اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک بندے کو 80سال عمر عطا فرمائی۔ 29مئی 2023ء کو مسجد میں آئے‘ درس ارشاد فرمایا! اہلِ پاکستان کو اتحاد و محبت کا وعظ کیا اور آخر پر اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کی۔ جب وہ مجلس سے اٹھ کر جانے لگے تو میں بھی وہاں موجود تھا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ان کی ٹانگوں نے سہارا بننے سے انکار کر دیا۔ احباب نے انہیں تھاما اور مسجد کی صف پر لٹا دیا۔ انہوں نے ''لا الٰہ الا اللہ‘‘ پڑھا اور اپنے اللہ کریم کے پاس چلے گئے۔ ''حضرت معاذ بن جبلؓ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا: ''جس کی آخری بات ''لا الٰہ الا اللہ‘‘ ہو گی‘ وہ جنت میں داخل ہو گیا‘‘ (سنن ابوداؤد: 3116) اللہ اللہ! مسجد میں موت‘ وعظ و نصیحت کے بعد موت اور موت کے وقت کلمہ طیبہ پڑھنے کی سعادت۔
یہ سعادت جس 80سالہ بزرگ کو ملی‘ ان کا اسمِ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد رحمہ اللہ ہے۔ انہوں نے نصف صدی سے زائد عرصہ تفسیر اور حدیث شریف پڑھائی۔ انہوں نے آخری گفتگو سے پہلے مسکراتے ہوئے مجھے سینے کے ساتھ لگایا۔ کیا پتا تھا کہ یہ ملاقات آخری ملاقات ثابت ہو گی۔ ہمارا ایمان ہے کہ ہم سب کی ملاقات جنت میں ہونے والی ہے۔ (ان شاء اللہ) حافظ عبدالسلام بن محمد رحمہ اللہ جو آخری پیغام دے کر گئے‘ وہ امّت کا اتحاد ہے۔ اتحاد ہی میں سلامتی اور خیر و بھلائی کا پیام ہے۔ حافظ صاحب کے پیشِ نظر ہمارے وطنِ عزیز میں موجود انتشار تھا۔ اس افتراق اور انتشار کو ہم نے 9مئی کو دیکھا۔ اس روز ہم نے جو سیاہ دروازہ کھلتا ہوا دیکھا‘ اس میں جو کربناک اور انتہائی بھیانک منظر تھا وہ یہ تھا کہ اس روز پاکستان کے شہدا کی قربانیوں کی توہین کی گئی۔ زندہ لوگ باہم ایک دوسرے کے خلاف جو بھی کرتے رہیں‘ وہ ایک الگ معاملہ ہے؛ اگرچہ اسے بھی اخلاقی دائرے سے باہر نہیں نکلنا چاہئے لیکن فوت شدگان کے بارے میں توہین آمیزی کرنا انتہائی بری حرکت ہے۔ یہی حرکت اگر شہدا کے خلاف ہو تو اس برائی کی کوئی حد نہیں کیونکہ یہ بدترین احسان فراموشی ہے۔
حضرت حافظ عبدالسلام رحمہ اللہ کی ''تفسیر القرآن الکریم‘‘ کو میں نے کھولا ''سورۂ آلِ عمران‘‘ کے صفحات کو سامنے کر لیا۔ مولا کریم فرماتے ہیں ''وہ لوگ جو اللہ کے راستے میں قتل (شہید) کر دیے گئے۔ انہیں مردہ خیال نہ کر لینا بلکہ وہ تو زندہ ہیں۔ اپنے رب کے ہاں رزق دیے جاتے ہیں‘‘۔ (آیت: 169)
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ ہم نے مذکورہ آیت کے بارے میں اللہ کے رسولﷺ سے پوچھا تو آپﷺ نے فرمایا: ان شہداء کی روحیں سبز رنگ کے پرندوں کے قالب میں ہوتی ہیں۔ ان کے لیے ایسی قندیلیں (ٹھکانے) ہیں جو اللہ کے عرش کے ساتھ لٹک رہی ہیں۔ شہیدوں کی روحیں جہاں چاہتی ہیں جنت میں کھاتی پیتی اور پھرتی ہیں پھر عرش کے نیچے لٹکی ہوئی انہی قندیلوں میں بسیرا کرتی ہیں...‘‘ (صحیح مسلم: 4885)
قارئین کرام! اللہ تعالیٰ سورۂ آلِ عمران کی مذکورہ آیت سے اگلی آیت(170) میں مزید فرماتے ہیں! ''اللہ تعالیٰ نے ان (شہیدوں) کو اپنے فضل سے جو عطا فرمایا ہے اس پر وہ بہت خوش ہیں۔ وہ ان لوگوں کے بارے میں بھی بشارت (اور بشاشت) محسوس کرتے ہیں کہ جو ابھی ان سے پیچھے (دنیا میں) ہیں کہ (جب وہ یہاں آئیں گے) تو ان پر یہاں نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ ہی وہ غمگین ہوں گے‘‘۔ قارئین کرام 'مسند احمد‘ میں صحیح سند کے ساتھ حضرت عبداللہ بن عباسؓ کی روایت ہے کہ احد کے شہدا نے جب اپنے پاکیزہ کھانے پینے کو دیکھا‘ جنت کے انعامات کو ملاحظہ کیا تو کہنے لگے: اے کاش! ہمارے (پچھلے) بھائیوں کو بھی معلوم ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے ساتھ کیا اچھا سلوک کیا ہے‘‘۔ جی ہاں! اس پر اللہ تعالیٰ نے ''آلِ عمران‘‘ کی وہ آیات نازل فرمائیں جن کا ترجمہ ہم پیش کر چکے ہیں۔
میں کہتا ہوں کہ جن لوگوں نے 9مئی کو شہیدوں کی یادوں کو مسلا اور روندا ہے‘ انہوں نے اہلِ پاکستان کے دلوں کو تو دکھی کیا ہی ہے‘ شہیدوں کے وارثوں کو بھی خوب رلایا ہے۔ میں نے محترم حضرت حافظ عبدالسلام رحمہ اللہ کی تفسیر کو سامنے رکھ کر مندرجہ بالا تحریر اس لیے لکھی ہے تاکہ اللہ اور اس کے پیارے رسولﷺ کی دی ہوئی خوشخبریوں کو ملاحظہ کر کے وارثانِ شہداء کے دل مسرت و سکون سے باغ باغ ہو جائیں۔
حافظ عبدالسلام رحمہ اللہ اہلِ پاکستان کو اتحاد کی دعوت دیتے ہی اگلے جہاں میں جا بسے۔ اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس عطا فرمائے، آمین! حقیقت یہ ہے کہ اصلی اور حقیقی زندگی اگلے جہان کی زندگی ہے۔ تین سائنسدانوں نے اس حقیقت کے انکشاف پر نوبیل انعام حاصل کیا ہے۔ یہ سائنسدان جان کلازر (John Clauser) الین آسپیکٹ (Alain Aspect) اور انتون زیلنگر (Anton Zeilinger) ہیں۔ 2022ئکے آخر پر جب کیلیفورنیا انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے ترجمان جان پریسکل (John Preskill)نے امریکہ کے معروف سائنسی میگزین ''سائنٹیفک امیریکن‘‘ کو یہ حقیقت بتائی تو دنیائے سائنس دنگ رہ گئی۔ انہوں نے کہا:
Nobel Prize winning scientists' findings show the universe isn't "REAL".
''نوبیل انعام انعام یافتہ سائنسدانوں کی تحقیقات کا حاصل یہ ہے کہ (ہماری) کائنات حقیقی نہیں ہے‘‘۔
6اکتوبر 2022ء کو مذکورہ میگزین نے مزید لکھا کہ ''مذکورہ سائنسدانوں نے (اس) کائنات کے غیر حقیقی ہونے کی حقیقت کو ''Proved‘‘ یعنی ثابت کر دیا ہے۔ جی ہاں!
نوبیل انعام یافتگان نے لیبارٹری تجربات کی روشنی میں کہا کہ ایٹم کے ذرات اوپر نیچے حرکت کرتے ہیں، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کائنات حقیقت ہے لیکن یہ صرف دیکھنے کی حد تک ہے۔ حقیقت میں ایسا نہیں ہے! کوانٹم لیول پر چیزوں کا حال ایسا ہے جیسے ''Nothing‘‘،یعنی کچھ بھی نہیں ہے۔ یاد رہے کہ سائنس کے ایک شعبے فزکس کی ایک برانچ ''کوانٹم مکینکس‘‘ ہے، اس میں ایٹم اور اس کے ذیلی ذرّات کے لیول پر جا کر ریسرچ کی جاتی ہے۔ سائنس نے جن فطری قوانین کو دریافت کیا ہے‘ وہ قوانین معروف اور مانے ہوئے سائنسی قوانین ہیں۔ جب ذیلی ذرّات کے لیول پر سا ئنس دان اِن قوانین کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ قوانین ٹوٹ پھوٹ جاتے ہیں۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے وہ کون سے قوانین ہیں جو اس کائنات کے نظام کو چلا رہے ہیں تو مسٹر جان پریسکل اس سوال کا کوئی جواب نہ دے سکے۔ ان کا جواب آیا تو 16جنوری 2023ء کو اس طرح سامنے آیا، ملاحظہ ہو:
If the universe is not real "then what is it?".
اگر کائنات حقیقی نہیں ہے تو کیا ہے؟
یعنی اعتراف کر لیا کہ ہمیں کچھ پتا نہیں۔ قارئین کرام! یہ حقیقت قرآنِ مجید میں مذکور ہے، ''سورۃ الحدید‘‘ میں ہے اور یہ وہ حقیقت ہے جو اس جہان‘ اس کائنات اور تمام مخلوقات کے خالق نے خود ہمیں بتائی ہے‘ یعنی حقیقی فولادی اور مضبوط ترین علمی حقیقت یہ ہے کہ ''(لوگو!) جان لو کہ دنیا کی زندگی اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں کہ محض کھیل اور تماشا ہے۔ یہ ایک بناؤ سنگھار (زیب و زینت) ہے۔ تم لوگوں کے ایک دوسرے پر فوقیت کے اظہار (کا نام دنیا) ہے۔ مالوں اور اولاد کے بارے میں کثرت کا مقابلہ ہے۔ یہ سب کچھ ایک بارش کی طرح ہے کہ جس سے اگنے والی فصل نے کاشت کاروں کو خوش کردیا۔ پھر وہ پک کر تیار ہو جاتی ہے۔ پھر وہ زرد ہو جاتی ہے۔ پھر چورا چورا ہو کر (ہوا میں اڑ جاتی) ہے۔ (ایسی دنیا میں غلط کاری کا رزلٹ) شدید عذاب ہے۔ (بہتر کارکردگی کی صورت میں) اللہ کی جانب سے بخشش اور رضامندی ہے۔ حقیقت بہرحال یہی ہے کہ دنیا کی زندگی دھوکے کے سامان کے سوا کچھ بھی حقیقت نہیں رکھتی‘‘ (الحدید:20)۔
جی ہاں! کامران وہی ہے جو لا الٰہ الا اللہ پر شہید ہو گیا یا فوت ہوگیا۔