اللہ تعالیٰ نے برصغیر کے مسلمانوں پر بہت بڑا انعام فرمایا جب 14 اگست 1947ء کو ''لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘ کے کلمہ پر ہمیں ایک علیحدہ اور آزاد وطن عطا فرمایا۔ 14 اگست 2023ء کو تقریبات خوب ہوئیں‘ سب قابلِ تحسین ہیں۔ مجھے مسجد شہدا لاہور کے سائے میں وہ تقریب بھی بہت بھلی اور اچھوتی لگی جس میں خواتین اور بچوں کی کثیر تعداد تھی۔ جنرل (ر) حمید گل مرحوم کی صاحبزادی محترمہ عظمیٰ گل خطاب کر رہی تھیں۔ محترمہ عفت ادریس اور محترمہ بشریٰ امیر سمیت سب کی تقاریر مایوسیوں کو ختم کر رہی تھیں اور وہ چراغ روشن کر رہی تھیں جن کی روشنی میں وطن عزیز کا مستقبل دمک اور چمک کی نوید سنا رہا ہے۔ قرآنِ مجید ہمیں یہی سبق پڑھاتا ہے کہ ''اللہ کی رحمت سے ناامید مت ہونا‘‘۔ حضور نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے ''خوشیوں (امیدوں) کی بات کرو، نفرتیں مت پھیلائو‘‘۔
اے اہلِ وطن! آج کے کالم میں آپ کے سامنے سائنسی اور علمی چراغ رکھنے جا رہا ہوں تاکہ ہم اپنے دیس کو ایک مضبوط بنیاد فراہم کریں جو سائنس اور علم و دانش پر مبنی ہو۔ ہم اپنے پڑوسی چین ہی کو دیکھ لیں وہ ہم سے دو سال بعد آزاد ہوا۔ لاہور میں چین کے قونصل جنرل جناب ژائو شرین نے محترم طیب اعجاز قریشی اور میرے دوت محترم ذکی اعجاز قریشی کو انٹرویو دیتے ہوئے اس حقیقت کو واضح کیا کہ چین دنیا سے کٹا ہوا ملک تھا‘1971ء میں پاکستان نے ہمارے رابطے امریکہ اور یورپ سے کرائے۔ ہم نے اپنی سخت پالیسی کو نرم کیا۔ نوجوان امریکہ اور یورپ میں جانے لگے، وہاں کی یونیورسٹیوں سے مہارت لے کر چین وطن آئے اور آج چین علم اور سائنس کے شعبوں میں ایک نمایاں مقام رکھتا ہے۔ جی ہاں! ڈاکٹر عبدالقدیر خان مرحوم بھی یورپ کی یونیورسٹیوں سے ہی پلٹے تھے اور پھر علمی اور سائنسی میدان میں ہم نے ایٹمی قوت سے وطنِ عزیز کے دفاع کو ناقابلِ تسخیر بنایا۔ آج ہمارے نوجوان باہر جا رہے ہیں تو مثبت پہلو یہ ہے کہ یہ ریال، درہم، ڈالر، یورو اور پائونڈ وغیرہ پاکستان ہی میں بھیجیں گے۔ ہم اپنے نظام حکومت کو شفاف بنا لیں تو یہی لوگ جب واپس آئیں گے تو علمی ستارے بن کر پاکستان کے افق کو روشنی دیں گے۔ انشاء اللہ!
اس سائنس دان کا نام مائیکل لیون ہے۔ یہ 1969ء میں ماسکو میں پیدا ہوئے۔ ان کی فیملی یہودی تھی جس وجہ سے سوویت دور میں ان پر سختیاں شروع ہو گئیں۔ ادھر امریکہ میں ایک یہودی تنظیم تھی‘ جس کا نام ٹیمپل سینائی (Temple Sinai) تھا۔ مسٹر مائیکل لیون کا باپ‘ جو روس (سوویت یونین) میں کمپیوٹر پروگرامر تھا‘ اس نے فیصلہ کیا کہ روس کو الوداع کہہ دیا جائے؛ چنانچہ اس نے ٹیمپل سینائی کے ذمہ داران سے رابطہ کیا، وہ اس فیملی کو امریکہ کی ریاست Massachusetts کے علاقےLynn میں لے گئی۔ مائیکل لیون‘ جو اپنے باپ کی طرح کمپیوٹر سائنس میں بیچلرز ڈگری رکھتے تھے‘ انہوں نے امریکہ میں جا کر Tuftus Universityسے بیالوجی میں اعلیٰ ڈگری حاصل کی جبکہ Genetics میں ہارورڈ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کر لی۔ اس کے بعد میڈیسن سکول کے ڈیپارٹمنٹ Cell Biology میں Post Doctoral Training حاصل کی۔ مائیکل لیون 2000ء میں انڈیپنڈنٹ نامی ایسی لیب سے وابستہ ہوئے کہ جہاں Bioelectrical Signals کی ریسرچ جاری تھی۔ یہاں Cell باہم معلومات کا تبادلہ کرتے ہیں تاکہ Dynamic Anatomical میں خدمات انجام دے سکیں کہ جب Organsm کو نشو و نما کے دوران کمیونیکیشن کی ضرورت ہوتی ہے۔ مسٹر مائیکل لیون یہاں سے ایک ایسا سائنسی ہیرا بن کر نکلے کہ انہوں نے امریکہ کے نو اعلیٰ ترین علمی اور سائنسی ایوارڈ حاصل کر لیے۔
آئی ٹی کی جدید ترین دنیا مصنوعی ذہانت ہے‘ جسے ''اے آئی‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس کی ڈسکوری‘ جو Xenobots کہلاتی ہے‘ میں مائیکل لیون کا بنیادی اور اہم ترین کردار ہے۔ مسٹر ایلون مسک نے اسی Xenobots سے اپنی کمپنیوں میں ''X‘‘ کے انگریزی حرف کو اپنی پہچان بنایا ہے۔
اسی شعبے میں دوسرے بڑے سائنسدان کا نام مسٹر جوش بونگارڈ (Josh Bongard) ہے۔ ان کا تعلق کینیڈا کی یونیورسٹی Vermont سے ہے۔ یہ کمپیوٹر سائنسدان اور روبوٹس کے جہان کے ماہر ہیں۔ ان کی عمر 49 سال عمر ہے۔ ان کی کتاب How the Body shapes, the way we think بڑی معروف ہے۔ ان دونوں سائنسدانوں نے اپنی ٹیموں کے ہمراہ مینڈک کی کھال اور اس کے دل کے خلیات لیے اور ان پر ریسرچ کی۔ یاد رہے کہ مینڈک کی بہت ساری اقسام ہیں۔ انہوں نے افریقہ کے ایک خاص قسم کے مینڈک کو اپنی ریسرچ کے لیے چنا۔ تجربہ ان کا کامیاب ہو گیا۔ اس تجربے کو اب تیسرا سال ہو گیا ہے۔ موجودہ حالات یعنی 2023ء میں اس ریسرچ کا کام بہت آگے جا چکا ہے۔ یہ دونوں سائنسدان کہتے ہیں کہ کتاب کے صفحات کاغذ کے بنے ہوتے ہیں‘ کاغذ لکڑی سے بنتا ہے۔ اب جو کتاب ہمارے ہاتھوں میں ہے‘ یہ درخت نہیں ہے‘ یہ کتاب ہے۔ اس کی شکل بدل چکی ہے لہٰذا اب تک جو روبوٹ بنتے تھے اور بن رہے ہیں وہ مختلف دھاتوں کے ملاپ سے بن رہے ہیں مگر اب جو بننے جا رہے ہیں ان کی حیثیت اس طرح کی ہے کہ یہ جاندار بھی نہ ہوں اور نہ ہی دھاتی ہوں۔ ایک نئی قسم ہو گی جس میں (بظاہر) زندگی (کی کچھ رمق) ہو گی اس میں پروگرام شدہ Organsm ہوں گے۔ جی ہاں! سائنس کے مختلف شعبوں کو ملا کر مشترکہ ریسرچ اور صنعت سے مستقبل میں ایک ایسا سائنسی انقلاب آنے جا رہا ہے جو عقلوں کو حیران کر دے گا۔
صدرِ پاکستان جناب ڈاکٹر عارف علوی نے دنیا کی اس جدید ٹیکنالوجی کو بھانپتے ہوئے چند ماہ پہلے ایک پروگرام بنایا کہ پاکستان کے نوجوانوں کو اس سے روشناس بھی کرایا جائے اور اس میں مہارت بھی فراہم کی جائے؛ چنانچہ انہوں نے محترم ضیاء اللہ خان کو امریکہ سے بلوایا‘ وہ پاک فوج کے ایک لیفٹیننٹ جنرل کے بیٹے ہیں اور سیالکوٹ سے تعلق رکھتے ہیں۔ امریکہ کی یونیورسٹیوں میں پڑھ کر کمپیوٹر سائنس کے ماہر بن گئے ہیں۔ پاکستان میں علمی ہیروں اور جواہر پاروں کی کمی تو ہے مگر اتنی بھی نہیں کہ ہم ناشکری کریں۔ یہاں معروف بینکار اور ''اے آئی‘‘ اور ڈیجیٹل دنیا کے ماہر جناب خرم صاحب بھی ہیں‘ یہ ان سے مل کر استفادہ کر رہے ہیں اور لوگوں کو بھی اپنے ساتھ ملا رہے ہیں۔ ہزار‘ ہزار لوگوں کی کلاس کو لیکچر دے رہے ہیں۔ یہ سارا کام مفت کر رہے ہیں۔ فی سبیل اللہ! اس علمی جہاد میں ایک نام محترم عرفان ملک کا بھی ہے‘ ان کے ادارے سے پہلے بھی ''X‘‘ لکھا ہوتا ہے۔ میڈیکل شعبے کے معروف سرجن ڈاکٹر جاوید اقبال کی انہیں رہنمائی اور مشاورت حاصل ہے۔ الغرض ایسے لوگ میرے دیس میں نعمت ہیں جو نوجوانوں کو مہارت فراہم کر رہے ہیں۔ وہ کمائیں گے تو پاکستان کو زر مبادلہ ملے گا۔ ایسے لوگ امید کے چراغ ہیں۔ آئیے ہم سب مل کر ان کی قدر کریں۔ ان کے علم سے فائدہ اٹھائیں۔ مجھے محسوس ہوا کہ اس سے وہی فائدہ اٹھا سکے گا جس کے پاس اپنا لیپ ٹاپ ہو گا۔ سابق حکومت نے نوجوانوں میں لیپ ٹاپ بانٹے اور خوب بانٹے۔ میرے دیس کے نونہالوں کے لیے علم اور کمائی کا یہ ایک خزانہ ہے۔
ہزاروں سال قبل سوڈان میں ایک مومن بزرگ تھے جن کا نام لقمان تھا۔ جنابِ لقمان نے اپنے بیٹے کو جو ایمان افروز نصیحتیں کیں‘ قرآن مجید کی سورۂ لقمان میں وہ موجود ہیں۔ اسی سورۃ میں ایک آیت کا ترجمہ ہے ''یہ سب اللہ کی تخلیق ہے؛ چنانچہ مجھے ذرا دکھلائو تو سہی کہ اس اللہ کے علاوہ جو لوگ ہیں انہوں نے کیا پیدا کیا ہے۔ حقیقت بہرحال یہ ہے کہ ( اللہ کی مخلوقات میں عجائبات کے انکشافات دیکھ کر بھی جو لوگ اللہ خالق کو نہیں مانتے) وہ ظالم ہیں اور واضح ترین گمراہی میں سرگرداں ہیں‘‘۔ (لقمان: 11)
مسجد شہداء کے سائے میں جو خواتین اور بچے قرآنِ مجید پڑھ رہے تھے‘ وہ 14 اگست کو 27 رمضان المبارک کا دن بھی یاد کر رہے تھے کہ ہمارا وطن عزیز نزولِ قرآنِ مجید کی رات کو وجود میں آیا تھا۔ پاکستان: زندہ باد!