اللہ تعالیٰ نے آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر صاحب کو یہ توفیق عطا فرما رکھی ہے کہ وہ خطاب کرتے ہیں تو استدلال کے لیے قرآنِ مجید کی آیات پڑھتے ہیں‘ مصورِ پاکستان حضرت علامہ اقبال ؒ کے اشعار سے اپنی گفتگو کر مزین کرتے ہیں۔ انہوں نے ملک بھر کی یونیورسٹیوں کے چنیدہ طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا: مدینہ کا لفظی معنی شہر ہے‘ ہر شہر مدینہ ہے مگر مدینہ منورہ ایسا شہر ہے جس کی نسبت اللہ کے رسولﷺ کی جانب ہے،''مدینۃ النبی‘‘ جب بنتا ہے تو یہ ایک خاص شہر بن جاتا ہے۔ قارئین کرام ! میں نے آرمی چیف کی گفتگو کا مفہوم آپ کے سامنے رکھا ہے۔ انہوں نے مدینہ منورہ کا نام ''طیبہ‘‘ بھی لیا۔ طیبہ کا معنی ہے پاک۔ مسلمان جب مکہ مکرمہ میں بت پرست مشرکوں کے ظلم کا شکار تھے تو اللہ تعالیٰ نے ''طیبہ‘‘ کے نام سے ایک وطن کی خوشخبری دی تھی۔''سورۂ ابراہیم‘‘ ایک مکی سورت ہے‘ ربِ کریم اپنے حبیب حضور نبی کریمﷺ کو مخاطب کرکے مستقبل کے اسلامی وطن کے خدو خال اس طرح واضح کرتے ہیں، فرمایا: ''آپ دیکھیں کہ کس طرح اللہ نے ''کلمہ طیبہ‘‘ کی مثال بیان فرمائی ہے کہ ''کلمہ طیبہ‘‘ (پاک کلمہ) ''شجرہ طیبہ‘‘ (پاک درخت) کی طرح ہے‘ اس درخت کی جڑ زمین میں گہری (مضبوط) ہے اور اس کی چوٹی (بلند شاخیں) آسمان تک پہنچی ہوئی ہیں۔ یہ اپنے رب کے حکم سے ہر وقت (سال بھر) پھل دیتا رہتا ہے، اللہ لوگوں کے لیے ایسی مثالیں اس لیے بیان کرتا ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں‘‘ (ابراہیم: 24 تا 25)۔
''لا الٰہ الّا اللہ محمد رسول اللہ‘‘ کلمہ طیبہ ہے‘ اسی کی بنیاد پر مسلمانوں کو مدینہ جیسا وطن ملا‘ اسی کی بنیاد پر ہمیں پاکستان ملا۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اس نظریاتی دیس میں رہنے والا کوئی حکمرانوں پر تنقید کرے تو طیب یعنی پاکیزہ تنقید کرے‘ اصلاحی تنقید کرے۔ ایسی تنقید پاک وطن کو رفعتوں سے ہمکنار کرے گی۔ اس تنقید میں وطن کی بقا اور استحکام کی ہمدردی ہو گی‘ اہلِ وطن کیلئے سوز اور گداز ہوگا۔ ایسی تنقید کیلئے خراجِ تحسین ہے کیونکہ ایسے پاکیزہ کلمات سے وطن کے درخت کی جڑیں مضبوط ہوں گی‘ اس دیس کا سایہ برقرار رہے گا‘ اسکی چھائوں میں فیکٹریاں چلیں گی‘ کھیتوں میں ہل چلے گا تو سارا سال اسکا پھل اہلِ وطن کھائیں گے۔ ہم اپنے وطن کو ایسا دیس بنا کر ہی دم لیں گے۔ یہ ہمارا جذبہ اور عزم ہونا چاہئے۔ حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا ''کوئی بندہ اپنی زبان سے کوئی ''کلمہ‘‘ نکالتا ہے‘ بولنے والا اس کی اہمیت کو نہیں سمجھتا مگر اس گفتگو میں اللہ کی رضامندی ہوتی ہے‘ لہٰذا اللہ تعالیٰ اس شخص کے (دنیا و آخرت) میں(عزت) کے درجات کو بلندی عطا فرما دیتا ہے‘‘(صحیح مسلم: 2988)
اللہ تعالیٰ گندی اور بُری گفتگو کی مثال اس طرح دیتے ہیں‘ فرمایا: ''کلمہ خبیثہ‘‘ کی مثال ''شجرِ خبیثہ‘‘ کی طرح ہے جو زمین کے اوپر ہی سے اکھاڑ پھینکا جاتا ہے‘ اس کے لیے جڑ مضبوط کرنے کا موقع نہیں ہے‘‘ (ابراہیم: 26) لوگو! ایسا کلمہ کہ جس سے پاک وطن کے ساتھ دشمنی کی بدبو آتی ہو‘ پاکستان کے دشمنوں کے ساتھ مل کر سازشوں کی Smell آتی ہو‘ اس سے آگے بڑھ کر خبیث اور ناپاک گفتگو پر عمل کردیا جائے‘ وہ پاکیزہ درخت جو 25کروڑ لوگوں کو آکسیجن مہیا کرتا ہے‘ سایہ فراہم کرتا ہے‘ 25کروڑ لوگوں کو دھوپ کی تمازت سے بچاتا ہے‘ اس کی ٹہنیوں پر طرح طرح کے پھل لگتے ہیں اور یہ پھل اور اناج ہم سب کھاتے ہیں‘ ہمارے بچے اس کی شاخوں پر کھیلتے ہوئے ایسے لگتے ہیں جیسے پھول اور کلیاں ہیں کہ جن کی خوشبو سے ہم جھوم جھوم اٹھتے ہیں۔ جی ہاں! ایسے پاک درخت پر جو کوئی کیچڑ پھینکے‘ اس کو آگ لگانے کی کوشش کرے تو اس درخت کے محافظوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس درخت کی حفاظت کا حق ادا کریں۔ افواجِ پاکستان کے ساتھ اہلِ قلم بھی محافظ ہیں‘ سیاستدانوں کی سیاست بھی محافظ ہے‘ علماء کا علم بھی محافظ ہے‘ دانشوروں کی دانش بھی محافظ ہے‘ صنعتکار کی صنعت اور کاشتکار کی کاشتکاری بھی محافظ ہے‘ باغبان کی باغبانی بھی محافظ ہے۔ سب کو آگے بڑھ کر کردار ادا کرنا ہوگا کہ گندا اور بدبودار پودا اور درخت زمین کے اوپر ہی سے اکھاڑ پھینک دیا جائے۔ اے اہلِ پاکستان! ہمیں دیکھنا ہوگا کہ ہمارا شمار پاکیزہ درخت کے محافظوں میں ہے یا خبیث اور گندے کردار کی وجہ سے پاکیزہ درخت کو نقصان پہنچانے والوں میں۔ اگر نقصان پہنچانے والوں میں ہے تو حضرت ابوہریرہؓ بتاتے ہیں کہ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا''کوئی بندہ ایسے کلمات کے ساتھ کلام کرتا ہے کہ وہ اسکے (گند اور خباثت) کو سمجھتا ہی نہیں مگر اللہ تعالیٰ کی ناراضی اس گفتگو پر ایسی ہوتی ہے کہ وہ انسان جہنم میں گرتا چلا جاتا ہے‘‘۔ (مسلم: 2988)۔
سورۂ ابراہیم کی اگلی آیت میں مولا کریم فرماتے ہیں ''وہ لوگ جو مومنین ہیں اللہ ان کو قولِ ثابت (لا الٰہ الّا اللہ محمد رسول اللہ) کی بنیاد پر دنیا اور آخرت میں خوب قائم رکھتا ہے جبکہ ظالم لوگوں کو اللہ ان کے (خبیث کردار و گفتار کی وجہ سے) گمراہ کر دیتا ہے۔ بات یہ ہے کہ اللہ (لوگوں کے کرداروں کو سامنے رکھ کر) جو چاہتا ہے( فیصلے) فرماتا ہے‘‘۔ (ابراہیم: 27) جی ہاں! دنیا میں خیر خواہی والی گفتار اور کردار ہو تو دنیا میں بھی عزت ہے‘ مرنے کے بعد بھی عزت ہے‘ آخرت میں بھی عزت ہے۔حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا: بندے کو جب اس کی قبر میں رکھ دیا جاتا ہے‘ اسے دفن کرنے والے واپس چل پڑتے ہیں تب وہ اپنے ساتھیوں کے جوتوں کی آواز کو سن رہا ہوتا ہے۔ ساتھ ہی اسکے پاس دو فرشتے آ جاتے ہیں۔ وہ اسے بٹھاتے ہیں اور پوچھتے ہیں: تم حضرت محمدﷺ کے بارے میں کیا کہا کرتے تھے؟ اگر وہ مومن ہے تو جواب میں کہتا ہے: میں گواہی دیا کرتا تھا کہ آپﷺ اللہ کے بندے اور اللہ کے رسول ہیں۔ اس پر فرشتے اُسے کہتے ہیں: جہنم میں اپنی جگہ دیکھو‘ اللہ تعالیٰ نے اسے بدل کر تمہیں جنت میں جگہ دے دی ہے؛ چنانچہ وہ بیک وقت دونوں مقامات کو دیکھتا ہے‘ اب اسکی قبر کو وسیع کر دیا جاتا ہے۔ منافق اور کافر سے بھی یہی سوال کیا جاتا ہے کہ حضرت محمدﷺ کے بارے میں تم کیا کہا کرتے تھے؟ وہ کہتا ہے: مجھے اس بارے میں کچھ معلوم نہیں‘ لوگ جو کہتے تھے میں بھی انہی کے پیچھے چل پڑتا تھا۔ فرشتے اس سے کہتے ہیں: نہ تُو نے حقیقت کو پہچانا اور نہ ہی جاننے کی کوشش کی۔ اب اسے لوہے کے ہتھوڑوں کیساتھ ضرب ماری جاتی ہے تو وہ اس طرح چیختا ہے کہ اس کی چیخ و پکار کو دو بھاری مخلوقات( جنات اور انسان) کے علاوہ ہر وہ مخلوق سنتی ہے جو اس کے گرد و نواح میں موجود ہوتی ہے۔ (صحیح بخاری: 1374) قارئین کرام! حقائق یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جب مسلمانوں کو طیبہ کی صورت میں ایک پاک وطن عطا فرما دیا تو مولا کریم نے اہلِ اسلام کو ایک نیا پاکیزہ دیس عطا فرمانے کا احسان بھی یاد کرایا اور تب مسلمانوں کی کسمپرسی کا کیا حال تھا‘ اللہ تعالیٰ نے اسکا نقشہ بھی کھینچا‘ منظر ملاحظہ ہو‘ فرمایا: مسلمانو! ذرا وہ وقت بھی یاد کرو جب تم لوگ (مکہ میں) اقلیت تھے‘ وہاں کی سرزمین پر کمزور بنا دیے گئے تھے‘ تم ڈرے رہتے تھے کہ لوگ تمہیں جھپٹا مار کر لے اڑیں گے‘ ایسی صورت میں اللہ تعالیٰ نے تم لوگوں کو (طیبہ کا وطن)ٹھکانا عطا فرمایا‘ اپنی مدد کے ساتھ تمہیں مضبوط کیا‘ پاکیزہ نعمتوں کے رزق سے نوازا تاکہ تم شکر ادا کرو‘‘(الانفال: 26)
اے اہلِ پاکستان! میرے دوست قاری عمر جٹھول مندرجہ بالا آیت کی تلاوت کرتے ہیں اور کہتے ہیں: بھارت میں ہمارا حال بھی یہی تھا‘ قرآن قیامت تک ہے‘ یہ آیت ہم اہلِ پاکستان کیلئے بھی ہے کہ ہم شکر کا تقاضا پورا کریں۔ بھارت میں آج رام مندر بنایا جا رہا ہے‘ مسلمان سہمے ہوئے ہیں‘ ہم جو اپنے دیس پاکستان میں آزاد ہیں‘ ناشکری کرتے تھکتے ہی نہیں۔ آیئے! شکر کریں اس عظیم رب کا جس نے پاکستان دیا اور دعائیں ان اسلاف کیلئے جنہوں نے انگریزوں اور ہندوئوں سے لڑ کر پاکستان بنایا۔ طیبہ کا معنی پاکستان ہے‘ پاکستان پاکیزہ درخت ہے۔ پاکستان زندہ باد!