اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری الہامی کتاب حضور کریمﷺ پر نازل فرمائی۔ اس کتاب میں اللہ تعالیٰ انسانیت کو مخاطب فرما کر غور و فکر کی دعوت دیتے ہیں۔ ارشاد فرمایا ''خود تمہارے اپنے نفسوں میں نشانات ہیں‘ کیا تم دیکھتے نہیں ہو‘‘۔ (الذاریات:21)
قارئین کرام! آج جب ہم لوگ میڈیکل سائنس کی ترقیوں اور جدّتوں کو دیکھتے ہیں تو دل کو پمپ کرتے ہوئے اور خون کو جسم کی شریانوں میں دوڑتا ہوا دیکھتے ہیں۔ قرآنِ حکیم نے ساڑھے چودہ سو سال قبل ''تبصرون‘‘کا لفظ لا کر واضح کر دیا کہ لوگ اپنی بصارت یعنی آنکھوں سے انسانی اعضا کو فنکشن کرتے ہوئے دیکھیں گے۔ دل کے چاروں خانے کس طرح کام کرتے ہیں‘ آج یوٹیوب پر ہر شخص مشاہدہ کر سکتا ہے۔ ہر دل ہر روز آٹھ ہزار لٹر خون پمپ کر کے جسم کے ہر حصّے میں پہنچاتا ہے۔ سر کے بالوں سے لے کر پاؤں کے ناخنوں تک‘ متواتر اور مسلسل خون رواں رہتاہے۔ انسان سو جاتا ہے‘ تب بھی دل اپنا کام پوری ذمہ داری سے کر رہا ہوتا ہے۔ انسان کہ جس کو تمام انسانوں پر حکمرانی کا بہت شوق ہوتا ہے‘ وہ اپنے دل پر حکمرانی سے قاصر ہے۔ دل اس کی مرضی کے بغیر ہی اپنا کام کرتا چلا جا رہا ہے۔ دل جس خون کو پمپ کر رہا ہے اس کے سرخ خلیات کی تعداد کم از کم 25ملین ٹریلین ہے یعنی کھربوں کو کھربوں سے ضرب دی جائے تو اس سے بھی زیادہ ہے۔ ایک مائیکرو لٹر میں 4.5سے 6 ملین (45 لاکھ سے 60 لاکھ) تک سرخ خلیات ہوتے ہیں اور ایک مائیکرو لٹر‘ ایک لٹر کا دس لاکھواں حصہ ہوتا ہے۔ 45‘ 50 لاکھ کو دس لاکھ سے ضرب دیں اور پھر جو جواب آئے‘ اسے پانچ سے ضرب دیں کیونکہ اوسطاً انسانی جسم میں پانچ لٹر خون ہوتا ہے۔ یہ ہے سرخ خلیات کی تعداد۔ جبکہ اسی خون میں سفید خلیات کی تعداد 25ہزار ملین سے بھی زیادہ ہے۔ یاد رہے! ان خلیات میں سے ہر خلیہ دنیا کے جدید ترین سپر کمپیوٹر سے بھی کروڑوں گنا بہتر اور اعلیٰ ترین ہے۔ انسان بے چارہ ایک خلیے پر حکمرانی تو کیا‘ اسے سمجھنے سے بھی قاصر ہے۔ جب وہ اسے سمجھ ہی نہیں آئے گا‘ اس پر حکمرانی خاک کرے گا۔
ہر انسان کے دماغ میں سو ہزار ملین خلیات ہیں۔ یہ سب باہم مل کر انتہائی منظم اور محکم نظام کے تحت کام کرتے ہیں۔ دنیا بھر کے دماغی سائنسدان انسانی دماغ کے بارے میں بہت کچھ جاننے کے باوجود ابھی تک اس کو ایک فیصد بھی سمجھنے کے قابل نہیں ہوئے۔ تو انسان اپنے دماغ پر بھی درست حکمرانی کے قابل نہیں ہے۔ آنکھ‘ جو دماغ سے منسلک ہے‘ وہ ایک سو ملین نورانی Receptors کی حامل ہے۔ انسان ان میں سے ایک Receptor کو بھی سمجھنے سے محروم ہے‘ اس پر حکمرانی کیا کرے گا؟ یہ آنکھ کھولتا ہے اور وہ اسے نظارے دکھلائے چلی جاتی ہے۔ کان کی سماعت کا تعلق بھی دماغ سے ہوتا ہے۔ سننے والے خلیات کی تعداد 30ہزار سے زیادہ ہوتی ہے۔ دونوں کانوں میں 60 ہزار سے زیادہ خلیات ہوتے ہیں۔ دونوں کانوں کے درمیان ایک جسمانی توازن اور بیلنس کا نظام ہوتاہے۔ یہ بیلنس ذرا سا خراب ہوجائے تو انسان چارپائی سے نہیں اٹھ سکتا۔ اٹھے گا اور چلنے کی کوشش کرے گا تو چند قدموں کے بعد لڑکھڑا کر گِر پڑے گا۔ اتنی معمولی سی بات پر لڑکھڑا کر گِر پڑنے والا چاہتا ہے کہ میں انسانوں پر حکمرانی کروں اور عدل و انصاف کے ترازو کی دھجیاں اڑا دوں۔ جی ہاں! یہ عدل کی کرسی پر بیٹھ کر توازن کی دھجیاں بھی اڑاتا ہے اور اعلان کرتا ہے کہ ملک میںاس جیسا ذہین‘ عادل اور دیانت دار نہیں۔ واہ بھئی واہ! تیرے صدقے اور واری اے انسان!
اس انسان کی زبان میں ذائقے کے جو خلیات ہیں‘ وہ نو ہزار سے زیادہ ہیں۔ میں سوچتا ہوں کہ اگراللہ تعالیٰ اس انسان کو 9ہزار میں سے 9خلیات کے فنکشن ہی کو سنبھالنے اور ایڈجسٹ کرنے کی صلاحیت دے دیتا تو اس نے اپنے سارے ذائقے برباد کر لینے تھے۔ جی ہاں! اس نے لقمہ مُنہ میں رکھا۔ سب سے پہلے ہونٹوں کا دروازہ کھولا۔ زبان نے جونہی اسے ا پنے اوپر رکھا‘ ذائقوں کے جہان نے اپنا کام شروع کر دیا۔ دانتوں نے چبانے کا آغاز کیا۔ اردگرد کی باچھیں بھی اس میں حصّہ لے رہی ہیں۔ وہاں کے غدود خاص قسم کے کیمیکلز چھوڑ رہے ہیں۔ ان کے ساتھ لگی ہوئی غذا کو زبان کی نوک گھما پھرا کر دانتوں کے نیچے لاتی ہے اور یوں لقمہ لیس دار بنتے ہوئے خوراک کی نالی کی نذر ہو جاتا ہے۔ آگے پھر ایک دروازہ لگا ہواہے۔ وہ کھلتا ہے اور یہ لقمہ دروازے سے اندر داخل ہوتا ہے اور معدے میں جا گرتا ہے۔ ساتھ ہی دروازہ بند ہو جاتا ہے تاکہ معدے کی کوئی شئے واپس اوپر نہ جائے کیونکہ آنے والے اوپر سے آ رہے ہیں‘ گوشت، حلوہ، بریانی، پانی، جوس، چائے وغیرہ کے لقمے اور گھونٹ متواتر چلے آ رہے ہیں۔ انسانی معدے میں ہزار ملین سے زائد خلیات ہیں وہ اس ساری خوراک کو ہضم کرنے میں لگ جاتے ہیں اور پھر اسے آگے روانہ کرنا بھی معدے کی ذمہ داری ہے۔ اللہ! اللہ! یہ انسان کھائے بھی جا رہا ہے اور ساتھ ساتھ سانس بھی لیے جا رہا ہے۔ یہ سو جائے تب بھی سانس لیتا رہتا ہے۔ یہ ہر روز کوئی 25ہزار مرتبہ سے زیادہ ہوا کو ناک کے ذریعے اور کچھ منہ کے ذریعے اندر لے کر جاتا ہے۔
ناک میں سونگھنے کے جو خلیات ہیں‘ وہ بھی لاکھوں میں ہیں۔ الغرض! یہ 180 ہزار لٹر سے زیادہ ہوا کو روزانہ اپنے پھیپھڑوں میں لے کر جاتا ہے۔ ساتھ ساتھ اس کو پتا چلتا رہتا ہے کہ ہوا ٹھنڈی ہے یا گرم۔ کھانوں سے اٹھنے والی گرم گرم ہوا جب ان کے ناک کے خلیات کو ٹچ کرتی ہے‘ کھانوں کی خوشبوئیں اور زبان کے ذائقے جب مل کر دماغ کو اطلاع کرتے ہیںتو انسان کے مزے اور اس کی لذّتوں کے وارے نیارے ہو جاتے ہیں۔ مگر اس پر انسان کی حکمرانی کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ یہ تو سب اس کے خالق اور مالک کی مہربانی ہے کہ وہ ایک ایک خلیے اور ایک ایک نیورون پر مکمل کنٹرول اور نظر رکھے ہوئے ہیں۔ ''آیۃ الکرسی‘‘ میں یہی تعلیم دی گئی ہے کہ اصل حکمرانی خالق ہی کی ہے۔ اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ کا ایک صفاتی نام ''القیوم‘‘ آیا ہے۔ یعنی ایک انسان میں جو لاتعداد خلیات ہیں‘ ان میں سے ہر خلیے کے نظام کو قائم رکھنے والا خالقِ کائنات ہی ہے۔
میڈیکل سائنس اپنی جدید ترین تحقیقات، شاندار مشینوں اور بہتر سے بہتر ادویات کے ذریعے انسان کے مادی اعضا کو بس کچھ نہ کچھ سہارا ہی دے سکتے ہیں۔ اعضا کی زندگی کا تعلق دل کے ساتھ ہے۔ دل اپنے اندر سے کرنٹ جنریٹ کرتاہے اور پمپنگ کاکام کرتا ہے۔ میڈیکل سائنس نے مصنوعی بیٹری کے ذریعے دل کو سہارا دیا ہے۔ جی ہاں! مادی اعضا کے پیچھے جو کرنٹ ہے وہ بھی مادی ہے مگر اعضا کی نسبت لطیف ترین ہے۔ اس مادی کرنٹ کے پیچھے لہریں(Waves) ہیں۔ یہ لہریں بھی مادی ہیں مگر کرنٹ کی نسبت انتہائی لطیف ترین ہیں۔ انسانی دماغ ویوز کی ایسی کئی اقسام کے گھیرے میں لپٹا ہواہے۔ میڈیکل سائنس اپنا جدید ترین فیصلہ سنا چکی ہے کہ دل کی موت سے حتمی موت وقوع پذیر نہیں ہوتی۔ حتمی موت اس وقت وقوع پذیر ہوتی ہے جب دماغ مر جاتا ہے۔ جی ہاں! دماغ اس وقت مرتا ہے جب ''نفس‘‘ کی موت واقع ہوتی ہے۔ قرآن حکیم آگاہ فرمایا ہے! ''ہر نفس نے موت کا ذائقہ چکھ کے رہنا ہے‘‘۔ (آلِ عمران:185)
انسان کا جسم دو چیزوں سے بنایا گیا ہے۔ دو حصّے پانی ہے اور تیسرا حصّہ مٹی ہے۔ مٹی میں فولاد ہے۔ کاربن ہے۔ کیلشیم ہے۔ فاسفورس ہے۔ تانبا اور دیگر کئی دھاتیں ہیں۔ سب دھاتیں انسانی جسم میں موجودہیں۔ پانی اور مٹی کا بنا ہوا انسان زمین میں دفن ہو کر اس کاحصّہ بن جاتا ہے۔ اصل انسان تو نفس اور روح ہے۔ اس کی پرواز آسمان کی جانب‘ اپنے خالق و مالک کی جانب ہے۔ اس کے خالق و مالک نے اپنے آخری رسول حضرت محمد کریمﷺ کے ذریعے آسمان سے وحی کا نزول فرمایا۔ نور سے بنائے گئے حضرت جبرائیل علیہ السلام وحی کے نور کو لے کر حضور کریمﷺ کے پاس تشریف لاتے رہے۔ پیغام یہ تھا کہ ہر انسان نورانی الہام اور وحی کے احکامات کی حکمرانی میں اپنے جسم کو محکوم بنائے۔ وہ خود حکمرانی کے قابل نہیں ہے۔ وہ حضور کریمﷺ پر نازل ہونے والے الہام کی حکمرانی کے سائے میں زندگی گزارے۔ اسی صورت میں وہ کامیاب رہے گا۔ اسے اگرچہ چند انسانوں، سینکڑوں لوگوں، ہزاروں افراد یا لاکھوں‘ کروڑوں بندگانِ الٰہی پر حکمرانی کا موقع مل جائے تو قرآن و حدیث کی روشنی میں حکمرانی کرے۔ ایسا کرے گا تو ہی کامران ٹھہرے گا۔ نہیں کرے گا تو اپنے آپ کو تو برباد کرے گا ہی‘ دیس کے لوگوں کو بھی مصائب کاشکار کرے گا۔ آج میرے دیس میں‘ وطنِ عزیزپاکستان میں سیاسی اخلاقیات کے جو جنازے اٹھ رہے ہیں وہ بے بس بندے کی ذاتی حرص و ہوس کا نتیجہ ہے۔