رمضان المبارک کا وداعی جمعہ اہلِ ا یمان کو پیغام دیتا ہے کہ آپ لوگوں میں سے بہت سارے ایسے روزہ دار ہیں جن سے اگلے سال اللہ تعالیٰ کی زمین پر ملاقات نہ ہو گی بلکہ جنّت کے دروازے پر ملاقات ہو گی، ان شاء اللہ! اللہ کے آخری رسول‘ حضور کریمﷺ نے فرمایا ''جنّت میں ایک دروازہ ہے جسے رَیَّانْ کہا جاتا ہے۔ قیامت کے دن اس دروازے سے صرف روزہ دار (جنّت میں) داخل ہوں گے۔ ان روزہ داروں کے علاوہ اس دروازے سے دوسرا کوئی نہ داخل ہوگا۔ اعلان کیا جائے گا: روزہ دار کہاں ہیں؟ روزہ دار (جنّت میں) جانے کیلئے تیار ہو جائیں گے۔ ان کے علاوہ اس دروازے سے کوئی داخل نہ ہو سکے گا۔ جب یہ لوگ اندر چلے جائیں گے تو دروازہ بند کر دیا جائے گا۔ اب اس سے کوئی اندر نہ جا سکے گا‘‘ (صحیح بخاری)
عربی زبان میں ریّان مبالغے کا لفظ ہے جس کا مطلب پیاسوں کو خوب جی بھر کر سیراب کرنا ہے۔ اب اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ ہی بہتر جانتے ہیں کہ روزہ داروں کی تواضع اس دروازے پر کون کون سے مشروبات سے کی جائے گی۔ وہ مشروبات کتنی اقسام کے ہوں گے۔ دروازہ کتنے کلومیٹر لمبا‘ چوڑا ہو گا۔ وہاں ضیافت کے ''وی وی آئی پی‘‘ ہالز اور ان کے نورانی فرنیچر کس قدر عالیشان ہوں گے کہ جن پر روزہ داروں کو بٹھایا جائے گا اور پھر میدانِ حشر کی پیاس کو ''باب الرّیّان‘‘ پر بجھایا جائے گا۔ مولا کریم کے اس فرمان عالیشان کو ہمارے حضور کریمﷺ اس طرح سناتے ہیں کہ رب کریم نے فرمایا ''روزہ میرے لیے رکھا گیا ہے چنانچہ اس کا بدلہ بھی میں ہی دوں گا‘‘ (صحیح بخاری) جی ہاں! بدلے کی اوّلین ضیافت اللہ تعالیٰ کی طرف سے انتہائی خصوصی ہو گی۔ ''باب الرّیان‘‘ پر ان شاء اللہ الرّحمن ہوگی۔ آگے جنّت کے اندر مہمان نوازی کیسی ہو گی۔ جو جو روزہ دار وداعی جمعۃ المبارک پڑھ کر اگلے جہان میں قدم رکھتا چلا جائے گا وہ لطف اندوز ہوتا چلا جائے گا۔ برزخی زندگی کا لطف و کرم الگ ہوگا۔ میدانِ حشر میں مولا کریم کی رحمت کا انداز اور ہو گا۔ جنت میں داخل ہوتے وقت مہربانیاں الگ قسم کی ہوں گی۔ فردوس کے اندر ضیافتوں کے نرالے انداز بہت زیادہ نرالے ہوں گے۔ یہ سب کچھ انہی کیلئے ہوگا جنہوں نے اپنے اجسام کو اللہ رحمن کی خاطر تکلیفوں اور مشقتوں میں ڈالنے سے گریز نہ کیا ہو گا۔
قارئین کرام! ماہِ رمضان میں جب میں نے قرآنِ مجید کھولا تو وہاں انسانی وجود کیلئے تین نام سامنے آئے۔ سب سے پہلا نام ''جسد‘‘ ہے۔ قرآنِ کریم میں یہ لفظ چار بار آیا ہے۔ (الاعراف: 148، طہٰ: 88، الانبیاء: 8، ص: 34)۔ چاروں جگہ پر اس کا مفہوم یہی سامنے آتا ہے کہ ''جسد‘‘ کے نام سے انسانی وجود کی یہ وہ صورت ہے جس میں روح نہ ہو۔ انسانی وجود کیلئے دوسرا لفظ قرآنِ مجید میں ''جسم‘‘ آیا ہے۔ یہ لفظ قرآنِ مجید میں دو بار آیا ہے۔ (البقرہ: 247، المنافقون:4)۔ دونوں جگہ پر انسانی وجود کی یہ ایسی صورت ہے جس میں روح اور عقل و شعور ہے۔ انسانی وجود کیلئے تیسرا لفظ ''بدن‘‘ ہے۔ قرآنِ کریم میں یہ لفظ ایک ہی بار آیا ہے‘ سورۂ یونس کی آیت 92 میں۔ انسانی وجود کی یہ وہ صورت ہے کہ جس میں انسان پر موت وارد ہوتی ہے تو اس کے جسم سے روح نکل جاتی ہے۔ اب انسانی وجود روح کے بغیر بدن کہلاتا ہے کہ جو مٹی کے سپرد کر دیا جاتا ہے جبکہ اصل انسان اپنی روح اور نفس کے ساتھ اگلے جہان میں موجود ہوتا ہے۔ تحقیق اور ریسرچ کرنے والے حضرات کیلئے میں نے حوالے دے دیے ہیں۔ وہ مذکورہ حوالوں کو سامنے رکھ کر اپنی علمی پیاس کو قرآنِ کریم کے تفسیری دروازوں سے بجھا سکتے ہیں۔ اہلِ علم احباب مزید ریسرچ کرنا چاہیں تو وہ عربی زبان کے بہت بڑے ماہر پروفیسر یوسف ابو عواد کے خطبات بھی ملاحظہ کر سکتے ہیں۔
فرعون جو بحرِ قلزم میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا تعاقب کرتے ہوئے غرق ہو گیا تھا‘ اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس کے بدن کو سمندری لہروں نے کنارے پر پھینک دیا تھا؛ یعنی اس کا بدن جو روح اور نفس سے خالی تھا‘ جو مٹی کا بنا ہوا تھا اب مٹی پر پڑا ہوا تھا جبکہ اس کی جو اصل شخصیت تھی‘ وہ اگلے جہان میں تھی۔ اس اصل فرعونی شخصیت کو اب اللہ تعالیٰ نے مخاطب فرمایا ''بات یہ ہے کہ آج ہم تیرے بدن کو (گلنے سڑنے کے عمل) سے نجاب دے دیں گے۔ ایسا اس لیے ہم کر رہے ہیں تاکہ (تیری وہ شخصیت جو ظلم و زیادتی کی علامت تھی) اسے (تیرے بدن کے ذریعے) ان لوگوں کیلئے عبرت کا نشان بنا دیں جو تیرے بعد آئیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسانوں میں سے بہت سے لوگ ہمارے (عبرت انگیز) نشانات سے غفلت کا شکار رہتے ہیں‘‘ (یونس: 94)۔ دوسرے مقام پر فرمایا ''فرعونی لوگوں کو بدترین عذاب نے گھیرے میں لے لیا۔ یہ اب (برزخی زندگی میں) صبح و شام (ہمہ وقت) آگ پر پیش کیے جاتے ہیں۔ جب قیامت کا دن ہو گا (تو حکم دے دیا جائے گا) فرعونی لوگو! سخت ترین عذاب میں داخل ہو جاؤ‘‘ (المؤمن: 46)۔ قارئین کرام! معلوم ہوا کہ اصل انسان وہ ہے کہ جب وہ جسم سے نکل گیا تو یہ جسم اب بدن بن گیا یعنی یہ اب ایک خول ہے یا اسے کارتوس کہہ لیجئے جو دنیا کی زندگی میں چل گیا ہے۔ اس نے یہاں زمین پر شیطان کے فریب میں آ کر دنیا کی خاطر کس کس کو زخمی کیا‘ کس کس کو قتل کیا‘ کس کس کی عزت کو تار تار کیا‘ کس کس کے دامنوں کو چاک کیا‘ کس کس پاک دامن شخص پر تہمتیں لگائیں‘ کس کس پاک دامن بی بی کے دامن کو آلودہ کیا‘ کس کس کا حق مارا‘ کس کس کے پلاٹوں اور زرعی زمینوں پر قبضے کیے‘ سٹے آرڈرز لیے‘ نامی گرامی وکیل کیے‘ مقدمات کو سالوں کے حساب سے کھینچتا چلا گیا‘ حقدار اور مظلوم روکھی سوکھی کھا کر زندگی کے دن گزار کر دنیا سے چلے گئے‘ ان کی اولادیں بھی انہی مقدمات کا شکار ہو گئیں مگر حقداروں کوحق نہ مل سکا۔ وہ انتہائی خوش قسمت تھا جسے کوئی جزوی سا حق مل گیا۔ جی ہاں! کارتوس کے اندر جو نفس تھا وہ ایسا لالچی اور حریص تھا کہ اپنے بارود کے ساتھ معصوم لوگوں کی زندگیوں کو روگ لگاتا رہا۔ تھا تو یہ مسلمان مگر جب بھی رمضان آتا‘ یہ نرخ دُگنے تگنے کر دیتا۔ جاپان، امریکہ اور یورپ کے کئی غیر مسلم ملکوں میں رمضان المبارک کی آمد پر اہلِ صیام مسلمان کیلئے ریٹ نصف کر دیے جاتے ہیں۔ وہاں کی حکمرانیوں میں عوام کی تربیت اور قانون کا نظام ایسا ہے کہ کوئی غیر مسلم اس شیلف سے کوئی شے نہیں اٹھاتا جو مسلم روزہ داروں کیلئے مخصوص ہے۔ اس کے برعکس ہم اہلِ اسلام کے بیشتر ملکوں کا حال یہ ہے‘ اور بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ میرا وطن عزیز اس فہرست میں سرفہرست ہے‘ کہ رمضان کے آغاز سے قبل ہی ہر شے کے ریٹ دگنے تگنے ہو جاتے ہیں۔ فراڈ، جھوٹ، ملاوٹ، ڈاکے، چوریاں، چغل خوریاں، ان پر لڑائیاں اور دنگے فساد، بدتمیزیاں اور بداخلاقیاں ہمارے معاشرے کو بارود کی آگ کی طرح جھلسا رہی ہیں۔ وداعی جمعہ غور و فکر کی دعوت دیتا ہے کہ مندرجہ بالا کردار کا حامل کوئی مسلمان اگر یہ جمعہ‘ جو رمضان المبارک کا آخری جمعہ ہو سکتا ہے‘ ادا کر رہا ہے‘ اس بات سے بے خبر کہ اگلے سال کے وداعی جمعہ سے قبل اس کی اصل شخصیت نے اگلے جہان میں چلے جانا ہے تو چلا ہوا کارتوس زمین کے کسی قبرستان میں مل جائے گا۔ یہ قبرستان سیلاب کی نذر ہو کر پانی میں بہتے ہوئے کسی دریا کے ذریعے سمندر میں جا غرق ہوا تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ اس کی اصل شخصیت تو اگلے جہان میں ہے۔ غور و فکر کریں کہ وہاں فرعونی مزاج کا آدمی کس حال میں ہوگا؟ جمعۃ الوداع میں موجود لوگو! آؤ! اپنے کردار کا جائزہ لیں کہ میری شخصیت ''باب الرّیان‘‘ پر ہوگی یا ''باب العذاب‘‘ پر ہوگی؟