اللہ تعالیٰ کی کائنات میں سب سے اونچا مقام نبوت و رسالت کا ہے۔ نبوت و رسالت کے میدان میں ''ختمِ نبوت‘‘ وہ مقام و مرتبہ ہے جس کی رفعت و عظمت اللہ تعالیٰ ہی بخوبی جانتے ہیں۔ ختمِ نبوت کے بعد حضرت محمد کریمﷺ کی نبوت و رسالت کا راج اللہ تعالیٰ نے قیامت تک قائم فرما دیا ہے۔ احادیث شریف میں یہ بات صراحت کیساتھ بیان کی گئی ہے کہ قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک حضور نبی کریمﷺ کا لایا ہوا دین ساری زمین پر قائم نہ ہو جائے گا۔ حشر کے میدان میں بھی ''ختمِ نبوت‘‘ کا نظارہ یوں دیکھنے کو ملے گا کہ ساری انسانیت کے مومنوں کی شفاعت کی ابتدا حضور کریمﷺ ہی فرمائیں گے۔ جنت کے دروازے سے اندر جو اوّلین قدم مبارک رکھا جائے گا وہ حضور کریمﷺ کا ہی مبارک قدم ہوگا جو جنت الفردوس کی سرزمین کو شرف بخشے گا۔ ایسے عظیم رسولﷺ کی عزت، عظمت اور حرمت و رفعت کا مقام اللہ تعالیٰ کے ہاں کس قدر عظیم ہے‘ اس پر اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب قرآنِ مجید کے ہر صفحہ پر دیکھنے کو ایک تصویر ملتی ہے۔ دیکھنے والے کو اس تصویر میں ہر بار ایک نئی خوشبو ملتی ہے جس پر عنبر و عود اور مُشک و کستوری شرم کے مارے اپنی آنکھیں جھکا لیتی ہے۔ آخری الہامی کتاب کے ایک قرطاس سے آج میں ایک ایسی پُرشوکت اور پُرشکوہ منظر کشی کرنے جا رہا ہوں کہ اس منظر کودیکھ کر حضور کریمﷺ پر لاکھوں جانیں نثار کرنے کو دل بے تاب ہوتا جاتا ہے تو ساتھ ہی ساتھ مارے ہیبت کے پتّہ پانی ہونے کو ہو جاتا ہے۔
اس سورت مبارکہ کا نام ''الحجرات‘‘ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا روئے سخن اپنے حبیب اور محبوب کا کلمہ پڑھنے والوں کی جانب ہے۔ جلال سے بھرے انداز کا آغاز یوں ہوتا ہے ''اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول سے آگے مت بڑھنا۔ (آگے بڑھنے کے گمان کے بارے بھی) اللہ سے ڈرتے رہنا کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر دم سننے والا‘ ہر آن جاننے والا ہے‘‘ (الحجرات:1)۔ قارئین کرام! اللہ تعالیٰ نے واضح کر دیا کہ میرے محبوب نبیﷺ کا اٹھایا ہوا ہر قدم اور ان کی زبانِ مبارک سے ادا ہونے والا ہر لفظ چونکہ میری مرضی سے ہے لہٰذا جو اس سے آگے بڑھے گا یا آگے بڑھنے کی کوشش کرے گا وہ دراصل ہم دونوں سے آگے بڑھے گا۔ جی ہاں! حضور کریمﷺ کے فرمان اور سیرت و سنت کے بارے میں خبردار کرنے کے بعد اگلی ہی آیت میں ادب و احترام کو انتہا پر پہنچاتے ہوئے فرمایا ''اے ایمان والو! اپنی آوازوں کو (میرے) نبی(ﷺ) کی آواز سے بلند نہ ہونے دو اور نہ ہی ان کے سامنے اس طرح بلند آواز سے بولو جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے سے بولتے ہو۔ ایسا ہوا تو تمہارے (تمام نیک اعمال) برباد ہو جائیں گے‘‘ (الحجرات:2)۔ جی ہاں! مذکورہ آیت حضور کریمﷺ کے روضہ مبارک پر آج بھی لکھی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ امت مسلمہ کا اس بات پر اجماع ہے کہ جس طرح حضور نبی اکرمﷺ کے زمانے میں آپﷺ کے سامنے آواز بلند کرنا ادب و احترام کے منافی تھا‘ اسی طرح حضورﷺ کی مسجد میں قیامت تک بلند آواز سے بولنا منع ہے۔
صحیح بخاری میں درج ایک حدیث شریف کے مطابق مذکورہ آیت کا شانِ نزول بھی یہی ہے کہ کسی بات پر حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت عمر فاروقؓ حضور کریمﷺ کے پاس آپس میں بلند آواز سے گفتگو کر رہے تھے (صحیح بخاری: 4367)؛ چنانچہ اس آیت کے نزول کے بعد حضرت عمرؓ اس قدر ڈر گئے تھے کہ حضورﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے انتہائی دھیمی آواز سے بولتے تھے۔ جب آپؓ امیر المومنین بن گئے تو صحیح بخاری میں حضرت سائب بن یزیدؓ کی روایت ہے‘ کہتے ہیں کہ میں مسجد نبوی میں بیٹھا تھا کہ امیرالمومنین حضرت عمرؓ نے مجھے کنکر مارا۔ (یہ ان کے بلانے کا انداز تھا، میں قریب آیا تو) فرمایا: ان دو بندوں کے پاس جاؤ اور ان کو میرے پاس لاؤ۔ میں ان دونوں کو لے کر آیا تو آپؓ نے ان سے پوچھا: تم کون ہو؟ کہاں سے ہو؟ وہ کہنے لگے: ہم طائف سے آئے ہیں۔ فرمایا: اگر تم یہاں (مدینہ) کے رہنے والے ہوتے تو میں تم دونوں کو سزا دیتا۔ تم اللہ کے رسولﷺ کی مسجد میں بلند آوازوں سے بولتے ہو؟ (صحیح بخاری:470)
حقیقت یہ ہے کہ جب ساری دنیا نے ہم اہلِ پاکستان کے باہمی سیاسی اختلافات کا مظاہرہ مسجد نبوی میں اس انداز سے دیکھا کہ پاکستان کے ایک سرکاری وفد پر پاکستان ہی کے کچھ لوگ آوازے کس رہے تھے‘ برے القابات سے پکار رہے تھے‘ مسجد کے احاطے میں ان کی آوازیں بلند تھیں۔ سعودی حکومت نے ایسے لوگوں کو گرفتار کیا اور سزائیں بھی دیں۔ مگر ہم اہلِ پاکستان وہ کردار ادا نہ کر سکے جس کا تقاضا تھا۔ واضح رہے کہ دنیا میں صرف تین حرم شریف ہیں۔ مکہ مکرمہ کی مسجد الحرام ہے، بیت المقدس میں مسجد اقصیٰ ہے اور تیسرا حرم وہ آخری حرم ہے جسے اللہ کے آخری رسولﷺ نے حرم قرار دیا ہے؛ یعنی مدینہ منورہ میں مسجد نبوی۔ برا ہو ہماری معاندانہ سیاست کا کہ اس کے گند کو ہمارے بعض لوگوں نے پاکستان کے کوچہ و بازار سے اٹھاکر حرمِ نبوی کی حرمت کو داغدار کر دیا۔
الغرض! اس سیاست کے اندر ایسی طغیانی آئی کہ ایک طرف مسجد نبوی میں ایک انتہائی ناپسندیدہ واقعہ پیش آیا تو دوسری جانب 9 مئی کا دن وطنِ عزیز کے لیے یومِ سیاہ بن گیا۔ ہمارے وہ عظیم قائد‘ جنہیں ہم اہلِ پاکستان محبت و عقیدت سے قائداعظم کہتے ہیں۔ نوٹ پر جن کی تصویر قلم کی سیاہی وغیرہ کے ساتھ خراب ہو جائے تو وہ نوٹ بے قیمت ہو جاتا ہے۔ آہ! لاہور میں اس قائد کے گھر کو آگ لگا دی گئی۔ میں کہتا ہوں کہ آگ لگانے والے جب تک دنیا کی نظروں میں بے قیمت نہیں بنا دیے جاتے‘ تب تک ہم اہلِ پاکستان کی دنیا میں کیا وقعت رہے گی کہ ہم محسن کش لوگ ہیں؟ لاہور کینٹ میں جب کبھی میں اپنے بابا جی کے جناح ہاؤس کے پاس سے گزرتا تھا تو قائداعظم، مادرِ ملّت، لیاقت علی خان، علامہ محمد اقبال، قاضی عیسیٰ، سردار عبدالرب نشتر اور سر سیّد احمد خان جیسے بانیانِ پاکستان اور قائداعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ کے سا تھیوں کی تصاویر دیکھتا تھا تو دل میں یقین کی ایک خوشبو پیدا ہوتی تھی کہ دشمن نے لاہور کی طرف رخ کیا تو جناح ہاؤس کا مکین کور کمانڈر 1947ء اور 1965ء کے جذبے سے اٹھے گا اور ایمان، تقویٰ اور جہاد فی سبیل اللہ کے عقیدے کو لے کر سرزمین وطن پر آنچ نہ آنے دے گا۔
ہر پاکستانی کا مان بہر صورت پاکستان کی آن بننے کا منتظر ہے کہ جنہوں نے جناح ہاؤس کو کانچ سمجھا۔ جنہوں نے شہداء کی یادگاروں کو تہس نہس کر دیا، جنہوں نے مردان میں کارگل میں دشمن کو ناکوں چنے چبوانے والے اور بہادری کی اَن گنت مثالیں قائم کرنے والے عظیم شہید کیپٹن کرنل شیر خان کے مجسمے کی بے حرمتی کی، پاک فضائیہ کے نمائشی جہازوں کو جن لوگوں نے شعلوں کی نذر کیا‘ ایسے لوگوں کے کردار کے پیچھے جو نظریہ ہے‘ سیاسی نفرت کا جو عقیدہ و ایجنڈا ہے اسے پاکستان میں پنپنے نہ دیا جائے۔ اس کے خلاف فوراً قانون کے لانچنگ پیڈ سے ایک میزائل اس طرح لانچ کیا جائے کہ یہ نفرتی عقیدہ بحیرۂ عرب کی گہرائیوں میں جا گرے اور میرا دیس کدورتوں اور نفرتوں سے پاک ہو جائے۔ وطنِ عزیز کے حساس مقامات بھی ان شرپسندوں کے شر سے محفوظ نہیں رہے۔ پاک فوج کے سالارِ اعظم جنرل سید عاصم منیر صاحب کے جذبے کو سلام کہ جنہوں نے صبر و حوصلہ کر کے گمراہ لوگوں کو قا نون کی گرفت میں جکڑنے کا پروگرام بنایا۔ وزیراعظم پاکستان جناب شہباز شریف اور وطن عزیز کے زعما اور علماء سب نے پاک افواج کے قدم کیساتھ قدم ملانے کا اعلان کیا ہے کیونکہ بیشتر بلکہ سبھی حملے پاک افواج ہی کی املاک پر کیے گئے۔ اہلِ پاکستان نے دنیا بھر کو یہ پیغام دے دیا ہے کہ سارا وطن پاک افواج کے پیچھے سربکف اور سربلند کھڑا ہے۔ اچانک کی اس زک کے بعد ہم ان شاء اللہ ایک قوم بن کر نئے انداز سے اٹھیں گے۔ وطن کو چمکتا چاند بنائیں گے اس لیے کہ پاکستان کا مطلب ''لا الٰہ الا اللہ‘‘ ہے۔