جس قدر بھی دوربینیں خلا میں بھیجی گئی ہیں وہ سب کی سب زمین کے مدار میں بھیجی گئی ہیں۔ دو سال پہلے ''جیمز ویب ٹیلی سکوپ‘‘ پہلی خلائی دوربین تھی جسے سورج کے مدار میں بھیجا گیا تھا۔ حالیہ دنوں میں اس دوربین کے بھیجے ہوئے سائنسی انکشافات اس قدر زیادہ ہیں کہ سائنسدان اللہ یعنی کائنات کے خالق کے وجود کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوتے جا رہے ہیں۔ ہم آئندہ کالموں میں ان انکشافات کو معزز قارئین کے سامنے رکھتے جائیں گے، ان شاء اللہ! تاہم ان میں سے ایک انکشاف‘ جسے سائنس کے ایک معروف ڈیجیٹل انگلش چینل Space Wind نے دنیا کے سامنے رکھا ہے‘ اس طرح سے ہے:
James Webb Telescope just found hint of previous universe remnants that accelerated expansion.
''جیمز ویب ٹیلی سکوپ نے ہماری کائنات سے پچھلی کائنات کے ملبے کا اشارہ پا لیا ہے جس نے ہماری کائنات کے پھیلاؤ کو تیز کیا ہے‘‘۔
جی ہاں! سائنسدان اب سائنسی شواہد کی روشنی میں کھل کر کہہ رہے ہیں کہ کائناتیں بے شمار ہیں، یہ مرتی ہیں اور نئی پیدا ہوتی ہیں۔ ہماری کائنات نے جس کائنات سے جنم لیا ہے‘ وہ بوڑھی ہو چکی تھی تا شاید مر گئی تھی؛ تاہم ا س کے بطن سے جنم لینے والی ایک نئی کائنات‘ ہماری کائنات ہے جس میں ہم رہ رہے ہیں۔
جاپانی نژاد معروف امریکی سائنسدان ڈاکٹر مشیو کاکو (Michio Kaku) صاف الفاظ میں کہتے ہیں کہ ان سب (تخلیقات) کا ایک خالق ہے ‘ (وہی) جسے ہم GODکہتے ہیں۔
قارئین کرام! اللہ تعالیٰ کا آخری الہامی کلام قرآنِ مجید ہے جو حضرت محمد کریمﷺ پر نازل ہوا ہے۔ اس کا آغاز ہی یہاں سے ہوتا ہے کہ ''اللہ کے نام سے آغاز ہے (اس قرآنِ مجید کا کہ جسے بھیجنے والا) انتہائی مہربان اور رحم فرمانے والا ہے۔ (یاد رہے کہ عربی زبان میں ''ب‘‘ حرف کے بہت سارے معانی ہیں، امام جمال الدین المعروف ابن منظور اپنی شہرہ آفاق کتاب ''لسان العرب‘‘ میں ''بسم اللہ‘‘ کی ''ب‘‘ کو ''ابتدائیہ‘‘ کہتے ہیں)۔ بسم اللہ کے بعد سورۃ الفاتحہ کی آیت کا ترجمہ کچھ یوں ہے ''سب تعریف اس اللہ کے لیے ہے جو تمام جہانوں (بے شمار کائناتوں) کا رب (ان کی تمام ضروریات کو پورا کرنے والا) ہے۔
لوگو! ہمارا رب کس قدر مہربان ہے‘ اس حوالے سے حضرت امام محمد بن اسماعیل البخاری رحمہ اللہ اپنی کتاب ''الادب المفرد‘‘ میں ایک حدیث لائے ہیں۔ علامہ ناصرالدین البانی نے اس حدیث شریف کی سند کو صحیح کہا ہے۔ اللہ کے رسولﷺ نے ارشاد فرمایا ''اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام ''السلام‘‘ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے اس نام کو زمین پر بھیجا ہے لہٰذا اپنے درمیان السلام کو خوب‘ خوب پھیلاؤ‘‘ (الادب ا لمفرد: 989، سلسلہ صحیحہ: 184) اللہ اللہ! بے شمار کائناتوں کا خالق، مالک اور ضرورتوں کو پورا فرمانے والا! ان میں موجود ہر قسم کی مخلوقات کا خوب خیال رکھنے والا ہمارا مولا اس قدر مہربان ہے کہ اس نے ہماری زمین پر اپنے آخری رسول حضرت محمد کریمﷺ کو ختم المرسلین اور خاتم الانبیاء بنا کر بھیجا تو یہاں اپنا نام ''السلام‘‘ نازل فرمایا، یعنی سلامتی و امن والا! سورۃ الحشر کی آخری آیات میں اس نے اپنے پانچ ناموں کو ترتیب کے ساتھ یوں بیان فرمایا: الملک (حقیقی بادشاہ) القدوس (انتہائی پاک کہ جس کے بارے میں ظلم کا سوچا بھی نہ جا سکے)۔ السلام (جس سے دنیا و آخرت کی سلامتیاں اور بھلائیاں ملیں)۔ المؤمن (جس سے امن ملے) المھیمن (نگرانی فرمانے والا)۔ لوگو! ہمارے پیارے رسول گرامیﷺ ہمیں حکم ارشاد فرماتے ہیں کہ ''السلام‘‘ کو خوب پھیلاؤ یعنی ہر ایک کو ''السلام علیکم‘‘ کہو۔ جواب میں ''وعلیکم السلام‘‘ کہو۔ یاد رکھو! جس کا اخلاق اعلیٰ ترین ہو گا‘ دل پاکیزہ ہو گا‘ حسد و بغض سے پاک صاف ہو گا‘ جو معاف کرنے والا ہوگا‘ جو لوگوں کا حق کھا کر دل کو گند سے بدبودار کرنے والا نہ ہو گا‘ اللہ تعالیٰ کا قرآنِ مجید آگاہ فرماتا ہے کہ ایسے لوگوں کی روح قبض کرنے کے لیے جب موت کے فرشتے آتے ہیں تو اسے مخاطب کر کے ''سلامٌ علیکم‘‘ (تم پہ سلامتی ہو) کہتے ہیں۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ آج ہمارے معاشرے میں نفرتوں اور کدورتوں کا جو لاوا ابل رہا ہے‘ کیا اس کی موجودگی میں ہم لوگوں کو موت کے وقت ''سلامٌ علیکم‘‘ کا تحفہ‘ تحیَّہ اور پروٹوکول مل سکتا ہے؟ یہ تو رب کریم پر پختہ ایمان رکھنے والوں ہی کو ملے گا۔
آج مسلمان اقتدار کی لڑائیوں میں الجھے ہوئے ہیں۔ خلفائے راشدینؓ کے دور کے بعد جب اقتدار کے فتنے نے جنم لیا تو صحیح بخاری میں روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنی بہن‘ زوجہ رسول‘ ام المؤمنین حضرت سیدہ حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے کہا کہ میں نے تو اس اقتدار سے دوری کا فیصلہ کر لیا ہے اور اللہ تعالیٰ کے پاس جو کچھ فردوس میں ہے‘ اسی کو اپنا ہدف بنا لیا ہے۔ (صحیح بخاری: 4108 ) جی ہاں! اعلیٰ اخلاق پیدا ہوتا ہے تو ایسی سوچ اور عقیدے سے پیدا ہوتا ہے۔ مولا کریم فرماتے ہیں: ''کیا شک ہے‘ وہ لوگ جنہوں نے کہا: ہمارا رب اللہ ہے پھر اس پر مضبوطی کے ساتھ جم گئے۔ ان کے پاس جب (موت کے وقت) فرشتے آتے ہیں تو کہتے ہیں: اب ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ ڈر اور غم کو بھول جاؤ۔ اس جنت سے خوش ہو جاؤ جس کے ملنے کا تم سے وعدہ کیا جاتا رہا ہے۔ ہم دنیا کی زندگی میں بھی تمہارے دوست ہیں اور آخرت میں بھی دوست ہیں۔ تمہارے لیے اس جنت میں وہ سب کچھ ہے جو تم طلب کرو گے۔ انتہائی عالی شان مہمان نوازی ہے۔ (اس رب کی طرف سے جو) بخشنے والا اور انتہائی رحم فرمانے والا ہے‘‘۔ (حم سجدہ:30تا32)
قارئین کرام! اس سورت کی اگلی آیت (33) میں ہر اس مسلمان کی بات کو ''احسن‘‘ کہا گیا ہے جو اللہ تعالیٰ کی جانب دعوت دیتا ہے مگر ساتھ ہی ساتھ اعلیٰ ترین کردار کا بھی مالک ہے۔ یاد رکھو! جس شخص کی بھی گفتگو سنو‘ ساتھ ہی اس کا کردار بھی دیکھو۔ گفتار اور کردار اگر ہم آہنگ اور یک رنگ ہیں تو بندہ ٹھیک ہے اور اگر گفتار اور کردار بے ڈھنگ ہیں‘ دونوں میں اختلاف اور تضاد ہے تو نجات کا راستہ یہی ہے کہ اپنا دامن بچا لیا جائے۔
اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ''نیکی اور برائی کبھی بھی ایک جیسے نہیں ہو سکتے۔ تم برائی کو ایسے انداز سے دور کرو جو انتہائی خوبصورت ہو۔ (ایسا کردار ادا کرو گے تو نتیجہ اس طرح) دیکھو گے کہ تمہارے اور اس کے درمیان جو دشمنی تھی (وہ محبت میں ایسے بدلے گی) گویا کہ اب وہ تمہارا گرم جوش دوست (جگری یار) بن جائے گا۔ یہ نعمت صرف ایسے لوگوں کو ملتی ہے جو صبر کرتے ہیں۔ یہ نعمت انتہائی اونچے نصیب والوں ہی کو ملتی ہے‘‘ (حم السجدہ:33 تا 34)
اللہ‘ اللہ! معلوم ہوا اور قرآن مجید نے واضح کر دیا کہ موت کے وقت ''سلامٌ علیکم‘‘ کا پروٹوکول انہی افراد کو ملے گا جو اعلیٰ اخلاق والے ہوں گے۔ جو صبر والے ہوں گے۔ ظلم والے نہ ہوں گے۔ بے صبری میں نقصان کرنے والے نہ ہوں گے۔ اقتدار کی خاطر لوگوں کو لڑانے والے نہ ہوں گے۔ وہ محبت اور بھائی چارہ قائم کرنے والے ہوں گے۔ ملانے اور جوڑنے والے ہوں گے۔ توڑنے‘ پھوڑنے والے نہ ہوں گے۔ آئیے! نظر رکھیں اس عظیم رب کریم کی عطا پر جو بے شمار کائناتوں کا خالق و مالک ہے۔ فانی کائناتیں بے شمار ہیں۔ لاتعداد جنتوں اور ان کی لافانی نعمتوں اور ریاستوں کی حکمرانی کا کیا حال ہوگا۔
آئیے! ان پر نظر رکھیں اور یہ فانی حکومتیں بھول کر سب مل کر اپنے ملک پاکستان کو پُرامن اور خوشحال بنائیں۔