خالقِ کائنات اللہ رب العزت نے ''ملکی وے‘‘ کہکشاں میں ہم انسانوں کے لیے جو نظامِ شمسی تخلیق فرمایا اس میں دو سیارے ایسے بنائے ہیں جنہیں ''جڑواں سیارے‘‘ کہا جاتا ہے۔ دو بچے جڑواں ہوں تو ان کی شکلیں اور عادات وغیرہ بہت حد تک ایک جیسی ہوتی ہیں۔ زمین اور وینس (زہرہ) دو ایسے سیارے ہیں جن سے متعلق سائنسی طور پر ثابت ہو چکا ہے کہ یہ ایک جیسے ہیں۔ وینس ایسا سیارہ ہے جو چاند سے بڑھ کر روشن ہے۔ اٹلی کے ایک شہر کا نام بھی وینس ہے۔ اسی سیارے کے نام پر یونانیوں نے محبت کی دیوی کا بت تخلیق کیا تھا۔ وینس جب دریافت ہوا تو اس کی ساخت معلوم کرنے کے لیے روس نے یہاں 13 عدد مشن بھیجے۔ سب کا نام VENERA تھا۔ یہاں جو بھی مشن گیا وہ وینس کی جہنم نما حرارت میں پگھل گیا۔ ایک مشن چند منٹ کے لیے باقی رہا اور اس نے کچھ معلومات اور تصاویر بھیجیں۔ اس کے بعد امریکہ اور جاپان نے بھی یہاں 40 عدد خلائی مشن بھیجے۔ 1989ء میں ناسا نے یہاں جو سپیس کرافٹ بھیجا وہ وینس کے گرد بارہ سال تک گھومتا رہا اور معلومات بھیجتا رہا۔ ان سب معلومات کا خلاصہ یہ ہے کہ کروڑوں سال قبل یہ زمین جیسا ہی ایک سیارہ تھا۔ یہاں پہاڑ تھے، دریا تھے، جھیلیں تھیں، سمندر تھے، جنگلات تھے، خوش کن زندگی رواں دواں تھی مگر پھر اچانک وینس کا چاند اس کے ساتھ ٹکرا گیا۔
چاند کے ٹکراتے ہی وینس نے اپنے ہی محور پر الٹا گھومنا شروع کر دیا۔ اب یہاں سورج مشرق کی بجائے مغرب سے طلوع ہونے لگ گیا۔ وینس اپنے مدار پر بھی قائم نہ رہا۔ یہ سورج کے قریب ہوتا چلا گیا۔ قریب ہوتے ہوتے جہاں یہ ٹھہرا وہاں اس کا حال یہ ہو گیا کہ اس کے گرد گاڑھی گیسوں کا ایسا غلاف بن گیا جو اڑھائی سو کلومیٹر موٹا ہے۔ یہاں سورج کی تپش پڑتی ہے مگر وینس میں جذب ہو جاتی ہے‘ واپس نہیں جا سکتی۔ اس عمل سے یہ جہنم کا ٹکڑا بن گیا۔ یہاں ہر وقت آتش فشاں پھٹتے رہتے ہیں، شعلے اگلتی گیسوں کی وجہ سے ہر لمحے تیزاب کی بارش ہوتی رہتی ہے۔ یہاں کا درجہ حرارت 462 ڈگری تک ہے۔ ہر لمحے یہاں طوفان چل رہے ہوتے ہیں اور ان کی رفتار لگ بھگ 360 کلومیٹر فی گھنٹہ ہوتی ہے۔ یوں یہاں حیاتیات (جس بھی قسم کی تھی) کا خاتمہ ہو گیا۔ جنگلات اور سمندر بھی حدت بھڑکانے میں شامل ہو کر اپنے وجود ختم کر بیٹھے۔
قارئین کرام! ہمارے سائنسدان کہتے ہیں کہ زمین کا حشر بھی آخر کار وینس جیسا ہی ہونے والا ہے، یعنی اگر دونوں سیاروں کو جڑواں بھائی قرار دیں تو ایک بھائی اپنے انجام سے دوچار ہو چکا جبکہ دوسرا انجام کی جانب بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ ان دونوں سیاروں کو ''جڑواں بہنیں‘‘ کہا جاتا ہے‘ لہٰذا ایک اپنے حشر سے دوچار ہو چکی جبکہ دوسری بھی اسی سفر پر رواں دواں ہے۔ لوگو! اللہ کے آخری رسولﷺ کا ایک فرمان ہے‘ فرمایا ''اس وقت تک قیامت قائم نہ ہو گی جب تک سورج مغرب سے طلوع نہ ہو گا۔ جب لوگ اس حقیقت کو دیکھ لیں گے تو (اللہ اور آخرت) پر ایمان لے آئیں گے مگر تب کسی شخص کو اس کا ایمان لانا فائدہ نہ دے گا۔ فائدہ اسے ہی ملے گا جو اس نشانی کے ظہور سے قبل ایمان لا چکا ہو گا۔ (بخاری: 4635، مسلم: 157، ابن ماجہ: 4068) جی ہاں! حضور کریمﷺ کے فرمان سے واضح ہو رہا ہے کہ جن لوگوں پر قیامت قائم ہو گی وہ سورج کو مشرق کے بجائے مغرب سے نکلتا دیکھیں گے۔ یوں جب زمین الٹی گردش کرے گی تو زمین کے حالات وینس جیسے شروع ہو جائیں گے۔ میرا ایک سوال ہے کہ تب زمین کا ورثہ کہاں جائے گا۔اس کے عجائبات جن کی حفاظت نیسکو کا ادارہ کرتا ہے‘ وہ کہاں ہوں گے؟ سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ ہمارے کردار بھی اہلِ وینس جیسے تو نہیں ہو چکے۔ تب پھر زمین کے 200 سے زائد ملکوں اور بے شمار جزائر کی تاریخ کہاں ہو گی۔ تمام تر ترقی اور ٹیکنالوجی کے شاہکار کہاں ہوں گے۔ ہر ملک کی پہچان کہاں ہو گی؟ دو سو سے زائد ملکوں کے سربراہان، ان کے خاندان، بہت سارے کھربوں پتی لوگ، ان کے محلات، ان کے ذاتی ہوائی جہاز اڑ کر کہاں جائیں گے؟ تمام دنیا کے ہر ملک کی برّی، بحری اور فضائی افواج کس سے لڑیں گی؟ جنگلوں کے جانور شہروں کا رُخ کریں گے۔ شہروں کے لوگ جنگلوں کو بھاگیں گے مگر ہر جانب سماں ایک جیسا ہوگا۔ آہ! آج انسان دوسرے انسان کے خلاف حسد کی آگ میں جل رہا ہے، اس کی زبان شعلہ بار ہے۔ میں اپنا دیس دیکھتا ہوں تو پولیس پریشر میں آکر ایف آئی آر کاٹتی ہے، پیسہ یہاں سے چلنا شروع ہوتا ہے اور اعلیٰ عدالتوں تک جاتا ہے۔ زبان اشتعال میں آتی ہے تو پارلیمنٹ فٹافٹ بل پاس کرکے قوانین بنا دیتی ہے۔ پھر ان قوانین کے حق میں اور ان کے خلاف مظاہرے شروع ہو جاتے ہیں۔
لوگو! میں اس فکر میں ہوں کہ کچھ ایسا ہی ہمارا حال تھا جب ہلاکو اور چنگیز ہم پر چڑھ دوڑے تھے مگر انسان بھی کیا ہٹ دھرم شے ہے‘ باز ہی نہیں آتا۔ اس کا نفس اسے ملامت کرتا ہے کہ تُو غلط کر رہا ہے، اب تو باز آ جا! مگر وہ شیطانی وسوسے پر کان دھرتا ہے اور ضمیر کو تھپکی دے کر سلا دیتا ہے کہ یہی وقت تو مال اکٹھا کرنے کا ہے۔ یہ وقت ہی بیرونِ ملک محلات بنانے کا ہے مگر وہ یہ نہیں جانتا کہ اسے کہیں بھی پناہ نہیں ملے گی۔
مسٹر والٹر آئزکسن (Walter Isaacson) معروف امریکی صحافی اور مصنف ہیں۔ ان کی کتاب چند دنوں میں شائع ہونے والی ہے۔''سی این این‘‘ نے اس کے چند صفحات شائع کردیے ہیں۔ آگاہ کیا گیا ہے کہ بحرِ اسود میں روس کے سب سے بڑے بحری جہاز پر یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے میزائل حملے کا پروگرام بنایا تھا۔ یہ حملہ بس ہونے ہی والا تھا۔ روسی صدر ولادیمیر پوتن اس بحری جہاز کو روس کی ریڈ لائن پہلے ہی قرار دے چکے تھے کہ اگر یہ نشانہ بنا تو ایٹم بم نجانے کس کس کو نشانہ بنا ڈالیں۔ جناب ایلون مسک نے یوکرین کو سٹار لنک ٹیکنالوجی سے انٹرنیٹ کی مفت سہولت دے رکھی ہے، میزائل وغیرہ انٹرنیٹ سے چلتے ہیں۔ اس پر جناب ایلون مسک نے انٹرنیٹ سروس بند کردی اور یوں یہ میزائل حملہ نہ ہو سکا۔ مسٹر والٹر لکھتے ہیں کہ اگر یوکرین کا یہ حملہ کامیاب ہو جاتا تو ایٹمی جنگ شروع ہو جاتی جو کبھی نہ رک سکتی۔ لوگو! برطانیہ کی رائل نیوی کے جہاز اب ''بلیک سی‘‘ میں جا رہے ہیں یعنی خطرات بڑھتے جا رہے ہیں۔ امریکہ، یورپ اور روس‘ سب خطرے میں ہیں۔ میرا سوال ہے کہ میرے دیس کے لٹیرو! اس کی بوٹیاں تک نوچنے والو! اپنے اس لوٹ کے مال کو کہاں تحفظ دو گے؟ بیوی بچوں کو کون سے سیارے پر لے کر جائو گے؟ اب بھی وقت ہے، خدا کا خوف کرو اور باز آ جائو۔
مولانا انور صاحب‘ جو قرآنِ مجید کے حافظ بھی ہیں‘ ملکی حالات پر گہری نظر رکھتے ہیں، چند دن ہوئے مجھے ملنے آئے۔ میں نے ان سے پوچھا: مولانا صاحب! آپ باخبر آدمی ہیں، کیا حالات چل رہے ہیں؟ کہنے لگے: اگرچہ حالات تشویشناک ہیں مگر امید کا روشن پہلو یہ ہے کہ ڈالر کو سنبھالا دیا جا چکا ہے۔ بجلی چوروں میں کوئی تفریق روا نہیں رکھی جا رہی۔ وہ سیاستدان ہوں یا افسر شاہی کے بلند مرتبہ لوگ‘ سب کو نکیل ڈالی جا رہی ہے۔ سمگلنگ کو بند کردیا گیا ہے، وہ کپڑے کی ہویا آٹو پارٹس کی‘ سب پر چیک لگا دیا گیا ہے۔ منشیات کے بارے میں بھی عدم برداشت کی پالیسی بنا لی گئی ہے۔ سب پر ہاتھ ڈالا جا رہا ہے۔ آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر صاحب نگران حکومت کو ہر قسم کے تعاون اور مدد کی یقین دہانی کرا چکے ہیں۔ اس کے آثار بھی دکھائی دے رہے ہیں۔ میں نے کہا: اگر واقعی ایسی بات ہے تو ہمارا ملک بھنور سے نکل جائے گا،ان شاء اللہ۔
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ بتاتے ہیں کہ ''حضرت عبداللہ بن رواحہؓ (جو جنگ موتہ میں تین سالارِ لشکر میں سے ایک سالار تھے جو شہید ہوئے) وہ ہر سال خیبر کے یہودیوں سے پھلوں اور اجناس کا حساب لگا کر بیت المال کا حصہ وصول کرتے تھے۔ یہود نے اللہ تعالیٰ کے آخری رسولﷺ سے شکوہ کیا کہ عبداللہ بن رواحہ حساب کرنے میں ہم پر سختی کرتے ہیں۔ دوسری جانب انہوں نے حضرت عبداللہؓ کو رشوت کی پیشکش کی( یعنی حساب کم لگائو، کچھ خود کھائو اور ہمیں بھی فائدہ دو اور نقصان سارا مسلمانوں کے بیت المال کا ہو گا)۔ انہوں نے کہا: اللہ کے دشمنو! تم مجھے حرام کھلانا چاہتے ہو؟ پھر کہنے لگے: یاد رکھو! میں اُس عظیم ہستی کی جانب سے آیا ہوں جو سارے جہاں سے بڑھ کر مجھے محبوب ہیں۔ تم لوگوں کو (ایسی ہی حرکتوں کی وجہ سے) بندر اور خنزیر بنایا گیا تھا۔ مگر اس کے باوجود کہ مجھے حضورﷺ کے ساتھ سب سے بڑھ کر محبت ہے اور تمہارے ساتھ( کرپشن کی وجہ سے) نفرت ہے، میں تمہارے ساتھ کوئی ناانصافی نہیں کروں گا۔ اس پر یہودی کہنے لگے: اسی عدل کی وجہ سے آسمان و زمین قائم ہیں‘‘۔ (ابن حبان، ابودائود،سندہٗ حسن)
لوگو! تورات پڑھنے والے بھی جانتے تھے کہ ملکوں اور قوموں کو قرار، استحکام اور دوام ملتا ہے تو بے لاگ عدل سے ملتا ہے۔ اے مولا کریم! اب کی بار ہمارے حکمرانوں کو عدل و انصاف کی خوب خوب توفیق عطا فرما، آمین!