟ فرمایا کہ ہاں! کبھی میں بھی مکہ والوں کی بکریاں چند قیراط کے عوض چَرایا کرتا تھا۔ (صحیح بخاری) 4: اقتدار کا لالچی حکمران۔ عوام معصوم اور بے بس ہوتے ہیں ان کی مثال بھیڑ‘ بکریوں کی سی ہے۔ ان کا حکمران ایک چرواہے کی مانند ہوتا ہے‘ جسے ان بھیڑ بکریوں کا خیال رکھنا ہوتا ہے لیکن اصل چرواہا یعنی حکمران اپنی حکمرانی سے غافل یا غائب ہو جائے اور بھیڑیے کو ریوڑ میں گھسنے کا موقع مل جائے یا موقع دے دیا جائے تو اقتدار اور مال کا لالچی انسان اپنے ملک اور اس کے باشندوں کو بھوکے بھیڑیوں سے بڑھ کر برباد کرے گا۔ دو بھوکے بھیڑیے چرواہے کی عدم موجودگی میں ریوڑ میں داخل ہو جائیں تو حرص اور لالچ کے اعتبار سے یہ اس قدر کمینے ہوتے ہیں کہ بھیڑوں‘ بکریوں کی گردنیں توڑتے چلے جاتے ہیں‘ ان کے پیٹ پھاڑتے چلے جاتے ہیں اور آخر پر کھاتے تو اتنا ہی ہیں جس قدر پیٹ میں گنجائش ہوتی ہے۔ ہمارے حضور کریمﷺ فرماتے ہیں کہ اقتدار کا لالچی انسان ان بھوکے بھیڑیوں سے بڑھ کر نقصان کرتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ میرے دیس پاکستان کا زرِمبادلہ اس وقت سات‘ آٹھ ارب ڈالر پر کھڑا ہے۔ بنگلہ دیش کا زرِمبادلہ چالیس‘ پچاس ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ کہاں بنگلہ دیش‘ جوپٹ سن، چاول،ناریل اور مچھلی وغیرہ تک محدود ہے اور کہاں پاکستان کے بے پناہ وسائل، قدرتی حسن، لاتعداد معدنیات، عظیم فوج، اجناس اور فروٹ کی سبھی اقسام۔ اللہ کی قسم! میرے ملک کو حرص اور لالچ نے تباہ کر ڈالا۔ آخری گزارش یہ ہے کہ کیا ہمارے سیاستدان اب سیاست کو میرٹ اور سنیارٹی پر لائیں گے؟ اقربا پروری سے بچا پائیں گے؟ صلاحیت اور دیانت کو میرٹ بنائیں گے؟ فوج میں تو اوپر سے نیچے تک میرٹ ہے۔ صرف آرمی چیف کی تعیناتی کے وقت سیاستدانوں کے پاس چانس ہوتا ہے اور انہوں نے اس کو بھی متنازع بنا دیا۔ سیاست نے میرٹ اور سنیارٹی کو اب چوائس بنایا ہے تو پہلی بار۔ سوال یہ ہے کہ اپنی ہی چال ڈھال درست نہ ہو تو پھر کسے دوش دو گے؟