اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی اس زمین پر بہت سارے ملک بن گئے ہیں‘ ان ملکوں میں سویڈن نام کا بھی ایک ملک ہے جو ''نوبیل انعام‘‘ کے حوالے سے دنیا کے تمام ملکوں میں معروف ہے۔ یہ انعام اس شخصیت کو دیا جاتا ہے جس نے انسانیت کی بھلائی اور فائدے کے لیے پوری دنیا میں سب سے بڑھ کر کوئی کام کیا ہو۔ سائنسی کارناموں پر بھی انعامات دیے جاتے ہیں کیونکہ کسی سائنسی دریافت سے روئے زمین پر پوری انسانیت فائدہ اٹھاتی ہے۔ اسی طرح ان لیڈروں کو بھی انعامات کا حقدار گردانا جاتا ہے جنہوں نے عالمی سطح پر جنگوں کو روکنے اور امن اور صلح کا کوئی کارنامہ سرانجام دیا ہو۔ سویڈن کے دارالحکومت کا نام سٹاک ہوم(Stock Holm)ہے۔ دسمبر 1901ء میں یہاں سب سے پہلے نوبیل انعام کی روایت کا آغاز کیا گیا۔
قارئین کرام! چودہ سو سال قبل حضرت محمدﷺ کی قائم کردہ اسلامی ریاست کا دارالحکومت مدینہ منورہ تھا۔ آخری الہامی پیغام‘ جس کا نام ''قرآن مجید‘‘ ہے‘ اس میں ایک آیت کا ایک جملہ پوری انسانیت کے لیے کیا پیغام بن کر نازل ہوا‘ ملاحظہ ہو۔ ارشاد فرمایا ''(حقیقی اور ابدی سچائی اس طرح ہے کہ) جو شے انسانوں کو نفع دے زمین میں اسی کو قرار(ٹھہرائو) ملتا ہے‘‘(الرعد: 17)۔ اللہ اللہ! حق تو یہی بنتا ہے۔ عدل و انصاف کا تقاضا تو بہرحال یہی ہے کہ سویڈن میں قرآنِ مجید کے احترام کا خیال کیا جاتا کیونکہ سویڈن نے 13سوسال بعد نوبیل انعام کے لیے جس انسانی ماٹو کو سامنے رکھا‘ قرآنِ مجید اس سے کہیں بہتر سلوگن انسانیت کو عطا فرما چکا ہے۔ امن و امان کے حوالے سے بھی سویڈن کی سرزمین اپنا ایک نام اور مقام رکھتی ہے۔ یہ اچھی شہرت کی حامل ریاست ہے مگر اس کی شہرت کو اس وقت نقصان پہنچنا شروع ہو گیا جب امن کو تباہ کرنے کا ایک شیطانی سلسلہ شروع ہوا۔
جنوری 2023ء میں ایک سویڈش باشندے راسمس پالوڈن نے عدالت سے اجازت نامہ حاصل کر لیا کہ وہ قرآنِ مجید کو(نعوذ باللہ) نذرِ آتش کرنا چاہتا ہے۔ لہٰذا اس کام کے لیے اسے سکیورٹی فراہم کی جائے، عدالت کی جانب سے اجازت کے ساتھ سکیورٹی بھی فراہم کردی گئی۔ ترکیہ کے سفارتخانے کے سامنے اس نے گفتگو کرتے ہوئے میڈیا کو بتایا کہ وہ یہ حرکت اس لیے کر رہا ہے کہ ترکی سویڈن کی راہ میں ایک رکاوٹ ہے‘ سویڈن نیٹو کا ممبر بننا چاہتا ہے اور جب تک نیٹو کے تمام ممبر ممالک راضی نہ ہوں‘ سویڈن کو یہ ممبر شپ نہیں مل سکتی لہٰذا ترکی جو سویڈن کی نیٹو میں شمولیت کی مخالفت کرتا ہے‘ اس کا بدلہ وہ (نعوذ باللہ) مسلمانوں کی مقدس کتاب کو نذرِ آتش کرکے لے گا۔ ساتھ ہی اس نے لائٹر نکالا اور ایک مذموم حرکت کا ارتکاب کر ڈاا۔ افسوس اور گہرے غم کی بات یہ ہے کہ سویڈن کی عدالت نے اس تمام عمل کی اجازت دی اور حکومت نے سکیورٹی کا بندوبست کیا۔ اظہارِ رائے کی آزادی کے نام پر ایک جرم اور فساد کی بنیاد رکھ دی گئی۔ ترکیہ کے ساتھ سویڈن کا مسئلہ سیاسی ہے جبکہ دکھ دیا گیا تو دنیا کے ڈیڑھ‘ دو ارب مسلمانوں ہی کو نہیں بلکہ دوسرے مذاہب کے کروڑوں انصاف پسند اور امن پسند لوگوں کو بھی دکھ دیا گیا۔ مسئلہ تو صرف ترکیہ کی حکومت کے ساتھ ہے۔ترک عوام کے ساتھ تو کوئی مسئلہ نہیں تھا‘ پھر ترکیہ کے مسلمانوں کو کیوں دکھ دیا گیا؟ سویڈش حکومت سے بھی سوال ہے کہ اس نے آخر اپنے ملک کی سرزمین پر ایسی بلاجواز بداخلاقی اور فتنہ پروری کی اجازت کیوں دی؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو سویڈش عدلیہ اور انتظامیہ کا پیچھا کرتا رہے گا جب تک کہ وہ اپنے اس مذموم عمل اور فکر کا مداوا نہیں کرتے۔
دوسرا واقعہ 28جون کو اس وقت کیا گیا جب سویڈن کے مسلمان عیدالاضحی کی نماز ادا کر رہے تھے۔ مسلمانوں کے لیے یہ انتہائی خوشی اور مسرت کا تہوار ہے۔ اس بار ایسا کرنے والا ایک عراقی باشندہ ہے جس نے سویڈن میں پناہ کی درخواست دے رکھی ہے۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ ایسی مذموم حرکت کرنے سے مسلمان اسے جان سے مارنے کی دھمکی دیں گے لہٰذا وہ یہ کہہ سکے گا کہ دنیا بھر میں مسلمان اس کی جان کے درپے ہیں لہٰذا اسے سویڈن میں رہائشی اجازت نامہ بھی دیا جائے اور سکیورٹی بھی مہیا کی جائے۔ سویڈن کی عدالت نے اسے بھی (نعوذ باللہ) قرآنِ مجید کو جلانے کی اجازت دے دی اور سکیورٹی بھی مہیا کر دی۔ یہ کیسی فریڈم آف سپیچ ہے کہ ایک شخص‘ جو ابھی سویڈن کا شہری بھی نہیں‘ وہ محض شہریت کے حصول کے لیے سویڈن کے لاکھوں مسلمان شہریوں سمیت دنیا کے اربوں مسلمانوں کی دل آزاری کرتا ہے۔ ان کے خوشی کے تہوار کو تہس نہس کر دیتا ہے اور سویڈن کی عدلیہ اور انتظامیہ ایسا کرنے کی اسے اجازت دیتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ قرآنِ مجید کی توہین کرنے کی حوصلہ افزائی سرکاری سطح پر کی جا رہی ہے اور اس سوچ کو بڑھاوا دیا جا رہا ہے کہ جو بھی کسی یورپی ملک میں پناہ حاصل کرنا چاہے‘ وہ (نعوذ باللہ) اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب کو نشانہ بنا لے اور اس کی توہین کرتا پھرے؟ کیسی گھٹیا سوچ ہے یہ سویڈن کی حکمرانی کی۔
اب ہم ایک مسلمان کی بات کرتے ہیں جو سویڈن میں ہی پیدا ہوا ہے۔ یہ خود تو سویڈش ہے‘ اس کے ماں باپ شام سے سویڈن میں آکر آباد ہوئے تھے۔ اس نے سویڈن میں ایک منفرد اور مومنانہ کردار ادا کیا ہے‘ اس کے کردار کا ذکر کچھ بعد میں... آیئے! پہلے ہم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ایک پیش گوئی کا ذکر کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب حضرت محمدﷺ کے مبارک اور پاک دل پر نازل ہوئی‘ مدینہ منورہ کی فضائوں میں صحابہ کرام ؓ اسے سنتے ہیں۔ ارشادِ ربانی ہے ''یاد کرو وہ وقت جب مریم کے بیٹے عیسیٰ نے کہا: اے اسرائیل (یعقوب علیہ السلام ) کی اولاد۔ شک کی کوئی گنجائش نہیں( کہ شیر خوارگی میں اپنی نبوت اور ماں کی پاکدامنی کا اعلان کر چکا ہوں) میں تمہاری جانب اللہ کا رسول بن کر آیا ہوں۔ تورات کی تصدیق کرنے والا ہوں اور اپنے بعد ایک ایسے رسول کے آنے کی خوشخبری دینے آیا ہوں جن کا نام احمد ہوگا‘‘(الصف6:)
قارئین کرام! انجیل برناباس میں ہمارے حضورﷺ کا واضح نام حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے محمد اور احمد لیا ہے (ﷺ)،جبکہ دوسری انجیلوں میں جو یونانی زبان میں ہیں وہاں ''قارقلیط‘‘ کا لفظ ہے جس کا ترجمہ ''احمد‘‘ بنتا ہے۔ قارئین کرام!ہم جس شامی نوجوان کی بات کر رہے تھے‘ اس کے والدین نے اپنے بیٹے کا نام ''احمد ‘‘رکھا‘ حضور کریمﷺ کے مبارک نام پراپنے بیٹے کا نام رکھا۔ کسے معلوم تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نام لیوائوں کے دیس سویڈن میں احمد اولوش اٹھے گا اور ایک ایسا یاد گار کردار ادا کرے گا جو اللہ کی زمین پر بسنے والے آٹھ ارب انسانوں میں سے کسی کے ذہن میں نہ ہوگا مگر سب احمد کی تعریف کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ اللہ کی قسم ! اس نے اللہ کی کتاب کے تحفظ کا حق ادا کردیا۔حضورﷺ کے اس مبارک نام کی لاج رکھ لی کہ جو نام حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ہمارے حضورﷺ کا لیا تھا۔ حضور کریمﷺ نے خود آگاہ فرمایا: زمین پر میرا نام محمد ہے، آسمان میں احمد ہے۔ (محمد کا مطلب ہے زمین پر سب سے بڑھ کر جس کی تعریف کی جائے اور احمد کا مطلب ہے کہ جو اپنے رب کی سب سے زیادہ تعریف کرے)۔ نیز فرمایا: قیامت کے دن سب سے بڑھ کر میں اپنے رب کی حمد کرکے اللہ تعالیٰ کے غصے کو ٹھنڈا کروں گا۔ اسی لحاظ سے وہاں حضور کریمﷺ کا نام احمد ہوگا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے چونکہ آسمان پر چلے جانا تھا‘ اس لیے انہوں نے حضور کریمﷺ کا آسمانی نام ''احمد‘‘ لیا۔
23سالہ احمد اولوش سویڈش عدالت میں گیا۔ کہا کہ میں تورات اور انجیل کو جلانا چاہتا ہوں‘ اجازت دی جائے۔ اجازت نامہ مل گیا،سکیورٹی بھی فراہم کردی گئی۔14جولائی کو سٹاک ہوم میں اسرائیلی سفارتخانے کے سامنے ان مقدس کتب کو جلانے کا اعلان ہو گیا۔ اسرائیلی صدر اسحاق ہرزوگ (Isaac Herzog)نے پریس کانفرنس کی اور اس واقعے کو روکنے کا مطالبہ کیا، ساتھ ہی تورات کو جلانے کے اعلان کی مذمت بھی کی۔ سارا جہان سکتے میں آ گیا۔احمد اولوش مقررہ تاریخ کو مقررہ مقام پر پہنچا‘ اس کے پاس قرآنِ مجید بھی تھا‘ تورات بھی تھی اور انجیل مقدس بھی تھی۔ سامنے ساری دنیا کا میڈیا موجود تھا۔ اس نے جیب سے لائٹر نکالا۔ بین الاقوامی میڈیا نے اس منظر کو فوکس کیا تواس نے لائٹر کو غصے سے دور پھینک دیا اور کہا: مذہبی کتابوں کو جلانے سے ہم جنگوں کی طرف جائیں گے‘ سویڈن کی زمین پر فساد برپا ہو گا۔ ہم امن چاہتے ہیں۔ کسی مقدس کتاب کو نہیں جلانا چاہتے۔ کسی کی مقدس کتاب کو آگ لگانا فریڈم آف سپیچ نہیں ہے۔ آپ اسلام کے کسی پہلو پر علمی تنقید کر سکتے ہیں‘ ہم اس کا علمی جواب دیں گے مگر مقدس چیزوں کو آگ نہیں لگا سکتے‘ اس سے زمین پر آگ لگے گی۔ ہم اس آگ کو بجھائیں گے۔ وہ لوگ جو مجھ سے ناراض تھے کہ میں آگ لگائوں گا‘ آج وہ مجھ سے خوش ہوں گے۔ سویڈش چینل SVTکے مطابق‘ احمد نے کہا: میں مسلم ہوں‘ میں آگ نہیں بھڑکائوں گا بلکہ اسے بجھائوں گا۔
اسرائیلی اخبار '' دی ٹائمز آف اسرائیل‘‘ نے لکھا: ایک مسلمان نوجوان احمد نے اجازت کے بعد بھی تورات اور انجیل کو نہ جلایا‘ بلکہ اس نے قرآن کو جلانے کا لاجواب کر دینے والا جواب دیا ہے۔ سویڈن میں لگ بھگ 20ہزار یہودی آباد ہیں‘ اس نے ان سب کے دلوں کو جیت لیا۔ ''دی نیوز انٹرنیشنل آف سویڈن‘‘ اور دنیا بھر کے میڈیا نے احمد کے اس فعل کو ایک سلوگن بنا کر نمایاں کیا کہ ''He threw lighter to the Ground‘‘۔ اس نے آگ لگانے والا لائٹرکو پرے پھینک دیا۔ ''دی میڈیا لائن‘‘ نے لکھا: سویڈن کا یہ احمد نامی نوجوان تمام مذاہب کے احترام کا نمائندہ ہے۔ (Advocates for religious respect)۔احمد کی دانشمندانہ فراست کا رزلٹ یہ نکلا ہے کہ سویڈن میں ایک سروے کرایا گیا تو بھاری اکثریت نے فیصلہ دیا کہ الہامی کتابوں کو جلانے پر پابندی کا قانون لازم ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم تمام اہلِ اسلام، اہلِ پاکستان اور اہلِ زمین کو احمد اولوش جیسی دانش اور فراست عطا فرمائے، آمین!