اللہ تعالیٰ کی توحید اور حضرت محمد کریمﷺ کی رسالت اور ختم نبوت پر ''ایمان‘‘، پرہیزگاری کی زندگی یعنی ''تقویٰ‘‘ اور ملک و قوم کی حفاظت کے لیے ''جہاد فی سبیل اللہ‘‘۔ یہ ہیں وہ تین نکات؛ جن کی علمبردار ہیں پاک افواج۔
کور کمانڈرز کے اجلاس میں آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر صاحب نے اہلِ فلسطین کی ہر ممکن مدد کا اعلان کیا۔ وہ ہاشمی سیّد ہیں۔ میرے دیس پاک وطن میں لاکھوں سادات بستے ہیں۔ ان سب اور ہم سبھی اہلِ پاکستان کودن رات غزہ میں روا رہنے والا ظلم رلاتا رہتا ہے۔ وہاں سے اٹھنے والی معصوم بچوں کی آوازیں، بِلک بِلک کر رونے کی چیخیں، ماؤں کی ٹھنڈی آہیں جب کانوں کے پردوں سے ٹکراتی ہیں تو دماغ کے اربوں‘ کھربوں نیو رونز ایسے ہو جاتے ہیں جیسے بسترِ مرگ پر دراز ہو گئے ہوں۔ غزہ میں بھی بہت سارے ہاشمی سادات بستے ہیں۔ غزہ شہر لگ بھگ 1500 قبل مسیح میں آباد ہوا تھا یعنی اس شہر کی عمر لگ بھگ تین ہزار سال ہے۔ اسے کنعانیوں یعنی فلسطینیوں نے آباد کیا تھا، وہی اس کے بانیان تھے۔ قریشی گاہے گاہے یمن اور فلسطین کا سفر تجارت کی غرض سے کیا کرتے تھے مگر جس نے تاجروں کے وفود بنائے، تجارت کو منظم کیا، سردیوں میں یمن کا سفر اختیار کیا وہ ہمارے پیارے حضور کریمﷺ کے پڑ دادا حضرت ہاشم تھے۔ عرب کے تاجروں کی جانب سے عدن اور صنعا کی بندرگاہوں پر ڈیرے ڈالے جاتے تھے اور وہاں چین اور ہند کا سامان آتا۔ وسطی اور جنوبی افریقہ کے تاجر بھی آتے۔ جنوبی عرب کے بڑے سرمایہ کار بھی وہاں اکٹھے ہوتے، خوب تجارت ہوتی۔ یہ منظم تجارت ہمارے حضور کریمﷺ کے پڑدادا حضرت ہاشم نے شروع کی تھی۔ گرمیوں میں حضرت ہاشم غزہ جا پہنچتے۔ وہاں سے آگے قاہرہ بھی چلے جاتے۔ چند دن وہاں رہ کر پھر واپس غزہ آ جاتے۔ یہاں لمبا قیام کرتے۔ مشرقِ وسطیٰ کی بندرگاہیں شمالی افریقہ کی تجارت، یورپ کی تجارت‘ سب غزہ میں ہوتی تھی۔ کعبہ شریف کے خادم، عرب سردار اور عالمی سطح کے تاجر کی حیثیت سے حضرت ہاشم کا مقام بادشاہوں کے درباروں میں ایک بادشاہ سے بڑھ کر ہوتا تھا۔
غزہ کی جانب ان کا جو آخری سفر تھا اس میں ان کے ہمراہ 40بڑے تجار تھے۔ باقی لوگ ان کے علاوہ تھے۔ غزہ جاتے ہوئے اس قافلے نے یثرب (مدینہ منورہ) میں قیام کیا۔ یہاں ایک یثربی سردار کی بیٹی سے حضرت ہاشم نے شادی کی۔ اپنی اہلیہ کے ہمراہ غزہ جا پہنچے۔ معروف عرب شاعر عبداللہ بن زبعری نے حضرت ہاشم کے بارے میں ایک شعر کہا جس کا مفہوم ہے کہ گرمیوں اور سردیوں میں تجارت کے جو دو سفر ہیں‘ ان کا باقاعدہ آغاز حضرت ہاشم نے کیا۔ چنانچہ قرآنِ مجید میں جو سورۃ القریش ہے‘ وہ حضرت ہاشم کے تجارتی کردار کو اہلِ عرب پر بطور احسان یاد دلاتی ہے۔ مولا کریم ارشاد فرماتے ہیں:
''قریش کو (تجارت کے ذریعے) خوشحال زندگی دینے کی خاطر۔ انہیں سردی اور گرمی کے سفر میں ان کے مزاجوں کو ہم آہنگ کر دیا۔ جس گھر کی وجہ سے ان کو عزت ملی ہے، تو انہیں بھی چاہیے کہ اس گھر (کعبہ) کے رب کی عبادت کریں۔ وہ کہ جس نے انہیں بھوک (ختم کر کے) کھانا دیا اور (مال لٹنے کے) خوف سے امن عطا فرمایا۔ (القریش: 1تا4)
عبرانی زبان میں اس شہر کا نام ''عِزّہ‘‘ ہے اور عربی میں اسے ''غزّہ‘‘ کہتے ہیں۔ حضرت ہاشم کے کردار کی وجہ سے اس کا نام ''ثَروَہ‘‘ پڑ گیا تھا؛ یعنی دولت مند شہر۔ اس شہر کے سب سے بڑے اور دولت مند علاقے کو ''الدرج‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ علاقہ غزہ شہر کے مشرق میں ہے۔ ''الدرج‘‘ کا ایک نام حضرت ہاشم کی سخاوت و شجاعت کی وجہ سے ''الشجاعیۃ‘‘ بھی ہے۔ حضرت ہاشم اسی محلے میں فوت ہوئے تھے۔ یہیں ان کی قبر ہے۔ ان کی قبر کے ساتھ ''جامع مسجد السید ہاشم‘‘ ہے۔ یہ ایک وسیع و عریض اور خوبصورت مسجد ہے۔ اسرائیل کی صہیونی اور ظالم سرکار نے ا س محلے کو اب خالی کرنے کا آرڈر دے دیا ہے۔ مجھے اہلِ اسلام، اہلِ سادات، جامع مسجد السید ہاشم اور حضرت ہاشم کی آخری آرامگاہ کی سلامتی کی فکر لاحق ہے۔
حضرت ہاشم کا دسترخوان غزہ کے علاقے ''الدرج‘‘ میں خاصا وسیع ہوا کرتا تھا۔ شوربے میں روٹیاں بھگو کر ''ثرید‘‘ بنایا جاتا تھا۔ بڑی بڑی بوٹیاں اس کے علاوہ ہوا کرتی تھیں۔ دیگر کھانے بھی ہوا کرتے تھے۔ دنیا بھر کی نعمتیں غزہ میں ہوتی تھیں۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حضرت ہاشم کا دسترخوان علاقے بھر کے تاجروں اور حکام کے لیے کیسا عالیشان ہوتا ہوگا۔ مکہ میں بھی ان کا دسترخوان اسی طرح کا ہوا کرتا تھا۔ سفر کے دوران بھی خوب کھانے پکتے تھے۔ حج کے موقع پر حضرت ہاشم کا طریقہ یہ ہوا کرتا تھا کہ مکہ شہر، منیٰ، مزدلفہ اور عرفات میں ہر جگہ ثرید کا بندوبست ہوتا تھا۔ ستو اور کھجوریں بھی ساتھ ہوتی تھیں۔ تب زم زم کا کنواں گم شدہ تھا‘ لہٰذا پانی‘ جو عرب علاقوں میں کمیاب تھا‘ کے مشکیزے بھر کر سارے علاقوں میں رکھے جاتے تھے۔ ایک بار مکہ میں قحط پڑ گیا تو حضرت ہاشم غزہ سے واپس آئے اور قحط کے اختتام تک اہلِ مکہ کو ثرید کے کھانے کھلاتے رہے۔
اللہ کرے کہ اب مصر کی سرحد سے ملحق غزہ کی رفح کراسنگ کھلے‘ یہ وہی راستہ ہے کہ جہاں سے حضرت ہاشم قاہرہ میں جاتے اور واپس غزہ آیا کرتے تھے۔ اب جہاں سعودی عرب اور دنیا بھر سے غذا، سامانِ طب اور دیگر ضروری سامان غزہ جائے‘ وہیں میرے دیس پاکستان سے بھی غزہ میں غذا جائے۔
حضرت ہاشم کی اہلیہ محترمہ امید سے تھیں کہ اسی دوران وہ فوت ہو گئے۔ حضرت ہاشم کو غزہ کی مٹی کے سپرد کرنے کے بعد قافلے نے واپسی کی راہ لی۔ قافلے میں چند خواتین بھی تھیں۔ ان کے ہمراہ زوجۂ ہاشم یثرب تشریف لائیں۔ یہاں انہوں نے جس بچے کو جنم دیا اس کا نام ''عمرو‘‘ رکھا گیا۔ بچہ ماں کی پرورش میں چند سال کا ہو گیا تو حضرت ہاشم کے بھائی جنابِ مطلب اپنے بھتیجے کو لینے یثرب گئے۔ جب وہ عمرو کو لے کر مکہ مکرمہ آئے تو لوگ سمجھے کہ شاید جنابِ مطلب کوئی غلام خرید کر لائے ہیں؛ چنانچہ اس بچے کو لوگوں نے ''عبد المطلب‘‘ کہہ کر پکارنا شروع کر دیا۔ یہی اس بچے کا نام مشہور ہو گیا؛ اگرچہ بعد ازاں لوگوں کو پتا چل گیا کہ یہ بچہ جنابِ مطلب کا بھتیجا ہے اور حضرت ہاشم کا بیٹا ہے مگر اس کا نام ''عبدالمطلب‘‘ ہی مشہور ہو گیا۔ یہی ہمارے حضور کریمﷺ کے دادا ہیں جن کے دور میں زم زم کا متروک کنواں دریافت ہوا تھا۔ اللہ تعالیٰ کے ہر کام میں حکمت ہے۔ حضور کریمﷺ کے دادا حضرت عبدالمطلب بھی یتیم تھے اور حضور کریمﷺ خود بھی یتیم تھے۔ ہمارے حضور کریمﷺ کے پڑدادا کی قبر غزہ میں ہے تو پڑدادی کی قبر یثرب (مدینہ منورہ) میں ہے۔ حضور کریمﷺ کے والد گرامی حضرت عبداللہ کی قبر یثرب میں ہے تو والدہ محترمہ حضرت آمنہ کی قبر مکہ اور یثرب کے درمیان ہے۔ حضرت عبدالمطلب مکہ میں مدفون ہیں۔ یعنی ہم اہلِ اسلام اور اہلِ سادات مکہ سے لے کر غزہ تک ایک ایسے ورثے کے مالک ہیں جس کا تعلق ہمارے حضور کریمﷺ سے ہے۔ حضور کریمﷺ کی جائے پیدائش مکہ مکرمہ ہے تو آپﷺ کا روضہ مبارک مدینہ منورہ ہے ۔ سبحان اللہ!
کور کمانڈرز کی میٹنگ میں آرمی چیف سیّد حافظ جنرل عاصم منیر صاحب نے واضح کیا کہ ملک کو آگے لے جانے کے لیے حکومت کے ساتھ تعاون اور اس کی مدد جاری رہے گی۔ الحمد للہ! ڈالر 65روپے نیچے آ گیا۔ ملک بوستان کہتے ہیں: حافظ صاحب کا ڈنڈا گھومتا رہا تو یہ 240تک جائے گا۔ سمگلنگ بند ہو گئی ہے، پٹرول 40روپے سستا ہو گیا ہے۔ ضرورت کی اشیا‘ جو مہنگی ہو کر سستی نہ ہوئی تھیں‘ وزیراعلیٰ پنجاب نے سستی کر دکھائی ہیں۔ وزیراعظم صاحب چین گئے‘ سی پیک کا منصوبہ اب تیزی سے آگے بڑھے گا۔ رکا ہوا کام آگے چلے گا۔ ان شاء اللہ تعالیٰ!
میری دعا ہے کہ یہ کام کرنے والا ڈنڈا موجودہ اور آنے والی حکومت کے ہمراہ رہے۔ استحکام اور امن کی نعمت بھی فراواں ملے۔ کاشغر سے گوادر تک تجارت چلے۔ گوادر سے مسقط تک ایسا پل بنے جیسا بحرین اور سعودی عرب کے درمیان ہے۔ اگلا روٹ وہی چلے جو ہمارے حضور کریمﷺ کے پردادا حضرت ہاشم کا بنایا ہوا تھا۔ تب ایک ایسی تقریب ہو پھر جس میں سورۃ القریش کی تلاوت ہو۔ امن اور تجارت کی بات ہو اور نعرہ گونجے: پاکستان زندہ باد!