الحمدللہ! امن و امان کے ساتھ انتخابات کے اشجار جڑیں پکڑ چکے۔ موسمِ بہار کا آغاز ہو چکا ہے۔ پھل‘ پھول درختوں کی ٹہنیوں پر لگنا شروع ہوچکے ہیں۔ پنجاب کے گلستان میں محترمہ مریم نواز دکھائی دیں تو سندھ کے چمنستان میں مراد علی شاہ دکھائی دیے۔ بلوچستان اور خیبر پختونخوا کی رونقیں بھی چند دنوں کے اندر دیکھنے کو ملیں گی۔ مرکز کی حکمرانی‘ پھر سینیٹ اور پھر ایوانِ صدر میں قد آور درخت دکھائی دینے کو ہیں۔ اس سب کے بعد حکمرانوں کے امتحان کے دن شروع ہو جائیں گے کہ 24کروڑ اہلِ وطن کے مونہوں میں گھی اور شکر کے نوالے ڈالنے کے لیے کیسے پروگرام بنائے جاتے ہیں؟ ہر گھر کو گل و گلزار بنانے کے لیے کیا جتن کیے جاتے ہیں؟ اس حقیقت سے عوام باخبر ہیں کہ ایسا فوراً نہیں ہوگا۔ دن تو لگیں گے مگر حق‘ سچ پر مبنی اعلانات اور اقدامات تو دکھائی دینا لازم ہیں۔ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کی پہلی خاتون وزیراعلیٰ کی اوّلین پالیسی تقریر عمل کے قالب میں ڈھلنا شروع ہو جائے تو خوشحالی کی ایک مثال قائم ہو جائے گی۔ ایسی مثال کے لیے ہم دعاگو ہیں۔ ہم امن قائم کرنے والے اپنے سکیورٹی اداروں کے لیے بھی دعاگو ہیں۔ انتخابات کا رزلٹ یہ نکلا ہے کہ پاکستان کے معاشی استحکام کے اشارے ملنا شروع ہو چکے ہیں‘ منظر واضح نظر آ رہا ہے کہ حکومت کی تشکیل کے دوران ہی پاک وطن سوئے استحکام رواں دواں ہو چکا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ''یہ دن آتے جاتے رہتے ہیں‘ ہم ان دنوں کو انسانوں کے درمیان باری باری بدلتے رہتے ہیں‘‘ (آلِ عمران: 140) 26 فروری 2024ء کا دن بھی ایک بدلا ہوا دن تھا۔ وزیراعلیٰ پنجاب حلف اٹھا چکی تھیں۔ تقریر کے لیے کھڑی ہوئیں تو ان کے سامنے ان کی والدہ محترمہ کلثوم نواز مرحومہ کی تصویر تھی۔ ان کے ساتھ ان کے والد گرامی میاں محمد نواز شریف کھڑے تھے۔ محترمہ کلثوم نواز جب شدید بیمار تھیں‘ ان دنوں ان کی بیماری کا کچھ لوگوں نے مذاق اڑایا تھا۔ وہ اسی بیماری میں اپنے اللہ کے پاس چلی گئیں۔ نواز شریف بیمار ہوئے تو ان کی بیماری کو بھی مذاق کی نذر کیا گیا۔ آج بدلے ہوئے دن میں‘ حلف کے موقع پر مریم نواز اپنے والد کو ساتھ لے کر آئیں اور والدہ مرحومہ کی تصویر ہمراہ لائیں۔ وہ سب کو ماں باپ کی عزت و تکریم کی تلقین کر رہی تھیں۔ لوگو! ہماری تہذیب کی اساس حضور کریمﷺ کی مبارک ذاتِ گرامی ہے کہ جن کا شدید ترین دشمن عبداللہ بن ابی بیمار ہوا تو حضورﷺ اس کی بیمار پرسی کرنے اس کے گھر تشریف لے گئے۔ بخاری اور مسلم میں حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریمﷺ نے فرمایا ''بڑے گناہوں میں سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے ماں باپ پر لعنت کرے۔ عرض کیا گیا: اے اللہ کے رسولﷺ! یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی شخص اپنے ماں باپ پر لعنت کرے۔ آپﷺ نے جواب میں فرمایا: جو شخص کسی کے باپ کو گالی دیتا ہے تو وہ اپنے باپ کو گالی دیتا ہے اور جو کسی کی ماں کو گالی دیتا ہے وہ دراصل اپنی ماں کو گالی دیتا ہے‘‘۔
جی ہاں! ہمیں اپنے آپ کو بدلنا ہوگا۔ تہذیب اور شائستگی کو اپنانا ہوگا۔ اس سے ہماری سیاست عزت و تکریم پکڑتی چلی جائے گی۔ سیاستدان باعزت ہوتے چلے جائیں گے۔ میں سمجھتا ہوں کہ مریم نواز نے تبدیلی کا سمبل ماں باپ کی عزت و تکریم کو عملی طور پر بنایا ہے۔ ہمیں ہر رشتے کی عزت و تکریم کا خیال کرنا چاہئے۔ مذکورہ تقریب میں شرکت کا دعوت نامہ مجھے بھی ملا مگر اس موقع پر میں لاہور سے کوئی 300 کلومیٹر دور تھا‘ شرکت ناممکن تھی۔ میاں نواز شریف‘ وزیراعلیٰ پنجاب اور چیف سیکرٹری کا شکریہ کہ انہوں نے یاد رکھا۔
مریم نواز جب گورنر ہاؤس کے ہال میں تقریر کر رہی تھیں تو اسی دوران لاہور کے اچھرہ بازار میں ایک واقعہ پیش آ گیا۔ ہوا کچھ یوں کہ ایک خاتون اپنے خاوند کے ہمراہ بازار میں چل رہی تھی تو کچھ لوگوں نے اس کا پیچھا شروع کر دیا۔ کچھ مزید لوگ بھی ان کے ساتھ مل گئے۔ خوفزدہ میاں بیوی ایک چھوٹے سے فوڈ پوائنٹ میں پناہ لینے کیلئے داخل ہو گئے۔ اس خاتون نے جو لباس پہنا ہوا تھا وہ خلیجی ممالک میں عرب عورتیں پہنتی ہیں۔ اس پر عربی زبان میں کچھ تحریر تھا جس کا مقدس عبارت سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ پیچھا کرنے والوں نے بغیر تحقیق اسے تحریر کو آیاتِ قرآنی سمجھ کر بلوہ کرنے کی کوشش یوں کی کہ ڈھائی‘ تین سو لوگ اکٹھے ہو گئے۔ یہ خاتون انتہائی خوفزدہ بیٹھی تھی کہ ایک شخص کہتا ہے: یہ بیٹھی ہے۔ دوسرا کہتا ہے: اسے کھڑا کرو۔ جی ہاں! اس جملے کا مطلب ہے کہ وہ شخص اس کو پکڑ کے کھڑا کر دے۔ اللہ کی پناہ! یہ ہیں دین کے نام نہاد نام لیوا۔کوئی کچھ کہہ رہا تھا اور کوئی کچھ۔ بھلا ہو اے ایس پی شہر بانو نقوی کا کہ وہ موقع پر پہنچیں اور مذکورہ مظلوم خاتون کو بچا کر لے گئیں۔ ان کی جرأت کو سلام! وزیراعلیٰ مریم نواز کو پتا چلا تو انہوں نے خاتون پولیس افسر کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے ''قائداعظم پولیس میڈل‘‘ دینے کا اعلان کر دیا۔ اس ضمن میں درخواست ہے کہ وہ تمام لوگ‘ جنہوں نے مندرجہ بالا ہراسمنٹ میں حصہ لیا‘ ان کو گرفتار کیا جائے۔ دکھ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ حقیقت واضح ہونے کے باوجود اس بے گناہ خاتون سے معافی منگوائی گئی کہ وہ آئندہ ایسا نہیں کرے گی حالانکہ معافی انہیں مانگنا چاہیے تھی جنہوں نے ایک بے گناہ مسلم خاتون کو خوفزدہ کیا۔ لوگوں کے ہجوم میں اس پر توہین آمیز جملے کس کر اسے ڈانٹا گیا‘ جان سے مارنے کی دھمکی دی گئی۔ ان سب لوگوں پر مقدمات چلنے ضروری ہیں۔ اس توہین آمیزی سے مذکورہ خاتون کی عزتِ نفس کو جس انداز سے ٹکڑے ٹکڑے کیا گیا‘ اس کا ہرجانہ مذکورہ لوگوں کی جائیدادوں سے پورا کرنا چاہئے۔ یاد رہے! ایسا ہوگا تو ہمارے ملک میں بلوے اور ہجوم کے کلچر کا خاتمہ ہوگا وگرنہ بے گناہ لوگ ہجوم اور بلووں کا نشانہ بنتے رہیں گے اور ہمارا ملک بدنام ہوتا رہے گا۔
پولیس کا محکمہ جہاں بہت سے لوگوں کی وجہ سے بدنام ہے‘ وہیں افسروں اور جوانوں میں دیانتداروں کی بھی کمی نہیں۔ ماضی میں ہجوم پر جب پولیس نے گولی چلائی تو اہلکاروں پر مقدمات قائم کیے گئے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پولیس اہلکار جنونیوں کے ہاتھوں شہید تک ہو گئے مگر انہوں نے گولی نہیں چلائی۔ وزیراعلیٰ پنجاب نظرثانی فرمائیں اور ایسے ہجوم کے چنگل سے جب ایک مظلوم کی جان کو خطرہ ہو تو ہوائی فائرنگ کی اجازت ہونی چاہئے۔ پولیس کے ہوائی فائرسے بھی جو لوگ منتشر نہ ہوں اور حملہ آور ہوں‘ خواہ وہ تھانے پر حملہ آور ہوں یا پولیس اہلکاروں پر‘ ان حملہ آوروں پر گولی چلانے کی اجازت ہونی چاہئے۔ اس کے ساتھ ساتھ لوگوں میں یہ شعور پیدا کرنا بھی انتہائی ضروری ہے کہ ملزم کے بارے میں خود سے فیصلے کرنا حکومتی اختیار کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے۔ اب بے گناہ خاتون سے جو معافی منگوائی گئی‘ اس کی وڈیو دنیا بھر میں چلائی گئی تو اس سے ملک کی بدنامی ہوئی کہ نہ یہاں اقلیت محفوظ ہے اور نہ ہی بازار میں چلتی اور خریداری کرتی عورت محفوظ ہے۔ اس سے ہمارا دین‘ جو سراسر سلامتی کا دین ہے‘ وہ بھی بدنام ہوتا ہے اور وہ ممتاز علما‘ جو انتہائی نرم مزاج اور حضور رحمتِ دو عالمﷺ کی پُررحمت سیرت کے خوشہ چین ہیں اور معاشرے کو روادار بنانے کی جدوجہد کرتے ہیں‘ وہ بھی بدنام ہوتے ہیں۔ میری رائے ہے کہ مذکورہ بلوے کے مرکزی کرداروں پر ملک کی بدنامی کا ہرجانہ بھی عائد کرنا چاہیے اور پھر اس کی تشہیر کی جائے کہ یہ سرغنہ کون تھے۔ یوں ہمارے معاشرے میں قانون ہاتھ میں لینے اور بلوہ کر کے لوگوں کی جان لینے والے باز آ جائیں گے۔ ایسے اقدامات کر کے ہمیں یقینی بنانا ہوگا کہ ہم سب کا پیارا وطن سوئے استحکام رواں دواں رہے۔