اللہ تعالیٰ اپنی آخری کتاب قرآن مجید میں آگاہ فرماتے ہیں: ''اے میرے رسولﷺ! جناب جبریل علیہ السلام نے اس قرآن کو آپ کے دل پر اللہ تعالیٰ کے حکم سے نازل کیا ہے‘‘۔ (البقرہ: 97) حضور کریمﷺ کے پاک اور مبارک دل سے یہ کلام حضورﷺ کی مبارک زبان سے ادا ہوا۔ جونہی ادا ہوا‘ صحابہ کرامؓ نے اسے لکھا۔ حضور کریمﷺ نے جیسا لکھوایا‘ ویسا ہی یہ کلام گزشتہ چودہ سو سال سے موجود ہے۔ یہ واحد الہامی کلام ہے جو اتنی صدیوں کے بعد آج بھی اپنی اصل صورت میں موجود ہے۔
حضور اکرمﷺ کی ساری زندگی قرآنِ مجید پر عمل کا نمونہ تھی۔ حضورﷺ نے مدینہ منورہ میں دس سال حکمرانی کی تو یہ حکمرانی قرآنِ مجید کے فرمودات اور اصولوں کی حکمرانی تھی۔ دوسرے الفاظ میں حقیقت اس طرح تھی کہ اللہ تعالیٰ کا جو آخری کلام تھا اس کا عملی اظہار حضور کریمﷺ کا مبارک کردار تھا۔ جی ہاں! قرآن اور صاحبِ قرآن حضرت محمد ذیشانﷺ لازم و ملزوم ہیں۔ امام مسلم نے صحیح مسلم میں یہ حدیث روایت کی ہے کہ حضرت قتادہؓ کہتے ہیں کہ میں نے ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہؓ سے عرض کی کہ ام المومنین! مجھے رسول اللہﷺ کے اخلاق کے بارے میں بتائیے۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ نے فرمایا کہ کیا تم قرآن نہیں پڑھتے؟ میں نے عرض کیا: ہاں، ام المومنینؓ نے فرمایا کہ اللہ کے نبیﷺ کا اخلاق قرآن ہی تو تھا۔ (صحیح مسلم: 1739) قرآنِ مجید نے حضور کریمﷺ کی زندگی کو تمام انسانیت کے لیے خوبصورت ترین نمونہ قرار دیا۔ (الاحزاب: 21) قرآنِ مجید نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری رسولﷺ کو مخاطب فرما کر آپ کی زندگی کی قسم اٹھائی۔ (الحجر: 72)
جی ہاں! واضح ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ کی الہامی کرنسی کے دو صفحات ہیں: ایک قرآنِ مجید ہے اور دوسرا صفحہ حضرت محمد کریمﷺ کی حیاتِ مبارکہ ہے۔ ہم گزشتہ چند سالوں سے دیکھ رہے ہیں کہ باری باری قرآن اور صاحبِ قرآن حضور نبی کریمﷺ کی ذاتِ اقدس کی اہانت کی جسارت ہو رہی ہے۔ ہمیں نہیں بھولنا چاہئے کہ ایک کی توہین دراصل دونوں کی توہین ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس توہین نے انسانی عظمت اور انسانی شرافت کے سینے کو چھلنی کیا ہے۔
روس کے صدر جناب ولادیمیر پوتن اس لحاظ سے مہذب انسانیت کی جانب سے خراجِ تحسین کے مستحق ہیں کہ جب حضور کریمﷺ کی ذاتِ اقدس کی توہین کی جسارت کی گئی تو انہوں نے حضور کریمﷺ کی عزت و حرمت اور تکریم کا بھرپور طریقے سے دفاع کیا اور اب سویڈن میں قرآن مجید کے نسخے کی توہین کا ارتکاب کیا گیا ہے تو انہوں نے اس پر داغستان کی ایک مسجد میں جانے کا فیصلہ کیا۔ وہاں امام مسجد کے ہاتھ سے قرآنِ مجید کو لیا اور سینے سے لگاتے ہوئے کہا کہ یہ مقدس کتاب ہے‘ اس کی توہین ناقابلِ برداشت ہے۔ ہمارے ملک میں مقدساتِ دین کی توہین پر قانون بھی موجود ہے۔
قارئین کرام! کئی سال قبل میرا روس جانے کا اتفاق ہوا۔ میں نے روس کی ریاست داغستان کا دورہ بھی کیا تھا۔ یہ 1992ء کی بات ہے۔ تب کارل مارکس اور لینن کے توہین آمیز رویوں سے روس تازہ تازہ آزاد ہوا تھا۔ اس وقت کائنات کے خالق و مالک کی شان میں بھی توہین کا ارتکاب کیا جاتا تھا۔ صدر پوتن برسر اقتدار آئے تو انہوں نے خالق دو جہاں کے احترام، عزت اور وقار کی سربلندی کا بھی قانون بنوایا۔ یوں صدر پوتن کے دورِ حکومت میں اللہ تعالیٰ، قرآنِ مجید اور حضرت محمدﷺ کی عزت و حرمت کی پاسبانی کا قانون سامنے آیا۔ یاد رہے! حضور کریمﷺ کے زمانے میں مسیحی دنیا کی جو مشرقی ایمپائر تھی‘ وہ اپنے وقت کی سپر پاور تھی۔ اس سلطنتِ روم کا دارالحکومت قسطنطنیہ تھا۔ آج قسطنطنیہ کا نام استنبول ہے۔ تب اس کا بادشاہ ہرقل تھا۔ حضور کریمﷺ نے اسے خط لکھا تھا، ''عظیم الرّوم‘‘ کے لقب سے اس کی عزت افزائی فرمائی۔ صحیح بخاری میں حضورﷺ کے خط مبارک کا متن موجود ہے۔ یہ اصل خط آج بھی موجود ہے۔ ہرقل کا جوابی خط بھی موجود ہے۔ ایک جملہ یوں ہے کہ اگر میں حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتا تو آپ کے مبارک پائوں دھوتا۔ یہ بادشاہ آرتھوڈکس مسیحی تھا۔ آج کے زمانے میں آرتھوڈکس مسیحی کمیونٹی کا مرکز ماسکو میں ہے جو روس کا دارالحکومت ہے۔ جناب ولادیمیر پوتن نے پرانی یادوں کو تازہ کیا ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ کیتھولک مسیحی فرقے کے پوپ کا بیان بھی روم کی آزاد ریاست یعنی ویٹی کن سے نشر ہوا ہے مگر اس میں مذمت کا انداز انتہائی نرم ہے۔ محسنِ انسانیت حضور کریمﷺ کی حرمت و عزت کا تقاضا یہ ہے کہ جنابِ پوپ کا بیان نہ صرف شدید مذمت کا حامل ہوتا بلکہ توہین آمیز رویے کو بند کرنے کا عملی اقدام ہوتا۔
آج جمعۃ المبارک ہے‘ یقینا علماء کرام خطبات میں قرآنِ مجید کی عظمت کا اظہار کریں گے۔ اس کی عظمت و ندرت کے بہت سارے پہلو اور گوشے ہیں‘ وہ ان شاء اللہ سارے بیان ہوں گے۔ ساتھ ساتھ ہمیں قرآنِ مجید کے اس فرمان کی طرف بھی توجہ دلانی چاہئے کہ ''بلاشبہ اللہ اور اس کے فرشتے نبیﷺ پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی آپﷺ پر درود اور سلام بھیجو جس طرح سلام بھیجنے کا حق ہے‘‘۔ (الاحزاب: 56) حضرت اوس بن اوسؓ سے روایت ہے اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا: تمہارے ہفتہ وار دنوں میں سے جو افضل ترین دن ہے وہ جمعہ کا دن ہے۔ اسی دن حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا گیا۔ اسی دن وہ فوت ہوئے۔ اسی دن قیامت کا صور پھونکا جائے گا اور اسی دن قیامت کی کڑک ہو گی‘ لہٰذا اس دن (جمعہ کے دن) مجھ پر کثرت سے درود بھیجا کرو کیونکہ تمہارا درود میرے سامنے پیش کیا جاتا ہے‘‘۔ (سنن ابودائود: 1047، سنن نسائی: 1374، سنن ابن ماجہ 1636، اسنادہٗ صحیح) یعنی جمعۃ المبارک کے دن حضور نبی کریمﷺ پر کثرت سے درود شریف بھیجنا چاہئے اس سے قیامت کی مصیبتیں آسانیوں میں بدل جائیں گی، ان شاء اللہ تعالیٰ۔
قارئین کرام! آج کے دور میں ہم پر جو سب سے بڑی مصیبت آن پڑی ہے‘ وہ اہلِ مغرب کے بعض بدتہذیب لوگوں کی توہین آمیزی ہے۔ اس کے متعدد علاج ہیں جبکہ ایک علاج کثرت سے درود شریف پڑھنا بھی ہے۔ مدینہ یونیورسٹی میں شعبہ حدیث کے سربراہ الشیخ محمد عبداللہ الاعظمیؒ اپنی گیارہ جلدوں پر مشتمل تمام صحیح احادیث کی کتاب ''الجامع الکامل‘‘ میں صحیح سند کے ساتھ ایک حدیث لائے ہیں‘ ملاحظہ ہو: ''حضرت ابی بن کعبؓ کہتے ہیں اللہ کے رسولﷺ (بعض اوقات) پچھلی رات کو (مسجد میں موجود لوگوں کے سامنے) کھڑے ہو جاتے اور فرماتے: اے لوگو! اللہ کا ذکر کرو، اللہ کو یاد کرو۔ ہلا دینے والا جھٹکا آ گیا۔ اس کے پیچھے ہلا مارنے والا ایک اور جھٹکا آ گیا۔ موت وہ کچھ لائی‘ جو اس میں ہے۔ موت وہ کچھ لائی جو اس میں (آفت) ہے۔ اس پر حضرت ابی بن کعبؓ نے حضور کریمﷺ سے پوچھا: اے اللہ کے رسولﷺ! میں کثرت کے ساتھ آپ پر درود شریف بھیجتا ہوں‘ میں اپنے وظیفے میں سے آپﷺ پر درود شریف کے لیے کتنا وقت مقرر کر لوں؟ آپﷺ نے جواب دیا: جس قدر تم چاہو۔ میں نے پوچھا: چوتھائی حصہ مقرر کر لوں؟ فرمایا: جتنا تم چاہو‘ کر لو۔ مگر اس سے زیادہ کر لو تو تمہارے حق میں بہتر ہے۔ میں نے عرض کی: آدھا وقت مقرر کر لوں؟ فرمایا: جتنا چاہو مقرر کر لو مگر زیادہ کر لو گے تو تمہارے لیے بھی بہتر ہو گا۔ اب میں نے عرض کی: دو تہائی مقرر کر لوں؟ ارشاد فرمایا: جس قدر چاہو کر لو‘ اگر زیادہ کر لوگے تو تمہارے حق میں بہتر رہے گا۔ میں نے عرض کی: وظیفے میں رات کا جس قدر حصہ میسر ہو گا‘ آپﷺ پر درود شریف ہی پڑھوں گا۔ اس پر حضور کریمﷺ نے فرمایا: یہ درود تمہارے تمام دکھوں کے لیے کافی ہو جائے گا اور اس سے تمہارے گناہ بھی معاف کر دیے جائیں گے‘‘۔ (سنن ترمذی: 2457، مسند احمد:21241، 21242، تحفۃ الاشراف: 30، مستدرک حاکم: 421/2، اسنادہٗ حسن صحیح)
قارئین کرام! مندرجہ بالا حدیث شریف پر ڈاکٹر حضرت الشیخ محمد عبداللہ الاعظمی ؒ نے جو باب باندھا‘ اس کا عنوان ہے: غم‘ مصائب اور مغفرت کی طلب کے وقت حضور نبی کریمﷺ پر درود شریف بھیجنا۔ اللہ‘ اللہ! لوگو! ہمیں سب سے زیادہ غم، دکھ اور شدید تکلیف توہین آمیزی کی وجہ سے ہوتی ہے‘ لہٰذا ہم اس کا مداواحضور نبی کریمﷺ پر کثرت سے درود شریف بھیجنے سے کریں گے۔ آج جمعۃ المبارک کا دن ہے‘ لہٰذا درود شریف کی کثرت کریں گے۔ یاد رہے کہ درود شریف کا تقاضا حضور کریمﷺ سے محبت ہے۔ آپﷺ کی سنت پر عمل ہے۔ آپﷺ کی لائی ہوئی دعوت کی تبلیغ ہے، اعلیٰ اخلاق کو اپنانا ہے۔ یاد رکھیں کہ درود شریف کی کثرت سے ذاتی مسائل بھی حل ہو جائیں گے، ان شاء اللہ تعالیٰ!