اللہ تبارک و تعالیٰ کی زمین پر بسنے والے آٹھ ارب سے زائد افراد اس وقت ششدر رہ گئے جب اسرائیل کے وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے بیان دیا ''اسرائیل کا مذہبی فریضہ ہے کہ فلسطینی بچوں کو قتل کیا جائے‘‘۔ اس کے بعد اسرائیلی چیف ربی کا بیان آیا کہ ''فلسطینی بچوں کو قتل کرنے کی اجازت خدا کی طرف سے ہے‘‘۔ یاد رہے! جس طرح ہمارے ہاں مفتیٔ اعظم ہوتا ہے اسی طرح یہودیوں کا چیف ربی ہوتا ہے۔ قارئین کرام! خدا کی طرف سے اجازت اور مذہبی فریضے کے الفاظ جب میں نے ملاحظہ کیے تو سوچا کہ یہ الفاظ شاید ان لوگوں کی مذہبی کتاب تورات میں ہوں گے وہ کتاب کہ جس میں ان کے بڑے کئی بار تحریف و تبدیلی کر چکے ہیں۔ ملاحظہ ہوں تبدیل شدہ تورات کے الفاظ ''اور خداوند ہمارے خدا نے اسے (یعنی دشمنوں کے ملک) کو ہمارے حوالے (زیرِ قبضہ) کر دیا اور ہم نے اسے (وہاں کے بادشاہ) اور اس کے بیٹوں کو اور اس کے سب آدمیوں کو مار دیا (قتل کردیا) اور ہم نے اسی وقت اس کے سب شہروں کو لے لیا اور ہر آباد شہر کو عورتوں اور بچوں سمیت بالکل نابود کر دیا اور کسی کو باقی نہ چھوڑا لیکن چوپایوں کو اور شہروں کے مال کو جو ہمارے ہاتھ لگا‘ لُوٹ کر ہم نے اپنے لیے رکھ لیا‘‘ (تورات، باب: 3، آیات 34 تا 36)
اللہ تعالیٰ کی زمین پر رہنے والے اے آٹھ ارب لوگو! میں نے جونہی پڑھا تو سمجھ آ گئی اسرائیل کا وزیراعظم اور چیف ربی مذکورہ آیات کے حوالے سے ہی یہ کہہ رہے ہیں اور ان تحریف شدہ تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے غزہ کے بچوں اور عورتوں پر بمباری کرتے ہوئے پورے علاقے کو کھنڈر بنا چکے ہیں۔ چونکہ وہ 1948ء سے ہی فلسطینی عورتوں اور بچوں کو قتل کر رہے ہیں تو ریسرچ کرتے ہوئے میرے سامنے یہ حقیقت منکشف ہوئی کہ اسرائیل میں یہودیوں کے دو بڑے فرقے ہیں، پہلے نمبر پر ''سفاردی فرقہ‘‘ ہے جس کے چیف ربی ضحاک یوسف (Yitzhak Yosef) ہیں۔ ان کی عمر 71سال ہے۔ یہ 2013ء سے اب تک چیف ربی چلے آ رہے ہیں۔ دوسرا بڑا فرقہ اشکنازی ہے۔ اس کے چیف ربی 57سالہ ڈیوڈ لائو (Baruch David Lau) ہیں۔ اسرائیل کے معروف اخبار Haaretz نے 13مارچ 2016ء کو ایک خبر شائع کی تھی کہ ایک تقریب میں اسرائیلی آرمی چیف کی موجودگی میں چیف ربی ضحاک یوسف نے کہا: یہ مذہبی فریضہ ہے کہ مسلح فلسطینیوں کو قتل کر دیا جائے، ہائیکورٹ (عدالت) کا اس سے کوئی تعلق نہیں کہ وہ فوجی یا آرمی چیف سے اس قتل کے بارے میں پوچھے۔
اسی طرح سفاردی یہودیوں کے چیف ربی ضحاک یوسف نے ایک موقع پر تورات کا ہفتہ وار درس دیتے ہوئے یہ تک کہا تھا: اگر کسی فلسطینی کے پاس چاقو ہے اور وہ حملہ کرنا چاہتا ہے تو اسے بلاجھجھک قتل کر دیا جائے۔ اخبار مزید لکھتا ہے کہ چیف ربی سے پوچھا گیا کہ سبت (ہفتے کے دن) کے موقع پر یہودیوں کے ساتھ دشمنی کرتے ہوئے کوئی عمالقی (فلسطینی) پایا جائے تو کیا اسے قتل کیا جا سکتا ہے؟ چیف ربی نے جواب دیا: اگر کوئی عمالقی میرے سامنے ابھی آ جائے جبکہ مجھے معلوم ہو کہ وہ دہشت گرد ہے تو ہم اسے گرفتار کر لیتے ہیں، اس کے پاس چاقو نہ بھی ہو، وہ خالی ہاتھ ہو، تب بھی گرفتار ہوگا۔ ربی ضحاک یوسف کا کہنا تھا کہ ہمارے ایک نبی (Elijah) گویا میرے سامنے آتے ہیں اور مجھے بتاتے ہیں کہ یہ عمالقی ہے، اسے مت قتل کرو بلکہ اسے جیل میں ڈال دو۔ جب ہفتے کا (مقدس دن) گزر جائے تو اس کے ساتھ میٹھا بول بولو اور اسے قتل کر دو۔ چیف ربی مزید کہتے ہیں کہ آج ممکن نہیں ہے کہ ہم یقین کے ساتھ کہہ سکیں کہ یہ دہشت گرد عمالقہ کے بیج سے تعلق رکھتا ہے، لہٰذا اسے پھانسی تو نہیں دی جائے گی مگر جب تک ہمارا سچا مسیح (Righteous Messiah) نہیں آ جاتا اور ہمیں نہیں بتاتا کہ یہ عمالقی ہے‘ تب تک وہ جیل میں رہے گا اور جب وہ بتا دے گا کہ یہ عمالقی کا بیج (Seed of Amalek) ہے تو...پھر ہم اسے قتل کر سکتے ہیں۔
قارئین کرام! عمالقہ یہودیوں کی ایک مخالف قوم تھی‘ اس کا ذکر قرآنِ کریم میں بھی موجود ہے۔ جالوت بادشاہ اسی قوم سے تعلق رکھتا تھا، یہودی روایات کے مطابق جب یہودی مصر سے نکل رہے تھے تو عمالقہ قوم نے ان پر پیچھے سے حملہ کیا تھا، اس پر بنی اسرائیل نے عمالقیوں سے جنگ کی اور انہیں جنگ میں شکست دی، اس کے بعد بھی یہودیوں کی کئی بار عمالقہ قوم سے جنگ ہوئی اور آخرِ کار عمالقیوں پر عذاب نازل ہوا اور وہ سب معدوم ہو گئے۔ موجودہ دور کے یہودیوں کا ماننا ہے کہ عمالقیوں کے بیج اب بھی باقی ہیں اور جو کوئی بھی یہودیوں سے نفرت رکھتا اور ان سے جنگ کرتا ہے وہ عمالقی قبیلے سے تعلق رکھتا ہے اور اس کو اسی طرح ختم کر دینا چاہیے جس طرح بنی اسرائیل نے عمالقیوں کو ختم کر دیا تھا۔
قارئین کرام! غور کریں کہ ہر فلسطینی‘ وہ بچہ ہو یا بوڑھا، عورت ہو یا مرد‘ وہ اسرائیلیوں کے نزدیک دہشت گرد ہے۔ ا س کے ہاتھ میں چاقو ہو تو اسے قتل بھی کیا جا سکتا ہے۔ وہ خالی ہاتھ ہو تو اسے عمالقی سمجھ کر جیل میں بھیج دیا جائے گا۔ اب ان کا سچا مسیحا (جو درحقیقت 'دجال‘ ہوگا) جب تک وہ نہیں آتا یہ عمالقی جیل میں رہے گا۔ عمالقہ قوم‘ جس کو جبّارین بھی کہا گیا‘ اسرائیلی چار ہزار سالوں کے بعد اس قوم کا بیج تلاش کرنے سے قاصر ہیں یعنی یہ تو نہیں پتا چلے گا کہ آج کا فلسطینی کسی عمالقی فرد کا بیج ہے یا نہیں مگر اسے جیل میں ضرور رکھا جائے گا۔
لوگو! گزشتہ 75سالوں سے جو فلسطینی جیلوں میں قید ہیں ان کا جرم یہی ہے کہ وہ عمالقہ کے بیج کی پیداوار ہیں یا نہیں؟ آج کی جمہوری دنیا میں‘ آج کے مہذب دور میں‘ آج جب محض انسانی حقوق ہی نہیں بلکہ جانوروں کے حقوق کی بھی باتیں کی جاتی ہیں‘ اس حوالے سے متعدد قانون بنائے گئے ہیں‘ فلسطینیوں کے نہ انسانی حقوق ہیں اور نہ ہی اسرائیل میں حیوانی حقوق محفوظ ہیں۔ اہلِ فلسطین کو عمالقی بیج قرار دے کر بھی انسانیت کی توہین کی گئی ہے کیونکہ بیج تو اناج کے ہوتے ہیں، پھلوں کے ہوتے ہیں، ڈرائی فروٹ کے ہوتے ہیں مگر اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کو عمالقہ بیج کے ساتھ تشبیہ دے کر ختم اور تلف کیا جا رہا ہے۔
ساری انسانیت نے اہلِ فلسطین کے لیے لاجواب کردار ادا کیا، ان کے تحفظ کے لیے دنیا بھر کی انسانیت نے احتجاج کیا مگر بمباری کا ظلم ہے کہ ابھی تک بند نہیں ہوا۔ جس طرح ہوائی جہازوں سے سپرے کر کے فصلوں کے کیڑوں کو تلف کیا جاتا ہے آج غزہ سے انسانیت کو اس طرح سے ختم کیا جا رہا ہے۔ میں بتلانا یہ چاہتا ہوں کہ اس کے پیچھے ایک نظریہ ہے، ایک سوچ ہے، ایک مذہبی فکر ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ جو لوگ اس صہیونی درخت کو پانی دیتے رہے، آج بھی دے رہے ہیں، ثمر آور کرتے جا رہے ہیں، کیا وہ اس سوچ اور فکر سے بے خبر اور غافل تھے؟
1974ء میں اقوامِ متحدہ نے جنیوا کنونشن کے تحت اس قانون کی منظوری دی کہ جنگ کے دوران بچوں اور عورتوں کی حفاظت کی جائے گی اور ان کے سا تھ انسانی سلوک کیا جائے گا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اس ڈیکلریشن کو جنیوا کنونشن کا حصہ بنایا:
Declaration on the Protection of Women and Children in Emergencies and Armed Conflict
جس میں بچوں کے حوالے سے بالخصوص کہا گیا ہے کہ
Children must be protected and treated humanely
میں اپنے اس کالم کے ذریعے اسرائیل کے سب سے بڑے سرکاری عالم اور چیف ربی ضحاک یوسف صاحب سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ جناب والا! علیجاہ پیغمبر کے بارے میں یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ انہوں نے بارش کو روک لیا تھا اور پھر بارش کو واپس برسا دیا تھا۔ انہوں نے آگ کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا تھا۔ انہوں نے اردن کو پھاڑ کر اس کے دو حصے کر دیے تھے۔ مزید یہ کہ انہوں نے مختلف اقسام کے تیل کو باہم ملایا اور ایک مردہ لڑکے پر مذکورہ تیل کو ملا تو وہ لڑکا زندہ ہو گیا۔ آپ تو ایسا نہیں کر سکتے۔ جو ہزاروں فلسطینی آپ کی جیلوں میں ہیں‘ جو بچے گرفتار کیے گئے تھے‘ وہ بھی بوڑھے ہو گئے ہیں‘ اب تو ان کو رہا کر دیں۔ جب آپ کا سچا مسیحا تشریف لائے گا تو ان افراد کو دوبارہ سے زندہ کر کے ان کے قتل کا شوق پوراکر لینا۔
مذہبی چیف کا مذہب دنیا کے سامنے جو امیر حمزہ لا رہا ہے‘ یہ وہ ہے جو اسرائیل کے اخبار (Haaretz) کی 5 نومبر 2023ء کی اشاعت شائع شدہ میں ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ تحریف شدہ تورات میں یہ بھی لکھا ہے ''میں بحرِ قلزم سے لے کر فلسیوں (فلسطینیوں) کے سمندر (بحرِ روم) تک اور بیابان (صحرائے سینا) سے لے کر نہر فرات تک تیری حدیں باندھوں گا کیونکہ میں اس ملک کے باشندوں کو تمہارے ہاتھ میں کر دوں گا اور تو ان کو اپنے سے نکال دے گا‘‘ (تورات، خروج، باب: 23، آیات: 31 تا 32)۔ یہ ہے گریٹر اسرائیل کا اصل پلان ۔ سوال یہ ہے کہ تب مشرقِ وسطیٰ کے تمام ممالک مصر، شام، عراق، اردن، لبنان، فلسطین اور جزیرۃ العرب میں سعودی عرب اور یمن کے لوگ کہاں جائیں گے؟ اللہ اللہ! گزارش کا مقصد یہ ہے کہ مذکورہ مذہبی عقیدہ اور نظریہ آگے بڑھتا جائے گا تو انسانیت کا کیا بنے گا؟ لہٰذا میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ
''جاگ! اے انسانیت جاگ!‘‘