اللہ تعالیٰ ہی کائنات کا خالق ہے۔ زمین پر زندگی کو وجود میں لانے والا وہی ہے۔ اسے مانے بغیر سائنسدانوں کے مشکل ترین علمی سوالوں کا کوئی جواب سامنے نہیں آئے گا۔ سائنس کے ایک معروف ادارے ''Big Think‘‘ کی ایک تازہ ترین تحقیقی رپورٹ 26 جنوری 2023ء کو سامنے آئی ہے۔ اس میں کہا گیا ہے:
Humanity has two old, profound questions; the first is about the origin of the universe, the second is about the origin of life.
انسانیت کو دو پرانے‘ انتہائی گہرے اوروسیع سوالات کا ہمیشہ سے سامنا رہا ہے ۔ پہلا سوال کائنات کے آغاز کے بارے میں ہے۔ (کہ اس کے پیچھے کون ہے؟) دوسرا سوال زندگی کے آغاز سے متعلق ہے۔
قارئین کرام! آج کے کالم میں ہم صرف دوسرے سوال کا جائزہ لیں گے کہ جس کے بارے میں سائنسدانوں نے اپنی بے بسی کا اظہار اس طرح کیا ہے:
Biologists can trace all of life back to a single kind of organism. But we don't know what came before it.
حیاتیات کے ماہرین حیوانی جسم کی بناوٹ کے پیچھے جاتے ہوئے تمام تر زندگی کے آغاز میں ایک سنگل خلیے تک جاتے ہیں مگر اس سے پہلے کیا چیز آئی تھی‘ اس کے بارے میں وہ بالکل بھی نہیں جانتے۔ مزید کہتے ہیں!
How a lifeless world could spontaneously generate self- replicating organisms that go on to conquer the planet.
''(سمجھ سے باہر ہے کہ) کیسے ایک ایسی دنیا جو زندگی سے محروم ہے‘ طبعی طور پر خود ہی اپنے آپ کو پیدا کر لے۔ حیاتیاتی چیزیں اس قدر بننے لگ جائیں کہ وہ زمین کی فاتح بن جائے‘‘۔
قارئین کرام! وہ سوال جو ایک خالق کو ماننے والے کرتے تھے‘ آج وہی سوال سائنسدانوں کے ادارے نے کر دیا ہے کہ وہ جو ہم کہاکرتے تھے کہ ہر چیز خود ہی بن گئی ہے‘ زندگی بھی ایک سنگل سیل سے شروع ہوئی تھی اور پھر ارتقائی مراحل طے کرتے ہوئے آگے بڑھ گئی‘ ا ب سائنس دان اس مفروضے کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ عقل نہیں مانتی کہ زندگی سے محروم زمین پر زندگی پیدا ہوئی اور پھر اس نے اپنے علم کے جھنڈے اس طرح گاڑے کہ انسان زمین پر موجود تمام مخلوقات میں سے آگے بڑھ کر اسی زمین کا فاتح بن بیٹھا، سائنسدان کہتے ہیں کہ یہ بات، یہ مفروضہ ہی سمجھ سے باہر ہے۔
جسمانی ساخت کا جائزہ لیا جائے تو لاتعداد سوال اٹھتے ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے اس حیوانی جسم میں کرنٹ کہاں سے پیدا ہوا۔ دماغ میں کھربوں نیو رونز ہیں۔ ان کی بے شمار اقسام ہیں۔ وہ اقسام مختلف خانوں اور حصوں میں بند ہیں۔ الگ الگ ہونے کے باوجود باہم ربط میں بھی ہیں۔ ہر دو نیو رون کے درمیان جب رابطہ ہوتا ہے تو ایک الیکٹرک چمک پیدا ہوتی ہے جسے Synaps کہا جاتا ہے۔ انسان کوئی ارادہ کرتا ہے‘ کوئی چیز سوچتا ہے‘ تحقیق و ریسرچ کرتا ہے‘ خوش ہوتا ہے‘ ناراض ہوتا ہے‘ روتا ہے یا ہنستا ہے‘ دوڑنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس کے ارادے کے مطابق نیو رونز حرکت میں آتے ہیں۔ سگنل پاس ہوتے ہیں‘ چمکیں پیدا ہوتی ہیں اور انسان دوڑنے لگ جاتا ہے یعنی وہ جسم اور اس کے اعضا‘ جو زمین کی مٹی اور پانی سے وجود میں آئے ہیں‘ وہ دماغی آرڈر کے بغیر حرکت نہیں کرتے۔ اس کے برعکس جسم کے دیگر اعضا یعنی دل، جگر، گردے، معدہ، گردشِ خون کا نظام ایک اور انداز سے اپنے فنکشن میں ہمہ وقت مصروف رہتے ہیں۔ انسان کو اس کا علم بھی نہیں ہوتا اور اس کی زندگی رواں رہتی ہے۔ اس سارے نظام کے پیچھے کون ہے؟ لوگو! ماننا پڑے گا کہ اس کائنات کا، انسان کا، تمام مخلوقات کا ایک خالق ہے، وہ اللہ ہے۔
نکولاٹیسلا معروف امریکی سائنسدان تھا۔ ایڈیسن‘ جس نے بجلی کا بلب ایجاد کیا تھا‘ یہ اس کا ہمعصر تھا۔ بعض کہتے ہیں کہ ایجادات کے حوالے سے وہ دنیا کا سب سے بڑا سائنسدان تھا۔ کچھ کے نزدیک وہ آئن سٹائن سے بھی بڑا سائنسدان تھا۔ وہ کہتا تھا کہ دماغ میں جو سگنلز پیدا ہوتے ہیں یہ خدا کی طرف سے ہیں‘ یہ کسی اور جہان سے آتے ہیں۔ حضرت محمد کریمﷺ پر اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب قرآنِ مجید نازل ہوئی‘ ا س میں ایک سورت ہے جس کا نام ایک ایسے پیغمبر کے نام پر ہے جنہیں قومِ عاد کی جانب بھیجا گیا تھا۔ یہ قوم سعودی عرب کے صحرا ''ربع الخالی‘‘ میں آباد تھی۔ تب یہ سر سبز و شاداب علاقہ ہوا کرتا تھا۔ ہزاروں‘ لاکھوں سال پہلے یہ قوم گزری ہے۔ اس کے افراد کے ڈھانچے بھی برآمد ہو چکے ہیں۔ یہ بہت بلند قامت ہوا کرتے تھے۔ انہوں نے حضرت ہود علیہ السلام کو جھٹلایا تھا۔ ان پر عذاب آیا تو قرآنِ مجید نے آگاہ کیا کہ ان کے لاشے اس طرح پڑے تھے جیسے کھجور کے تنے پڑے ہوتے ہیں ‘ جو کھوکھلے ہوتے ہیں۔ یاد رہے! کھجور کا درخت 25 اور 30 فٹ کے قریب لمبا ہوتا ہے۔ یعنی ان کی بدبودارجانیں ان کے اجسام سے نکل چکی تھیں۔ اجسام کھوکھلے تھے۔ ان کو ان کی جانب مبعوث کیے گئے اللہ کے پیغمبر حضرت ہود علیہ السلام نے جو سمجھایا تھا، جو دعوت دی تھی، اس دعوت کا ایک پیغام اس طرح تھا ''بلاشبہ میں نے تو (تمہاری دھمکیوں کو نظر انداز کر کے) اللہ ہی پر توکل کر لیا ہے۔ وہ میرا بھی رب ہے اور تمہارا پروردگار بھی وہی ہے۔ کوئی بھی چلنے والا جاندار ایسا نہیں کہ اس کی پیشانی اللہ کے قبضے میں نہ ہو۔ بلاشبہ میرا رب ہی سیدھے راستے پر ہے‘‘۔ (ہود:56)جی ہاں! یہ دماغ اسی کے قبضے میں ہیں۔ یہ سگنلز وہیں سے آتے ہیں۔ جنّاتی شیطان اور انسانی شیطان اپنے وسوسوں کے ذریعے گڑ بڑ پیدا کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبروں کے ذریعے ہر موقع پر آگاہ کرتے ہیں کہ سیدھے راستے پر آؤ۔ میں سیدھے راستے کے آخر پر موجود ہوں۔ ٹیڑھے نہ چلو سیدھے آتے چلے آؤ۔ میرے تیار کیے ہوئے باغات اور محلات میں داخل ہو جاؤ گے۔
روحانی وجود کو لینے کے لیے جب فرشتے آتے ہیں تو وہ آ کر اس شخص کے پاس بیٹھ جاتے ہیں جو دنیا میں اب چند سانسوں کا مہمان ہوتا ہے۔ حضور کریمﷺ کے فرمان کے مطابق: جانے والے انسان کو‘ اگر وہ نیک ہے تو تاحد نظر فرشتے دکھائی دیتے ہیں۔ آخر پر موت کا فرشتہ آتا ہے اور اس کی پاکیزہ روح کو نکالتا ہے۔ جب انسانی جسم خاتمے کے قریب ہوتا ہے‘ روحانی نظر انتہائی تیز ہو جاتی ہے اور یہ تیز اس لیے ہوتی ہے کہ روحانی نظر اپنی پوری قوت کے ساتھ ایکٹو ہو جاتی ہے۔
''Big Think‘‘ کے سائنسدان اعتراف کرتے ہیں کہ:
Unfortunately, there are physical limitations that make research difficult.
بدقسمتی سے جسمانی حدّیں ایسی ہیں کہ جو تحقیق کو مشکل بنا دیتی ہیں۔ وہ مزید بے بسی کا اظہار کرتے ہیں کہ:
What do you do next?
اس کے بعد آپ کیا کریں گے؟ لامحالہ کچھ بھی نہیں! ہاں‘ الہامی علم کی طرف آئیں گے تو روشنی پائیں گے۔ جسمانی حدیں جب منہدم ہوں گی تو قرآن مجید آگاہ فرماتا ہے کہ ''بلاشبہ (اے انسان)تُو (اگلے جہان اور اپنے رب سے ملاقات کے بارے میں) بہت بڑی غفلت میں مبتلا تھا۔ اب ہم نے تجھ سے پردہ اٹھا دیا ہے (تیری جسمانی حد کو منہدم کر دیا) لہٰذا آج تیری آنکھ بہت تیز ہے‘‘۔ (ق:22)
جامعہ محمدیہ گوجرانوالہ کے شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالمنان نورپوری رحمہ اللہ جب فوت ہونے لگے تو بلند آواز سے کہنے لگے: وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ... اور اس کے ساتھ ہی ان کی روح پرواز کر گئی۔ اک پیاری سی خوشبو تھوڑی دیر کے لیے پھیلی اور ختم ہو گئی۔ قرآنِ مجید آگاہ فرماتا ہے: ''وہ لوگ کہ جن کے نفوس (حسد، بغض، شرک، کینہ، کرپشن، بدکرداری، جھوٹ، دغا، فساد، قتل وغیرہ) سے پاک ہوتے ہیں۔ فرشتے جب ان کی روحیں قبض کرتے ہیں تو السلام علیکم کہتے ہیں۔ مزید پیغام دیتے ہوئے کہتے ہیں: جنت میں اُن اعمال (نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، رحم دلی، سچائی، صلہ رحمی وغیرہ) کی وجہ سے داخل ہو جاؤ جو تم (دنیا میں) کیا کرتے تھے‘‘ (النحل:32)۔
پچھلے دنوں میرے ایک دوست حاجی ریاض صاحب فوت ہوئے۔ ساری زندگی انتہائی عاجزی اور پرہیزگاری میں گزاری۔ اپنے گھر کا ایک حصہ مسجد بنا گئے۔ وہ فوت ہوئے تو پسینے میں شرابور ہو گئے۔ جان کنی کے وقت انتہائی سردی کے باوجود حرارت والی ہوا کا جھونکا آیا اور وہ اپنے اللہ کے پاس چلے گئے۔ ''مومن ماتھے کے پسینے سے فوت ہوتا ہے‘‘۔ یہ حضور کریمﷺ کی حدیث مبارک ہے۔ سنن ابو داؤد اور سنن ابن ماجہ میں صحیح سند کے ساتھ موجود ہے۔ پشاور سانحہ میں مسجد میں نماز ادا کرتے ہوئے جو نمازی شہید ہوئے‘ اللہ تعالیٰ کے حضور دعا ہے کہ اے مولا کریم! شہداء کو فردوس میں جگہ عطا فرما، لواحقین کو صبرِ جمیل دے اور میرے وطن عزیز کو امن کی نعمت عطا فرما۔ موت کے وقت کلمۂ ایمان ہماری زبان پر جاری فرمانا، آمین!