اللہ کے آخری رسول حضور نبی کریمﷺ ''ربیع الاوّل‘‘ کے مہینے میں دنیائے ظہور میں تشریف لائے۔ ربیع کا معنی بہار ہے۔ آپﷺ کی آمد تمام انسانیت کے لیے بہار آفرین ہے۔ مسلمانانِ پاکستان 12 ربیع الاوّل کے حوالے سے سیرتِ مبارکہ کے اپنے محبت بھرے پروگرام ترتیب دے رہے تھے، مگر انہیں کیا خبر کہ دہشت گرد بھی بارہ ربیع الاوّل کو خزاں کا دن بنانے کا مذموم ارادہ کیے بیٹھے تھے؛ چنانچہ اس روز بلوچستان اور صوبہ خیبر پختونخوا میں بیسیوں محبانِ رسول کو شہید کر دیا گیا۔ امن دشمنوں کی کوششیں آج بھی جاری ہیں کہ ان اداروں کو اندر سے نقصان پہنچایا جائے جو پاکستان کی حفاظت کے ضامن ہیں۔ ملکی حفاظت کی ضمانت کو پورا کرنے کا عہد انہوں نے اپنے اللہ سے اور اہلِ پاکستان سے کر رکھا ہے۔مذموم ارادے کے حامل شرپسند مسلسل ناکام ہوتے چلے آ رہے ہیں اور ہوتے رہیں گے، ان شاء اللہ تعالیٰ۔
گزشتہ دنوں نگران وفاقی وزیر داخلہ جناب سرفراز بگٹی نے پریس کانفرنس میں واضح طور پر اعلان کیا کہ آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر صاحب نے کہہ دیا ہے کہ ان کے ادارے کا کوئی بھی شخص اگر سمگلنگ میں ملوث ہوا تو اس کا کورٹ مارشل ہوگا اور جیل میں بھی جائے گا۔ پاکستان کی تاریخ میں ایسا بیان پہلی بار سننے اور پڑھنے کو مل رہا ہے اور یہ صرف بیان نہیں بلکہ زمینی سطح پر عملی اقدامات ہوتے بھی دکھائی دے رہے ہیں۔ عدل کی یہ وہ روشنی ہے جو پاکستان اور اہلِ پاکستان کے محفوظ مستقبل کو ضمانت فراہم کرے گی‘ ان شاء اللہ تعالیٰ۔ میرے دوست قاری عمر جٹھول بارہ ربیع الاول کو ہونے والی دہشت گردی کے متاثرہ علاقوں میں گئے۔ انہوں نے جو خونچکاں صورتحال بتائی ہے وہ خون کے آنسو رلاتی ہے۔
اس بار 12 ربیع الاوّل کو جمعۃ المبارک کا دن تھا۔ حضور نبی کریمﷺ جب خطبہ کے بعد جمعہ کی دو رکعت نماز پڑھاتے تو پہلی رکعت میں سورۃ الاعلیٰ اور دوسری رکعت میں عموماً سورۃ الغاشیہ تلاوت فرماتے۔ اس سورت کی چار آیات کا ترجمہ ملاحظہ ہو‘ اس کے بعد ہم اپنے معزز قارئین کو امریکی خلائی ادارے ''ناسا‘‘ کے ایک خلائی مشن کے بارے میں بتائیں گے اور ربیع الاوّل کے مہینے میں سورۃ الغاشیہ کے اعجاز سے آگاہ کریں گے۔ آئیے! ترجمہ ملاحظہ کرتے ہیں۔ فرمایا: ''کیا یہ لوگ اونٹ کی جانب نہیں دیکھتے کہ اسے (کن عجائبات کا حامل بنا کر) پیدا کیا گیا ہے۔ آسمان کی جانب (دوربینوں کا رُخ کر کے کیوں نہیں دیکھتے) کہ اسے کس طرح رفعت دی گئی ہے۔ پہاڑوں کی جانب کیوں نہیں دیکھتے کہ وہ کس طرح نصب کر دیے گئے ہیں۔ زمین کی جانب کیوں نہیں دیکھتے کہ اسے کس طرح بچھایا گیا ہے‘‘۔ (الغاشیہ: 17 تا 20) پہلی اور آخری‘ ان دو آیات کا تعلق زمینی مظاہر سے ہے جبکہ درمیان کی دو آیات کا تعلق آسمان کے ساتھ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں آسمان کی جانب توجہ دلا کر پہاڑوں کی جانب توجہ دلائی ہے۔ ان پہاڑوں کا تعلق آسمان میں موجود پہاڑوں (Asteroid) کے ساتھ بھی ہے۔ یاد رہے کہ ہماری زمین کے مدار میں لاتعداد پہاڑ (سیارچے) گردش کر رہے ہیں۔ یہ چھوٹے بھی ہیں اور بڑے بھی ہیں۔ اَن گنت تعداد میں یہ سورج کے مدار میں‘ سورج کے گرد بھی گردش کر رہے ہیں۔ موجودہ خلائی تسخیر سے پہلے کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ آسمانی خلائوں میں چھوٹے بڑے پہاڑی جزیرے سورج اور زمین کے گرد گردش کر رہے ہیں۔ یاد رہے! اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں چار مقامات پر پتھر برسانے کی بات کی ہے جبکہ سورۃ الغاشیہ میں واضح طور پر بتا دیا کہ یہ آسمان میں موجود ہیں۔ اللہ تعالیٰ جب چاہے خلا سے یہ پتھر زمین پر برسا کر اہلِ زمین کو ان کے جرائم کی سزا دیدے؛ چنانچہ سورۃ الملک اعلان کرتی ہے کہ اس سزا سے کسی کو غافل نہیں ہونا چاہئے۔
سائنس دانوں کے مطابق اگر کوئی ایک کلومیٹر حتیٰ کہ نصف کلومیٹر لمبا چوڑا پہاڑ (سیارچہ) بھی زمین کے ساتھ ٹکرا جائے تو زمین بے شمار ٹکڑوں کی صورت اختیار کرکے اپنی گردش کے مدار سے باہر نکل جائے گی جبکہ زمین نام کی شے اپنا وجود ختم کر دے گی۔ قارئین کرام! خلا میں یہ پہاڑ کس طرح نصب ہیں‘ ان کی تنصیب کو سائنسی طور پر آئندہ کسی موقع پر بیان کروں گا، ان شاء اللہ تعالیٰ، فی الحال ہم آسمان کے ایک پہاڑ کا تذکرہ کیے دیتے ہیں۔
سورج کے گرد جو چھوٹے بڑے پہاڑ، چٹانیں اور پتھر گردش کر رہے ہیں انہیں ''ایسٹرائیڈز‘‘ (Asteroid) کہا جاتا ہے۔ ان میں سے ایک چھوٹا پہاڑ سائنسدانوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ اس کا نام انہوں نے بینوں (Bennu) رکھا ہے۔ اس کی لمبائی لگ بھگ 510 میٹر ہے۔ واضح رہے کہ فرانس کے ایفل ٹاور کی لمبائی 324 میٹر ہے۔ اس ایسٹرائیڈ کو ستمبر 1999ء میں دریافت کیا گیا تھا۔ امریکہ کے خلائی ادارے ''ناسا‘‘ نے اس پر اپنا جو مشن لانچ کیا اسے ''اوسیرس ریکس‘‘ (OSIRIS-REx) کا نام دیا گیا۔ 8 دسمبر 2016ء کو یہ مشن ''بینوں‘‘ کی جانب لانچ کیا گیا۔ چھ ارب کلومیٹر کے سفر کے بعد یہ ''بینوں‘‘ کے گرد گھومنے لگ گیا۔ اس کا ایک حصہ ''بینوں‘‘ پر اترا۔ وہاں کی مٹی اور دھول کو لیا جو لگ بھگ 250گرام تھی۔ دھول ایک بڑے کیپسول میں محفوظ ہوئی اور یہ کیپسول ''اوسیرس ریکس‘‘ کے ساتھ جڑ گیا۔ اوسیرس کو اس مشن کو مکمل کرنے میں پانچ سال لگ گئے۔ واپسی پر بھی اسے دو سال لگ گئے یعنی سات سال تک وہ خلا میں رہا اور پھر 24 ستمبر 2023ء کو واپس زمین پر لینڈ ہوا۔ اس روز آٹھ ربیع الاوّل کا دن تھا۔ امریکی صحرا‘ جس کا نام یوٹاہ (Utah) ہے‘ یہ وہاں اترا۔ وہاں سے اسے ایک ہیلی کاپٹر کے ذریعے ناسا کی لیبارٹری میں پہنچا دیا گیا۔ اس کی دھول جاپان اور آسٹریلیا کو بھی عنایت کی گئی ہے کیونکہ یہ ملک بھی اس مشن میں حصہ دار تھے۔ اب وہ ممالک بھی ریسرچ کریں گے کہ کیا Bennu سورج سے الگ ہوا، کیا یہ پانچ ارب سال پرانا ہے یا یہ کہیں اور سے آیا ہے۔ ناسا نے اپنی ریسرچ کے لیے جو دھول رکھنا تھی، رکھ لی ہے، بقیہ کو اس نے محفوظ کر لیا ہے کہ آنے والے سالوں میں جب ہماری ٹیکنالوجی اور لیبارٹری مزید بہتر ہو جائے گی تب اس دھول کی تحقیق کے بعد مزید معاملات سامنے آتے رہیں گے۔ بارہ ربیع الاوّل کے قریبی لمحات میں جو اولین رزلٹ آیا اس کے بارے بتایا گیا کہ:
Scientists prove the origin of life on Bennu?
کیا سائنس دان بینوں پر زندگی کے اثرات کو ثابت کر رہے ہیں؟
جی ہاں! ابتدائی اشارے مثبت ملے ہیں؛ تاہم ابھی ریسرچ جاری ہے۔ نیشنل جیوگرافک کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے:
Ancient asteroid Bennu contains ingredients for life.
قدیمی سیارچے بینوں پر حیاتیات کے آثار پائے جاتے ہیں۔
یاد رہے! ویسے تو جو شہابیے زمین پر گرتے ہیں‘ ان پر بھی تحقیق کی جاتی ہے مگر وہ زمین کے ماحول سے متاثر ہو جاتے ہیں اس لیے ریسرچ ادھوری رہ جاتی ہے؛ چنانچہ انسانی تاریخ میں پہلی بار بینوں کی مٹی کو دھول بنا کر اس طرح لایا گیا ہے کہ لیبارٹری تک اسے زمین کا ماحول چھو نہ سکے یعنی یہ خالص اور اصل حالت میں رہے۔
قارئین کرام! بلوچستان اور صوبہ خیبر پختونخوا سے پٹرول، ڈالر، گندم، چاول، گھی، کھاد اور منشیات کی سمگلنگ روک دی گئی ہے۔ بے لاگ عدل اور مجرموں کو سزائوں کے اقدامات نظر آنے لگ گئے ہیں۔ چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات ہمارے ملک میں سرمایہ کاری کا ارادہ اس شرط پر ظاہر کر چکے ہیں کہ ہمارا نظام شفاف ہو جائے۔ مجھے خوشی اس بات کی ہے کہ ایسا ہونے جا رہا ہے، جس سے میرا ملک خوشحالی کی جانب چل پڑے گا۔ حکمرانوں کی خدمت میں ایک تجویز یہ بھی ہے کہ برآمد کیا گیا لوٹا ہوا مال سائنسی علم کی بنیادوں میں لگایا جائے تاکہ خلائی منصوبوں میں ہم بھی حصہ دار بن سکیں۔ جب آسمان سے کوئی تحفہ آئے تو تھوڑا سا حصہ اسلام آباد کی لیبارٹری میں بھی آئے۔ ''سورۃ الغاشیہ‘‘ ہم سب کے حضور ختم المرسلینﷺ پر نازل ہوئی ہے جس میں زمین و آسمان پر غور و فکر اور تدبر کرنے کا کہا گیا ہے۔ ربیع الاوّل کا اصل پیغام تو یہ ہے۔ دعا ہے کہ اس پر عمل کے موتی میرے پاک وطن کی جھولی میں بھی گریں۔ اے حکمرانو! ہم اہلِ وطن کو ایسا پاکستان دے دو، شکریہ!