اللہ رحمان نے ہمارے پاک وطن کی ایک بیٹی کو عزت سے نوازا ہے۔ ان کا نام ڈاکٹر فوزیہ علوی ہے۔ وہ غزہ کے کھنڈرات میں چل رہی تھیں۔ کہتی ہیں: میں نے یہاں کستوری جیسی خوشبوئوں کو سونگھا‘ یہاں روحانیت اور سکینت کا عجب سماں ہے۔ دنیا بھر کے ادارے کہہ رہے تھے کہ ملبے کے نیچے ہزاروں لاشیں ہیں‘ اسرائیل نے ایسا بارود پھینکا ہے‘ ایسے بم گرائے گئے ہیں کہ لاشوں کی سڑاند ماحول کو بدبودار اور آلودہ کر دے گی۔ بھیڑ‘ بکریوں اور گائیوں سمیت پالتو جانور بھی مارے گئے؛ چنانچہ ان جانوروں کی آلودگی بھی ماحول کو متعفن بنائے گی‘ اس سے وبائیں اور بیماریاں پھیلیں گی۔ فلسطینی عوام بیماریوں اور بھوک سے مارے جائیں گے مگر ان دنیاوی حقائق کے باوجود غزہ کے بازاروں میں کستوری کی خوشبوئیں تھیں۔ مظلوم اور بے بس شہیدوں کے اجسام سے خوشبوئیں یہ سندیسہ اور پیغام دے رہی تھیں۔ دنیا والو! ان مظلوموں کی روحیں ایک ایسے جہاں میں ہیں کہ جو شہیدوں کا جہان ہے‘ وہاں شہدا اپنے ربِ کریم کی مہمان نوازی سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ ڈاکٹر فوزیہ علوی کینیڈا کی شہریت رکھنے والی پاکستانی خاتون ہیں۔ وہ اپنے بیٹے ولید علوی کے ہمراہ اہلِ غزہ کی خدمت کر رہی ہیں۔ فرماتی ہیں: میں نے شام کی بربادیوں میں بھی کام کیا۔ ترکی کے زلزلے میں بھی کام کیا۔ اپنے دیس پاکستان کی قدرتی آفات میں بھی کام کیا۔ دنیا کے کئی علاقوں میں کام کیا مگر جو تباہی غزہ کی انسانیت کے خلاف دیکھی وہ کہیں نہیں دیکھی۔ میں ایک عمارت میں گئی‘ جو رفح میں ہے۔ اس عمارت کے کمرے چھوٹے چھوٹے ہیں‘ ایک ایک کمرے میں 50‘ 50 لوگ ہیں۔ ان لوگوں کے ایمان نے ان کو زندہ رکھا ہوا ہے۔ قارئین کرام! ہم اہلِ پاکستان کیلئے یہ فخر کی بات ہے کہ انسانیت کی خادمہ ڈاکٹر فوزیہ علوی کو 2019ء میں نوبیل پرائزکیلئے بھی نامزد کیا گیا تھا۔ ڈاکٹر فوزیہ مزید فرماتی ہیں کہ ان کھنڈروں میں آٹھ ہزار خواتین دفن ہیں‘ ان کے ہزاروں بچے ہیں۔ اللہ کی قدرتوں کا شاہکار کہ بدبو کا نام و نشان نہیں‘ عطربیز فضائیں مشام جان ہیں۔ رفح سے چل کر اکا دُکا خاندان یہاں آ رہے ہیں‘ ملبے پر بیٹھ کر افطاری کر رہے ہیں‘ خواتین قران پڑھتی ہیں۔ ہر عورت کی زبان پر ''الحمدللہ‘‘ اور ''اللہ المستعان‘‘ کے الفاظ ہیں۔ میں نے غزہ اور رفح میں ایمان سیکھا تو فلسطینیوں سے سیکھا۔ رفح کے ہسپتال میں انستھیزیا یعنی بیہوش کیے بغیر ہاتھ‘ پائوں اور ٹانگیں کٹتی دیکھیں تو ان خواتین کو متواتر ''حسبنا اللہ ونعم الوکیل‘‘ پڑھتے دیکھا۔ مطلب یہ ہے کہ دنیا نے ہمیں چھوڑ دیا ہے تو کیا‘ ہمیں اللہ کافی ہے اور وہی ہمارا بخوبی کارساز ہے۔ ایک خاتون مجھے کہنے لگی: مسلمانوں نے ہمیں چھوڑ دیا ہے۔ میں نے دلاسا دیتے ہوئے کہا: پاکستان نے نہیں چھوڑا‘ میں پاکستانی ہوں۔ ایک خاتون سے ملی‘ اس کا نام ریحام تھا‘ اس کے گھر پر بم گرا تھا۔ اس سے اس کی ایک آنکھ فوری شہید ہو گئی۔ پھر بازو کاٹنا پڑا‘ پھر دونوں ٹانگیں بھی کٹ گئیں۔ اس کے سب بچے شہید ہو گئے۔ میں ساکت و جامد کھڑی تھی کہ اس دکھوں کی ماری سے کیا کہوں؟ وہ حوصلہ مند خود ہی بول پڑی: الحمدللہ! یعنی میں اپنی اس حالت پر اللہ تعالیٰ کی شکر گزار ہوں۔ اسی لیے کہتی ہوں کہ میں نے ایمان کا سبق سیکھا تو ان لوگوں سے سیکھا۔
اسرائیل میں انتہاپسند یہودیوں کا ایک فرقہ ''ہاردی (حریدی) یہودی‘‘ ہے۔ انہیں الٹرا آرتھوڈکس کہا جاتا ہے۔ یہ نہایت سخت گیررویہ رکھتے ہیں۔ یہ اپنی آبادیوں میں مدارس بناتے ہیں جن کو حکومتی فنڈنگ ملتی ہے۔ یہودی آبادی میں ان کا تناسب 13 فیصد ہے۔ فلسطینیوں کی جگہوں پر قبضے یہ کرتے ہیں۔ ان کا ایک اہم مدرسہ ''شیرت موشے‘‘ ہے اس کے مہتمم ربی البائی ہومالی ہیں۔ وہ فتویٰ دیتے ہوئے کہتے ہیں ''فلسطینیوں کے ہر مرد‘ عورت اور بچے کو قتل کرنا جائز ہے‘‘۔ اسرائیل کے اخبار ''ہرٹز‘‘ نے اس بیان کو تفصیل سے شائع کیا ہے۔ ایک چھوٹا سا اقتباس ملاحظہ ہو:
In reality, it's the women who create these terrorists. The terrorists of today are the children of the past.
ترجمہ: حقیقت یہ ہے کہ یہ عورتیں ہیں جو ان دہشت گردوں کو جنم دیتی ہیں‘ آ ج کے جو دہشت گرد ہیں‘ ماضی میں یہ بچے تھے۔
جی ہاں! ان مدارس کے لوگ سیدھے اسرائیلی فوج میں بھرتی ہوتے ہیں اور یہ فوجی کیا کرتے ہیں‘ اس کی بے شمار مثالوں میں سے ایک یہ ہے کہ ایک فلسطینی بچہ‘ جس کے سنہرے بال اور سرخ و سفید رنگت ہے‘ عمر کوئی سات سال ہے۔ وہ پائوں سے ننگا ہے‘ بھوکا پیاسا ہے۔ وہ صحافی کو بتاتا ہے کہ اسرائیلی فوجی اس کے گھر میں داخل ہوئے‘ پہلے اس کے باپ کو گولی ماری‘ پھر اس کی حاملہ ماں کے پیٹ میں گولیاں ماریں۔ خوفزدہ بچہ گھر میں ایک جگہ چھپا بیٹھا تھا اور بچ گیا۔ ایک ماں رو رہی تھی کہ دس سال بعد اللہ تعالیٰ نے اسے دو جڑواں بیٹے عطا کیے مگر اس کے دونوں بچوں اور ان کے باپ کو اسرائیلی فوجیوں نے قتل کر دیا۔
دوسری عالمی جنگ میں ہٹلر نے یہودیوں کی نسل کشی اور ان کا قتل عام کیا۔ ہٹلر کو شکست ہوئی تو یہودی دنیا بھر میں مظلوم بن کر سامنے آئے۔ جرمنی کی مسیحی دنیا نے ان پر ظلم کیا تھا۔ تاریخ کا عجب المیہ ہے کہ ان مظلوموں کو یورپ میں آباد کرنے کے بجائے فلسطین میں آباد کرکے ان کی ناجائز ریاست بنا دی گئی۔ آج یہ ہٹلر سے کہیں بڑھ کر ظالم بن چکے ہیں۔ موجودہ ظلم کے چرچے اب ساری دنیا میں ہو رہے ہیں اور متواتر نئی نئی ظالمانہ داستانیں سامنے آ رہی ہیں۔ امریکہ کی فلمی دنیا نے یہودیوں کی مظلومیت پر کئی فلمیں بنائیں‘ ان کے اداکاروں اور اداکارائوں کو ''آسکر‘‘ دیے گئے۔ ان فلموں نے یہودی مظلومیت کو امریکہ‘ یورپ اور دنیا بھر کے بہت سارے لوگوں کے دلوں میں ڈال کر ان کیلئے ہمدردی پیدا کی۔ تاریخ کے دن بدل رہے ہیں۔ یہی ہالی وڈ انڈسٹری اب فلسطینی مظلوموں کے ساتھ کھڑے ہونے جا رہی ہے۔ تقریب کا انعقاد امریکہ کے شہر لاس اینجلس میں ہوا۔ باہر امریکی شہری بڑی تعداد میں مظاہرے کیلئے جمع تھے۔ انہوں نے اپنے سروں پر فلسطینی رومال باندھ رکھے تھے‘ ہاتھوں میں فلسطینی جھنڈے تھے۔ جوناتھن گلیزر (Jonathan Glazer)کو سب سے بڑا ایوارڈ‘ آسکر دیا گیا۔ انہوں نے جو تقریر کی اس میں اسرائیل کے ظلم کو غیر انسانی قرار دیا۔ انہوں نے کہا: ہولو کاست ظلم تھا تو غزہ پہ قبضہ اور تشدد بھی ظلم ہے‘ ہم کس طرح اس کو روکیں؟ہالی وڈ کے کئی سٹارز ظلم کا سمبل یعنی سرخ فیتہ سینے پر سجائے یہاں آئے۔ پانچ منٹ کی گفتگو کا اختتام ایک مظلوم بچی کے تذکرے پر ہوا۔ اس تقریب کو دنیا بھر میں دیکھا گیا۔ موجودہ رمضان اور مارچ کے مہینے کا یہ تازہ ترین ایونٹ ہے جو فلسطینی مظلومیت کیلئے بہار کا ایک جھونکا ہے اور اسرائیلی ظلم کیلئے دنیا میں خزاں کا آغاز ہے۔
ڈاکٹر فوزیہ علوی نے پاکستانی حکومت سے درخواست کی ہے کہ وہ اہلِ غزہ کی مدد کیلئے آگے بڑھے۔ الحمدللہ پاکستان میں حکومت سازی کا عمل مکمل ہو چکا اب ہمیں استحکام کی طرف بڑھنا ہے۔ سیاسی ومعاشی استحکام لازم و ملزوم ہیں۔ صدرِ پاکستان آصف زرداری کی لخت جگر آصفہ زرداری بھٹو خاتونِ اول بن چکیں‘ میاں نواز شریف کی لخت جگر مریم نواز پنجاب کی وزیراعلیٰ بن چکیں۔ انسانی ہمدردی اور خدمت کے حوالے سے دونوں کے جذبات واضح ہیں۔ ڈاکٹر فوزیہ جو تعاون چاہتی ہیں‘ میری تجویز ہے کہ ان کو مل کر غزہ کی عورتوں اور بچوں کی بہبود کیلئے عالمی سطح کا کردار ادا کرنا چاہئے۔ میں سمجھتا ہوں یہ رفاقت سیاسی استحکام میں بھی معاون ہو گی۔ پاکستانی عورتوں اور بچوں کی صحت اور بہبود کیلئے بھی اس رفاقت کے سائے تلے بہترین منصوبے بنائے جا سکتے ہیں۔ اقوام متحدہ اور عالمی اداروں سے بھی تعاون لیا جا سکتا ہے۔ اس سے پاکستان کا نام مزید بلند ہو گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔