اللہ تعالیٰ ڈاکٹر فرید احمد پراچہ پر اپنی رحمتوں کا پرنالہ انڈیلتا رہے‘ ان کی ایک تازہ کتاب علامہ عبدالستار عاصم کے ذریعے مجھ تک پہنچی۔ سرورق پر نظر پڑی تو نام تھا ''میرے رہنما‘ میر ہمنوا‘‘۔ ٹائٹل پر 14 رہنمائوں کی تصاویر کو دیکھا‘ سب سے اوپر دو رہنما تھے۔ یہ سید مودودی اور ڈاکٹر عبدالقدیر تھے۔ سید ابوالاعلی مودودیؒ کو بیسیویں صدی کا مجدد کہا گیا تو ڈاکٹر عبدالقدیر خانؒ کو عالم اسلام کا پہلا ایسا سائنسدان قرار دیا گیا کہ جنہوں نے یورینیم کے ایٹم کا دل چیر کر رکھ دیا۔ مولانا مودودی نے جدید دنیا کے اذہان کو علمی موتیوں سے منور کیا‘ ایمان کی روشنی سے دلوں کو ضیا پاش بنایا تو ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے یورینیم کے ذرے کا سینہ چیر کر پاکستان کے سر پر ایٹمی طاقت کا تاج سجا ڈالا۔ ان دونوں تصویروں کے پیغام نے‘ کہ دونوں یکجا تھیں‘ مجھے فرید پراچہ صاحب کے ساتھ ہمدم اور یکجا کر دیا۔ فرید پراچہ صاحب کی خوش قسمتی کا علم ان کی کتاب پڑھ کر ہوا کہ ذیلدار پارک اچھرہ سے جماعت اسلامی منصورہ میں قیام پذیر ہوئی تو پراچہ صاحب ذیلدار پارک کی مسجد میں امام بن گئے‘ یوں سید مودودی‘ جو فرید پراچہ کے رہنما تھے‘ وہ نماز میں ان کے مقتدی بن گئے۔ اسی طرح ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے جنازے سے فرید پراچہ لیٹ ہوئے تو دوسری نمازِ جنازہ کے امام بن گئے۔
مولانا سید مودودی اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی مجلسوں میں ایک ایک بار ان کے ساتھ بیٹھنے اور ان کی گفتگو سننے کا موقع مجھے بھی ملا۔ کتاب کے اندر ہمنوائوں کی کثرت ہے۔ اس کثرت میں پراچہ صاحب نے مجھے بھی ہمنوا بنایا ہے۔ اسی ہمنوائی کی خاطر‘ ان کی دعوت پر لبیک کہا اور تقریب رونمائی کے ایک مقرر کی حیثیت سے منصورہ جا پہنچا۔ تمہیدی گفتگو کے بعد کالم کا آغاز کرنے جا رہا ہوں تو دو جہانوں کی اس عظیم ہستی کی سیرت پاک کے ایک واقعے سے کہ اے کاش! ہم نے اس واقعے کو رہنما بنایا ہوتا تو نجانے کتنے سید مودودی بنتے اور نجانے کس کثرت کے ساتھ ڈاکٹر عبدالقدیر بنتے۔
حضرت فضیلۃ الشیخ ناصر الدین البانیؒ ''صحیح ابن حبان‘‘ سے ایک حدیث لائے ہیں جسے حضرت عطا نے روایت کیا ہے وہ اپنے ایک ساتھی کے ساتھ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کی خدمت میں حصولِ علم کی خاطر حاضر ہوئے۔ کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے ام المومنینؓ کی خدمت میں عرض کیا کہ ہمیں حضور کریمﷺ کے بارے میں کوئی ایسی حدیث سنائیے جسے آپ نے دیکھا ہو اور وہ انتہائی حیران کر دینے والی اور انوکھی بات ہو۔ اماں جان حضرت سیدہ عائشہ صدیقہؓ نے یہ سنا تو رونے لگ گئیں اور پھر حضور کریمﷺ کے بارے میں فرمانے لگیں کہ راتوں میں ایک رات تھی‘ حضورﷺ (سونے کے بعد پچھلی رات) اٹھ بیٹھے‘ مجھے مخاطب کرکے فرمانے لگے: اے عائشہ! مجھے ذرا چھوڑ دو تاکہ میں اپنے رب کی عبادت کر لوں۔ میں نے عرض کی: اللہ کی قسم مجھے آپﷺ کا قرب انتہائی محبوب ہے اور جو آپ کو خوش کرے‘ مجھے وہ عمل بھی محبوب ہے۔ اب آپﷺ کھڑے ہوئے‘ وضو کیا‘ نماز پڑھنے لگے اور رونے لگ گئے۔ اس قدر لگاتار روئے کہ آپﷺ کی داڑھی مبارک اور سینہ مبارک بھیگ گیا۔ اس کے بعد پھر اس قدر روئے کہ زمین بھیگ گئی۔ اب حضرت بلالؓ فجر کی اذان کہنے کی اجازت لینے آ گئے۔ انہوں نے جب آپﷺ کو روتے دیکھا تو عرض کی اے اللہ کے رسولﷺ! کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کی اگلی پچھلی سب خطائیں معاف نہیں فرما دیں؟ اس پر حضورﷺ نے جواب دیا: کیا میں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں۔ آج رات مجھ پر کچھ آیات نازل ہوئی ہیں‘ بربادی ہے اس شخص کے لیے کہ جس نے ان آیات کو پڑھا اور پھر غور و فکر بھی نہیں کیا‘‘۔ (سلسلہ الاحادیث صحیحہ للبانی: 68)
آیات جو نازل ہوئیں‘ ان کا ترجمہ ملاحظہ ہو! ''بلاشبہ آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں رات اور دن کے آنے جانے میں عقل والوں کے لیے یقینا بہت سی نشانیاں ہیں‘‘۔ یہ (عقل والے سائنسی نشانات اور انکشافات) دیکھتے ہیں تو کھڑے بیٹھے اور لیٹے (ہر حال میں) اللہ کا ذکر کرتے رہتے ہیں۔ آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں غور و فکر کرتے ہوئے دعا کرتے ہیں: اے ہمارے رب! آپ نے یہ سب کچھ بے مقصد نہیں پیدا فرمایا۔ آپ (ایسی سوچ کہ یہ سب کچھ خود بخود بن گیا ہے‘ یعنی یہ بے مقصد) سے پاک ہیں لہٰذا ہمیں آگ کے عذاب سے بچا لیں۔ ہمارے رب!آپ نے جس بندے کو جہنم میں داخل کر دیا‘ اسے ذلیل کر دیا۔ اور ظالموں کا کوئی مددگار نہ ہوگا‘‘ (آل عمران: 190 تا 192)۔
جی ہاں! جو لوگ قرآن مجید کے دیے ہوئے سائنسی اندازِ فکر کو نہ اپنائیں‘ حضورﷺ کی امت کے لیے خدمات انجام نہ دیں‘ انسانیت کی بہتری کیلئے کارہائے نمایاں انجام نہ دیں‘ ہمارے حضورﷺ ایسے شخص کے لیے بربادی کی خبر سنا رہے ہیں۔ دنیا میں بھی بربادی ہے اور آخرت میں بھی بربادی ہے۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان پندرہ سال ہالینڈ اور بلجیم میں پڑھ کر آئے۔ پراچہ صاحب لکھتے ہیں کہ اس کے بعد انہوں نے وطن عزیز کو ایٹمی پاور بنایا۔ تقریب میں محترم جاوید ہاشمی صاحب نے کہا کہ میں نے حضرت سید مودودیؒ کی کتاب ''خلافت و ملوکیت‘‘ پڑھی تو تب پتا چلا کہ اسلام کا سیاسی نظام کیا ہے۔ اس سے میرے دل میں سید کی علمی بصیرت کی دھاک بیٹھ گئی۔ میرا سوال اپنی گفتگو میں یہ تھا کہ سید نے جو لکھا‘ انتقالِ اقتدار کے اس جمہوری اور شورائی نظام کو اپنی جماعت کا نظام بنا دیا۔ باقی جمہوری سیاسی جماعتوں میں یہ نظام کیوں نہیں؟ اسی طرح یورپ میں جب سائنسی علم کی بنیاد پر ایجادات اپنا لوہا منوا رہی تھیں تو ہم اہل اسلام کہاں تھے کہ جن کے عظیم رسول حضرت محمدﷺ نے واضح بتا دیا تھا کہ جو سائنس کے علم کے مطابق غور و فکر کرکے آگے نہ بڑھے گا‘ وہ برباد ہو جائے گا... جی ہاں! پھر ہم اہلِ اسلام بربادی کی جانب گامزن نہیں ہوئے؟ دنیا بھر کی اہم یونیورسٹیوں میں ایجادات ہوتی ہیں‘ ہماری یونیورسٹیاں ان سے تہی دامن کیوں ہیں؟
آج کا دور کمپیوٹر سائنس کا دور ہے۔ پاکستان بننے سے پانچ سال قبل یعنی 1943ء میں مسٹر وارن اور مسٹر والٹر نے انسانی دماغ کا نقشہ بنا دیا تھا‘ انسانی دماغ میں نیورون جیسا نیٹ ورک بنا کر واضح کر دیا تھا کہ مستقبل میں کیا ہونے جا رہا ہے۔ کیا پاکستان بننے کے بعد ہمارے مدارس میں قرآن مجید کی آیات اور حضورﷺ کی وعید اور انتباہ کو سامنے رکھ کر سائنسی علوم کو نصاب میں پڑھایا گیا؟ بالکل نہیں!
آرٹیفیشل انٹیلی جنس یعنی A.I آج دنیا بدلنے جا رہی ہے، ہم آج بھی اپنی قوم کو ''اے آئی‘‘ کا نام نہیں بتلا سکے‘ اس کی اہمیت اجاگر نہیں کر سکے حالانکہ A.I کا نام 1950ء میں مسٹر ایلان نے رکھ دیا تھا۔ کمپیوٹر کا ٹیسٹ بھی کر لیا تھا جو A.I سے متعلق تھا۔ 1956ء میں سائنسدانوں نے Dartmouth Conference کا انعقاد کرکے کہہ دیا تھا کہ اے آئی کی مضبوط بنیادیں قائم کی جائیں گی۔ 1965ء میں انہوں نے اعلان کر دیا تھا A.I خود کو امپروو کر سکتی ہے۔ اگلے ہی سال 1966ء میں مسٹر جوزف نے ''Eliza‘‘ کا ایسا بورڈ بنا دیا تھا جو جواب دیتا تھا۔ 1969ء میں اس حوالے سے پہلی کتاب لکھ دی گئی جس کا نام Computer Vision and Neural Networks تھا۔ 1975ء میں Meta-Dendral سسٹم بن گیا تھاجو بتاتا تھا کہ یہ کیمیکل کس حد تک مفید ہے۔ 1979ء میں ایسا سسٹم بن گیا جس کی بنیاد ''ایلگورتھم‘‘ پر تھی۔ 1997ء میں IBM کا ''ڈیپ بیلو‘‘ سپرکمپیوٹر بن چکا تھا جس نے بین الاقوامی سطح پر انسانی ٹیم سے شطرنج کا مقابلہ جیتا تھا اور اس واقعے کو مصنوعی ذہانت کی دنیا میں ایک اہم سنگِ میل سمجھا جاتا ہے۔
آج 2023ء میں روبوٹ کے مصنوعی دماغ میں انسانی نیورون کی فیڈنگ شروع کردی گئی ہے۔ اب یہ کہا جا رہا ہے کہ زندگی کے جس شعبے میں A.I نہیں ہو گی‘ وہ شعبہ فارغ ہو جائے گا۔ جی ہاں! ہم کب تک سوئے رہیں گے؟ محترم پراچہ صاحب کی پون صدی کی زندگی میں جو شخص ان کے دماغی نیورون میں گھر کر گیا‘ وہ ان کا رہنما اور ہمنوا بن کر کتاب میں محفوظ رہ گیا۔ محترم سراج الحق‘ امیر جماعت اسلامی اور ڈاکٹر پراچہ صاحب سے گزارش کروں گا‘ دیگر جماعتوں سے بھی عرض کروں گا کہ وطن عزیز کو نئی مہارت دے کر انہیں اپنا ہمنوا بنائیں۔ یہی لوگ مستقبل میں قوم کے رہنما بنیں گے جو وقت کے تقاضوں پر لبیک کہیں گے۔ محترم لیاقت بلوچ، فرید پراچہ اور امیر العظیم‘ یہ سب یونیورسٹیوں سے پڑھ کر قائد بنے ہیں۔ حفیظ اللہ نیازی بھی اس محفل میں موجود تھے‘ وہ بھی علم کی انہی گلیوں سے گزر کر دانش کی باتیں کرتے ہیں۔ علامہ ابتسام الٰہی ظہیر انجینئر ہیں اور محترم مجیب الرحمن شامی نامور صحافی اور تجزیہ کار‘ یہ مقام‘ یہ رتبہ سب علم کی بدولت ہے۔ اب اگر کسی کتاب کو میٹھا پھل لگے گا تو A.I کے ساتھ لگے گا‘ صحافت بھی اگر ہو گی تو اے آئی کے ساتھ ہو گی۔ اسی جدید سائنسی علم سے سب کی رہنمائی اور ہمنوائی ہو گی۔