اللہ تعالیٰ نے انسان کو مٹی سے پیدا فرمایا۔ مٹی میں بہت سارے عناصر ہیں۔ آج کے جدید سائنسی انکشافات کے زمانے میں کوئی ڈیڑھ سو کے قریب عناصر مٹی میں دریافت ہو چکے ہیں، مزید کتنی تعداد میں ہیں‘ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتے ہیں؛ تاہم انسانی انکشافات کی سائنس جوں جوں آگے بڑھتی جائے گی مزید عناصر اور ان کی خصوصیات سامنے آتی چلی جائیں گی۔ خوش کن اور دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ جتنے عناصر دریافت ہو چکے ہیں وہ سارے کے سارے انسانی جسم میں موجود ہیں۔ ان میں سب سے اہم عنصر ''کاربن‘‘ ہے، دوسرے نمبر پر اہم ترین عنصر ''سلیکان‘‘ہے جو انسانی وجود کا حصہ ہے۔ ہماری آئی ٹی یعنی کمپیوٹر کی تمام تر ترقی کا راز اسی ''سلیکان‘‘ عنصر سے ہے۔
امریکہ کی ''نیشنل لائبریری آف میڈیسن‘‘ اور ''نیشنل سنٹر فاربیالوجی انفارمیشن‘‘ نے اپنی تحقیق اور گہری ریسرچ کے حوالے سے لکھا ہے کہ :
Silicon is s naturally occurring mineral- it is the Second most abundant element on Earth after oxygen.
سلیکان ایک قدرتی معدنیات ہے جو آکسیجن کے بعد دوسرا ایسا وافر ترین عنصر ہے جو زمین پرپایا جاتا ہے۔
آکسیجن سے ہم سانس لیتے ہیں۔ ہماری زمین اور اس کی فضا اس سے بھری پڑی ہے۔ سمندروں میں یہ موجود ہے۔ ہر جاندار کی زندگی اور بقا کے لیے یہ ضروری ہے۔ یہ نہیں ہے تو ہر جانب موت ہی موت ہے۔ یہی حال سلیکان کا ہے۔ سمندروں کی تہوں میں یہ موجود ہے۔ یہ ریت میں پائی جاتی ہے اور ریت پہاڑوں سے آتی ہے۔ یہ پہاڑ سمندروں کی تہہ میں بھی موجود ہیں۔ زمین کے خشک حصے پر پہاڑ موجود ہیں۔ بے شمار ہیں، بڑے بڑے ہیں۔ بارشوں کی وجہ سے ان پہاڑوں اور ان کی چٹانوں اور پتھروں کی ٹوٹ پھوٹ سے ریت وجود میں آتی ہے۔ یہ بہتے دریائوں سے ہو کر سمندروں کا رخ کرتی ہے۔ یوں سمندروں کے ساحل ریت سے بھرے پڑے ہیں۔ افریقہ کا صحرائے اعظم ریت سے بھرا پڑا ہے۔ سعودی عرب کا صحرا‘ جسے ''الربع الخالی‘‘ کہا جاتا ہے‘ ریت کا ایک چھوٹا سا سمندر ہے۔ باقی ملکوں میں بھی صحرا ہیں۔ پاکستان میں چولستان کا صحرا ہے اور اسی سے ملحق صحرائے تھر ہے‘ جو بہت بڑا ہے۔ زمین کی سطح سے تھوڑا نیچے جائیں تو ریت ہی ریت ہے یعنی جس طرح آکسیجن وافر ہے اسی طرح ریت بھی وافر ہے۔ جتناسیمنٹ ہے‘ اس میں بھی ریت موجود ہے۔ سیمنٹ‘ ریت اور بجری کو ملایا جاتا ہے تو اسی مواد سے سڑکیں اور عمارتیں بنتی ہیں۔ عمارتوں کے بلاکس اور اینٹیں بنتی ہیں۔ اسی سے ٹائلیں اور سرامکس کا سامان بنتا ہے ۔ گھروں میں پتھروں کی زیبائش کا تعلق بھی اسی سے ہے۔ خوبصورت اور ملائم فرش بھی اسی کے بنے ہوتے ہیں۔ اے انسان تیرے وجود میں بھی یہی سلیکان ہے جس کے عجائبات لاتعداد ہیں۔
ہر انسان کے جسم میں سلیکان کی مقدار سات گرام ہے۔ ہڈیوں کی بناوٹ میں اس کا اہم کردار ہے۔ ہڈیوں کے ساتھ جو اعصابی نظام ہے‘ اس میں بھی اہم ترین کردار سلیکان کا ہے۔ ہڈیاں ٹوٹ جائیں تو خوراک اور ادویات میں سلیکان کا استعمال کیا جاتا ہے۔ ناخنوں، بالوں اور جلد میں بھی سلیکان ہی بھاگ دوڑ رہی ہے۔ چاول، ٹماٹر اور جو (Barley) وغیرہ سمیت سبزیوں میں بھی ہمیں سلیکان کھانے کو مل جاتا ہے۔ دنیا بھر میں ہر سال 18کروڑ لوگوں کی ہڈیاں کسی نہ کسی وجہ سے ٹوٹ جاتی ہیں لہٰذا سلیکان کی حامل خوراک اور ادویات اس صورت میں شفایابی میں نمایاں کردار ادا کرتی ہیں۔
امریکہ کی ریاست سان فرانسسکو میں کیلیفورنیا ریجن میں سمندر کے ساحل پر ''سلیکان ویلی‘‘ دنیا بھر میں مشہور ہے ، اسے دنیا بھر میں آئی ٹی ٹیکنالوجی کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ یہیں سے آئی ٹی ٹیکنالوجی دنیا بھر میں پھیلی ہے۔ کمپیوٹروں اور موبائلوں کے پرزہ جات اور چِپس میں بھی سلیکان استعمال ہوتا ہے۔ روبوٹس میں سلیکان ہے۔ الیکٹرانک گاڑیوں میں سلیکان ہے جس سے وہ ڈرائیور کے بغیر خود چلنے لگی ہیں۔ ڈرون ٹیکنالوجی میں بھی سلیکان ہے۔سپیس ٹیکنالوجی میں بھی سلیکان کا عمل دخل ہے۔ اللہ اللہ! بنیادی طور پر یہ سب کچھ ریت (sand) سے بن رہا ہے۔
قارئین کرام! اللہ تعالیٰ نے پتھروں اور ان کے ریتلے اجزا کو گوشت میں بدل کر انسان بنایا‘ اس کا دل بنایا جسے سینے کی ہڈیوں میں محفوظ جگہ پر رکھا۔ دماغ کو سر کی کھوپڑی والی مضبوط ہڈی کے اندر محفوظ جگہ پر رکھا۔ دماغ کو انتہائی نرم بنایا، مگر آہ! کہ چند روزہ مفاد کی خاطر یہ اس قدر پتھر بن جاتا ہے کہ اپنے خالق کی بنائی ہوئی نرمی ہی کو نظرانداز کر دیتا ہے۔ اس قدر سخت کہ اس دماغ کی سوچیں بھی پتھر بن جاتی ہیں۔ انسان کے دل کا گداز بھی خشک ریت بن جاتا ہے۔ وہ ہوا کا جھکڑ بن جاتا ہے۔ اس جھکڑ میں یہ اندھا ہو جاتا ہے اور ظلم کی انتہا کر ڈالتا ہے۔
دس محرم الحرام کو گزرے ہفتہ ہونے کو ہے۔ یہ دن اہلِ بیت عظام کے مصائب کے دن ہیں۔ کربلا کے ریگستان میں میرے حضورﷺ کے گلشن کے ایک پھول کو‘ جن کا نام حضرت امام حسین ؓ ہے‘ تکالیف اور مصائب کے ساتھ دشمن کے لشکر نے گھیر لیا ہے۔ یہ 61ھ کا دس محرم الحرام ہے، دمشق میں یزید تخت نشین ہے اور عراق میں اس کا گورنر ابن زیاد ہے۔ دونوں کی فوج نے کربلا کے میدان کو کرب اور بلا کا میدان بنا دیا ہے۔ حضرت امام حسین ؓ پر حملہ آور لشکر کلمہ پڑھنے والا ہے‘ اس رسول کریمﷺ کا کہ جن کی گود میں حضورﷺ کی چچی یعنی زوجہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے ننھے حسینؓ کو رکھا۔ لبابہ بنت حارثؓ‘ جن کی کنیت ام الفضل تھی‘ نے اس سے قبل رسول کریمﷺ کو اپنا خواب سنایا تھا کہ میں نے دیکھا ہے کہ آپﷺ کے جسم کا ایک ٹکڑا میرے گھر میں آ گیا ہے۔ اس پر آپﷺ نے فرمایا: تم نے بہت اچھا خواب دیکھا ہے، اللہ فاطمہؓ کو بیٹا عطا کرے گا اور تمہارا اس سے رضاعت کا رشتہ ہو گا۔ پھر ایک بار نبی کریمﷺ کی گود میں بیٹھے ننھے حسینؓ کو کسی بات پر چچی نے (پیار سے) کندھے پر ہلکی سی چپت ماری تو وہ رونے لگے، اس پر نبی کریمﷺ نے اپنی چچی ام الفضلؓ سے کہا: اللہ آپ پر رحم فرمائے‘ آپ نے میرے بیٹے کو درد دیا ہے۔ (سنن ابن ماجہ: 3923)
نبی کریمﷺ کے ایسے لاڈلے بیٹے کو ظالموں نے کربلا کے ریگستان میں گھیرا ہوا ہے۔ بچے شہید ہو رہے ہیں‘ ہر طرف پیاس کی صدائیں ہیں،خلافت راشدہ کے سسٹم کو‘ شوریٰ اور مشورے کے جمہوری نظام کو ختم کرنے والی یزیدی حکومت اپنی بادشاہت کو پختہ کرنے کے لیے حضرت امام حسین ؓ اور ان کے خاندان پر چڑھ دوڑی ہے۔ حضرت امام حسین ؓ کا بس اسی قدر جرم ہے کہ وہ نانا جان کے دین کی اس گاڑی کو‘ جو ٹریک سے اتر چکی ہے‘ واپس درست اور ہموار ٹریک پر چڑھانا چاہتے ہیں۔ وہ تو جنت میں جوانوں کے سردار ہیں‘ اللہ کے آخری رسولﷺ نے خود انہیں بشارت دے رکھی ہے‘ چھوٹی سی زمین کے انتہائی چھوٹے سے علاقے کی حکمرانی ان کا مقصد نہیں تھا۔ جو اس حکمرانی کو مقصد سمجھتے ہیں وہ یقینا بڑے ظالم لوگ ہیں۔ الزام لگانے والے بدظن لوگ ہیں۔
حضور نبی کریمﷺ نے سیدنا حسن و حسین رضی اللہ عنہماکو اپنے گلشن کا پھول قرار دیا۔ جی ہاں! ان سے حضورﷺ کو خوشبو آتی تھی۔ میرے نبی کریمﷺ نے فرمایا: حسن اور حسین (رضی اللہ عنہما) دنیا میں میرے دو پھول ہیں۔ (صحیح بخاری: 3753) ۔ ایک جگہ فرمایا: یہ دونوں (حسن اور حسین رضی اللہ عنہما) میرے بیٹے اور میرے نواسے ہیں، اے اللہ! میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں، تو بھی اس سے محبت کر اور اُس سے بھی محبت کر جو ان سے محبت کرے۔ (جامع ترمذی: 3769، سندہٗ حسن)
ان ظالموں نے ایک پھول کو زہر دے کر شہید کر دیا اور دوسرے کو کربلا کے تپتے ریگستان میں مسل دیا۔ سیدنا حسینؓ کے سر مبارک کہ جسے حضور نبی کریمﷺ چومتے تھے‘ رخساروں اور ہونٹوں کو بوسہ دیتے تھے‘ اس کی بے حرمتی کی گئی۔ ان ظالموں کی قوتِ شامہ اس قدر مر گئی ہے کہ ان کے نتھنوں کو یزیدی اور ابن زیادی ظلم کی بدبو تک نہیں آتی۔ یہ کیسے لوگ ہیں کہ حضور نبی کریمﷺ کے گلشن کے پھول کی بات بھی کرتے ہیں مگر ساتھ ہی یزیدی ظلم کو اس قدر ہلکا اور غیراہم کر دیتے ہیں۔ حضور نبی کریمﷺ کے پھول حضرت امام حسینؓ کے جسدِ خاکی کو پہلے تپتے ریگستان پر گھوڑوں کے ٹاپوں سے مسلا گیا‘ پھر سر تن سے جدا کیا گیا۔ لوگو! پتھر دلی کی انتہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ کیوں کیا گیاتھا؟ظلم اور شقاوت کی منڈی میں اس کا کیا جواز تھا؟ سیدنا حسینؓ کا سر مبارک اور جسم مبارک یعنی میرے حضور نبی کریمﷺ کے پھول کے دو حصے الگ الگ مدفون ہیں۔ اس پر علمیت اور فقاہت کلام کیوں نہیں کرتی؟ غم اور سب سے بڑا دکھ ہمیں یہی ہے‘ یہی ہے۔