"AHC" (space) message & send to 7575

سائنس میں کائنات کو خدا بنانے کی کوشش کیوں؟

سٹیفن ہاکنگ نے ''دی گرینڈ ڈیزائن‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی۔ سال تھا 2010ء۔ دنیا کے اس سب سے بڑے سائنسدان نے دعویٰ کرتے ہوئے لکھا کہ ''God did not create the universe‘‘۔ (خدا نے کائنات کو پیدا نہیں کیا)۔
قارئین کرام! سٹیفن ہاکنگ کی کتاب میں تضاد یہ تھا کہ ایک جانب وہ بتلا رہا تھا کہ اس کائنات کا ڈیزائن انتہائی باکمال اور زبردست ذہانت کاعلمبردار ہے جبکہ دوسری طرف وہ کسی بنانے والے یعنی خدا کاانکار کررہا تھا کہ یہ مفروضہ پیش کر رہا تھا کہ یہ ڈیزائن خود بخود ہی بن گیا ہے۔ میری ملاقات اگر سٹیفن ہاکنگ سے ہوتی تو میں ان سے بصد احترام ضرور عرض کرتا کہ جناب بھی اسی کائنات کا ایک ایسا حصّہ ہیں جس کے پاس ذہانت ہے اور ایسی ذہانت ہے کہ دنیا نے آپ کو موجودہ زمانے کا سب سے بڑا سائنسدان مان رکھا ہے‘ تو آخر آپ اپنے آپ کو اپنی ذہانت کے سبب معذوری سے نکال کیوں نہیں لیتے؟ کیونکہ اسی کتاب میں وہ مزید لکھتے ہیں: There is a law as gravity; The universe can and will create itself from nothing۔ (جاذبیت یعنی کشش کاایک قانون ہے (جس کے مطابق) کائنات اپنے آپ کو عدم سے پیدا کر سکتی ہے اور کرے گی)۔ یعنی کائنات خود ہی اپنی خالق ہے اور وہ عدم سے وجود میں آئی ہے تو اسی عدم سے اپنے اندر بھی تخلیقی کام کرتی رہے گی۔ جی ہاں! یہی بات میں کر رہا ہوں کہ جناب ہاکنگ اسی کائنات کا ذہین حصّہ ہو کر بھی کیوں معذوری کی زندگی گزارتے رہے؟ اپنی اسی معذوری کی وجہ سے وہ خاندانی زندگی کا شیرازہ بکھیر بیٹھے۔ سٹیفن ہاکنگ اپنے نظریے پر جمے ہوئے اپنی شہرہ آفاق کتاب A Brief History of Time میں لکھتے ہیں:
If we discover a complete theory, it would be the ultimate triumph of human reason for then we should know the mind of God.
ترجمہ: اگرہم اپنی اس تھیوری کو مکمل کرنے کا ٹارگٹ حاصل کر لیتے ہیں تو یہ انسانی موجودگی کی حتمی فتح ہو گی۔ تب آنے والے وقت میں ہم خدا کی سوچ یا ارادے کو بھی جان لیں گے۔ یعنی یہ ثابت ہو گیا کہ کائنات ہی خدا ہے تو پھر ہم اس کے قوانین کو سامنے رکھتے ہوئے اس کے ارادوں کو معلوم کر لیں گے اور جب سوچ اور ارادے کا پتا چل جائے گا تو اپنی مرضی بھی کر لیں گے یعنی کائنات خدا بن گئی تو ہم انسان اس خدا کے شریک بن جائیں گے۔
قارئین کرام! حقیقت یہ ہے کہ موجودہ دور کی سائنس کائنات کو خدا بنانے پر اربوں‘ کھربوں ڈالرز خرچ کر چکی ہے۔ اپنے آپ کو شریکِ کار بنانے اور تخلیقی کام اپنی مرضی سے سرانجام دینے کی سر توڑ کوشش کرچکی ہے اور کر رہی ہے مگر ناکام ہے اور ہمیشہ نامراد ہی رہے گی۔ بس اتنی بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ ایسے لوگ ملحد بھی ہیں یعنی خدا کے منکر بھی ہیں اور اس کے وجود میں شریک کار بننے کے خواہشمند بھی، یعنی وہ خود شک و شبہے کا شکار ہیں۔
گریفائٹ ایک ایسا دھاتی مادہ ہے جو اس کائنات میں موجود ہے اور صدیوں سے استعمال ہو رہا ہے۔ ایک ڈچ برطانوی سائنسدان مسٹر آندرے جیم (Andre Geim)‘ جنہوں نے 2010ء میں نوبیل انعام حاصل کیا تھا‘ نے گریفائٹ کے ایٹم کی تہہ، غلاف یا شیٹ کو الگ کرنے کا کارنامہ سرانجام دیا۔ یہ سٹیل سے 200 گنا زیادہ مضبوط ہے اور اسے انڈسٹری میں استعمال کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ مذکورہ مادے کو Graphene کہا جاتا ہے۔ ہوا یوں کہ رواں سال یعنی 2022ء کے آغاز میں ایک سائنسی گروپ نے دعویٰ کیا کہ اس نے اپنی لیبارٹری میں مذکورہ مادے کو عدم سے تخلیق کر لیا ہے اور الیکٹرک فیلڈ سے پیدا کیا ہے اور یہ بڑھک بھی مار دی کہ
With that knowledge, we can hopefully better understand how the universe makes something from nothing.
(اس نالج کے ذریعے ہم امید کر سکتے ہیں کہ ہم مزید بہتری کی طرف جائیں گے کہ یہ کائنات عدم سے کسی طرح کوئی شے بناتی ہے)
قارئین کرام! مندرجہ بالا دعوے پر شور مچ گیا کہ سائنس دانوں کے ایک گروپ نے عدم سے کچھ (Graphene) بنا لیا ہے۔ اس پر پرنٹ اورالیکٹرانک میڈیا پر مضامین اور خبریں شائع و نشر ہونا شروع ہو گئیں۔ اردو اورہندی میں بھی ایک دوسرے کی نقل میں پوسٹیں بن گئیں۔ میں نے یہ سارا کچھ دیکھا۔ انگریزی میں 35 مضامین ملاحظہ کئے۔ مجھے تو یہ جھوٹ معلوم ہی تھا (الحمد للہ) مگر ریسرچ کے بعد مزید معلوم ہوا کہ کیسے جھوٹ، موہوم امیدوں اور پھر ان کو تھیوری کہہ کر دراصل حقیقی خالقِ کائنات کا مقابلہ کیا جا رہا ہے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ انسان عدم سے جو کچھ وجود میں لانے کی کوشش کر رہا ہے‘ وہ درحقیقت عدم میں نہیں ہے۔ ساری کائنات‘ سپیس اور ٹائم میں گھری ہوئی ہے لہٰذا یہاں تو عدم ہے ہی نہیں۔ عدم سے کوئی شئے وجود میں کیسے آئے گی؟ دوسری بات یہ ہے کہ الیکٹرک فیلڈ میں عدم کہاں سے آ گیا۔ اس فیلڈ میں فزکس کے قوانین موجود ہیں۔ مزید ایسی مخلوقات ہیں کہ جن کو سائنسی آلات Detect نہیں کر سکتے۔ روشنی کے فوٹون ڈبل رویہ رکھتے ہیں‘ وہ ذرہ بھی ہو سکتے ہیں اورwave بھی۔ ان سے لطیف ترین مخلوقات بھی ہیں۔ الیکٹرک فیلڈ کو عدم کہنا سوائے جہالت اور لاعلمی کے اور کچھ نہیں۔
مذکورہ گروپ کے دعوے پر ملحدین اور منکرین نے کہنا شروع کر دیا کہGod was Neither a creator nor a designer
ترجمہ: خدا نہ تو خالق ہے اور نہ ہی اس نے ڈیزائن بنایا ہے۔ ساتھ ہی سٹیفن ہاکنگ کا یہ جملہ لکھا:
The earth was carefully desigend just to please us beeing.
ترجمہ: زمین انتہائی احتیاط کے ساتھ ڈیزائن کی گئی ہے‘ یہ صرف ہماری موجودگی کو خوشگوار بنانے کے لیے (ڈیزائن) کی گئی۔
مطلب یہ کہ زمین کا اپنے مدار پر گھومنا‘ چوبیس گھنٹوں میں ایک چکر مکمل کرنا‘ اربوں سالوں سے رات دن کا پیدا ہوتے رہنا‘ اس میں ایک سیکنڈ کے اربوں کھربوں حصے کی بھی کمی بیشی نہ ہونا‘ درست ترین رفتار کے ساتھ سورج کے گرد زمین کا چکر ایک سال میں مکمل ہونا‘ مختلف موسموں کا پیدا ہونا‘ زمین کے گرد آکسیجن کے غلاف کا لپٹا ہونا کہ یہ ختم ہو جائے تو ساری حیات ختم ہو جائے‘ اس کا برقرار رہنا۔ پانی کی مقدار اور اس کے ری سائیکل کا شاندار نظام قائم ہونا‘ سمندر، پہاڑ، انسان اور بے شمار جاندار، درخت اور باغات‘ یہ سارا کچھ خود بخود بن گیا ہے؟ اب ریئل سائنس والے میدان میں آئے۔
مسٹر جوناتھن سرفاتی (Jonathan Sarafati) نے ایک ویب سائٹ کری ایشن ڈاٹ کام پر 11اکتوبر 2022ء کو اپنے آرٹیکل میں لکھا:
What is not good science is claiming that it is something from nothing.
یہ دعویٰ اچھی سائنس نہیں ہے کہ عدم سے کچھ پیدا کیا گیا ہے۔
An electric field is not 'nothing'! Also, the energy of the particles is sucked from the electric field.
الیکٹرک فیلڈ 'عدم‘ نہیں ہوتا‘ صرف ذرات کی انرجی کو الیکٹرک فیلڈ سے Suckکیا جاتا ہے۔
جی ہاں! یہ جھوٹے اور غیر سائنسی دعوے ہیں۔ محض خواہشات کی بنیاد پر یہ لوگ اپنے لیے ایک معبود تراشنے میں لگے ہوئے ہیں۔ لوگوں نے سورج کو دیوتا بنایا تھا۔ چاند اور ستاروں کی عبادت پر لگے ہوئے تھے اور آج بھی لگے ہوئے ہیں۔ ہندو دھرم میں کچھ لوگ زمین کو پرتھوی کہہ کر اس کی پوجا کرتے ہیں۔ انسانوں کی مورتیاں بنا کر ان کو دیوتا اور عورتوں کو دیویاں بناتے ہیں۔ یہ ساری چیزیں کائنات کا حصّہ ہیں۔ آگ، ہوا اور سمندر وغیرہ کی پوجا ہوتی ہے‘ یہ بھی کائنات کا حصّہ ہیں۔ حقیقت یہ ہے ان چیزوں کی پوجا کرنے والوں اور سائنس کے نام پر کائنات کے از خود بننے کے جواز فراہم کرنے کی کوشش کرنے والوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ کے تمام پیغمبر اسی الحاد اور شرک کو ختم کرنے آئے تھے۔ سب سے آخر میں حضرت محمد کریمﷺ تشریف لائے۔ ''لا الہ الا اللہ‘‘ کا پیغام ہی سب نبیوں اور رسولوں کا پیغام تھا۔ حضور کریمﷺ نے اس پیغام کو افضل ذکر قرار دیا۔ اس ذکر کی تفصیل آج ملتی ہے تو کامل صورت میں صرف اور صرف حضور کریمﷺ پر نازل ہونے والے قرآنِ مجید سے ملتی ہے۔ آپﷺ کی مبارک سیرت سے ملتی ہے۔ لہٰذا ''محمد رسول اللہ‘‘ کے اقرار سے ہی ان نعمتوں کو حاصل کیا جا سکتا ہے۔ یہی حقیقی علم ہے! یہی دنیا و آخرت میں کامرانی کی چابی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی اس کائنات کا خالق و مالک ہے۔ اس کو کوئی شریک نہیں ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں