اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ اس کائنات کے بارے میں سائنس دان کہتے ہیں کہ یہ کائنات کامل (Perfect) بھی ہے، مگر ساتھ ہی پیچیدہ (Complex) اور باہم ایک ربط میں بھی ہے یعنی Connect بھی ہے۔ Flickr پہ ایک سائنسی گروپ نے واضح طور پر لکھا کہ:
Universe, Human Brain and Internet have similar structure.
یعنی یہ کائنات، انسانی دماغ اور انٹرنیٹ ایک جیسا ڈھانچہ رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر خلائی دوربین کی لی گئی ایک ایسی تصویر کہ جس میں کروڑوں کہکشائیں دکھائی گئی ہیں‘ اس کے ساتھ انسانی دماغ کے خلیات‘ جو کروڑوں اور اربوں کی تعداد میں ہیں‘ کی تصویر لی گئی، اب ان دونوں تصویروں کو ساتھ رکھ کر سائنس کی دنیا نے ہر انسان کو دعوت دیتے ہوئے یوں مخاطب کیا:
Can you tell which image is of a brain cell and which is of the cosmos? Probably not, though one is only micrometers wide, and the other is billions of light-years across.
''کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ کون سی تصویر دماغی خلیات کی ہے اور کون سی کائنات کی ہے؟ لگتا ہے کہ نہیں بتا سکیں گے۔ اگرچہ ان میں سے ایک تصویر مائیکرو میٹرز کے حساب سے فراخ کی گئی ہے جبکہ دوسری تصویر کھربوں نوری سالوں کی مسافت پر پھیلی ہوئی ہے‘‘۔ قارئین کرام! ان دونوں تصاویر پر غور و فکر کرنے کے بعد ثابت ہو جاتا ہے کہ انسانی دماغ کے نقشے کو بنانے والا اور ساری کائنات کے نقشے کو تخلیق کرنے والا خالق ایک ہی ہے۔ جی ہاں! انسانی دماغ نے انٹرنیٹ کا نقشہ بنایا تو اپنے ہی دماغ کو سامنے رکھ کر نقشہ بنایا یعنی اللہ کے بنائے ہوئے دماغی نقشے کی انسان نے نقل اتار لی، لہٰذا بنیادی چیزیں دو ہی ہیں: انسانی دماغ اور یہ کائنات۔ یہ دونوں ایک جیسے ہیں۔ دونوں کا خالق و مالک اللہ واحد ہے۔ ارشاد گرامی ہے:
''کیا تم نے دیکھا نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری رسائی میں کر دیا ہے ان (اجرام ملکی اور) دیگر چیزوں کو جو آسمانوں اور زمین میں ہیں اور تم پر اپنی ظاہری اور باطنی نعمتوں کو نچھاور کرکے انہیں پورا کر دیا ہے۔ اس کے باوجود لوگوں میں سے ایسے بھی (ہٹ دھرم) ہیں جو اللہ (کے وجود کے) بارے علم، رہنمائی اور کتابِ منیر کے بغیر جھگڑا کرتے رہتے ہیں‘‘ (لقمان:20)۔
قارئین کرام! جیسا کہ آپ نے ملاحظہ کیا کہ اللہ کریم کی آخری الہامی کتاب‘ کتابِ منیر اپنے ماننے والوں کی توجہ خلائی تسخیر کی جانب مبذول کروا رہی ہے۔ خلائی تسخیر کے لیے معاشی تسخیر ضروری ہے۔
محترم قاری عمر جھٹول باخبر دانشور ہیں، نمایاں ہونا بالکل پسند نہیں کرتے۔ میرے انتہائی قریبی احباب میں سے ہیں، مجھے بتا رہے تھے کہ معاشی تسخیر کا عمل اب تیز سے تیز تر ہوتا چلا جائے گا۔ وہ تو تین ماہ پہلے ہی مجھے آگاہ کر چکے تھے۔ بالکل ویسے ہی منظر بنتا چلا جا رہا ہے۔ فرما رہے تھے کہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر صاحب‘ جو اپنی مجالس کا آغاز عموماً تلاوتِ قرآن مجید سے کرتے ہیں‘ معاشی تسخیر پر کسی کے ساتھ کوئی کمپرومائز کرتے دکھائی نہیں دیتے۔ اس لیے کہ اب یہ ہمارے وطن عزیز کی بقا کا مسئلہ ہے۔ ڈالر 40 روپے تک نیچے آ چکا ہے، اڑھائی سو روپے تک آنے کے امکانات واضح ہیں۔ ذخیرہ اندوز ملکی و غیر ملکی کرنسی کے ہوں یا اجناس کے ہوں‘ اب پکڑے جا رہے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف سکیورٹی کے ادارے چوکس ہیں۔ نادرا کے ذریعے جعلی شناختی کارڈ بنوانے والوں کی ایک بڑی تعداد پاکستان کی جعلی شہریت سے اب محروم ہوتی جا رہی ہے، ایسا ہو گیا تو ملک میں جرائم کی شرح میں بھی کمی آئے گی۔
میں نے جھٹول صاحب کی باتوں کو سنا تو کہا: اہلِ پاکستان کو ریلیف دینے کے ساتھ ساتھ میری دلچسپی اس میں ہے کہ پاکستان علمی اور سائنسی میدان میں آگے بڑھے۔ کیا ہی اچھا ہو اگر سپہ سالار اور ہمارے تمام حکمران بدرِ منیر کی تسخیر کا بھی پروگرام بنا لیں۔
ربیع الاوّل کا مبارک اور بہار آفریں مہینہ ہے۔ اس مہینے میں ہمارے حضور کریمﷺ تشریف لائے جن کی انگلی کے اشارے سے چاند دو ٹکڑے ہوا۔ کتابِ منیر کی سورۃ القمر کی پہلی آیت کا پیغام ہے کہ چاند دو ٹکڑے ہو گیا۔ میری تجویز ہے کہ پاکستان کے خلائی ادارے ''سپارکو‘‘ میں ایک مشن لانچ کیا جائے جس کا نام ''کتابِ منیر‘‘ رکھا جائے۔
پیر سید ہارون علی گیلانی صاحب میرے انتہائی محبوب دوست ہیں‘ گیلانی صاحب حضرت میاں میرؒ کی علمی اور روحانی گدی کے وارث ہیں۔ انہوں نے کوئی دس سال قبل خنجراب سے گوادر تک پروگراموں کا ایک سلسلہ شروع کیا تھا۔ اس کا عنوان انہوں نے ''ہم سب پاکستان ہیں‘‘ رکھا۔ میں ان کے متعدد پروگراموں میں شامل ہوا۔ اس سے حب الوطنی کی ایک لہر پیدا ہوئی۔ میں سمجھتا ہوں کہ آج کے جو حالات ہیں‘ ان میں بڑے پیمانے پر ایسی ایک لہر اور موج اٹھانے کی ضرورت ہے جس سے لہریں اور موجیں مزید پیدا ہوں‘ اس قدر کہ ان کی وسعت اور ہمہ گیری سے پاک وطن کی فضا بھر جائے اور ہر جانب سے صدا آئے ''ہم سب پاکستان ہیں‘‘۔ مجھے یاد ہے کہ گلگت میں ہمارا پروگرام انتہائی کامیاب تھا۔ تین دن یہاں قیام رہا، جہاں تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے قائدین موجود تھے وہیں عوام بھی بڑی تعداد میں شریک ہوئے۔ گلگت اور ہنزہ ہی نہیں‘ بلتستان کے لوگ بھی کہتے تھے کہ ہم جب ''سورہ رحمن‘‘ پڑھتے ہیں تو ہمیں یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے اس میں ہمارے علاقے کے پھل، پہاڑ، جھرنے، آبشاریں، چشمے اور پرندے وغیرہ شامل ہیں، ان کا ذکر ہو رہا ہے۔ ان علاقوں میں رنگا رنگ کے نغمے گاتے پرندے بھی ہیں۔ سبز قالین کی طرح بچھے گھاس کے میدان بھی ہیں۔ چوکڑیاں بھرتے ہرن اور ان کی ایک خاص قسم مارخور بھی ہیں۔ میں نے کہا: کیوں نہیں‘ سورہ رحمن میں ساری زمین کا ذکر ہے، نعمتوں کا تذکرہ ہے، ہمارے رب کریم نے کائنات اور اس میں جو شے موجود ہے‘ اسے اس طرح بنایا ہے کہ وہ Perfect بھی ہے اور Complex بھی بلکہ باہم Connect بھی ہے۔ سائنسی دنیا میں ثابت شدہ یہ وہ حقائق ہیں جو بول بول کر دہائیاں دے رہے ہیں کہ ہم سب کا خالق اور مالک ایک اللہ ہے۔
میں نے 'یوٹیوب‘ پر پھلوں کی اقسام دیکھتے ہوئے ایک پھل دیکھا جو ایک بڑے سیب کی جسامت کا حامل تھا یعنی گولائی کے اعتبار سے یہ زمین، چاند اور سورج سے مشابہ ہے۔ اس کا نازک سا چھلکا تھا‘ جس کی سطح ہلکے سیاہ رنگ کی تھی۔ اس پر لاتعداد سفید دھبے تھے‘ اس قدر زیادہ کہ انہوں نے اپنی سفیدی کے ساتھ اس پھل کی سیاہی کو چھپا لیا تھا۔ یہ کچھ ایسے نظر آ رہا تھا جیسے اندھیری رات میں ستارے چمک رہے ہوں۔ جب ایک نمودار ہوتے ہوئے ہاتھ نے چھری کے ساتھ اس کے دو ٹکڑے کیے تو دونوں ٹکڑوں کے گودے کا رس ایسا تھا کہ محسوس ہو رہا تھا کہ یہ ابھی ٹپک پڑے گا، مگر ایسی بات نہ تھی۔ Perfect منظر یہ تھا کہ اس کے اندر کائنات کی وہی تصویر تھی جس کی تصویر کشی اور منظر کشی ناسا نے کی۔ اندھیری رات میں اربوں کہکشائیں اور کھربوں ستارے۔ اللہ اللہ! اس پھل کی جتنی بھی قاشیں کاٹ لی جائیں ہر قاش کے دونوں جانب جیسے کائنات کا نقشہ بنا ہوا ہے۔ جی ہاں! جس رب کریم نے کائنات بنائی‘ اسی نے انسان کا دماغ بنایا اور اسی نے یہ پھل بنایا۔ یہ پھل میں نے اپنے موبائل کی گیلری میں محفوظ کر لیا، ''سورۃ الرحمن‘‘ بتاتی ہے کہ رحمان مولا کریم کی رحمتوں اور نعمتوں کے مناظر سارے جہانوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔
ہم زراعت کے سائنسی علم کی مدد سے یہ پھل گلگت و ہنزہ اور بلتستان و چترال، کوئٹہ اور سندھ، لاہور اور پشاور میں اُگا سکتے ہیں۔ لا الٰہ الا اللہ کا منظر تو سارے جہانوں میں ہے۔ پاکستان اسی کلمے پر ہی تو بنا تھا، لہٰذا آئیے! ہم اپنے پاک وطن کی نعمت پر اپنے اللہ سے عہد باندھیں کہ ''ہم سب پاکستان ہیں‘‘۔