"AHC" (space) message & send to 7575

جیمز ویب اور پاک وطن

اللہ تعالیٰ اپنی آخری کتاب ''قرآنِ مجید‘‘ میں آگاہ فرماتے ہیں ''یہ دن ہیں جنہیں ہم انسانوں کے درمیان ادل بدل کرتے رہتے ہیں‘‘۔ (آلِ عمران: 140)۔ 2023ء کا سال بیت گیا‘ 2024ء کا نمودار ہو گیا۔ 2023ء کے آخری دنوں میں کچھ ایسے انکشافات سامنے آئے جن کا تذکرہ ضروری ہے۔ کچھ اہم انکشافات 25 دسمبر کے روز سامنے آئے۔ سب کو معلوم ہے کہ 25 دسمبر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کا دن سمجھا جاتا ہے‘ لہٰذا اس نسبت سے یہ مسیحی برادری کا ایک مقدس مذہبی دن ہے۔ اسی دن جیمز ویب سپیس ٹیلی سکوپ کی سپیس سالگرہ بھی منائی جاتی ہے۔ دو سال قبل اسی تاریخ کو اسے خلا میں بھیجا گیا تھا۔ انسانی تاریخ میں سائنس کی دنیا کا یہ ایک شاہکار ہے، اس کی دو سالہ کارکردگی پر سائنس کی دنیا کے 12عظیم انکشافات سامنے آئے ہیں‘ آج ہم ان میں سے صرف ایک کا تذکرہ کریں گے اور آخر پر ہم حضرت قائداعظم ؒ کے پاکستان کی بات کریں گے۔ بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح بھی 25دسمبر کو پیدا ہوئے اور ہمیں ایک عظیم ملک پاکستان کا تحفہ دے کر گئے۔ ہم اس ملک کو کیسے عظیم بنانے چلے ہیں اس کا ذکر بھی کریں گے۔
مسیحی دنیا کے تین بڑے فرقے ہیں؛ کیتھولک، پروٹسٹنٹ اور آرتھوڈکس۔ کیتھولک اور پروٹسٹنٹ فرقے کے لوگوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کا دن 25دسمبر کو منایا۔ روس آرتھوڈکس ملک ہے‘ انہوں نے حسبِ روایت سات جنوری کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کا دن یعنی کرسمس منایا۔یوکرین بھی ایک آرتھوڈکس ملک ہے وہاں بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کا دن سات جنوری ہی کو سمجھا جاتا ہے مگر چونکہ اس وقت روس اور یوکرین کے مابین جنگ جاری ہے اور کیتھولک اور پروٹسٹنٹ مسیحی ممالک یوکرین کی مالی اور عسکری مدد کر رہے ہیں لہٰذا وہاں کے صدر ولودومیرزیلنسکی نے آرڈر جاری کیا کہ اس سال یوکرین میں کرسمس کا تہوار سات جنوری کے بجائے 25دسمبر کو منایا جائے گا لہٰذا 25دسمبر کو ہی یوکرین میں سرکاری طور پر کرسمس کا تہوار منایا گیا۔ یوکرین کی مسیحی برادری نے اس پر کسی قابلِ ذکر ردعمل کا اظہار نہیں کیا۔ اس سے یہ بات ضرور ثابت ہو جاتی ہے کہ سیاسی دشمنی بعض اوقات مذہبی روایات تک کو تبدیل کر دیتی ہے۔ ایک قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ یوکرین کے صدر زیلنسکی عیسائی نہیں بلکہ یہودی ہیں۔اس وقت ایک طرف اسرائیل یوکرین کی مدد کر رہا ہے تو یوکرین کے صدر حالیہ اسرائیل‘ غزہ جنگ کے آغاز ہی پر تل ابیب جا کر اسرائیل کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کر چکے ہیں۔
نیلسن منڈیلا ایک عظیم عالمی لیڈر تھے۔ ان کا دیس جنوبی افریقہ کیتھولک اکثریتی ملک ہے۔ جنوبی افریقہ نے 25دسمبر کے موقع پر غزہ کی حمایت میں اسرائیل کے خلاف جنگی جرائم کا مقدمہ درج کرا یا تھا جس پر آج عالمی عدالتِ انصاف میں سماعت شروع ہو رہی ہے۔ اس قابل تحسین اقدام پر گفتگو آئندہ سہی‘ ان شاء اللہ!
بات ہوئی 25دسمبر کے سامنے آنے والے انکشافات کی۔ جیمز ویب سپیس ٹیلی سکوپ نے 12عددانکشافات کیے ہیں جن میں سے اہم ترین انکشاف‘ جس کی ناسا نے تصدیق کی ہے‘ ملاحظہ ہو! سائنس کے نامور رسالوں نے اس حوالے سے جو لکھا‘ حاضرِ خدمت ہے:
The star system labeled PDS 70 is home to a very special ingredient. Water, water is essential for all life on earth, as it provides the solution in which all our chemical life, as for as we currently understand, Astronomers were able to find the signature of water. Vapor in the PDS 70 system, which sits about 370 light years away from earth, what, sectra special about this discovery is that PDS 70 is still in the process of forming Planets right now it is just a disk of gas and dust, and the astronomers found the water in the inner regions of the disk, which is exactly the place where planets like earth form.
یعنی کائناتی سپیس کی گہرائی میں ایک بہت ہی خصوصی علاقہ سامنے آیا جس کا نام سائنسدانوں نے ''پی ڈی ایس70‘‘ رکھا ہے۔ یہاں ستاروں کی پیدائش کا ایک نظام ہے‘ اس نظام میں جو اجزا دریافت ہوئے ہیں ان میں پانی سرفہرست ہے، جی ہاں! زمین پر زندگی کے لیے پانی سب سے اہم ہے، جس قدر بھی حیاتیات ہیں ان کا وجود اسی پانی سے جڑا ہوا ہے۔ پانی نہیں ہے تو زندگی نہیں ہے۔ اس حقیقت کی پورے طور ہمیں اب سمجھ آئی ہے۔ سائنسدانوں نے یہاں ایسی شے کی علامت دیکھی ہے جو بھاپ بن سکے۔ یہ پانی ہی ہے۔ واضح رہے کہ یہ علاقہ ہماری زمین سے 370نوری سال کی دوری پر ہے۔ مذکورہ علاقہ 2019ء میں دریافت ہوا تھا اور ابھی ستاروں کے ابتدائی پیدائشی دور سے گزر رہا ہے۔ اگرچہ ابھی یہ علاقہ گیس اور دھول (کے بادلوں) کی ایک (نوری سالوں پر محیط لمبی چوڑی) پٹی ہے مگر سائنس دانوں نے اس کے اندرونی علاقوں میں پانی کو پا لیا ہے۔ حقیقت میں یہ وہی علاقہ ہے جہاں ہماری زمین جیسے سیارے جنم لیتے ہیں۔
اللہ‘ اللہ! ہمارے حضور کریمﷺ پر نازل ہونے والی آخری کتاب قرآنِ مجید فرقانِ حمید نے کیا خوب آگاہ فرمایا ''کیا ان کافر (اللہ کے انکاری) لوگوں نے دیکھ نہیں لیا کہ تمام آسمان اور زمین باہم ملے ہوئے تھے‘ ہم نے ان کو پھاڑکر کھولا اور ہر زندہ شے کو پانی سے پیدا کیا۔ کیا اب بھی یہ لوگ (اللہ، قرآن اور حضور نبی کریمﷺ) پر ایمان نہیں لائیں گے؟‘‘(الانبیاء: 30)
میں کہتا ہوں حالیہ 25دسمبر کا پیغام یہ ہے کہ ہم مسلمان حضرت آدم علیہ السلام سے حضرت عیسیٰ علیہ اسلام تک تمام پیمبروں پر ایمان لاتے ہیں۔ مذکورہ قرآنی آیت کا تعلق ''سورۃ الانبیاء‘‘ سے ہے۔ یہ ایک واضح اشارہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک ماننے سے بات نہ بنے گی جب تک آخری رسول حضرت محمدﷺ کو نہ مانا جائے۔ یہودی لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا انکار کرتے ہیں اور مسیحی بھائیوں کے مذہبی عقائد تک کو بدل کر اثر انداز ہو جاتے ہیں، ان کے سکالرز اور سائنسدانوں کیلئے بھی 25دسمبر کے انکشافات کا پیغام یہی ہے کہ حضور نبی کریمﷺ پر نازل ہونے والی کتاب کو مانے بغیر چارہ نہیں۔ 25 دسمبر 2021ء کو خلا میں روانہ ہونے والی جیمز ویب سپیس ٹیلی سکوپ کائنات کی گہرائی سے ایک پیغام بھیجتی ہے۔ یہودی و مسیحی سائنس دان اقرار کرتے ہیں کہ ہمیں پورے طور اب پتا چلا ہے کہ پانی زندگی اور زندگی کو برقرار رکھنے اور ترقی یافتہ بنانے کے لیے کس قدر لازم ہے۔ یہی بات قرآنِ مجید نے ساڑھے چودہ سو سال پہلے بتائی اور تخلیق کے بجائے 'جعلنا‘ کا لفظ استعمال فرمایا جس میں زندگی‘ زندگی کا قرار اور سائنسی ترقی میں پانی کا ناگزیر کردار واضح کردیا گیا ہے، اسی لیے میں کہتا ہوں کہ حالیہ کرسمس یعنی 25 دسمبر کا پیغام واضح ہے کہ حضور نبی کریمﷺ کو مانے بغیر چارہ نہیں ہے۔
قائداعظم محمد علی جناح ؒ بھی 25دسمبر کو پیدا ہوئے۔ وہ ہمیں تنظیم، اتحاد اور یقین محکم کا سلوگن دے کر گئے۔ آج ضرورت ہے اس بات کی کہ ایمان کی رسی کو سارے اہلِ پاکستان مضبوطی سے تھام لیں۔ مضبوطی سے تھامنے کا حکم قرآن نے دیا ہے۔ ہمارے آرمی چیف جنرل حافظ سید عاصم منیر نے حال ہی میں ایک تقریب سے خطاب فرمایا جس میں بار بار انہوں نے قرآنِ مجید کی آیات کے حوالے دیے۔ ان حوالوں کے حوالے سے ہمارے باخبر دانشور دوست قاری عمر جٹھول صاحب سے بات ہو رہی تھی تو وہ کہنے لگے کہ آرمی چیف ایک مختلف طرح کے آرمی چیف ہیں‘ لہٰذا اب جو بھی حکومت آئے گی‘ ملک میں ترقیاتی کام بھی بھرپور ہوں گے‘ سائنسی ٹیکنالوجی پر بھی توجہ مرکوز ہوگی۔ موٹرویز کو جو بریک لگا کرتی تھی‘ اب نہیں لگے گی‘ اہلِ زراعت کو سکھ کا سانس ملے گا‘ وہ خوشحالی کو پہلے سے زیادہ انجوائے کریں گے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ تجارت ہو اور خوب ہو۔ اس کے لیے امن ضروری ہے۔
مولانا فضل الرحمن صاحب حال ہی میں افغانستان کا دورہ کر کے آئے ہیں‘ امید ہے کہ اس سے امن اور بھائی چارے کی فضا قائم ہو گی۔ جب ہمسایوں کے ساتھ امن کی ڈور بندھے گی تو سب کو خوشحالی ملے گی۔ ہم اہلِ پاکستان کو پاکستانی بن کر سوچنا ہوگا تبھی ہم آگے بڑھیں گے۔ پاکستان حالیہ عبوری دور میں دیوالیہ پن کے خطرے سے نہ صرف باہر آیا ہے بلکہ درست سمت میں جا رہا ہے۔ آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے اس سلسلے میں دن رات ایک کیا ہے۔ آٹھ فروری کے انتخابات کے بعد قائداعظم محمد علی جناح ؒ کا یہ قافلہ درست سمت میں تیز دوڑے گا۔ آیئے! اس کے لیے ہم سب ایک دوسرے کے دست و بازو بن جائیں۔ پاکستان زندہ باد!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں